ایک چائے والا بنا بھارت کا مطلق العنان حکمراں
مودی جی آج کل امریکی صدر کی نقل کرتے ہوئے ہر ہفتے ریڈیو پر عوام سے مخاطب ہو رہے ہیں
FAISALABAD:
نریندر مودی نے بھارت کے پہلے باتونی وزیر اعظم کا اعزاز حاصل کرلیا ہے گوکہ اب انھیں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالے ایک سال کا عرصہ گزرچکا ہے مگر بقول مبصرین انھوں نے ڈینگیں مارنے اور سیر سپاٹوں کے سوا ملک کوکیا دیا؟ موصوف نے اپنے انتخابی جلسوں میں بے شمار وعدے کیے تھے مگر اب وہ انھیں یا تو رفتہ رفتہ بھولتے جا رہے ہیں یا پھر کچھ پر عوام سے معافی مانگتے جا رہے ہیں۔ ان کا پہلا دبنگ نعرہ تھا کہ بدعنوان بھارتیوں نے ملک سے باہر بینکوں میں اپنا جتنا دھن جمع کرا رکھا ہے وہ اسے پہلی فرصت میں بھارت واپس لے کر آئیں گے اور اسے تمام بھارتیوں میں برابر، برابر تقسیم کردیں گے۔ اب انھوں نے اس سلسلے میں عوام سے باقاعدہ معافی مانگ لی ہے۔
بقول مبصرین انھیں تو سیر سپاٹوں سے ہی فرصت نہیں۔ اس وقت صنعت کار بھی سخت مشکل میں ہیں بجلی کے بحران اور برآمدی آرڈرز کی کمی نے ان کی کمر توڑکر رکھ دی ہے۔
مودی جی نے کسانوں پر ایک اورکاری ضرب یہ لگائی ہے کہ کہ اب کسی بھی سرسبز و شاداب زرخیز زمین کو کوئی بھی اندرونی یا بیرونی صنعت کار اپنی صنعتوں کے لیے بے چوں و چرا حاصل کرسکتا ہے۔ اس بل پر کافی دنوں تک لوک سبھا میں بحث چلتی رہی تھی جس پر اپوزیشن نے پہلے تو بہت اعتراض کیا تھا مگر بعد میں مودی نے انھیں نہ جانے کیا سبز باغ دکھایا کہ وہ بھی بھارت کی ترقی اور غیر ملکی سرمائے کی کشش سے چکاچوند ہوگئے اور پھر بل پاس ہوگیا حالانکہ موجودہ دگرگوں معاشی حالات کی وجہ سے کوئی بھی بیرونی سرمایہ کار بھارت کی جانب متوجہ نہیں ہو رہا ہے۔
مودی جی آج کل امریکی صدر کی نقل کرتے ہوئے ہر ہفتے ریڈیو پر عوام سے مخاطب ہو رہے ہیں اور انھیں مستقبل کے بارے میں نویدیں سنا رہے ہیں ساتھ ہی اچھے اچھے شعر بھی سناتے ہیں، اس سے لوگوں میں ان کے بارے میں کوئی اچھا تاثر پیدا ہونے کے بجائے اکثر لوگ کہہ رہے ہیں بھارت کو ایک اچھے وزیر اعظم کی ضرورت ہے ساحر لدھیانوی کی نہیں۔ بھارت اگرچہ ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہونے کا دعویدار ہے مگر جب سے مودی جی دہلی کے تخت پر براجمان ہوئے ہیں بھارت نہ سیکولر رہا ہے اور نہ جمہوری بلکہ اس پر مکمل طور پر ہندوتوا کا قبضہ ہوچکا ہے۔ گائے بیل اور بچھڑے کے گوشت پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے مگر ابھی صرف مدھیہ پردیش، یوپی، جھاڑکھنڈ اور مہاراشٹرا کی اقلیتوں پر ہی یہ ظلم ڈھایا گیا ہے۔
اب وہ آر ایس ایس کے حکم پر اس کا دائرہ دیگر ریاستوں تک بڑھانا چاہتے ہیں مگر شاید ایسا نہ ہوسکے اس لیے کہ دیگر صوبوں میں آر ایس ایس سے نفرت کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ گوا اور منی پور کے وزرائے اعلیٰ تو صاف کہہ چکے ہیں کہ ان کے صوبوں میں گائے کے گوشت پر پابندی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی جب کہ تماشا یہ ہے کہ گوا میں بی جے پی کی اپنی حکومت قائم ہے۔ مودی جی کو آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر ناگپور کی یہ ہدایت بہت مہنگی پڑگئی ہے کہ وہ تمام اقلیتوں کو ہندو بنانے کے لیے مہم چلائیں اور اسے کامیاب بھی بنائیں۔
