اس بات میں اب کوئی شک نہیں رہا ہے کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کی بحالی کا آغاز ہو چکا ہے اور عوام الناس اس عمل کی پذیرائی بھی کر رہے ہیں۔ وار، چنبیلی، نا معلوم افراد، تین بہادر، دختر جیسی کامیاب فلمیں ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوئیں جنہیں لوگوں نے سینیماز میں جا کر نہ صرف دیکھا بلکہ انہی سینیما گھروں میں لگی بھارتی فلموں پر فوقیت بھی دی جس سے ثابت ہوا کہ لوگ پاکستانی فلموں کو دیکھنا بھی چاہتےہیں اور اچھی پروڈکشن کو سراہتے بھی ہیں۔
اس وقت بھی بے شمار پاکستانی فلمیں تکمیل کے مراحل میں ہیں اور کچھ ریلیز کے لئے تیار ہیں جن کی پروموشن آجکل جاری ہے۔
فوٹو:فیس بک
ان میں
سر فہرست 'بن روئے' اور '
رانگ نمبر' ہیں ۔ پروموز دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان پروجیکٹس پر بہت محنت کی گئی ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ شعبے ایسے ہیں جو توجہ کے طلب گار ہیں اور جن میں بہتری کی کافی گنجائش ہے۔
فوٹو:فیس بک
ان میں سر فہرست کاسٹنگ ہے۔ بلاشبہ ہماری ٹی وی انڈسٹری باصلاحیت اداکاروں سے مالامال ہے۔ مرد اداکار ہوں یا خواتین اداکارائیں، سب ہی نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور پہلے بھارتی ڈراموں، پھر ترکی کے گلیمرس ڈراموں کے دور میں بھی اپنا تشخص اور چاہنے والوں کا اعتبار اور اعتماد قائم رکھا۔
لیکن ان تمام باتوں سے قطع نظر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت بننے والی تقریباً تمام ہی فلموں میں زیادہ تر یہی ٹی وی اسٹارز موجود ہیں جنہیں ہم کافی عرصے سے ڈراموں میں دیکھ رہے ہیں۔ ان میں سے بھی اکثریت ڈراموں میں اپنا عروج دیکھ چکی ہے۔ ساری دنیا میں فلم اور ٹی وی کے اداکار زیادہ تر الگ الگ ہوتے ہیں کیونکہ بنیادی طور پر یہ دو الگ میڈیم ہیں، نیز دیکھنے والوں کی دلچسپی برقرار رکھنے میں بھی کہانی کے بعد کاسٹنگ کا بہت ہاتھ ہوتا ہے۔ لوگ ایک جیسے چہروں سے بور ہوجاتے ہیں اسلئے شوبز ہمیشہ نئے چہروں کی کھوج میں رہتا ہے۔ ہمارے یہاں بھی فلموں میں نیا ٹیلنٹ اور چہرے آنے چاہئیں تاکہ یکسانیت سے چھٹکارہ ملے ۔
دوسرے نمبر پر موسیقی ہے۔ ہم جہاں رہتے ہیں یہاں میوزک کا پورا کلچر موجود ہے، ہمارے ملک کے کتنے ہی موسیقار اور گلوکار بالی ووڈ میں نام کما چکے ہیں لیکن ہماری اپنی فلموں کےگانے کوئی بھی تاثر قائم کرنے میں ہنوز ناکام ہیں۔ مہندی کےفنکشن سے لیکر ایوارڈ شو تک، میوزک چینلز سے لیکر ایف ایم تک ہر جگہ بالی ووڈ چل رہا ہے اور بک رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ اچھا میوزک فلموں میں شامل کیا جائے۔ جو سنتے ہی زبان زد عام ہوجائے۔
اگر بالی ووڈ فلموں پر نظر ڈالیں تو فلم بھلے ناکام ہو لیکن کوئی نہ کوئی گانا ایسا ہوتا ہے جو یادگار بن جاتا ہے۔ ہم آئٹم سانگ تو بنا رہے ہیں لیکن خوبصورت کمپوزیشن تاحال عنقا ہے۔ رقص کا شعبہ بھی ہدایتکاروں اور پروڈیوسر کی توجہ کا طالب ہے تاکہ فلم کے گانے اور فئر ویل پارٹی پرفارمنس کا فرق برقرار رہے۔
تیسرا اور اہم ترین شعبہ لوکیشن کا انتخاب ہے۔ خوبصورت مقامات پر عکس بندی کرکے نہ صرف فلم بین سے داد وصول کی جاسکتی ہے بلکہ ملک کی سیاحت کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں قدرت کی صناعی جگہ جگہ بکھری پڑی ہے اسے فلم بند کرکے انٹرنیشنل آڈیئنس کی توجہ کھینچی جاسکتی ہے۔ ہالی ووڈ ہویا بالی ووڈ ہمیشہ خوبصورت لوکیشنز کو کیمرے کی آنکھ سے مزید دلکش بنا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ ناظرین کے ذہن کو تازہ دم کیا جاسکے کیونکہ دو تین گھنٹے پر محیط اس تفریح میں انسان ایک ایسی تخیلاتی دنیا میں ہوتا ہے جہاں ہر چیز اور ہر زاویہ روز مرہ زندگی سے ہٹ کر ہونا شرط ہے۔
میڈیا انڈسٹری شدید مقابلے کی فضا میں کام کرتی ہے۔ لوکل سرکٹ بے شک ہمہ وقت ہاتھ میں رہتا ہے لیکن آج کا ناظر بین الاقوامی میڈیا سے صرف ریموٹ کے ایک بٹن کی دوری پر ہے اس لئے غلطی کی گنجائش کم نکلتی ہے۔ کام معیاری ہو اور ناظرین کی منشا کے ساتھ ساتھ جدت بھی لئے ہوئے ہو تو کیا ہی کہنے۔ بلاشبہ فلم انڈسٹری کا احیاء خوش آئند ہے تاہم بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ بین الاقوامی معیار کو مد نظر رکھ کر فلم بنائی جائے کیونکہ فلم بین بھی کم و بیش اسی معیار کے عادی ہوچکے ہیں۔۔
[poll id="479"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس