انٹرنیٹ خطرے میں
دنیا کے بڑے بڑے سیاست دان، صدور یا پھر ٹاپ 100 امیر ترین لوگ جو 80 فیصد اکانومی چلاتے ہیں
فلم اسپائیڈر مین (SPIDERMAN) میں ہیرو کا چاچا اس سے کہتا ہے کہ ''طاقت کے ساتھ بہت بڑی ذمے داری بھی آتی ہے، اپنی طاقت کا صحیح استعمال کرو''۔ یہ بات بالکل صحیح ہے، کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس وہ طاقت ہوتی ہے جس سے وہ ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کا فیصلہ کچھ سیکنڈوں میں کرسکتے ہیں اور انھیں اس طاقت کو صحیح طرح استعمال کرنا چاہیے۔
دنیا کے بڑے بڑے سیاست دان، صدور یا پھر ٹاپ 100 امیر ترین لوگ جو 80 فیصد اکانومی چلاتے ہیں یا پھر وہ کمپنیاں جن کی پروڈکٹ کی لت میں ہم مبتلا ہیں جیسے فیس بک۔
دنیا کی آبادی اس وقت لگ بھگ سات بلین ہے، جس میں سے 1.4 بلین چائنا میں ہے، فیس بک 2008 سے چائنا میں بند ہے، اس کے باوجود فیس بک پر 1.6 بلین ایکٹیو یوزرز ہیں جب کہ دنیا میں اس وقت ہر تین میں سے ایک آدمی یہ سہولت استعمال نہیں کرپاتا، لیکن پھر بھی فیس بک کی پاپولیشن بڑھتی ہی جارہی ہے، جو اس کو دنیا کی سب سے طاقتور کمپنی بناتا ہے۔
فیس بک کے پاس اس سے کہیں زیادہ طاقت ہے جسے اسپائیڈر مین کے انکل نے سنبھال کر استعمال کرنے کو کہا تھا اور آج فیس بک اپنی اس طاقت کو استعمال کرنے جا رہا ہے جو کئی ٹیکنالوجی ایکسپرٹس کے حساب سے پاور کا غلط استعمال ہے۔
دنیا میں تین میں سے دو لوگ ایسے ہیں جن کے علاقے میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے اور فیس بک انٹرنیٹ کو ان ہی لوگوں کے لیے مفت کرنے والا ''انٹرنیٹ ڈاٹ او آر جی'' ایک ایسی ویب سائٹ ہے جو فیس بک نے بنائی ہے اور اس کو آپ بغیر کسی بھی انٹرنیٹ کنکشن کے کمپیوٹر یا موبائل فون سے کھول سکتے ہیں۔
انٹرنیٹ ڈاٹ آرگ پر جانے کے بعد آپ کو مزید ویب سائٹ ملتی ہیں جنھیں آپ مفت استعمال کرسکتے ہیں جس میں فیس بک بھی شامل ہے، بیشتر انٹرنیٹ ایکسپرٹس اس بات سے خوش نہیں ہیں، انھیں لگتا ہے کہ یہ قدم فیس بک کو پرائیویٹائز کرنے کا ہے جس سے وہ مستقبل میں ہر چیز کو خود کنٹرول کریںگے۔
انڈیا سے لے کر امریکا تک انٹرنیٹ ڈاٹ آرگ کے خلاف آرٹیکلز لکھے گئے ہیں یہاں تک کہ اگر آپ انٹرنیٹ پر سرچ کریں تو بیشتر کالمز اس اقدام کے خلاف نظر آتے ہیں۔ لوگوں کے خیال کے مطابق پہلے تو فیس بکس مفت انٹرنیٹ کی عادت ڈالے گا اور اس کے بعد لوگوں کو وہ ویب سائٹس دکھائے گا جو وہ پروموٹ کرنا چاہتے ہیں اس کے علاوہ جو بھی اشتہارات انٹرنیٹ پر ہوںگے انھیں وہ خود کنٹرول کریںگے۔
یہ کچھ ایسا ہی ہے جیسا 1995 میں مائیکرو سافٹ نے براؤزر انٹرنیٹ Explorer ونڈو 95 کے ساتھ مفت شامل کردیا تھا جب کہ باقی براؤزر مارکیٹ میں فری نہیں تھے، مائیکرو سافٹ پر لاء سوٹ بھی ہوا۔ انھیں ہر دن کا ایک ملین ڈالر بطور پینالٹی بھی بھرنا پڑی، کئی مہینے تک، لیکن اس کے بعد براؤزر کی زیادہ تر کمپنیاں بند ہوگئیں اور براؤزر ہمیشہ کے لیے مفت ہوگئے۔
