مہنگائی کا مہینہ معاف کیجیے رمضان کا مہینہ آگیا ہے

ہر سال رمضان میں یہی کچھ ہوتا ہے، مہنگائی کی خبر تو ہر بار آتی ہے مگر شرم کسی کو نہیں آتی۔

پاکستان میں مذہبی تہوار کے نام پر ناجائز منافع خوری کی ایک سے بڑھ کر ایک داستان ہے۔۔فوٹو:فائل

ہر بار کی طرح اس بار بھی رمضان سے پہلے ہی زخیرہ اندوز اپنی ''روزی روٹی'' میں ''برکت'' ڈالنے کے لئے حرکت میں آگئے اور ان کی یہ حرکت اس بار بھی عوام کے بجٹ اور رہی سہی بچت کو چٹ کر رہی ہے۔ ہر سال یہی کچھ ہوتا ہے، خبر تو ہر بار آتی ہے مگر شرم کسی کو نہیں آتی۔ ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ پیچھےسے مال مہنگا مل رہا ہے لیکن یہ پیچھے بیٹھا، زخیرہ اندوز کون ہے، یہ بات ہمیشہ پس پردہ ہی رہتی ہے۔

پاکستان میں مذہبی تہوار کے نام پر ناجائز منافع خوری کی ایک سے بڑھ کر ایک داستان ہے۔کوئی رمضان سے پہلے ذخیرہ اندوزی کرکے بند گوداموں پرسانپ بن کر بیٹھ جاتا ہے تو کوئی عید سے پہلے اپنی عیدی اکھٹی کرنے کے چکر میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر دیتا ہے۔ کوئی باعزت وزیر تو حاجیوں کو ہی لوٹ لیتا ہے اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ حکام کا ایکشن صرف مذمت تک ہی ہوتا ہے۔ کاش یہ لفظ 'مذمت' اردو ڈکشنری سے نکال ہی دیا جائے۔



یورپ اور امریکا میں کرسمس سے 20، 15 دن پہلے بچت سیل لگ جاتی ہے اور شہریوں کی مذہبی خوشیوں کے راستے میں آنے والی ہر معاشی دیوار توڑ دی جاتی ہے۔ سرکار مذہبی تہوار منانے کے لئے شہریوں سے بھرپور تعاون کرتی ہے لیکن یہاں بہنے والی الٹی گنگا کو سیدھا کرنے کی بجائے صرف اپنا الو ہی سیدھا کیا جاتا ہے۔

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے لیکن رمضان سے پہلے ہی مہنگائی کا سیلاب اُمڈ آیا ہے۔ اِس ماہِ مبارک میں حکومت تو سبسڈی دیتی ہے، لیکن یہ سبسڈی سب سے پہلے ذخیرہ اندوز ہی ہڑپ کرجاتے ہیں اور پھر کھانے پینے کی ساری چیزیں مہنگائی کے پیٹ میں چلی جاتی ہیں۔ دُکھ ہوتا ہے کہ یہ کیسے مسلمان ہیں جو اپنے بھائیوں کی ضروریات کا بھی خیال نہیں کرتے اور رمضان میں ثواب کمانے کے بجائے صرف ناجائز منافع کماتے ہیں؟

آپ خود ہی اندازہ کریں، لال لال ٹماٹر کا ایک کلو ریٹ سن کر تو گال ہی لال ہو جاتے ہیں۔ پورا لال نوٹ دیں۔ تو یہ ''لال پھل'' آپ کے ساتھ جائے گا اور کسی مائی کے لعل میں یہ اخلاقی جرات بھی نہیں کہ ذمہ داروں کوٹماٹر مار کرسبق سکھا سکے۔۔ گلے سڑے مہنگے ٹماٹر پر عوام گلے شکوے نہ کریں تو کیا کریں؟



سرکار نے مہنگائی کی بھڑکتی آگ پر پٹرول تو پہلے ہی چھڑک دیا ہے، لیکن سبزیوں اور پھلوں کے دام بھی آسمان پر ہیں۔ نہ تو کیلا خریدنا اکیلے بندے کا کام ہے اور نہ ہی کوئی عام آدمی اب آم خرید سکتا ہے۔ مہنگائی کا آسیب سارے سیب بھی کھا گیا ہے اور گولڈن سیب کا ریٹ تو گولڈ سے مقابلہ کرتا نظر آتا ہے۔ مہنگائی کو پیاز سے بھی ایسا پیار ہوا کہ عوام تک پہنچنے ہی نہیں دیتی ۔۔۔ ادرک کی قیمت کا اگر کسی کو ادراک نہیں تو بہتر ہے کیونکہ بعض اوقات لاعلمی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی ۔۔غریب آدمی کے لئے انگور تو ہمیشہ ہی کھٹے ہوتے ہیں لیکن اب تو خوبانی خریدنے کے لئے بھی بھاری بھرکم بجٹ کی قربانی دینا پڑتی ہے۔۔ مہنگائی کی چھری خربوزے پر ہو یا خربوزہ مہنگائی کی چھری پر، بجٹ ہمیشہ عوام کا ہی کٹتا ہے۔ تربوز پر چھری چلے تو خون بچت کا بہتا ہے۔۔ سبزیاں اگر کچھ دکھاتی ہیں تو سبز باغ اور عوام کے لئے اگر کوئی پھل بچا ہے تو وہ ہے"صبر کا پھل''۔