مودی جی نے اپنا عہدہ سنبھال کر سب سے پہلے یہی کام شروع کیا تھا مگر مسلمان، عیسائی، سکھ اور بدھ بہت سخت جان نکلے انھوں نے مودی جی کے گھر واپسی پروگرام کو ایسا ناکام بنایا کہ نہ صرف مودی جی کی تمام کوششیں اکارت گئیں بلکہ وہ عالمی سطح پر بدنام ہوگئے۔ جب یہ اسکیم فیل ہوگئی تو اقلیتوں پر اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے شروع کردیے گئے درجنوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا سیکڑوں مسلمان نوجوانوں کو پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ مودی نے ملک سے غربت دور کرنے، مہنگائی پر قابو پانے اور نوجوانوں کو نوکریاں دینے کے وعدے کیے تھے اب حال یہ ہے کہ ایک سال میں مہنگائی پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے۔
بھارتیوں کو مودی سے سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ وہ ایک مطلق العنان وزیر اعظم بن بیٹھے ہیں۔ انھوں نے سارے اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لیے ہیں ۔ ستر رکنی کابینہ کے سارے وزیروں کے کام وہ اکیلے ہی نمٹا رہے ہیں حتیٰ کہ وزیر خارجہ بھی بے بس نظر آرہی ہیں اب تک جتنے ممالک کے مودی جی نے دورے کیے ہیں وہاں کہیں وزیر خارجہ نمایاں نہیں رہی ہیں۔ دراصل انھوں نے اپنے تین وزیر دوستوں پر مشتمل ایک کچن کابینہ بنا رکھی ہے جو ملک کے سارے فیصلے کر رہی ہے وزیر خزانہ ارون جیٹلی، وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور بی جے پی کے متنازعہ صدر امت شاہ اس کچن کیبنٹ میں شامل ہیں۔ جہاں تک امت شاہ کا تعلق ہے ان پر کئی قتل کے الزامات ہیں ان ہی کی سرکردگی میں مودی جی نے 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کروایا تھا۔ انھیں عام بھارتی بھی پسند نہیں کرتے مگر وہ قاتل مودی کی آنکھوں کا تارا بنا ہوا ہے۔
مودی کی خارجہ پالیسی بھی بالکل ناکام ثابت ہوئی ہے کوئی بھی ہمسایہ ان سے خوش نہیں ہے سری لنکا اور نیپال پر ان کے ارادے خطرناک ہیں وہ انھیں بنگلہ دیش کی طرح اپنے اشاروں پر چلانا چاہتے ہیں مگر یہ ملک بھارت کو بڑا بھائی تک ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ اب رہی بات پاکستان کی تو وہ ان کا نمبر ایک دشمن ہے جسے ان کے پیش رو بھی پچھلی تین جنگوں میں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کرچکے ہیں مگر وہ اتنا سخت جان ہے کہ اب بھی قائم و دائم ہے بلکہ پورے کروفر کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ پاک بھارت مذاکرات جو کانگریسی حکومت کے زمانے سے چلے آرہے تھے مودی نے انھیں ختم کرادیا ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے جس کا حل ناگزیر ہے مگر مودی نے اس کا حل تلاش کرنے کے بجائے کشمیر کو بھارت کا ایک صوبہ بنانے کے لیے کوششیں تیز کردی تھیں مگر کشمیریوں نے ان کے ارادوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
اس وقت وہ پاک چائنا اقتصادی راہ داری کو ناکام بنانے کے لیے میدان میں اتر آئے ہیں اور نادانی سے اس ضمن میں اپنے دو چہیتے وزیروں سے یعنی وزیر دفاع منوہر پریکر اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے ذریعے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے دہشت گردانہ بیان دلا چکے ہیں اور اب وزیر خارجہ سشما سوراج سے بھی ایک مضحکہ خیز اور بلا جواز بیان دلوایا گیا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ بھارت کو قطعی قابل قبول نہیں۔ یہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہے۔ دو ملکوں کے مابین معاہدات میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی بھی ہے۔
