عوام دوست یا عوام دشمن
آخر حکومت بے روزگاری کے خاتمے کے لیے کام کیوں نہیں کرتی؟ حکومت کی اولین ترجیح روزگار کو عام کرنا ہونا چاہیے
نواز شریف کی حکومت نے اپنے اقتدار کا تیسرا بجٹ پیش کردیا ہے، اس بجٹ کو حکومت غریب دوست بجٹ کا نام دے رہی ہے۔ میرے خیال سے تو یہ بجٹ غریب دوست نہیں غریب دشمن بجٹ ضرور ہے۔ مانا کہ اس حکومت کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے مگر حکومتوں کا کام مشکلات کو فوری طور پر حل کرنا ہے نا کہ عوام کی مشکلات میں اضافہ کرے۔
اس سال کا بجٹ پچھلے سال کی نسبت اپنے ساتھ مہنگائی کا سیلاب لایا ہے، پچھلے سال کے بجٹ میں اور اس سال کے بجٹ تک ہر چیز مہنگی ہوچکی ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں صرف ساڑھے سات فیصد اضافہ کیا گیا ہے، کہاں سے یہ عوام دوست بجٹ ہے، تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کے برابر کیا گیا اور مہنگائی پہاڑ جیسی کھڑی کردی گئی ہے عوام پر۔
بجٹ آگیا مگر عوام کو کیا ملا؟ میں کوئی اپوزیشن پارٹی سے تعلق نہیں رکھتی ہوں ۔ میں ایک غریب عوام ہوں اور میرے نزدیک یہ بجٹ غریب عوام کا بالکل نہیں، کہیں سے بھی غریب کو مدنظر نہیں رکھا گیا ہے، اگر حکومت کے لیے ایک اچھا اور فائدے مند بجٹ جو واقعی غریب کے لیے ہوتا بنانا بہت زیادہ مشکل لگ رہا تھا تو مہنگائی میں اس قدر اضافہ بھی نہیں کیا جاتا، اگر حکمران 2014 کا بجٹ دیکھیں اور 2015 کا تو آسانی سے معلوم ہوجائے گا کہ حکومت نے اپنے اقتدار کے تیسرے سال مہنگائی کے تیر چلائے ہیں غریب عوام پر۔
یہ حکمران اقتدار میں آنے سے پہلے بہت بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں کہ ہم ملک سے مہنگائی ختم کردیں گے، بجلی سستی کردیں گے وغیرہ وغیرہ مگر جب یہی لوگ اقتدار میں آتے ہیں تو اپنی مشکلات کا رونا روتے ہیں حکومت کا کام مشکلات کو ختم کرنا ہے ناکہ مشکلات کی آڑ لے کر اپنے آپ کو دفاع کرے ۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق فروری کے مہینے میں کنزیومر پرائس انڈیکس میں اضافے کی شرح محض 3.24 فیصد رہی جو دس سال کی پست ترین سطح تھی جنوری 2015 میں یہ شرح 3.90 فیصد تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افراط زر کی کمی کی رفتار کتنی تیز ہے۔ معاشی اصطلاح میں اسے ڈیفلیشن یا تفریط زر کا رجحان کہا جاتا ہے اس کا مطلب قلت زر یا دولت کی گردش میں کمی کا واقع ہونا ہے۔ لوگوں کو اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی کی شکل میں کچھ مدت تک اس کا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے لیکن یہ کیفیت بالآخر سردبازاری پر منتج ہوتی ہے جس کی بنا پر سرمایہ کاری میں کمی ہوتی ہے اور پیداواری عمل رک جاتا ہے اور نئے روزگار کے مواقع جنم نہیں لیتے لہٰذا معاشی پالیسی سازوں کی فوری توجہ چاہتی ہے۔
ہمارے معاشی پالیسی سازوں کو سب چیزیں سامنے رکھتے ہوئے بجٹ بنانا چاہیے جس سے نئے روزگار سامنے آئیں، بے روزگاری کا مستقل بنیاد پر خاتمہ ہو، روزگار کے مواقعے حکومت فراہم کرے گی تو ملک میں خوشحالی آئے گی، نئے ملازمت کے مواقع فراہم کرنا حکومت پاکستان کی ذمے داری ہے، ہمارا نوجوان طبقہ گھروں میں بے روزگار بیٹھا ہوا ہے، جو ہمارے ملک کے مستقبل ہیں وہ ہی بے کار بیٹھے ہیں، بے روزگاری کی وجہ سے ملک میں دہشت گردی پیدا ہوتی ہے۔ چوری، ڈکیتی، لوٹ مار میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سال کا بجٹ کہیں سے بھی عام آدمی کے لیے بالکل نہیں ہے۔
آخر حکومت بے روزگاری کے خاتمے کے لیے کام کیوں نہیں کرتی؟ حکومت کی اولین ترجیح روزگار کو عام کرنا ہونا چاہیے۔ عام آدمی کے لیے وہی بجٹ اچھا ہوتا ہے جو اس کی مشکلات بڑھانے کے بجائے کم کرے اور اس کی زندگی آسان بنائے۔ کیا 2015 کے بجٹ نے عام آدمی کی مشکلات کو آسان کیا یہ سب ہی لوگ جانتے ہیں کہ 2015 کا بجٹ عوام دوست ہے کہ عوام دشمن ہے پہلے غریب ایک وقت کھا تو لیتا تھا اب اس بجٹ کے بعد ایک وقت کا کھانا بھی اس سے چھین لیا گیا ہے۔
کہیں ایسا نہ ہو جیسے پہلے ٹی وی پر روز نیوز چلتی تھی مہنگائی کی وجہ سے والدین نے خود زہر کھایا اور بچوں کو بھی کھلایا، اللہ نہ کرے کہ ہمیں دوبارہ ایسی نیوز ٹی وی پر نظر آئیں معاشی پالیسی سازوں کو پاکستان کے غریب طبقے کو بالکل نظرانداز نہیں کرنا چاہیے ایسی معاشی اصلاحات منظر عام پر آنی چاہئیں جن سے غریب عوام کو فائدہ ہو۔ مہنگائی نہ بڑھے، بے روزگاری ختم ہو ، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں، رشوت، سفارش، بے انصافی اور کرپشن کے کلچر سے اس کی جان چھوٹے اس کے بچوں کے لیے معیاری تعلیم کے حصول میں حائل رکاوٹیں دور ہوں اور انھیں اہلیت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے مواقعے کسی روک ٹوک کے بغیر مہیا ہوں۔ اگر حکومت کی معاشی حکمت عملی ان تقاضوں کی تکمیل کا اہتمام کرسکے تو عام آدمی کے لیے بجٹ یقیناً باعث راحت ہوگا عوام دوست ہوگا کیا اس سال کے بجٹ میں یہ تمام چیزیں شامل ہیں معاشی پالیسی سازوں نے ان تمام باتوں کو کیوں فراموش کردیا؟
یہ بجٹ ہے کہ بجٹ میں پوشیدہ کرپشن ہے جو بہت قانونی طریقے سے کیا جا رہا ہے، 200 ارب روپے سے زیادہ کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں موجودہ دور حکومت میں معیشت سمیت زندگی کے مختلف شعبوں میں بہتری کا عمل شروع ہونا تھوڑا مشکل نظر آرہا ہے۔ ساری چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ عوام پر ہی چھوڑ دیا جائے کہ 2015 کا بجٹ عوام دوست ہے کہ عوام دشمن۔