اس وقت انٹرنیٹ پر تین ٹریلین ڈالرز سالانہ سے زیادہ کا بزنس ہوتا ہے اور لوگوں کو ڈر ہے کہ فیس بک اپنے فری انٹرنیٹ کے ذریعے یہ تمام بزنس ہڑپ کر لے گا، ایکسپرٹس نے انٹرنیٹ ڈاٹ آرگ کو کنٹرولڈ انٹرنیٹ کا نام دے کر برا بھلا کہنا شروع کردیا ہے جس سے عام لوگوں کو لگتا ہے کہ کچھ سال میں انٹرنیٹ صرف مفت ہی میں استعمال ہوپائے گا جس کو پوری طرح کچھ کمپنیاں کنٹرول کریںگی یعنی آپ کب کتنا اور کیا انٹرنیٹ پر دیکھ پائیں اس کا فیصلہ کوئی اور کرے گا۔
انڈیا میں ایڈ کمپین سے لے کر کالم اور یہاں تک کہ فیس بک پر لوگوں نے پرائیویٹ ویڈیوز تک بنائی ہیں، انٹرنیٹ ڈاٹ آرگ کے خلاف ''ہم سے ہمارا انٹرنیٹ مت چھینو'' جیسے میسج آج عام ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو دیکھا دیکھی اور سنی سنائی پر یقین کررہے ہیں۔ جب کہ اس فری انٹرنیٹ کا سچ کچھ اور ہے۔
ایک ضروری بات یہ ہے کہ 40 فیصد لوگ انٹرنیٹ اپنے موبائل کے ذریعے استعمال کررہے ہیں، جن پر انٹرنیٹ موبائل فون کمپنی مہیا کرتی ہے جو کسی بھی حال میں فری نہیں۔ انٹرنیٹ ڈاٹ آرگ صرف ان جگہوں کے لیے ہے جہاں سرے سے انٹرنیٹ ہے ہی نہیں، جس میں پاکستان جیسے ملک کے بھی کئی علاقے ہیں، یہ ان ملکوں کے لیے نہیں ہے جہاں پہلے سے انٹرنیٹ ہر جگہ دستیاب ہے جیسے امریکا، انگلینڈ وغیرہ۔
آپ اگر ایسے علاقے میں ہیں جہاں سرے سے انٹرنیٹ ہے ہی نہیں یا پھر وہاں کے لوگ اسے افورڈ نہیں کرسکتے تو اس صورت میں آپ کے لیے یہ سروس بہترین ہے لیکن آپ کو انٹرنیٹ اگر آسانی سے دستیاب ہے تو یہ سروس آپ کے لیے نہیں ہے۔
فیس بک اگر صرف اپنے لیے سوچ رہا ہوتا تو امریکا میں آسانی سے اپنی سروس مفت کردیتا لیکن انھوں نے ایسی مارکیٹ میں یہ سروس متعارف کرانے کا سوچا جہاں ایڈورٹائزنگ میں کوئی خاص فائدہ نہیں اور نہ ہی صرف اپنی سروس فری کی بلکہ اور بھی کئی ویب سائٹس کو مفت کردیا جو انٹرنیٹ سے کٹے ہوئے لوگوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہیں۔
پاکستانی ہونے کی وجہ سے ہم کو اس سروس کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے، پاکستان میں اس وقت بے روزگاری کا تناسب 15% فیصد سے زیادہ ہے اور آفیشل نمبرز کے حساب سے تعلیم کا تناسب 46% ہے جس میں سے لڑکیوں کی خواندگی کی شرح محض 26% ہے، ساتھ ہی پاکستان میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں لڑکیوں کا گھر سے باہر نکلنا یا تعلیم حاصل کرنا بالکل منع ہے، ایسے میں فیس بک جب پاکستان میں تعلیم سے متعلق ویب سائٹس کو مفت کرتا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔
انٹرنیٹ ڈاٹ آرگ پر اس وقت پندرہ مفت ویب سائٹس ہیں جس میں ''مستقبل'' اور ''علم کی دنیا'' جیسی ویب سائٹس شامل ہیں۔ ''مستقبل'' جس پر کوئی بھی شخص ملازمت تلاش کرسکتا ہے اور دوسری سائٹ جوکہ تعلیم سے متعلق ہیں، ایسا نہیں ہے کہ اس قسم کی ویب سائٹس سے نوکری کا مسئلہ یا جہالت ختم ہوجائے گی لیکن یقیناً ایک بہتر ذریعہ پاکستان کے عوام کو ملے گا۔ جنھیں وہ بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں جن کے بارے میں مغرب میں رہنے والے سوچتے بھی نہیں۔
فیس بک کا یہ قدم اچھا ثابت ہوگا یا برا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن فی الحال پاکستانیوں کے لیے یہ فائدہ مند ہی نظر آرہاہے اس لیے عوام کو اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانا چاہیے۔