بھارت کی آبی جارحیتزمینیں بنجر ہونے کا خطرہ

پاکستان کو ملنے والا 55 ہزار کیوسک پانی کم کر کے 10739 کیوسک تک محدود کر دیا گیا ہے


Editorial June 16, 2015
اب پاکستانی دریاؤں میں بہنے والے پانی میں مزید کمی بھارت کی ایک اور جارحیت ہے۔ فوٹو : فائل

جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت وہ ممالک ہیں جن کے باہمی تنازعات کئی بار اعلیٰ سطح پر مذاکرات کے باوجود ابھی تک ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں مزید الجھاؤ اور پیچیدگی پیدا ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اب تو بھارت میں برسراقتدار آنے والی انتہاپسند مودی حکومت کی سوچ اور رویے میں پاکستان کے بارے میں شدت اور تلخی نمایاں دکھائی دے رہی ہے۔

اٹل بہاری واجبائی کی حکومت بھی انتہاپسند تھی مگر واجپائی ایک منجھے ہوئے اور حالات پر گہری نظر رکھنے والے سیاست دان ثابت ہوئے۔ انھوں نے پاکستان کے ساتھ مخالفانہ فضا قائم کرنے کے بجائے دوستانہ تعلقات کو ترجیح دی حتیٰ کہ وہ امن مذاکرات کے لیے پاکستان بھی تشریف لائے مگر موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی سوچ ایک انتہاپسند کارکن سے آگے بڑھتی ہوئی نظر نہیں آتی۔

انھوں نے خطے میں امن کی فضا قائم کرنے اور باہمی تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے بجائے مخالفانہ اور شدت پسندانہ رویے کو آگے بڑھایا یہاں تک کہ برسراقتدار آنے کے بعد انھوں نے سرحدوں پر فائرنگ اور گولہ باری شروع کرا کے کشیدگی کو ہوا دی۔ اب اخباری اطلاعات کے مطابق بھارت نے پاکستان دشمنی کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔

دہشت گرد پاکستان میں بھجوانے کے ساتھ ساتھ اب اس نے آبی جارحیت کا بھی زورشور سے آغاز کر دیا ہے۔ پاکستان کو ملنے والا 55 ہزار کیوسک پانی کم کر کے 10739 کیوسک تک محدود کر دیا گیا ہے جس سے پاکستان کی 405 نہریں اور 1125 آبی گزرگاہیں ڈیڈلیول تک پہنچ گئیں اور اس کے نتیجے میں ایک کروڑ 30 لاکھ ایکڑ زرعی زمین شدید متاثر ہوئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال خریف کی فصل کے موقع پر دریائے سندھ میں 30 فیصد اور دریائے جہلم میں 20 فیصد تک پانی کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعات کے حل کے لیے متعدد بار انڈس واٹر کمشنر مذاکرات ہوئے۔ گزشتہ سال اگست میں بھی لاہور میں مذاکرات ہوئے جس میں دونوں ممالک کے دس دس ارکان نے حصہ لیا۔

اجلاس میں متنازع آبی ذخائر کے ڈیزائن پر بات چیت کی گئی، اس موقع پر پاکستان نے رتلے اور کشن گنگا ڈیم کے ڈیزائنوں پر شدید تحفظات ظاہر کیے اور کہا کہ وہ آبی تنازعات کا جلد ازجلد حل چاہتا ہے اور واضح کر دیا کہ آبی تنازعات باہمی طور پر حل نہ ہوئے تو وہ عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ بھارت نے کشن گنگا ڈیم اور رتلے ڈیم پر پاکستانی اعتراضات کو یکسر مسترد کر دیا۔

بھارت نے پاکستانی اعتراضات کو کبھی اہمیت نہیں دی، آبی تنازعات کے حل کے لیے ہونے والے مذاکرات ہمیشہ اس کی ہٹ دھرمی کے باعث ناکام ہوئے نتیجتاً مسئلہ جوں کا توں چلا آ رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق بھارتی حکومت بخوبی جانتی ہے کہ پاکستانی حکومت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور عالمی سطح پر بھی بڑی قوتیں بھارت کی جانب زیادہ جھکاؤ رکھتی ہیں۔

لہٰذا وہ اپنی من مرضی کرتے ہوئے بڑی تیزی سے پاکستان کے لیے آبی مسائل پیدا کر رہا ہے۔ اگر وہ کشمیر سے آنے والے پانی کی مقدار میں خاطرخواہ کمی کر دیتا ہے تو اس سے پاکستان میں کروڑوں ایکڑ زرعی زمین متاثر ہونے سے زراعت کو شدید نقصان پہنچے گا اور پاکستان جو پہلے ہی بہت سے چیلنجز سے نمٹ رہا ہے مزید مسائل کا شکار ہو جائے گا۔ بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ زرعی زمینیں بنجر ہونے سے پاکستان میں خوراک کا شدید بحران پیدا ہو جائے گا اور اسے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے خوراک باہر سے درآمد کرنا پڑے گی جس پر اس کی خطیر رقم صرف ہو گی اور وہ مزید معاشی دباؤ میں آ جائے گا۔

اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیرملکی قوتیں بالخصوص بھارت پاکستان کو دباؤ میں لا کر من مرضی کے فیصلے کرانے پر مجبور کر سکتا ہے۔ پاکستانی حکومت کو اس مسئلے پر ابھی سے غور کرنا چاہیے اور روایتی تساہل پسندی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے عالمی سطح پر پوری قوت سے بھارت کی اس آبی جارحیت اور دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانا چاہیے۔

بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت نے عالمی سطح پر کبھی بھارت کی جارحیت کے خلاف مضبوط آواز نہیں اٹھائی۔ گزشتہ دنوں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ڈھاکا یونیورسٹی میں علی الاعلان پاکستان توڑنے میں اپنے اور بھارتی فوج کے کردار کا ذکر کیا۔ اس حوالے سے بھی عالمی سطح پر کچھ نہیں کیا گیا۔

اب پاکستانی دریاؤں میں بہنے والے پانی میں مزید کمی بھارت کی ایک اور جارحیت ہے۔ اگر واقعی بھارت نے ایسا کیا ہے تو پھر پاکستان کو اس پر خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ پانی پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان کو بنجر بنا دے۔ پاکستان کو آبی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہرممکن اقدامات کرنے چاہئیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں