جشن تعلیم
پنجاب کے اضلاع، بالخصوص صوبے کا شمالی حصہ تعلیمی منظر نامے پر نمایاں نہیں۔
گزشتہ دنوں الف اعلان نے وومن ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن پاکستان اور لیاری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے اشتراک سے گورنمنٹ بلوچ سیکنڈری اینڈ پرائمری اسکول (کلاکوٹ، لیاری) میں جشن تعلیم کا انعقاد کیا۔اس کانفرنس کا مقصد طلبا وطالبات، والدین اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرنا، سرکاری نظام تعلیم کو بہتر بنانا اوراسکولوں میں داخلہ مہم کو کامیاب بنانا تھا۔کانفرنس میں طلبا وطالبات نے رنگا رنگ خاکے پیش کیے اور تعلیم کی اہمیت کو اجاگرکیا۔
طلبا نے شہدائے آرمی پبلک اسکول کو بھی خراج عقیدت پیش کیا۔ اے ڈی او پرائمری ایجوکیشن گل محمد خاص خیلی نے اس موقعے پر الف اعلان کی کاوشوں کو سراہا اورعہدکیا کہ لیاری میں ہر بچے کو اسکول میں داخل کروائیں گے۔الف اعلان کے نیٹ ورک کوآرڈی نیٹر عندیل علی نے طلبا وطالبات، والدین اوراساتذہ کے درمیان ایک سیر حاصل فکری نشست کا انعقادکیا جس کا مقصد نظام تعلیم میں موجود مسائل کو تلاش کرنا اور ان کا حل تجویز کرنا تھا۔
وومن ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن پاکستان کی چیئرپرسن صبیحہ شاہ نے پاکستان خاص طور پر سماجی و معاشی اعتبار سے زبوں حال لیاری میں تعلیم کی ترقی میں نوجوانوں کے کردار پر روشنی ڈالی۔ عائلہ اریبہ واجد نے تعلیم اور شخصیت سازی پر لب کشائی کی۔ بلوچ سیکنڈری اسکول کے ہیڈ ماسٹر ڈاکٹر شفیق الرحمن اور بلوچ پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر آفتاب احمد نے امتحانات میں بہترین کارکردگی دکھانے والے طلبا و طالبات میں شیلڈ و انعامات تقسیم کیے۔ بلوچ پرائمری اسکول کے مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین شبیر احمد ارمان نے معزز شرکا کا شکریہ ادا کیا کہ جن کی بدولت لیاری میں تعلیم کی اہمیت و افادیت پر اتنی بہترین تقریب ممکن ہوسکی۔
اساتذہ اور والدین نے الف اعلان کی اس کاوش کو بہت سراہا، ان کا کہنا تھا کہ لیاری ایک محنت کشوں کا پروقار علاقہ ہے ایسی صحت مند کاوشیں اس علاقے کا وقار بحال کرنے میں معاون ثابت ہوں گی۔ طلبا و طالبات جوکہ تعلیم کی مفلوک الحالی پر نالاں تھے اس پروگرام میں شرکت کے بعد اپنے اسکول اور پروگرام کے میزبانوں پر نازاں تھے کہ آج ان کا اسکول بھی بہترین معیار پر چل رہا ہے۔
پروگرام میں شریک سول سوسائٹی کی شخصیات عابد حسین بروہی، حبیب حسن، شاہد بلوچ، شکور شاد، سعید بلوچ، داد رحیم، گلاب اور دیگر شامل تھے۔ اس تعلیمی کانفرنس میں اس تلخ سچائی کا ادراک کیا گیا کہ آج پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں لیاری میں بھی حالات کی ستم ظریفی کے باعث بہت سے اسکول بند ہوگئے تھے، لیکن آج وہ عہد کرتے ہیں کہ ان بچوں کو ہر صورت اسکولوں تک لائیں گے اور لیاری کے اسکولوں کو فعال بنائیں گے۔
واضح رہے کہ تعلیمی تنظیم ''الف اعلان'' پاکستان ضلع تعلیمی درجہ بندی SDPI 2014 اور الف اعلان کی شراکت سے تشکیل دی گئی ہیں جو ضلع سطح پر تعلیمی کارکردگی کا موازنہ کرنے اور اسکولوں میں دستیاب سہولتوں کے معیار کا جائزہ لینے کی ایک کاوش ہے۔
درجہ بندی کے مقاصد ، پاکستان میں تعلیمی معیار کو جانچنے اور تقابلی جائزے کے لیے ایک ایسا جامع پیمانہ تشکیل دینا جو تعلیم کے بنیادی پہلو جیسا کہ رسائی، معیار، صنفی برابری اور اسکولوں میں دستیاب سہولتوں کا احاطہ کرسکے۔ اس پیمانے کے ذریعے ملک کے مختلف حصوں کی تعلیمی کارکردگی کا موازنہ اور اضلاع اور صوبوں کے درمیان ایک صحت مندانہ مقابلے کی حوصلہ افزائی کرنا، ایک ہدف مقررکرنا جس کیمطابق مستقبل میں ضلعی سطح پر تعلیمی شعبے میں بہتری یا ابتری کو جانچا جاسکے۔
