خصوصی توجہ کا مستحق تعلیم کا شعبہ

سندھ میں 2010 تک ان گود لیے گئے اسکولوں کی کل تعداد 165 تھی جن میں سے غالب اکثریت کراچی میں واقع تھی۔


Shakeel Farooqi June 16, 2015
[email protected]

پاکستان کو اس وقت توانائی، سیکیورٹی اور معاشرتی و معاشی شعبوں میں انتہائی پیچیدہ اور سنگین ترین مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ہمارے قائدین اس حوالے سے تعلیم کی اہمیت کو پہچانیں۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ترقی صرف ان ہی اقوام کا مقدر بنی ہے جنھوں نے تعلیم کی اہمیت اور افادیت کو دل سے تسلیم کیا ہے۔ جب ہم اپنا موازنہ دنیا کے دیگر ممالک سے کرتے ہیں تو ہمیں اپنی تعلیمی حالت کو دیکھ کر بڑی شرم محسوس ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر بھوٹان جیسا چھوٹا سا ملک تعلیم پر اپنے جی ڈی پی کا 5 فیصد خرچ کرتا ہے جب کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں یہ شرح 3.8 فیصد ہے۔ مغربی ممالک میں یہ شرح 5 فیصد سے بھی زیادہ ہے جب کہ اسکینڈی نیویائی ممالک خواندگی کی شرح کے حوالے سے دنیا کے بہترین ملکوں میں شمار کیے جاتے ہیں جہاں تعلیم پر جی ڈی پی کے 6 فیصد سے بھی زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارے ملک میں تعلیم پر جی ڈی پی کا صرف 2 فیصد خرچ کیا جاتا ہے جو مجرمانہ اور شرمناک حد تک انتہائی کم شرح ہے۔

اس موقع پر ہمیں ملائیشیا کے عظیم اور نامور قائد ڈاکٹر مہاتیر محمد یاد آ رہے ہیں جنھوں نے اپنے ملک کے سالانہ بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے 30 فیصد رقم مختص کرکے اس کی کایا ہی پلٹ دی۔ ہمارے قائدین کو بھی یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک تعلیم کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جائے گا اور لازمی تعلیم کا 100 فیصد نفاذ نہیں ہوگا اس وقت تک یہ ملک ترقی کی شاہراہ پر دنیا کے دیگر ممالک کے برابر نہیں آسکے گا۔

یونیسکو کے زیر قیادت ''تعلیم سب کے لیے '' کی تحریک کی جانب سے پیش کی جانے والی سفارش کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے جی ڈی پی کا کم سے کم 4-6 فیصد تعلیم کے لیے مختص کرے اور اپنے بجٹ کا 15 سے 20 فیصد تعلیم پر خرچ کرے۔جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک نہ تو تعلیم عام ہوگی اور نہ ہی خواندگی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہوسکے گا۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اس معاملے میں کوئی خاص پیش رفت ابھی تک کیوں نہیں ہوسکی۔ اس کا جواب بڑا سیدھا سادہ اور آسان ہے اور وہ یہ کہ ہماری اب تک کی حکومتیں اس کام میں مخلص نہیں تھیں۔ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم ٹیکسوں کے ذریعے سے اپنے جی ڈی پی کا بمشکل 10 فیصد ہی وصول کر پائے ہیں اور ہمارے بجٹ میں اکثر خسارہ ہی رہتا ہے۔

ہمارے یہاں Zero Based Budgeting کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس کے برعکس ہم نے Incremental Budgeting کا طریقہ اختیار کر رکھا ہے۔ ہم صرف اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ گزشتہ سال ہم نے ہر شعبے پر کتنا خرچ کیا تھا اور پھر اگلے بجٹ میں ہم اسی لحاظ سے کچھ نہ کچھ اضافہ کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا اصول بھی رائج ہے۔

جس وزارت کے کرتا دھرتا جتنے تگڑے اور با رسوخ ہوتے ہیں وہ اپنے لیے بجٹ میں اتنا ہی زیادہ حصہ بٹورنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ہمارے ماہرین تعلیم کی سفارش ہے کہ قومی تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کرکے حکومت تعلیم کو لازمی قرار دے دے۔ ان کی یہ سفارش بھی ہے کہ تعلیم کے شعبے کے بجٹ میں اضافے کو ممکن بنانے کے لیے بعض دیگر شعبوں کے بجٹوں میں مطلوبہ حد تک کٹوتی کردی جائے کیونکہ تیل تو تِلوں میں سے ہی نکالا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کو بھی اپنی اپنی پالیسیاں تبدیل کرنی چاہئیں۔

پاکستان کا آئین تعلیم کے فروغ کا واضح طور پر تقاضا کرتا ہے اور اس معاملے میں ہونے والی کوتاہی آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ مگر افسوس ہماری کسی بھی حکومت نے اس حوالے سے اپنی ذمے داری کو سنجیدگی کے ساتھ محسوس ہی نہیں کیا اور اب تک جو کچھ بھی ہوا وہ زیادہ تر لفاظی اور بیان بازی تک ہی محدود رہا۔ رہی بات تعلیم کے شعبے کے لیے 4 فیصد مختص کرنے کی تو یہ بات اس وقت تک ممکن نظر نہیں آتی جب تک ہمارے ٹیکس وصولی کے نظام میں انقلابی تبدیلی نہیں آجاتی۔