دال اور چنے کی بات کرلیں۔۔ یہ منہ اور مسور کی دال والا محاورہ اب ہوا پرانا۔ اب تو دال کے دام بھی ہڑتال کے لئے کافی ہیں۔ چنے کالے ہوں یا سفید، مہنگائی براستہ چنے۔ عوام کو ناکوں چنے چبوا رہی ہے۔ دال ماش کا ریٹ سن کر جہاں عام آدمی ''کاش'' بول اٹھتا ہے وہیں مونگ بھی اب صرف عوام کے سینے پر ہی دلی جا رہی ہے۔



گوشت تو ہوش اڑانے کے لئے ہی کافی ہے۔ چکن کی قیمت کو پر لگے ہیں تو مٹن کے دام بھی اتنے اونچے ہیں کہ آسمان کو بھی باتیں کرنے کے لئے تھوڑا اور اوپر جانا پڑتا ہے۔ بڑا گوشت کا ریٹ تو بڑا ہے ہی لیکن خریدنے سے پہلے گدھے کی تصویر جانے کیوں ذہن میں آتی ہے؟

مہنگائی کے تیز مصالحے نے بھی عوام کو سی سی کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور مرچوں کی قیمت سن کر جہاں مرچیں لگتی ہیں تو وہیں جائفل بھی رائفل کی طرح محسوس ہے۔

اپنی دہی کو تو کوئی کھٹا نہیں کہتا لیکن دہی کے دام نےدانت کھٹے ضرور کردیے ہیں۔۔ سرکار دودھ کی نہریں بنانے کے لاکھ دعوے کرے لیکن یہاں دودھ کا برتن بھرنے کے لئے بھی ''پانی بھرنا'' پڑتا ہے۔۔ مہنگائی نے تو چینی کی مٹھاس بھی چھین لی ہے اور عوام صبر کے کڑوے گھونٹ پینے پر مجبور ہیں۔۔

مسئلہ ہے کہاں؟ کیا مہنگائی کا جن صرف رمضان سے پہلے ہی بے قابو ہوتا ہے، یا ذخیرہ اندوز ہر بار موقع دیکھ کر چوکا مارتے ہیں؟ بات کوئی بھی ہو۔۔ اصل ذمہ داری ضلعی انتظامیہ کی ہے جن کا کام نہ صرف زخیرہ اندوزی کرنے والی کالی بھیڑوں کو پکڑنا ہے بلکہ کھانے پینے کی چیزوں کے دام مقرر کرنے کے بعد ان پر عملدرآمد بھی کرانا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کا ہی فرض ہے کہ پھلوں، سبزیوں اور دیگر اشیائے خورونوش کے فکس دام اور معیار پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنائیں۔ ناجائز منافع خوری کو روکنے کے لئے اگر ضلعی انتظامیہ میں ٹھوس اقدامات کرنے کی اہلیت نہیں تو کم از کم رمضان سے پہلے آنے والے مہنگائی کے طوفان کے آگے ہی دیوار بن جائیں تاکہ عوام رمضان جیسا مذہبی فریضہ معاشی زنجیروں سے آزاد ہوکر ادا کرسکیں۔

حکومت اگر رمضان سے پہلے سیلز کے اسٹال لگانے جیسی مثالی مغربی روایت سے کچھ سیکھ نہیں سکتی تو کم از کم رمضان بازار سے چور بازاری اور ناجائز منافع خوری ہی ختم کرا دے۔اور ان پس پردہ ذخیرہ اندوزوں تک ہی پہنچ جائے جو عوام کی ضروریات عوام سے ہی دور رکھتے ہیں۔ لیکن سوال تو یہی اُٹھتا ہے کہ کیا ذخیرہ اندوز قانون کی پہنچ سےدور ہی رہیں گے؟ وہ وقت کب آئے گا جب ہمارے مذہبی تہواروں پر ہمیں اپنے ہی ملک میں ریلیف ملے گا؟

[poll id="483"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story