گلزارجی جتنے باکمال شاعر ہیں اتنے ہی نفیس اورزندہ دل انسان ہیں
برصغیر پاک و ہند میں بننے والی فلموں کی کامیابی میں گیت اور موسیقی کا ہمیشہ اہم کردار رہاہے
ISLAMABAD:
''میں پہلی بار بمبئی گیا تو کوشش بسیار کے باوجود ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ میں اور احمد داؤد (مرحوم) سریندر پرکاش کے گھر میں مقیم تھے، ہماری خواہش پر سریندر پرکاش نے کوشش کی تو پتہ چلا کہ گلزار فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں شہر سے باہر ہیں۔ احمد داؤد بھی گلزار کا بہت مداح تھا اور اس نے اپنا افسانہ ''تکون کیسے ٹوٹتی ہے'' گلزار کے نام کیا تھا۔ دوسری مرتبہ
ایک مشاعرے کے سلسلے میں بھارت جانے کا اتفاق ہوا تو کوشش کے باوجود بمبئی کا ویزہ نہ مل سکا اورگلزار سے ملاقات کا شوق تشنہ ہی رہا۔
''فنون'' میں گلزار صاحب پر لکھا میرا مضمون چھپا، جس پر انہوں نے قاسمی صاحب سے پوچھا کہ یہ کون ہے، جس نے میری فلمی شاعری کو اس کیفیت میں دیکھا، جس میں، میں نے لکھا۔ اس کے بعد خط و کتابت، ای میلز اور فون پر گلزار صاحب سے رابطہ قائم ہوگیا البتہ ملاقات نہیں ہو پائی۔
نیو یارک میں قیام کے دوران میں ایشیئن رائٹرز کا ممبر بن چکا تھا اسی دوران میں خبر ملی کہ انڈیا ہاؤس میں ایک عظیم الشان ''کوی سَمّیلن'' منعقد ہو رہا ہے، جس میں بھارت کی تمام بولی اور لکھی جانے والی زبانوں کے شعرا آ رہے ہیں اور گلزار بھی ان میں شامل ہیں۔ میں اس تقریب میں بطور سامع شریک ہوا۔ اسٹیج پر اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم واجپائی بیٹھے تھے، باقی نشستوں پر شعرا۔ میں نے ایک چٹ پر اپنا نام لکھا اور اسٹیج پر گلزار صاحب کو پہنچائی۔ گلزار جی چٹ دیکھتے ہی اسٹیج سیکریٹری سے مائیک لے کر کہنے لگے کہ اس ہال میں میرے وطن سے ایک شاعر اور میرا دوست آیا ہوا ہے، جس سے میں آج تک ملا نہیں، پھر انہوں نے میرا نام پکارا میں اپنی نشست پر کھڑا ہوگیا، دیر تک تالیوں میں میرا استقبال ہوتا رہا۔ تقریب کے بعد گلزار جی بہت تپاک اور محبت سے ملے۔
یہ میری گلزار جی سے پہلی باضابطہ اور بالمشافہ ملاقات تھی۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ جتنے دن وہ نیو یارک میں رہے، ملاقاتیں جاری رہیں، میرے ساتھ میری اہلیہ روبینہ بھی تھیں، جو گلزار کی شاعری کی مداح ہیں۔ اس کے بعد گلزار صاحب جب بھی امریکا آئے، ان سے ملاقاتیں رہتیں۔ ایک مرتبہ پاکستان سے کشور ناہید آئی ہوئی تھیں، اتفاق سے گلزار جی بھی امریکا میں تھے۔ ایک شام ہم نے اکٹھے بہت وقت گزارا، کشور کی بھی اُن سے پہلی ملاقات تھی۔
گلزارجی جتنے باکمال شاعر ہیں، اتنے ہی نفیس اور زندہ دل انسان ہیں۔ بہت محبت کرنے والے؛ میں خوش قسمت ہوں کہ انہوں نے میرے تیسرے شعری مجموعے ''تاوان'' کا دیباچہ اور چوتھے شعری مجموعے ''دریا تمام شد'' کا فلیپ لکھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ گلزار جی اس صدی کے واحد اور منفرد گیت نگار اور شاعر ہیں، جن کی شاعری کے ایک ایک مصرعے اور شعر میں انفرادیت جھلکتی ہے۔ گلزار جی آج کے نہیں، آنے والے زمانوں کے بھی شاعر ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں بننے والی فلموں کی کامیابی میں گیت اور موسیقی کا ہمیشہ اہم کردار رہاہے۔ اچھی شاعری اور موسیقی کے باہمی امتزاج نے کن رس شائقین کو بہت سے لازوال گیت دیے۔ یوں تو فلمی شاعری ایک الگ میدان ہے اور اس میں لاتعداد شاعروں کے نام شمار کیے جاتے ہیں مگر جن شاعروں نے فلمی گیتوں میں اعلیٰ درجے اور ادبی رنگ کی حامل شاعری کی ہے، ان میں ساحر لدھیانوی، شکیل بدایونی، قتیل شفائی، جاں نثار اختر، تنویر نقوی، کیفی اعظمی، مجروح سلطان پوری سیف الدین سیف، حبیب جالب، احمد راہی، شہر یار اور جاوید اختر کے نام نمایاں ہیں۔ ہرچند فیض، جوش، فراق، مجاز، جذبی، حفیظ ہوشیار پوری، حفیظ جالندھری، منیر اور فراز کی شاعری بھی بعض فلموں کی زینت بنی مگر ان شعرا نے فلم کو مستقل ذریعہ معاش یا میدان نہیں بنایا۔
گلزار کے ہر گیت کی شاعری اپنے اندر ایک انفرادیت لیے ہوتی ہے، جو نہ صرف پہلی بار سنتے ہوئے دل میں اتر جاتی ہے بل کہ جس کا تاثر دیر تک دل پر نقش رہتا ہے۔ خوشبو، لیکن، اجازت، موسم، نمکین، مسافر، رودھالی، سیمار، معصوم، آندھی، پریچے، میرا، پلکوں کی چھاؤں میں، استتہا، ماچس، ہوتو تو اور بہت سی دیگر ایسی فلمیں ہیں جن کاہر گیت اپنے جلو میں خوب صورت امیجری، زندہ استعارے اور کو ملتا لیے ہوئے ہے۔
چھوڑ آئے ہم، وہ گلیاں
جہاں تیرے پیروں کے کنول گرا کرتے تھے/ ہنسے تو دو گالوں میں بھنور پڑا کرتے تھے/ تیری کمر کے بل پر ندی مڑا کرتی تھی/ ہنسی تری سن سن کے فصل پکا کرتی تھی /چھوڑ آئے ہم
گلزار کی فلم ''لیکن'' میں لتا کا گایا ہوا گیت ''یارا سیلی سیلی، برہا کی رات کا جلنا'' جب میں نے پہلی بار سنا تو مجھے گلزار کی شخصیت اور اس کے پس منظر سے دل چسپی پیدا ہو گئی۔ شروع میں میرا تاثر تھا کہ وہ یو پی، سی پی سے تعلق رکھنے والے شاعر، کہانی کار ہیں مگر اس گیت کی لفظیات نے مجھے ان کی شخصی کھوج پر اکسایا کیوں کہ اس میں برتے گئے بعض الفاظ یو پی، سی پی کا رہنے والا شاعر استعمال نہیں کر سکتا تھا :
پیروں میں نہ سایا کوئی، سر پہ نہ سائیں رے/ میرے ساتھ جائے رام، میری پرچھائیں رے/ باہر اجالا، اندر ویرانہ/ یارا سیلی سیلی۔۔۔ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں سے جوڑوں یہ کلائی میں/ پچھلی گلی میں جانے کیا چھوڑ آئی میں/ بیتی ہوئی گلیوں سے پھر سے گزرنا/ یارا سیلی سیلی
اس گیت میں یارا، ڈھولا اور سائیں کے مخصوص الفاظ نے مجھے بالآخر شہر طلسمات کے ایسے دروازے کھولنے میں معاونت کی، جس کے اندر گلزار کی شخصیت کا ہر پہلو نمایاں تھا۔ اس پر بھلا ہو منصورہ احمد (مرحومہ) کا جس نے گلزار کے بارے میں بہت سا غائبانہ تعارف کرا دیا۔ واللہ کسی تعصب یا علاقائیت کی بنا پر نہیں، بس ویسے ہی مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ گلزار کا تعلق میرے پوٹھوہار کے ایک چھوٹے سے شہر دینہ سے ہے۔ میں نے آٹھ دس ملکوں کا سفر کیا ہے اور اپنے تجربہ اور مشاہدے کی بنیاد پر پورے وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ زبان اور ثقافت دنیا کا سب سے مضبوط رشتہ ہوتا ہے۔ کسی دانشور نے کہا تھا کہ ''بین، گیت اور لطیفہ اپنی مادری زبان ہی میں موثر ہوتے ہیں''۔ گلزار کے اولین شعری مجموعے ''چاند پکھراج کا'' کے ابتدائی صفحے پر یہ شعر درج ہے
ذکر جہلم کا ہو، بات ہو دینے کی
چاند پکھراج کا، رات پشمینے کی
اس شعر کے ایک ایک حرف میں گلزار کی اپنی جنم بھومی سے محبت دھڑکتی محسوس ہوتی ہے۔ فلم ''ماچس'' کا ایک گیت ''چپہ چپہ چرخہ چلے'' بھی اپنے دامن میں بے شمار ثقافتی، سماجی حوالے اور ماضی سے جڑی کبھی نہ فراموش کرنے والی یادیں لیے ہوئے ہے۔
چپہ چپہ چرخہ چلے/ گوریوں کے پیروں تلے، پیلی پیلی مہندی جلے/ چپہ چپہ چرخہ چلے
گوری چٹخوری جو کٹوری سے کھلاتی تھی/ جمعے کے جمعے، جو سرمے لگاتی تھی/ کچی منڈیر کے تلے/ چپہ چپہ چرخہ چلے
چُنی لے کے سوتی تھی، کمال لگتی تھی/ پانی میں جلتا چراغ لگتی تھی/ بیبا تیری یاد نہ ٹلے /چپہ چپہ چرخہ چلے
یہ گیت سن کر میں بھی پھر سے بچپن کی گلیوں میں نکل گیا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں بھی اتوار کو چھٹی ہوا کرتی تھی اور جمعہ کو آدھے دن کی، اسکول سے واپسی پر امی ہمیں نہلا دھلا کر آنکھوں میں سرمہ لگاتیں اور جمعہ کی نماز کے لیے مسجد بھیجتی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ پنجاب کے دیہات اور چھوٹے شہروں میں یہ معمول آج بھی ہے۔ جمعہ کے جمعہ سرمہ لگانے کے مصرعے نے ماضی کی کئی خوب صورت یادوں کو ایک بار پھر ذہن کے پردے پر متحرک کر دیا۔ اس گیت میں پنجاب کی ثقافتی بود و باش کو اس کے حساس اور مذہباً سکھ شاعر نے جس خوب صورت اور کھلے ڈلے انداز میں گیت کا پیرہن بخشا ہے، وہ اس کی مشاہداتی اور تجرباتی اپج کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔''
''میں پہلی بار بمبئی گیا تو کوشش بسیار کے باوجود ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ میں اور احمد داؤد (مرحوم) سریندر پرکاش کے گھر میں مقیم تھے، ہماری خواہش پر سریندر پرکاش نے کوشش کی تو پتہ چلا کہ گلزار فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں شہر سے باہر ہیں۔ احمد داؤد بھی گلزار کا بہت مداح تھا اور اس نے اپنا افسانہ ''تکون کیسے ٹوٹتی ہے'' گلزار کے نام کیا تھا۔ دوسری مرتبہ
ایک مشاعرے کے سلسلے میں بھارت جانے کا اتفاق ہوا تو کوشش کے باوجود بمبئی کا ویزہ نہ مل سکا اورگلزار سے ملاقات کا شوق تشنہ ہی رہا۔
''فنون'' میں گلزار صاحب پر لکھا میرا مضمون چھپا، جس پر انہوں نے قاسمی صاحب سے پوچھا کہ یہ کون ہے، جس نے میری فلمی شاعری کو اس کیفیت میں دیکھا، جس میں، میں نے لکھا۔ اس کے بعد خط و کتابت، ای میلز اور فون پر گلزار صاحب سے رابطہ قائم ہوگیا البتہ ملاقات نہیں ہو پائی۔
نیو یارک میں قیام کے دوران میں ایشیئن رائٹرز کا ممبر بن چکا تھا اسی دوران میں خبر ملی کہ انڈیا ہاؤس میں ایک عظیم الشان ''کوی سَمّیلن'' منعقد ہو رہا ہے، جس میں بھارت کی تمام بولی اور لکھی جانے والی زبانوں کے شعرا آ رہے ہیں اور گلزار بھی ان میں شامل ہیں۔ میں اس تقریب میں بطور سامع شریک ہوا۔ اسٹیج پر اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم واجپائی بیٹھے تھے، باقی نشستوں پر شعرا۔ میں نے ایک چٹ پر اپنا نام لکھا اور اسٹیج پر گلزار صاحب کو پہنچائی۔ گلزار جی چٹ دیکھتے ہی اسٹیج سیکریٹری سے مائیک لے کر کہنے لگے کہ اس ہال میں میرے وطن سے ایک شاعر اور میرا دوست آیا ہوا ہے، جس سے میں آج تک ملا نہیں، پھر انہوں نے میرا نام پکارا میں اپنی نشست پر کھڑا ہوگیا، دیر تک تالیوں میں میرا استقبال ہوتا رہا۔ تقریب کے بعد گلزار جی بہت تپاک اور محبت سے ملے۔
یہ میری گلزار جی سے پہلی باضابطہ اور بالمشافہ ملاقات تھی۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ جتنے دن وہ نیو یارک میں رہے، ملاقاتیں جاری رہیں، میرے ساتھ میری اہلیہ روبینہ بھی تھیں، جو گلزار کی شاعری کی مداح ہیں۔ اس کے بعد گلزار صاحب جب بھی امریکا آئے، ان سے ملاقاتیں رہتیں۔ ایک مرتبہ پاکستان سے کشور ناہید آئی ہوئی تھیں، اتفاق سے گلزار جی بھی امریکا میں تھے۔ ایک شام ہم نے اکٹھے بہت وقت گزارا، کشور کی بھی اُن سے پہلی ملاقات تھی۔
گلزارجی جتنے باکمال شاعر ہیں، اتنے ہی نفیس اور زندہ دل انسان ہیں۔ بہت محبت کرنے والے؛ میں خوش قسمت ہوں کہ انہوں نے میرے تیسرے شعری مجموعے ''تاوان'' کا دیباچہ اور چوتھے شعری مجموعے ''دریا تمام شد'' کا فلیپ لکھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ گلزار جی اس صدی کے واحد اور منفرد گیت نگار اور شاعر ہیں، جن کی شاعری کے ایک ایک مصرعے اور شعر میں انفرادیت جھلکتی ہے۔ گلزار جی آج کے نہیں، آنے والے زمانوں کے بھی شاعر ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں بننے والی فلموں کی کامیابی میں گیت اور موسیقی کا ہمیشہ اہم کردار رہاہے۔ اچھی شاعری اور موسیقی کے باہمی امتزاج نے کن رس شائقین کو بہت سے لازوال گیت دیے۔ یوں تو فلمی شاعری ایک الگ میدان ہے اور اس میں لاتعداد شاعروں کے نام شمار کیے جاتے ہیں مگر جن شاعروں نے فلمی گیتوں میں اعلیٰ درجے اور ادبی رنگ کی حامل شاعری کی ہے، ان میں ساحر لدھیانوی، شکیل بدایونی، قتیل شفائی، جاں نثار اختر، تنویر نقوی، کیفی اعظمی، مجروح سلطان پوری سیف الدین سیف، حبیب جالب، احمد راہی، شہر یار اور جاوید اختر کے نام نمایاں ہیں۔ ہرچند فیض، جوش، فراق، مجاز، جذبی، حفیظ ہوشیار پوری، حفیظ جالندھری، منیر اور فراز کی شاعری بھی بعض فلموں کی زینت بنی مگر ان شعرا نے فلم کو مستقل ذریعہ معاش یا میدان نہیں بنایا۔
گلزار کے ہر گیت کی شاعری اپنے اندر ایک انفرادیت لیے ہوتی ہے، جو نہ صرف پہلی بار سنتے ہوئے دل میں اتر جاتی ہے بل کہ جس کا تاثر دیر تک دل پر نقش رہتا ہے۔ خوشبو، لیکن، اجازت، موسم، نمکین، مسافر، رودھالی، سیمار، معصوم، آندھی، پریچے، میرا، پلکوں کی چھاؤں میں، استتہا، ماچس، ہوتو تو اور بہت سی دیگر ایسی فلمیں ہیں جن کاہر گیت اپنے جلو میں خوب صورت امیجری، زندہ استعارے اور کو ملتا لیے ہوئے ہے۔
چھوڑ آئے ہم، وہ گلیاں
جہاں تیرے پیروں کے کنول گرا کرتے تھے/ ہنسے تو دو گالوں میں بھنور پڑا کرتے تھے/ تیری کمر کے بل پر ندی مڑا کرتی تھی/ ہنسی تری سن سن کے فصل پکا کرتی تھی /چھوڑ آئے ہم