اب چین اور پاکستان دونوں نے بھارت کے اس بلاجواز اعتراض کو رد کرکے خطے میں چوہدراہٹ قائم کرنے کے ان کے خواب کو چکنا چور کردیا ہے۔انھوں نے امریکی صدر براک اوباما کی بھارت آمد کے موقعے پر پورے دس لاکھ روپے کا جوڑا پہن کر بھارت کے غریب عوام کا دل کھول کر دل دکھایا تھا۔ مودی جی دیکھنے میں ایسے نہیں لگتے مگر اسے کیا کہیے کہ وہ شادی کے چند ماہ بعد ہی اپنی بیوی یشودابین کو چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے وہ بے چاری پوری زندگی ان کے ہی نام پر بیٹھی رہی اور انتہائی عسرت میں اب بڑھاپے کو پہنچ چکی ہے مگر مودی جی نے ایک دفعہ بھی مڑ کر اس کی طرف نہیں دیکھا کہ وہ کس حال میں ہے اور اب وزیر اعظم بننے کے بعد بھی انھیں اس کی کفالت کا خیال نہیں ہے۔
وہ اپنے محسن لال کرشن ایڈوانی کی آشیر باد سے ہی ایک چائے والے سے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر پہنچ گئے تھے مگر اب جب کہ ایڈوانی کے وزیر اعظم بننے کا نمبر تھا وہ ان کا نمبر کاٹ کر خود وزیر اعظم بن بیٹھے اور ساتھ ہی احسان فراموشی کی حد کردی کہ ایڈوانی کو اپنی حکومت میں ایک ادنیٰ سا بھی عہدہ دینا گوارا نہ کیا۔
مودی جی کو ابھی اپنی حکومت کے مزید چار سال پورے کرنا ہیں اور اگر ان کی یہی روش جاری رہی تو پھر شاید ان کی حکومت کہیں بیچ میں ہی نہ لڑھک جائے دراصل مبصرین کے نزدیک اس بات کا خطرہ اس لیے بھی موجود ہے کیونکہ جہاں الیکشن مہم کے دوران ان کی بول بچن سے بھرپور دل میں اترنے والی تقاریر، گجرات ماڈل کے فریب اور ساتھ ہی ان کی بچپن کی غربت و چائے فروشی نے پورے بھارت میں ان کی مقبولیت کو عروج پر پہنچا دیا تھا وہاں اب ان کی مطلق العنانی، شوبازی اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے ان کی مقبولیت تیزی سے نیچے آتی جا رہی ہے۔
نریندر مودی نے بھارت کے پہلے باتونی وزیر اعظم کا اعزاز حاصل کرلیا ہے گوکہ اب انھیں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالے ایک سال کا عرصہ گزرچکا ہے مگر بقول مبصرین انھوں نے ڈینگیں مارنے اور سیر سپاٹوں کے سوا ملک کوکیا دیا؟ موصوف نے اپنے انتخابی جلسوں میں بے شمار وعدے کیے تھے مگر اب وہ انھیں یا تو رفتہ رفتہ بھولتے جا رہے ہیں یا پھر کچھ پر عوام سے معافی مانگتے جا رہے ہیں۔ ان کا پہلا دبنگ نعرہ تھا کہ بدعنوان بھارتیوں نے ملک سے باہر بینکوں میں اپنا جتنا دھن جمع کرا رکھا ہے وہ اسے پہلی فرصت میں بھارت واپس لے کر آئیں گے اور اسے تمام بھارتیوں میں برابر، برابر تقسیم کردیں گے۔ اب انھوں نے اس سلسلے میں عوام سے باقاعدہ معافی مانگ لی ہے۔
بقول مبصرین انھیں تو سیر سپاٹوں سے ہی فرصت نہیں۔ اس وقت صنعت کار بھی سخت مشکل میں ہیں بجلی کے بحران اور برآمدی آرڈرز کی کمی نے ان کی کمر توڑکر رکھ دی ہے۔
مودی جی نے کسانوں پر ایک اورکاری ضرب یہ لگائی ہے کہ کہ اب کسی بھی سرسبز و شاداب زرخیز زمین کو کوئی بھی اندرونی یا بیرونی صنعت کار اپنی صنعتوں کے لیے بے چوں و چرا حاصل کرسکتا ہے۔ اس بل پر کافی دنوں تک لوک سبھا میں بحث چلتی رہی تھی جس پر اپوزیشن نے پہلے تو بہت اعتراض کیا تھا مگر بعد میں مودی نے انھیں نہ جانے کیا سبز باغ دکھایا کہ وہ بھی بھارت کی ترقی اور غیر ملکی سرمائے کی کشش سے چکاچوند ہوگئے اور پھر بل پاس ہوگیا حالانکہ موجودہ دگرگوں معاشی حالات کی وجہ سے کوئی بھی بیرونی سرمایہ کار بھارت کی جانب متوجہ نہیں ہو رہا ہے۔
