درہ آدم خیل میں خود کش حملہ
دہشت گردوں نے سوات میں بھی حکومت اور ریاست پاکستان کے حامیوں کو چن چن کر قتل کیا تھا۔
خیبر پختونخوا کے شہر کوہاٹ سے متصل قبائلی علاقے درہ آدم خیل کے بازار میں امن لشکر کے دفتر پر خود کش حملے سے 18 افراد جاں بحق اور 40 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔
یہ خود کش حملہ ہفتے کو کیا گیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ایک خود کش حملہ آور نے بارود سے بھری ہوئی گاڑی کو بازار میں واقع قبائلی امن لشکر کے مرکزی دفتر سے ٹکرا دیا۔ اس دھماکے سے انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ 20 سے زائد دکانیں بھی تباہ ہوگئیں جب کہ 11 گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔ اس سانحے سے یہی لگتا ہے کہ خود کش حملہ آور کا ٹارگٹ امن لشکر کا دفتر ہی تھا اور یوں وہ اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے بھی اسی جانب اشارہ کیا ہے۔ امن لشکر کے دفتر کو نشانہ بنانے کا مقصد یہی ہے کہ حکومت کے حامی قبائلیوں کو خوفزدہ کیا جائے۔
دہشت گردوں نے سوات میں بھی حکومت اور ریاست پاکستان کے حامیوں کو چن چن کر قتل کیا تھا۔ جنوبی وزیرستان میں بھی بیت اﷲ محسود نے یہی پالیسی اختیار کیے رکھی۔ وہاں بھی قبائلی ملک اور مُشران کو قتل کیا گیا۔ اس پالیسی سے عوام خوفزدہ ہو جاتے ہیں جب کہ حکومت کے حامی اول تو علاقے سے نکل جاتے ہیں یا خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوتا ہے جب ریاستی سسٹم کمزور ہوجائے اور وہ عوام کو تحفظ دینے میں ناکام ہو جاتا ہے۔
دہشت گرد جن علاقوں میں ابھرے یا انھوں نے وہاں کنٹرول حاصل کیا، اس کے بارے میں کوئی ریاستی رپورٹ سامنے نہیں آئی جس سے یہ پتہ چلتا کہ وہاں حکومتی نظام کیوں ناکام ہوا؟ اب تک ہوتا یہ آ رہا ہے کہ ہر سانحے کے بعد ارباب اختیار کی جانب سے مذمتی بیانات جاری ہوتے ہیں، سانحہ درہ آدم خیل کے بعد بھی پاکستان کے صدر آصف زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے روایتی انداز میں اس حملے کی مذمت کی اور دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کیا۔ ادھر وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے واقعے کی تحقیقات کے لیے صوبائی حکومت سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف، اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ ، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے بھی درہ آدم خیل میں خود کش دھماکے کی مذمت کی۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اس قسم کے مذمتی بیانات اس مسئلے کا حل ہے؟کیا درہ آدم خیل میں جو واقعہ ہوا، یہ کوئی ناگہانی حادثہ ہے؟ پاکستان کے ارباب اختیار کی یہ روایت بن گئی ہے کہ کوئی ٹریفک حادثہ ہو، کہیں آتشزدگی ہو جائے یا دہشت گردی، ان سب کے بارے میں ایک رٹا رٹایا مذمتی یا تعزیتی بیان جاری کر دیا جاتا ہے جو عام طور پر ان کے پی آر او صاحبان جاری کر دیتے ہیں۔ ایک بیان جاری کرنے بعد سب کچھ معمول کے مطابق جاری رہتا ہے۔
ادھر کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے درہ آدم خیل خود کش حملہ سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اخبارات میں تحریک طالبان درہ آدم خیل و خیبر ایجنسی کے ترجمان کے حوالے سے یہ بیان شایع ہوا ہے کہ ہفتے کو ہونے والا خود کش حملہ تحریک طالبان کی طرف سے نہیں کیا گیا۔ ترجمان کی طرف سے خود کش حملہ کی مذمت اور جاں بحق ہونے والے بے گناہ افراد کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تحریک طالبان کی طرف سے بے گناہ افراد کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب تک امریکا افغانستان سے نہیں نکلتا، طالبان کی طرف سے امریکا اور امریکا کے ایجنٹوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اب اس حوالے سے کچھ کہنا بھی ماضی کو دہرانے کے مترادف ہے۔ ہر خود کش حملے یا بم دھماکے میں بے گناہ افراد ہی مرتے ہیں۔ تحریک طالبان کسی واقعے کی ذمے داری قبول کر لیتی ہے اور کسی کے بارے میں ذمے داری قبول نہیں کی جاتی ہے۔ اس بارے میں اب کوئی دو رائے نہیں کہ کالعدم تحریک طالبان وطن عزیز میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ اس کے کئی لیڈر مارے جا چکے ہیں اور اب بھی وہ پاکستان میں دہشت گردی' بم دھماکوں' خود کش حملوں اور دوسری تخریبی کارروائیوں کی ذمے دار ہے۔ اس کے علاوہ چند اور تنظیمیں بھی ہیں جو فرقہ واریت کے حوالے سے ملک و قوم کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں۔
یہ انتہا پسند تنظیمیں بندوق کے زور پر اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے مذہب کو ہتھیار بنا رکھا ہے۔ برطانیہ کے معروف جریدے 'اکنامسٹ' نے بھی اپنی تازہ اشاعت میں لکھا ہے کہ درحقیقت طالبان کا واضح ایجنڈا پاکستان پر قبضہ کرنا ہے۔ اکنامسٹ نے اعداد و شمار کے حوالے سے کہا کہ 2004ء سے ڈرون حملوں میں کل 3200 افراد جاں بحق ہوئے، ان میں بے گناہوں کے علاوہ عسکریت پسند بھی ہوں جب کہ 2003ء سے دہشت گردوں نے14427 بے گناہ پاکستانی شہریوں کو شہید کیا' 4670 پاک فوج کے جوان اور پولیس اہلکاروں کو شہید کیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کو مین اسٹریم سے الگ کیا جائے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کو واضح' غیر مبہم اور دو ٹوک پالیسی اختیار کرنی چاہیے کہ وہ امریکا اور یورپ کے ساتھ کس قسم کے تعلقات چاہتے ہیں۔
عوام کو بتایا جائے کہ امریکا اور پاکستان کے مفادات کا ٹکراو کہاں ہے؟ کسی بندوق بردار گروہ کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ریاست کو ڈکٹیٹ کرے کہ اسے کس سے تعلقات رکھنے ہیں اور کس سے لڑائی کرنی ہے۔ طالبان ہوں یا کوئی اور گروہ یا تنظیمیں،جو بھی ریاست اور عوام کے مفادات کے خلاف کام کر رہے ہوں، انھیں جڑ سے اکھاڑنا ہی ملک کی بقا کا ضامن ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کا تعین بھی ہونا چاہیے تا کہ ان دو ریاستوں کے درمیان تعلقات کار کا تعین ہو سکے۔ یہ عالمی حقیقت ہے کہ جن ممالک کی سرحدیں ہر کسی کے لیے کھلی ہوں، وہاں امن قائم کرنا ممکن نہیں ہوتا، پاکستان کے پالیسی سازوں کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اس ملک کو اپنا سمجھتے ہیں۔ جب تک پاکستان کے پالیسی ساز اس معاملے میں کلیئر نہیں ہوتے' اس خطے کے حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔
یہ خود کش حملہ ہفتے کو کیا گیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ایک خود کش حملہ آور نے بارود سے بھری ہوئی گاڑی کو بازار میں واقع قبائلی امن لشکر کے مرکزی دفتر سے ٹکرا دیا۔ اس دھماکے سے انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ 20 سے زائد دکانیں بھی تباہ ہوگئیں جب کہ 11 گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔ اس سانحے سے یہی لگتا ہے کہ خود کش حملہ آور کا ٹارگٹ امن لشکر کا دفتر ہی تھا اور یوں وہ اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے بھی اسی جانب اشارہ کیا ہے۔ امن لشکر کے دفتر کو نشانہ بنانے کا مقصد یہی ہے کہ حکومت کے حامی قبائلیوں کو خوفزدہ کیا جائے۔
دہشت گردوں نے سوات میں بھی حکومت اور ریاست پاکستان کے حامیوں کو چن چن کر قتل کیا تھا۔ جنوبی وزیرستان میں بھی بیت اﷲ محسود نے یہی پالیسی اختیار کیے رکھی۔ وہاں بھی قبائلی ملک اور مُشران کو قتل کیا گیا۔ اس پالیسی سے عوام خوفزدہ ہو جاتے ہیں جب کہ حکومت کے حامی اول تو علاقے سے نکل جاتے ہیں یا خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوتا ہے جب ریاستی سسٹم کمزور ہوجائے اور وہ عوام کو تحفظ دینے میں ناکام ہو جاتا ہے۔
دہشت گرد جن علاقوں میں ابھرے یا انھوں نے وہاں کنٹرول حاصل کیا، اس کے بارے میں کوئی ریاستی رپورٹ سامنے نہیں آئی جس سے یہ پتہ چلتا کہ وہاں حکومتی نظام کیوں ناکام ہوا؟ اب تک ہوتا یہ آ رہا ہے کہ ہر سانحے کے بعد ارباب اختیار کی جانب سے مذمتی بیانات جاری ہوتے ہیں، سانحہ درہ آدم خیل کے بعد بھی پاکستان کے صدر آصف زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے روایتی انداز میں اس حملے کی مذمت کی اور دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کیا۔ ادھر وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے واقعے کی تحقیقات کے لیے صوبائی حکومت سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف، اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ ، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے بھی درہ آدم خیل میں خود کش دھماکے کی مذمت کی۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اس قسم کے مذمتی بیانات اس مسئلے کا حل ہے؟کیا درہ آدم خیل میں جو واقعہ ہوا، یہ کوئی ناگہانی حادثہ ہے؟ پاکستان کے ارباب اختیار کی یہ روایت بن گئی ہے کہ کوئی ٹریفک حادثہ ہو، کہیں آتشزدگی ہو جائے یا دہشت گردی، ان سب کے بارے میں ایک رٹا رٹایا مذمتی یا تعزیتی بیان جاری کر دیا جاتا ہے جو عام طور پر ان کے پی آر او صاحبان جاری کر دیتے ہیں۔ ایک بیان جاری کرنے بعد سب کچھ معمول کے مطابق جاری رہتا ہے۔
ادھر کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے درہ آدم خیل خود کش حملہ سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اخبارات میں تحریک طالبان درہ آدم خیل و خیبر ایجنسی کے ترجمان کے حوالے سے یہ بیان شایع ہوا ہے کہ ہفتے کو ہونے والا خود کش حملہ تحریک طالبان کی طرف سے نہیں کیا گیا۔ ترجمان کی طرف سے خود کش حملہ کی مذمت اور جاں بحق ہونے والے بے گناہ افراد کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تحریک طالبان کی طرف سے بے گناہ افراد کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب تک امریکا افغانستان سے نہیں نکلتا، طالبان کی طرف سے امریکا اور امریکا کے ایجنٹوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اب اس حوالے سے کچھ کہنا بھی ماضی کو دہرانے کے مترادف ہے۔ ہر خود کش حملے یا بم دھماکے میں بے گناہ افراد ہی مرتے ہیں۔ تحریک طالبان کسی واقعے کی ذمے داری قبول کر لیتی ہے اور کسی کے بارے میں ذمے داری قبول نہیں کی جاتی ہے۔ اس بارے میں اب کوئی دو رائے نہیں کہ کالعدم تحریک طالبان وطن عزیز میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ اس کے کئی لیڈر مارے جا چکے ہیں اور اب بھی وہ پاکستان میں دہشت گردی' بم دھماکوں' خود کش حملوں اور دوسری تخریبی کارروائیوں کی ذمے دار ہے۔ اس کے علاوہ چند اور تنظیمیں بھی ہیں جو فرقہ واریت کے حوالے سے ملک و قوم کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں۔
یہ انتہا پسند تنظیمیں بندوق کے زور پر اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے مذہب کو ہتھیار بنا رکھا ہے۔ برطانیہ کے معروف جریدے 'اکنامسٹ' نے بھی اپنی تازہ اشاعت میں لکھا ہے کہ درحقیقت طالبان کا واضح ایجنڈا پاکستان پر قبضہ کرنا ہے۔ اکنامسٹ نے اعداد و شمار کے حوالے سے کہا کہ 2004ء سے ڈرون حملوں میں کل 3200 افراد جاں بحق ہوئے، ان میں بے گناہوں کے علاوہ عسکریت پسند بھی ہوں جب کہ 2003ء سے دہشت گردوں نے14427 بے گناہ پاکستانی شہریوں کو شہید کیا' 4670 پاک فوج کے جوان اور پولیس اہلکاروں کو شہید کیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کو مین اسٹریم سے الگ کیا جائے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کو واضح' غیر مبہم اور دو ٹوک پالیسی اختیار کرنی چاہیے کہ وہ امریکا اور یورپ کے ساتھ کس قسم کے تعلقات چاہتے ہیں۔
عوام کو بتایا جائے کہ امریکا اور پاکستان کے مفادات کا ٹکراو کہاں ہے؟ کسی بندوق بردار گروہ کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ریاست کو ڈکٹیٹ کرے کہ اسے کس سے تعلقات رکھنے ہیں اور کس سے لڑائی کرنی ہے۔ طالبان ہوں یا کوئی اور گروہ یا تنظیمیں،جو بھی ریاست اور عوام کے مفادات کے خلاف کام کر رہے ہوں، انھیں جڑ سے اکھاڑنا ہی ملک کی بقا کا ضامن ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کا تعین بھی ہونا چاہیے تا کہ ان دو ریاستوں کے درمیان تعلقات کار کا تعین ہو سکے۔ یہ عالمی حقیقت ہے کہ جن ممالک کی سرحدیں ہر کسی کے لیے کھلی ہوں، وہاں امن قائم کرنا ممکن نہیں ہوتا، پاکستان کے پالیسی سازوں کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اس ملک کو اپنا سمجھتے ہیں۔ جب تک پاکستان کے پالیسی ساز اس معاملے میں کلیئر نہیں ہوتے' اس خطے کے حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