جب تک ٹیکس چوروں کی گرفت نہیں ہوگی اور ٹیکس نیٹ کو وسیع نہیں کیا جائے گا اس وقت تک حالات میں تبدیلی نہیں ہوگی اور تعلیم کے لیے بجٹ میں مطلوبہ حد تک رقم مختص نہیں کی جاسکے گی۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ تعلیم کے لیے مختص 2فیصد کا بھی کتنا حصہ واقعتاً تعلیم پر خرچ ہوتا ہے؟ بغور مشاہدہ کرنے کے بعد جو صورتحال ہمارے سامنے آتی ہے وہ بھی بڑی بھیانک اور پریشان کن ہے۔ تعلیم کے لیے مختص2 فیصد کا بیشتر حصہ تنخواہوں، مینٹینینس اور متفرق اخراجات کی نذر ہوجاتا ہے۔ ٹوٹ پھوٹ اور مرمت وغیرہ پر آنے والے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ اور اس میں سے جو رقم کرپشن کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے اس کا تو تذکرہ ہی نہ کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔

بس معاملہ یہ ہے کہ ''ننگی نہائے کیا اور نچوڑے کیا۔'' ہمارے یہاں گھوسٹ اسکولوں کی خبریں اکثر منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ ان خبروں کے آنے کے بعد چند روز تک شور و ہنگامہ بھی ہوتا ہے اور پھر حسب معمول سارا معاملہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ نہ کسی انکوائری کا نتیجہ سامنے آتا ہے اور نہ کسی ذمے دار کو قرار واقعی سزا ملتی ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک میں پرائمری تعلیم کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ زینے کی پہلی سیڑھی یہی ہے۔ کہنے کی حد تک ہمارے یہاں بھی ایسا ہی ہے مگر عملاً صورتحال اس سے مختلف ہے۔ آپ اسکول سے متعلق اعداد و شمار پر نظر ڈالیں گے تو اصل تصویر واضح ہونا شروع ہوجائے گی۔ ہمارے بیشتر پرائمری اسکول مجرمانہ غفلت اور عدم توجہی کا شکار ہیں جس کا اندازہ اس بات سے باآسانی اور بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اکثر اسکول فرنیچر سے محروم ہیں اور اساتذہ کی تعداد بھی طلبا کی تعداد کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

زیادہ تر سرکاری اسکولوں کی عمارتیں بوسیدہ اور خستہ حالت میں ہیں جس کی وجہ سے طالب علموں کو آسمان تلے ہی بیٹھنا پڑتا ہے اور نتیجتاً موسموں کی سختیاں جھیلنا پڑتی ہیں۔ ہم نے ایسے اسکول بھی دیکھے ہیں جن کے کمروں کی چھتیں بھی غائب ہیں۔ بعض اسکول تو اس حد تک لاوارث ہیں کہ وہاں نہ تو بیت الخلا کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی پینے کے صاف پانی کا بندوبست۔ ان اسکولوں کی حالت جیل خانوں سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ہمارے صوبہ سندھ میں تو تعلیم کا حال اور بھی برا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسکولوں کو گود لینے کا نظام متعارف کرایا گیا جس کا سہرا عظیم ماہر تعلیم پروفیسر انیتا غلام علی (مرحومہ)کے سر ہے جنھوں نے 1990 کی دہائی میں اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کا بیڑا اٹھایا تھا۔

سندھ میں 2010 تک ان گود لیے گئے اسکولوں کی کل تعداد 165 تھی جن میں سے غالب اکثریت کراچی میں واقع تھی۔ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی سربراہ محترمہ ناہید درانی نے اپنی ذاتی دلچسپی اور کاوشوں سے پروفیسر انیتا غلام علی کے لگائے ہوئے پودے کی آبیاری کا فریضہ ادا کرتے ہوئے اسکولوں کو گود لینے کی ایک باقاعدہ پالیسی وضع کی جس کے ذریعے تمام اسٹیک ہولڈرز کی ذمے داریوں کا تعین کیا گیا۔

اس بات کا کریڈٹ بھی ان ہی کو جاتا ہے کہ اسکولوں کو گود لینے کا طریقہ اب آسان بھی ہوگیا ہے اور پہلے کے مقابلے میں اب اس میں بہت زیادہ وقت بھی نہیں لگتا۔ ہمارے تعلیم کے محکمے کو چاہیے کہ وہ اسکولوں کو گود لینے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے اس کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کرے کیونکہ اس سے اس کے کندھوں پر سے ذمے داریوں کے بوجھ میں کمی آئے گی۔ دوسری جانب اسکولوں کو گود لینے والوں پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ اسکول کی ٹیپ ٹاپ سے زیادہ اسکول کے تعلیمی ماحول کی بہتری پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