گلزار کی فلم ''لیکن'' میں لتا کا گایا ہوا گیت ''یارا سیلی سیلی، برہا کی رات کا جلنا'' جب میں نے پہلی بار سنا تو مجھے گلزار کی شخصیت اور اس کے پس منظر سے دل چسپی پیدا ہو گئی۔ شروع میں میرا تاثر تھا کہ وہ یو پی، سی پی سے تعلق رکھنے والے شاعر، کہانی کار ہیں مگر اس گیت کی لفظیات نے مجھے ان کی شخصی کھوج پر اکسایا کیوں کہ اس میں برتے گئے بعض الفاظ یو پی، سی پی کا رہنے والا شاعر استعمال نہیں کر سکتا تھا :
پیروں میں نہ سایا کوئی، سر پہ نہ سائیں رے/ میرے ساتھ جائے رام، میری پرچھائیں رے/ باہر اجالا، اندر ویرانہ/ یارا سیلی سیلی۔۔۔ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں سے جوڑوں یہ کلائی میں/ پچھلی گلی میں جانے کیا چھوڑ آئی میں/ بیتی ہوئی گلیوں سے پھر سے گزرنا/ یارا سیلی سیلی
اس گیت میں یارا، ڈھولا اور سائیں کے مخصوص الفاظ نے مجھے بالآخر شہر طلسمات کے ایسے دروازے کھولنے میں معاونت کی، جس کے اندر گلزار کی شخصیت کا ہر پہلو نمایاں تھا۔ اس پر بھلا ہو منصورہ احمد (مرحومہ) کا جس نے گلزار کے بارے میں بہت سا غائبانہ تعارف کرا دیا۔ واللہ کسی تعصب یا علاقائیت کی بنا پر نہیں، بس ویسے ہی مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ گلزار کا تعلق میرے پوٹھوہار کے ایک چھوٹے سے شہر دینہ سے ہے۔ میں نے آٹھ دس ملکوں کا سفر کیا ہے اور اپنے تجربہ اور مشاہدے کی بنیاد پر پورے وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ زبان اور ثقافت دنیا کا سب سے مضبوط رشتہ ہوتا ہے۔ کسی دانشور نے کہا تھا کہ ''بین، گیت اور لطیفہ اپنی مادری زبان ہی میں موثر ہوتے ہیں''۔ گلزار کے اولین شعری مجموعے ''چاند پکھراج کا'' کے ابتدائی صفحے پر یہ شعر درج ہے
ذکر جہلم کا ہو، بات ہو دینے کی
چاند پکھراج کا، رات پشمینے کی
اس شعر کے ایک ایک حرف میں گلزار کی اپنی جنم بھومی سے محبت دھڑکتی محسوس ہوتی ہے۔ فلم ''ماچس'' کا ایک گیت ''چپہ چپہ چرخہ چلے'' بھی اپنے دامن میں بے شمار ثقافتی، سماجی حوالے اور ماضی سے جڑی کبھی نہ فراموش کرنے والی یادیں لیے ہوئے ہے۔
چپہ چپہ چرخہ چلے/ گوریوں کے پیروں تلے، پیلی پیلی مہندی جلے/ چپہ چپہ چرخہ چلے
گوری چٹخوری جو کٹوری سے کھلاتی تھی/ جمعے کے جمعے، جو سرمے لگاتی تھی/ کچی منڈیر کے تلے/ چپہ چپہ چرخہ چلے
چُنی لے کے سوتی تھی، کمال لگتی تھی/ پانی میں جلتا چراغ لگتی تھی/ بیبا تیری یاد نہ ٹلے /چپہ چپہ چرخہ چلے
یہ گیت سن کر میں بھی پھر سے بچپن کی گلیوں میں نکل گیا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں بھی اتوار کو چھٹی ہوا کرتی تھی اور جمعہ کو آدھے دن کی، اسکول سے واپسی پر امی ہمیں نہلا دھلا کر آنکھوں میں سرمہ لگاتیں اور جمعہ کی نماز کے لیے مسجد بھیجتی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ پنجاب کے دیہات اور چھوٹے شہروں میں یہ معمول آج بھی ہے۔ جمعہ کے جمعہ سرمہ لگانے کے مصرعے نے ماضی کی کئی خوب صورت یادوں کو ایک بار پھر ذہن کے پردے پر متحرک کر دیا۔ اس گیت میں پنجاب کی ثقافتی بود و باش کو اس کے حساس اور مذہباً سکھ شاعر نے جس خوب صورت اور کھلے ڈلے انداز میں گیت کا پیرہن بخشا ہے، وہ اس کی مشاہداتی اور تجرباتی اپج کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔''