سائیڈ رول نبھانا خاصا مشکل کام ہے رومت راج
سونی ٹیلی ویژن کی ’’عدالت‘‘ کے ’’وَرُن‘‘ سے گپ شپ
PARIS:
شاید سامنا ہونے پر آپ اسے 23 برس کا یا اس سے بھی کم عمر خیال کریں گے جب کہ اس کی اصل عمر 32 سال ہے۔
یہ مبالغہ آرائی نہیں بلکہ سبھی کو اس بات پر حیرت ہے کہ یہ فن کار دیکھنے میں اپنی اصل عمر سے اتنا کم کیسے نظر آتا ہے۔
ہم بات کر رہے ہیں ٹیلی نگری کے منجھے ہوئے اداکار رومت راج کی، جو ان دنوں سونی ٹیلی ویژن چینل پر ''عدالت'' میں ''ورُن'' کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اگرچہ یہ ایک سائیڈ رول ہے، لیکن وہ کمال خوبی سے اس کردار کو نبھاتے ہوئے ناظرین کی توجہ حاصل کیے ہوئے ہے۔
''مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ میری اصل عمر جان لیں۔ اپنی ڈھلتی ہوئی عمر کی فکر کرنا اور اصل عمر بتانے سے گریز کرنا تو عورتوں کی عادت ہوتی ہے، لیکن کبھی مجھے اس پر حیرت بھی ہوتی ہے کہ میں اپنی زندگی کی 33 ویں بہار دیکھ رہا ہوں، لیکن دیکھنے میں خاصا کم عمر ہوں۔''
یہ رومت راج کے خیالات ہیں، جن کا اظہار اس نے پچھلے دنوں ایک انٹرویو کے دوران کیا۔ اس فن کار سے ہونے والی مزید گفت گو ملاحظہ کیجیے۔
٭ ''عدالت'' میں اپنے کردار کی بابت کچھ بتائیں؟
یہ ایک سائیڈ رول ہے، لیکن اس کا کہانی پر گہرا اثر نظر آتا ہے۔ کردار کی اسی گنجائش کو دیکھتے ہوئے، میں نے اس آفر کو قبول کیا تھا۔ دراصل ورُن (کیریکٹر) ایک مشہور وکیل کا اسسٹنٹ ہے۔ وکیل کا نام کے ڈی پاٹھک ہے، جس کا اپنے مقدمات کے سلسلے میں عدالت میں وقت گزرتا ہے۔ ورُن ہر جگہ اس کے ساتھ رہتا ہے اور مختلف ہدایات پر عمل کرتا ہے، جب کہ وہ اپنے باس کے قریب رہنے کی وجہ سے ان سے بہت کچھ سیکھتا بھی ہے۔ باقی، اس شو کی بابت تو آپ اور ٹیلی ویژن کے ناظرین جانتے ہی ہیں کہ یہ کس طرح سماج اور عوام کے مزاج سے جڑا ہوا ہے۔
٭ ورُن کے کردار کو اپنے پچھلے کیریکٹرز سے کس طرح مختلف پاتے ہیں؟
میں متعدد ڈراموں خصوصاً ڈیلی سوپس کا حصہ رہا ہوں اور کئی مرکزی کردار ادا کیے ہیں، لیکن یہ ایک سائیڈ رول ہے۔ اس طرح ایک واضح فرق تو یہ ہو گیا۔ اس کے علاوہ یہ کیریکٹر مجھے یوں مختلف نظر آتا ہے کہ اس روپ میں اپنے آپ کو منوانے کے لیے مجھے خاصی محنت کرنا پڑ رہی ہے۔ کیوں کہ یہ طے ہے کہ میرا کردار دیگر کیریکٹرز کے مقابلے کا نہیں ہے اور بہ طور ورُن مجھے آگے آنے اور دیر تک اسکرین پر نظر آنے کا بہت کم موقع ملتا ہے۔ تاہم یہ کوئی عام کردار بھی نہیں ہے۔ اس کا اپنا اثر ہے اور بعض مواقع ایسے آتے ہیں جب یہ چھایا رہتا ہے۔
٭ آپ نے جرم اور انصاف پر مبنی دیگر ملکوں کے ٹیلی ویژن شوز دیکھے ہیں۔ کیا وہ بھی اسی طرز کی کہانیاں ہیں؟
میرا خیال ہے کہ ہمارا اور ان کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اس لیے موازنہ بے کار بات ہے۔ ہمیں اپنی کہانیوں اور طرز پیش کاری پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مقامی عدالتوں کا یہی حال ہے، جو اس شو میں دیکھا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں انصاف اور قانون کی شکل ہم سے یک سر مختلف ہے۔ وہاں جرم اور مجرم تک پہنچنے کا طریقہ بھی جدا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے ہاں ہر کام میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا دخل بھی ہے، جس کی جھلک ان کے پروگراموں میں دیکھی جا سکتی ہے۔
٭ کیا یہ ممکن ہے کہ ورُن سینیر وکیل کے ڈی پاٹھک کے ساتھ کام کرنے سے حاصل ہونے والے تجربے کے زور پر بہ طور لائر اپنی پریکٹس شروع کرے؟
دراصل ورُن ایک کم تعلیم یافتہ شخص ہے، وہ اپنے وکیل کے ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھ چکا ہے، اور اسے معاملات کی سمجھ ہے، لیکن باقاعدہ پریکٹس کے لیے اس کے پاس کوئی ڈگری نہیں ہے۔ اس لیے وہ یہاں مجبور نظر آتا ہے۔
٭ اس ڈرامے کی عدالت، حقیقی انڈین کورٹس سے کیسے مختلف ہے؟
کے ڈی پاٹھک جس کا مقدمہ لڑتا ہے، اسے کام یابی ملتی ہے۔ ہماری عدالت میں ہر مقدمہ جج کے سامنے بھرپور طریقے سے پیش ہوتا ہے اور اس کا فیصلہ بھی جلد کر دیا جاتا ہے۔ تاہم حقیقت بہت تلخ ہے۔ آج بھی لاکھوں لوگ برسوں پرانے مقدمات کا فیصلہ سنائے جانے کے منتظر ہیں جب کہ بے گناہوں کو سزا اور ظالموں کو مختلف ہتھ کنڈوں کے استعمال سے آزاد کروا لیا جاتا ہے۔ سماج کی حقیقی تصویر تو بہت بری اور بھدی ہے۔ جب کہ ہم ایک آئیڈیل اسکرپٹ کے مطابق کام کر رہے ہیں۔
ہماری عدالت جرم اور مجرم کا خاتمہ چاہتی ہے، جب کہ حقیقی عدالتوں میں کرپشن کی وبا اور دیگر مسائل نے معاشرے کا حلیہ بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
شاید سامنا ہونے پر آپ اسے 23 برس کا یا اس سے بھی کم عمر خیال کریں گے جب کہ اس کی اصل عمر 32 سال ہے۔
یہ مبالغہ آرائی نہیں بلکہ سبھی کو اس بات پر حیرت ہے کہ یہ فن کار دیکھنے میں اپنی اصل عمر سے اتنا کم کیسے نظر آتا ہے۔
ہم بات کر رہے ہیں ٹیلی نگری کے منجھے ہوئے اداکار رومت راج کی، جو ان دنوں سونی ٹیلی ویژن چینل پر ''عدالت'' میں ''ورُن'' کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اگرچہ یہ ایک سائیڈ رول ہے، لیکن وہ کمال خوبی سے اس کردار کو نبھاتے ہوئے ناظرین کی توجہ حاصل کیے ہوئے ہے۔
''مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ میری اصل عمر جان لیں۔ اپنی ڈھلتی ہوئی عمر کی فکر کرنا اور اصل عمر بتانے سے گریز کرنا تو عورتوں کی عادت ہوتی ہے، لیکن کبھی مجھے اس پر حیرت بھی ہوتی ہے کہ میں اپنی زندگی کی 33 ویں بہار دیکھ رہا ہوں، لیکن دیکھنے میں خاصا کم عمر ہوں۔''
یہ رومت راج کے خیالات ہیں، جن کا اظہار اس نے پچھلے دنوں ایک انٹرویو کے دوران کیا۔ اس فن کار سے ہونے والی مزید گفت گو ملاحظہ کیجیے۔
٭ ''عدالت'' میں اپنے کردار کی بابت کچھ بتائیں؟
یہ ایک سائیڈ رول ہے، لیکن اس کا کہانی پر گہرا اثر نظر آتا ہے۔ کردار کی اسی گنجائش کو دیکھتے ہوئے، میں نے اس آفر کو قبول کیا تھا۔ دراصل ورُن (کیریکٹر) ایک مشہور وکیل کا اسسٹنٹ ہے۔ وکیل کا نام کے ڈی پاٹھک ہے، جس کا اپنے مقدمات کے سلسلے میں عدالت میں وقت گزرتا ہے۔ ورُن ہر جگہ اس کے ساتھ رہتا ہے اور مختلف ہدایات پر عمل کرتا ہے، جب کہ وہ اپنے باس کے قریب رہنے کی وجہ سے ان سے بہت کچھ سیکھتا بھی ہے۔ باقی، اس شو کی بابت تو آپ اور ٹیلی ویژن کے ناظرین جانتے ہی ہیں کہ یہ کس طرح سماج اور عوام کے مزاج سے جڑا ہوا ہے۔
٭ ورُن کے کردار کو اپنے پچھلے کیریکٹرز سے کس طرح مختلف پاتے ہیں؟
میں متعدد ڈراموں خصوصاً ڈیلی سوپس کا حصہ رہا ہوں اور کئی مرکزی کردار ادا کیے ہیں، لیکن یہ ایک سائیڈ رول ہے۔ اس طرح ایک واضح فرق تو یہ ہو گیا۔ اس کے علاوہ یہ کیریکٹر مجھے یوں مختلف نظر آتا ہے کہ اس روپ میں اپنے آپ کو منوانے کے لیے مجھے خاصی محنت کرنا پڑ رہی ہے۔ کیوں کہ یہ طے ہے کہ میرا کردار دیگر کیریکٹرز کے مقابلے کا نہیں ہے اور بہ طور ورُن مجھے آگے آنے اور دیر تک اسکرین پر نظر آنے کا بہت کم موقع ملتا ہے۔ تاہم یہ کوئی عام کردار بھی نہیں ہے۔ اس کا اپنا اثر ہے اور بعض مواقع ایسے آتے ہیں جب یہ چھایا رہتا ہے۔
٭ آپ نے جرم اور انصاف پر مبنی دیگر ملکوں کے ٹیلی ویژن شوز دیکھے ہیں۔ کیا وہ بھی اسی طرز کی کہانیاں ہیں؟
میرا خیال ہے کہ ہمارا اور ان کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اس لیے موازنہ بے کار بات ہے۔ ہمیں اپنی کہانیوں اور طرز پیش کاری پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مقامی عدالتوں کا یہی حال ہے، جو اس شو میں دیکھا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں انصاف اور قانون کی شکل ہم سے یک سر مختلف ہے۔ وہاں جرم اور مجرم تک پہنچنے کا طریقہ بھی جدا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے ہاں ہر کام میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا دخل بھی ہے، جس کی جھلک ان کے پروگراموں میں دیکھی جا سکتی ہے۔
٭ کیا یہ ممکن ہے کہ ورُن سینیر وکیل کے ڈی پاٹھک کے ساتھ کام کرنے سے حاصل ہونے والے تجربے کے زور پر بہ طور لائر اپنی پریکٹس شروع کرے؟
دراصل ورُن ایک کم تعلیم یافتہ شخص ہے، وہ اپنے وکیل کے ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھ چکا ہے، اور اسے معاملات کی سمجھ ہے، لیکن باقاعدہ پریکٹس کے لیے اس کے پاس کوئی ڈگری نہیں ہے۔ اس لیے وہ یہاں مجبور نظر آتا ہے۔
٭ اس ڈرامے کی عدالت، حقیقی انڈین کورٹس سے کیسے مختلف ہے؟
کے ڈی پاٹھک جس کا مقدمہ لڑتا ہے، اسے کام یابی ملتی ہے۔ ہماری عدالت میں ہر مقدمہ جج کے سامنے بھرپور طریقے سے پیش ہوتا ہے اور اس کا فیصلہ بھی جلد کر دیا جاتا ہے۔ تاہم حقیقت بہت تلخ ہے۔ آج بھی لاکھوں لوگ برسوں پرانے مقدمات کا فیصلہ سنائے جانے کے منتظر ہیں جب کہ بے گناہوں کو سزا اور ظالموں کو مختلف ہتھ کنڈوں کے استعمال سے آزاد کروا لیا جاتا ہے۔ سماج کی حقیقی تصویر تو بہت بری اور بھدی ہے۔ جب کہ ہم ایک آئیڈیل اسکرپٹ کے مطابق کام کر رہے ہیں۔
ہماری عدالت جرم اور مجرم کا خاتمہ چاہتی ہے، جب کہ حقیقی عدالتوں میں کرپشن کی وبا اور دیگر مسائل نے معاشرے کا حلیہ بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