پیکرعزم۔۔۔ نیلوفر رحمانی
وہ شروع سے ہی آسمان کی بلندیوں سے محبت کرنے والی ثابت ہوئیں، اسی وجہ سے انہوں نے اس شعبے کو چنا
افغانستان کا ذکر آتے ہی ہمارے ذہن میں جنگ وجدل اور نہایت پس ماندہ سے ملک کا تصور آجاتا ہے۔
حالات نے اسے کچھ ایسے موڑ پر لاکھڑا کیا ہے، کہ کبھی بیرونی سازشیں تو کبھی اندرونی چپقلش اسے کسی نہ کسی طرح سکھ چین سے دور رکھے ہوئے رہتی ہے۔ ایسے میں وہاں کسی بھی فرد کا کوئی تعمیری اور انوکھا کام انجام دینا بلاشبہ کسی کارنامے سے کم نہ ہوگا۔ اگر یہ کارنامہ صنف نازک کی جانب سے انجام دیا جائے، تو یہ اور بھی قابل تحسین امر ہے۔
افغانستان کی سرزمین سے تعلق رکھنے والی نیلوفر رحمانی بھی ہیں، جو یہ بتاتی ہیں کہ طویل عرصے سے جاری خانہ جنگی، خوف اور ابتر حالات کے باوجود افغانستان میں بہتری کا کام کرنے والے بھی متحرک ہیں اور وہ خود اس کی تازہ مثال ہیں، جنہوں نے افغان فضائیہ کی تاریخ میں پہلی خاتون ہوا باز ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔
اس شعبے میں قدم رکھنے والی نیلوفر رحمانی ایک بہت حوصلہ مند خاتون ثابت ہوئیں۔ وہ افغان دارالحکومت کابل میں پیدا ہوئیں، جب فضائیہ کے لیے بھرتیوں اور اس کے ساتھ عملی تربیت کا علم ہوا، تو نیلوفر نے اس کے لیے کمر کس لی۔ تربیت حاصل کرنا شروع کی، تو اسے اہل خانہ سے پوشیدہ رکھا، کیوں کہ گھر میں خواتین کا باہر نکلنا کچھ اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ دو سال کے عرصے میں ماہر جہاز راں بن گئیں، اور کام یابی سے اس کا مظاہرہ کیا اور اپنے اساتذہ سے داد وصول کی۔
روایت پسند معاشروں میں اگر کوئی خاتون کسی نئے میدان میں کام یابی کے عَلم بلند کرے، تو اسے عموماً مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے۔ قدامت پرست حلقے اس پر شدید تنقید کرتے ہیں اور اسے اپنی روایات کے سخت خلاف گردانتے ہیں۔ اسی طرح دوسری طرف کام یاب خواتین کو بھی اپنے سماج میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے خاصی محنت کرنا پڑتی ہے۔ بعض اوقات وہ شاید اسی پر اکتفا کرتی ہیں اور روایت پسند معاشرے سے ہم آہنگ نہ ہونے کو ہی ترجیح دیتی ہیں، مگر نیلو فر نے اگرچے افغان معاشرے میں رہتے ہوئے خاصے آگے جاکر اپنا کام انجام دیا ہے، لیکن ان کے سر پر موجود اسکارف اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اپنی روایات کو پس پشت ڈالنا نہیں چاہتیں۔ ہر چند کہ انہیں اس کوشش میں خاصی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا، تاہم وہ اس کے لیے پرعزم معلوم ہوتی ہیں۔ اسی لیے اپنی خاکی وردی پر سیاہ اسکارف پہنتی ہیں اور کابل ائیر بیس میں سب سے ممتاز دکھائی دیتی ہیں، جہاں پہلے ہی کسی خاتون کی موجودگی خاصی حیران کن ہے۔
بچپن سے نیلوفر جب بھی فضاؤں میں کسی پرندے کو اڑتے دیکھتی تھیں، تو ان کے دل میں ہوائی جہاز اڑانے کا خیال پیدا ہوتا۔ وہ شروع سے ہی آسمان کی بلندیوں سے محبت کرنے والی ثابت ہوئیں، اسی وجہ سے انہوں نے اس شعبے کو چنا۔ قسمت نے ان کا ساتھ دیا اور بالآخر وہ اپنے مقصد میں کام یاب ہوگئیں۔ ایک انٹرویو میں نیلوفر نے بتایا کہ ان کے والدکو پائلٹ بننے کی بہت خواہش تھی، تاہم وہ یہ خواب پورا نہ کر پائے، اسی لیے میں نے یہ تربیت حاصل کی۔''
نیلوفر اس تربیت کے تجرے کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا، اس کے لیے مجھے سخت محنت کرنی پڑی، مگر پائلٹ بن کر میں اپنے ملک کی خواتین کے لیے ایک مثال قائم کرنا چاہتی تھی۔ میرا مقصد ان کا حوصلہ بڑھانا تھا کہ ہم صنف نازک ہو کر بھی سب کچھ کر سکتے ہیں۔
نیٹو کے ساتھ دو سالہ تربیت حاصل کرنے والی نیلوفر رحمانی اس وقت خوشی سے نہال ہو گئیں، جب اپریل 2015ء ا میںمریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے انہیں دنیا کی دیگر نو خواتین کے ساتھ خواتین کی حوصلہ افزائی کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق ''افغان ایئر فورس کی سیکنڈ لیفٹنٹ نیلوفر رحمانی اپنے ملک کی وہ پہلی عورت ہیں، جنہوں نے برے حالات کے باوجود نہ صرف اپنا تربیتی پروگرام کام یابی سے مکمل کیا، بلکہ وہ افغانستان کی پہلی خاتون ہوا باز کا عہدہ حاصل کر کے تاریخ میں اپنا نام رقم کر گئیں۔''
جب انہوں ہرات صوبے میں پہلی بار ہوابازی کا مظاہرہ کیا تو بہت سے لوگوں نے انہیں غیر ملکی خیال کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ نیلو فر ان سے مقامی زبان میں بات نہیں کر سکیں گی، لیکن جب میں نے ان سے ان کی زبان میں بات کی تو وہ یقین نہیں کر رہے تھے کہ ایک افغان لڑکی بھی اتنی باصلاحیت ہو سکتی ہے۔
اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کو پورا کرنے والی نیلوفر کے مطابق ، بچپن کے خواب کی تکمیل کے بعد وہ مکمل طور پر خوش بھی نہیں ہو پائی تھیں کہ انہیں شدت پسندوں کی جانب سے دھمکیاں موصول ہونے لگیں۔ وہ ان کے گھر والوں کو بھی سنگین انجام کی دھونس دیتے، لیکن وہ ڈٹی رہیں۔
اسی خوف کی وجہ سے انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ رکھنا شروع کر دیا۔ نیلوفر احتیاطی تدابیر کے طور پر اپنے ائیر بیس سے باہر وردی میں نظر نہیں آتیں۔ وہ بازاروں میں جا کر عام شہریوں کی طرح خریداری کرنے سے بھی گریز کرتی ہیں، اس طرح اپنے پیشے کو اپنانے کے بدلے میں انہیں اپنی عام زندگی کے معمولات کی قربانی دینا پڑی۔
بات نیلوفر کی ہمت کی ہے، تو یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ انہوں نے ایک جھڑپ میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی لاشیں بھی بدخشاں صوبے سے کابل منتقل کیں، جس نے ان کے اعلیٰ افسران کو بھی حیران کر دیا اور وہ ان کی بہادری کی داد دینے پر مجبور ہو گئے۔
نیلو فر رحمانی نے افغانستان میں عزم وحوصلے کی ایک بڑی مثال قائم کی ہے۔ دنیا کے انتہائی نامساعد حالات سے دوچار معاشرے میں انہوںنے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں، خواتین بھی اپنے اردگرد کے کٹھن ماحول سے نبرد آزما ہونے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ نیلو فر رحمانی کا خواب ہے کہ ان کے ملک میں خواتین قائدانہ کردار ادا کریں۔۔۔ خود پر بھروسا کریں اور خود کو کمزور نہ جانیں۔