مودی جی آج کل امریکی صدر کی نقل کرتے ہوئے ہر ہفتے ریڈیو پر عوام سے مخاطب ہو رہے ہیں اور انھیں مستقبل کے بارے میں نویدیں سنا رہے ہیں ساتھ ہی اچھے اچھے شعر بھی سناتے ہیں، اس سے لوگوں میں ان کے بارے میں کوئی اچھا تاثر پیدا ہونے کے بجائے اکثر لوگ کہہ رہے ہیں بھارت کو ایک اچھے وزیر اعظم کی ضرورت ہے ساحر لدھیانوی کی نہیں۔ بھارت اگرچہ ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہونے کا دعویدار ہے مگر جب سے مودی جی دہلی کے تخت پر براجمان ہوئے ہیں بھارت نہ سیکولر رہا ہے اور نہ جمہوری بلکہ اس پر مکمل طور پر ہندوتوا کا قبضہ ہوچکا ہے۔ گائے بیل اور بچھڑے کے گوشت پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے مگر ابھی صرف مدھیہ پردیش، یوپی، جھاڑکھنڈ اور مہاراشٹرا کی اقلیتوں پر ہی یہ ظلم ڈھایا گیا ہے۔
اب وہ آر ایس ایس کے حکم پر اس کا دائرہ دیگر ریاستوں تک بڑھانا چاہتے ہیں مگر شاید ایسا نہ ہوسکے اس لیے کہ دیگر صوبوں میں آر ایس ایس سے نفرت کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ گوا اور منی پور کے وزرائے اعلیٰ تو صاف کہہ چکے ہیں کہ ان کے صوبوں میں گائے کے گوشت پر پابندی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی جب کہ تماشا یہ ہے کہ گوا میں بی جے پی کی اپنی حکومت قائم ہے۔ مودی جی کو آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر ناگپور کی یہ ہدایت بہت مہنگی پڑگئی ہے کہ وہ تمام اقلیتوں کو ہندو بنانے کے لیے مہم چلائیں اور اسے کامیاب بھی بنائیں۔
مودی جی نے اپنا عہدہ سنبھال کر سب سے پہلے یہی کام شروع کیا تھا مگر مسلمان، عیسائی، سکھ اور بدھ بہت سخت جان نکلے انھوں نے مودی جی کے گھر واپسی پروگرام کو ایسا ناکام بنایا کہ نہ صرف مودی جی کی تمام کوششیں اکارت گئیں بلکہ وہ عالمی سطح پر بدنام ہوگئے۔ جب یہ اسکیم فیل ہوگئی تو اقلیتوں پر اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے شروع کردیے گئے درجنوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا سیکڑوں مسلمان نوجوانوں کو پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ مودی نے ملک سے غربت دور کرنے، مہنگائی پر قابو پانے اور نوجوانوں کو نوکریاں دینے کے وعدے کیے تھے اب حال یہ ہے کہ ایک سال میں مہنگائی پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے۔
بھارتیوں کو مودی سے سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ وہ ایک مطلق العنان وزیر اعظم بن بیٹھے ہیں۔ انھوں نے سارے اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لیے ہیں ۔ ستر رکنی کابینہ کے سارے وزیروں کے کام وہ اکیلے ہی نمٹا رہے ہیں حتیٰ کہ وزیر خارجہ بھی بے بس نظر آرہی ہیں اب تک جتنے ممالک کے مودی جی نے دورے کیے ہیں وہاں کہیں وزیر خارجہ نمایاں نہیں رہی ہیں۔ دراصل انھوں نے اپنے تین وزیر دوستوں پر مشتمل ایک کچن کابینہ بنا رکھی ہے جو ملک کے سارے فیصلے کر رہی ہے وزیر خزانہ ارون جیٹلی، وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور بی جے پی کے متنازعہ صدر امت شاہ اس کچن کیبنٹ میں شامل ہیں۔ جہاں تک امت شاہ کا تعلق ہے ان پر کئی قتل کے الزامات ہیں ان ہی کی سرکردگی میں مودی جی نے 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کروایا تھا۔ انھیں عام بھارتی بھی پسند نہیں کرتے مگر وہ قاتل مودی کی آنکھوں کا تارا بنا ہوا ہے۔
مودی کی خارجہ پالیسی بھی بالکل ناکام ثابت ہوئی ہے کوئی بھی ہمسایہ ان سے خوش نہیں ہے سری لنکا اور نیپال پر ان کے ارادے خطرناک ہیں وہ انھیں بنگلہ دیش کی طرح اپنے اشاروں پر چلانا چاہتے ہیں مگر یہ ملک بھارت کو بڑا بھائی تک ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ اب رہی بات پاکستان کی تو وہ ان کا نمبر ایک دشمن ہے جسے ان کے پیش رو بھی پچھلی تین جنگوں میں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کرچکے ہیں مگر وہ اتنا سخت جان ہے کہ اب بھی قائم و دائم ہے بلکہ پورے کروفر کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ پاک بھارت مذاکرات جو کانگریسی حکومت کے زمانے سے چلے آرہے تھے مودی نے انھیں ختم کرادیا ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے جس کا حل ناگزیر ہے مگر مودی نے اس کا حل تلاش کرنے کے بجائے کشمیر کو بھارت کا ایک صوبہ بنانے کے لیے کوششیں تیز کردی تھیں مگر کشمیریوں نے ان کے ارادوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
اس وقت وہ پاک چائنا اقتصادی راہ داری کو ناکام بنانے کے لیے میدان میں اتر آئے ہیں اور نادانی سے اس ضمن میں اپنے دو چہیتے وزیروں سے یعنی وزیر دفاع منوہر پریکر اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے ذریعے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے دہشت گردانہ بیان دلا چکے ہیں اور اب وزیر خارجہ سشما سوراج سے بھی ایک مضحکہ خیز اور بلا جواز بیان دلوایا گیا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ بھارت کو قطعی قابل قبول نہیں۔ یہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہے۔ دو ملکوں کے مابین معاہدات میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی بھی ہے۔
اب چین اور پاکستان دونوں نے بھارت کے اس بلاجواز اعتراض کو رد کرکے خطے میں چوہدراہٹ قائم کرنے کے ان کے خواب کو چکنا چور کردیا ہے۔انھوں نے امریکی صدر براک اوباما کی بھارت آمد کے موقعے پر پورے دس لاکھ روپے کا جوڑا پہن کر بھارت کے غریب عوام کا دل کھول کر دل دکھایا تھا۔ مودی جی دیکھنے میں ایسے نہیں لگتے مگر اسے کیا کہیے کہ وہ شادی کے چند ماہ بعد ہی اپنی بیوی یشودابین کو چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے وہ بے چاری پوری زندگی ان کے ہی نام پر بیٹھی رہی اور انتہائی عسرت میں اب بڑھاپے کو پہنچ چکی ہے مگر مودی جی نے ایک دفعہ بھی مڑ کر اس کی طرف نہیں دیکھا کہ وہ کس حال میں ہے اور اب وزیر اعظم بننے کے بعد بھی انھیں اس کی کفالت کا خیال نہیں ہے۔
وہ اپنے محسن لال کرشن ایڈوانی کی آشیر باد سے ہی ایک چائے والے سے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر پہنچ گئے تھے مگر اب جب کہ ایڈوانی کے وزیر اعظم بننے کا نمبر تھا وہ ان کا نمبر کاٹ کر خود وزیر اعظم بن بیٹھے اور ساتھ ہی احسان فراموشی کی حد کردی کہ ایڈوانی کو اپنی حکومت میں ایک ادنیٰ سا بھی عہدہ دینا گوارا نہ کیا۔
مودی جی کو ابھی اپنی حکومت کے مزید چار سال پورے کرنا ہیں اور اگر ان کی یہی روش جاری رہی تو پھر شاید ان کی حکومت کہیں بیچ میں ہی نہ لڑھک جائے دراصل مبصرین کے نزدیک اس بات کا خطرہ اس لیے بھی موجود ہے کیونکہ جہاں الیکشن مہم کے دوران ان کی بول بچن سے بھرپور دل میں اترنے والی تقاریر، گجرات ماڈل کے فریب اور ساتھ ہی ان کی بچپن کی غربت و چائے فروشی نے پورے بھارت میں ان کی مقبولیت کو عروج پر پہنچا دیا تھا وہاں اب ان کی مطلق العنانی، شوبازی اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے ان کی مقبولیت تیزی سے نیچے آتی جا رہی ہے۔