حالات نے اسے کچھ ایسے موڑ پر لاکھڑا کیا ہے، کہ کبھی بیرونی سازشیں تو کبھی اندرونی چپقلش اسے کسی نہ کسی طرح سکھ چین سے دور رکھے ہوئے رہتی ہے۔ ایسے میں وہاں کسی بھی فرد کا کوئی تعمیری اور انوکھا کام انجام دینا بلاشبہ کسی کارنامے سے کم نہ ہوگا۔ اگر یہ کارنامہ صنف نازک کی جانب سے انجام دیا جائے، تو یہ اور بھی قابل تحسین امر ہے۔
افغانستان کی سرزمین سے تعلق رکھنے والی نیلوفر رحمانی بھی ہیں، جو یہ بتاتی ہیں کہ طویل عرصے سے جاری خانہ جنگی، خوف اور ابتر حالات کے باوجود افغانستان میں بہتری کا کام کرنے والے بھی متحرک ہیں اور وہ خود اس کی تازہ مثال ہیں، جنہوں نے افغان فضائیہ کی تاریخ میں پہلی خاتون ہوا باز ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔
اس شعبے میں قدم رکھنے والی نیلوفر رحمانی ایک بہت حوصلہ مند خاتون ثابت ہوئیں۔ وہ افغان دارالحکومت کابل میں پیدا ہوئیں، جب فضائیہ کے لیے بھرتیوں اور اس کے ساتھ عملی تربیت کا علم ہوا، تو نیلوفر نے اس کے لیے کمر کس لی۔ تربیت حاصل کرنا شروع کی، تو اسے اہل خانہ سے پوشیدہ رکھا، کیوں کہ گھر میں خواتین کا باہر نکلنا کچھ اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ دو سال کے عرصے میں ماہر جہاز راں بن گئیں، اور کام یابی سے اس کا مظاہرہ کیا اور اپنے اساتذہ سے داد وصول کی۔
روایت پسند معاشروں میں اگر کوئی خاتون کسی نئے میدان میں کام یابی کے عَلم بلند کرے، تو اسے عموماً مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے۔ قدامت پرست حلقے اس پر شدید تنقید کرتے ہیں اور اسے اپنی روایات کے سخت خلاف گردانتے ہیں۔ اسی طرح دوسری طرف کام یاب خواتین کو بھی اپنے سماج میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے خاصی محنت کرنا پڑتی ہے۔ بعض اوقات وہ شاید اسی پر اکتفا کرتی ہیں اور روایت پسند معاشرے سے ہم آہنگ نہ ہونے کو ہی ترجیح دیتی ہیں، مگر نیلو فر نے اگرچے افغان معاشرے میں رہتے ہوئے خاصے آگے جاکر اپنا کام انجام دیا ہے، لیکن ان کے سر پر موجود اسکارف اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اپنی روایات کو پس پشت ڈالنا نہیں چاہتیں۔ ہر چند کہ انہیں اس کوشش میں خاصی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا، تاہم وہ اس کے لیے پرعزم معلوم ہوتی ہیں۔ اسی لیے اپنی خاکی وردی پر سیاہ اسکارف پہنتی ہیں اور کابل ائیر بیس میں سب سے ممتاز دکھائی دیتی ہیں، جہاں پہلے ہی کسی خاتون کی موجودگی خاصی حیران کن ہے۔
بچپن سے نیلوفر جب بھی فضاؤں میں کسی پرندے کو اڑتے دیکھتی تھیں، تو ان کے دل میں ہوائی جہاز اڑانے کا خیال پیدا ہوتا۔ وہ شروع سے ہی آسمان کی بلندیوں سے محبت کرنے والی ثابت ہوئیں، اسی وجہ سے انہوں نے اس شعبے کو چنا۔ قسمت نے ان کا ساتھ دیا اور بالآخر وہ اپنے مقصد میں کام یاب ہوگئیں۔ ایک انٹرویو میں نیلوفر نے بتایا کہ ان کے والدکو پائلٹ بننے کی بہت خواہش تھی، تاہم وہ یہ خواب پورا نہ کر پائے، اسی لیے میں نے یہ تربیت حاصل کی۔''
نیلوفر اس تربیت کے تجرے کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا، اس کے لیے مجھے سخت محنت کرنی پڑی، مگر پائلٹ بن کر میں اپنے ملک کی خواتین کے لیے ایک مثال قائم کرنا چاہتی تھی۔ میرا مقصد ان کا حوصلہ بڑھانا تھا کہ ہم صنف نازک ہو کر بھی سب کچھ کر سکتے ہیں۔
نیٹو کے ساتھ دو سالہ تربیت حاصل کرنے والی نیلوفر رحمانی اس وقت خوشی سے نہال ہو گئیں، جب اپریل 2015ء ا میںمریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے انہیں دنیا کی دیگر نو خواتین کے ساتھ خواتین کی حوصلہ افزائی کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق ''افغان ایئر فورس کی سیکنڈ لیفٹنٹ نیلوفر رحمانی اپنے ملک کی وہ پہلی عورت ہیں، جنہوں نے برے حالات کے باوجود نہ صرف اپنا تربیتی پروگرام کام یابی سے مکمل کیا، بلکہ وہ افغانستان کی پہلی خاتون ہوا باز کا عہدہ حاصل کر کے تاریخ میں اپنا نام رقم کر گئیں۔''
جب انہوں ہرات صوبے میں پہلی بار ہوابازی کا مظاہرہ کیا تو بہت سے لوگوں نے انہیں غیر ملکی خیال کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ نیلو فر ان سے مقامی زبان میں بات نہیں کر سکیں گی، لیکن جب میں نے ان سے ان کی زبان میں بات کی تو وہ یقین نہیں کر رہے تھے کہ ایک افغان لڑکی بھی اتنی باصلاحیت ہو سکتی ہے۔
اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کو پورا کرنے والی نیلوفر کے مطابق ، بچپن کے خواب کی تکمیل کے بعد وہ مکمل طور پر خوش بھی نہیں ہو پائی تھیں کہ انہیں شدت پسندوں کی جانب سے دھمکیاں موصول ہونے لگیں۔ وہ ان کے گھر والوں کو بھی سنگین انجام کی دھونس دیتے، لیکن وہ ڈٹی رہیں۔
اسی خوف کی وجہ سے انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ رکھنا شروع کر دیا۔ نیلوفر احتیاطی تدابیر کے طور پر اپنے ائیر بیس سے باہر وردی میں نظر نہیں آتیں۔ وہ بازاروں میں جا کر عام شہریوں کی طرح خریداری کرنے سے بھی گریز کرتی ہیں، اس طرح اپنے پیشے کو اپنانے کے بدلے میں انہیں اپنی عام زندگی کے معمولات کی قربانی دینا پڑی۔
بات نیلوفر کی ہمت کی ہے، تو یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ انہوں نے ایک جھڑپ میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی لاشیں بھی بدخشاں صوبے سے کابل منتقل کیں، جس نے ان کے اعلیٰ افسران کو بھی حیران کر دیا اور وہ ان کی بہادری کی داد دینے پر مجبور ہو گئے۔
نیلو فر رحمانی نے افغانستان میں عزم وحوصلے کی ایک بڑی مثال قائم کی ہے۔ دنیا کے انتہائی نامساعد حالات سے دوچار معاشرے میں انہوںنے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں، خواتین بھی اپنے اردگرد کے کٹھن ماحول سے نبرد آزما ہونے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ نیلو فر رحمانی کا خواب ہے کہ ان کے ملک میں خواتین قائدانہ کردار ادا کریں۔۔۔ خود پر بھروسا کریں اور خود کو کمزور نہ جانیں۔