تعلیمی صورتحال کا تعین کرنا اور تعلیم کے لیے پالیسی سازی میں اعداد و شمار اور شواہد کی اہمیت سے متعلق آگاہی پیدا کرنا، اعداد وشمارکو استعمال میں لانے کی ترغیب دینا اور سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کو اعداد و شمار جمع کرنے کے دائرہ کار کو وسیع کرنے اور ان میں بہتری لانے کے لیے حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
الف اعلان کی رپورٹ ''پاکستان ضلع تعلیمی درجہ بندی 2014'' کیمطابق گزشتہ برس کی طرح بلوچستان کے اضلاع کی تعلیمی کارکردگی بدستور خراب رہی۔ صوبائی اسکور کے لحاظ سے دوسرے صوبوں اور علاقوں کے مقابلے میں بلوچستان نے تعلیمی اسکور میں سب سے زیادہ بہتری دکھائی (11.4فی صد پوائنٹ)۔ بلوچستان کے 30 میں سے صرف 17 اضلاع نے 50 سے زائد اسکور حاصل کیا ہے۔
بلوچستان کے سب سے اوپر کے درجے پر گوادر اور کوئٹہ ہیں جب کہ ڈیرہ بگٹی اور قلعہ عبداللہ صوبے میں سب سے کم اسکور حاصل کرنیوالے اضلاع ہیں۔ خیبرپختونخواہ صوبے میں سب سے بہتر کارکردگی دکھانے والے اضلاع ہری پور اور ایبٹ آباد کے ساتھ اب مالا کنڈ، مردان اور نوشہرہ بھی شامل ہوگئے ہیں، جن کی کارکردگی گزشتہ سال کے مقابلے میں خاصی بہتر ہوئی ہے۔ تاہم مجموعی طور پرگزشتہ سال متاثر کن کارکردگی دکھانے والے خیبرپختونخواہ کے اضلاع اس سال بہت اچھی کارکردگی پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ پچھلے سال کے اسکور کے مقابلے میں خیبر پختونخواہ کا مجموعی صوبائی تعلیمی اسکور 1.13 فیصد پوائنٹ نیچے آیا ہے۔
اس کے باوجود خیبرپختونخواہ کے 24 میں سے 22 اضلاع نے 50 سے زائد اسکور حاصل کیے ہیں جب کہ گزشتہ برس 24 میں سے 21 نے 50 سے زائد اسکور لیے تھے۔ خیبر پختونخواہ کے سب سے اوپر کے درجے پر رہنے والے اضلاع مالا کنڈ اور ہری پور ہیں۔ سب سے نچلے درجے پر رہنے والے اضلاع کوہستان اور شانگلہ ہیں۔
پنجاب کے اضلاع، بالخصوص صوبے کا شمالی حصہ تعلیمی منظر نامے پر نمایاں نہیں۔ پنجاب کے شمالی، وسطی اور جنوبی اضلاع بالترتیب درجہ بندی بدستور رہی ہیں۔ پنجاب کے تمام 36 اضلاع کا تعلیمی اسکور50 سے زائد رہا۔گزشتہ سال 36 میں سے 35 اضلاع 50 سے زائد اسکورکر پائے تھے۔ پنجاب کے سب سے اوپرکے درجوں پر رہنے والے اضلاع چکوال، راولپنڈی اور اٹک ہیں۔ سب سے نیچے کے درجنوں پر راجن پور، رحیم یار خان اور مظفرگڑھ کے اضلاع ہیں۔گزشتہ سال کے مقابلے میں صوبائی تعلیمی اسکور میں 10.42 فی صد پوائنٹ کی بہتری آئی ہے۔ سندھ کے معاملے میں صرف ایک ضلع کراچی ہی اوپری 50 درجوں میں شامل ہے۔
جب کہ حیدرآباد کا نمبر 53 واں رہا۔ گزشتہ سال سندھ کا ایک بھی ضلع پہلے 50 درجوں میں جگہ نہیں بناسکا تھا۔ سندھ کے 24 میں سے 18 اضلاع نے 50 سے زیادہ اسکور حاصل کیا جب کہ گزشتہ برس 30 میں سے صرف 8 اضلاع 50 سے زائد اسکور حاصل کر پائے تھے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجموعی کارکردگی میں بہتری آئی ہے تاہم پہلے 30 اضلاع میں سندھ کا ایک ضلع بھی شامل نہیں۔ ٹھٹھہ، میرپورخاص اور عمر کوٹ سندھ میں سب سے کم اسکور لینے والے اضلاع ہیں۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں سندھ کے صوبائی تعلیمی اسکور میں 11.32 فیصد پوائنٹ کی بہتری آئی ہے۔
اس طرح گزشتہ سال سے اب تک تین علاقوں کی درجہ بندیوں میں تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ پنجاب، آزاد جموں وکشمیر سے سبقت لے کر دوسرے درجے پر چلا گیا ہے۔ اسی طرح سندھ اور خیبر پختونخواہ نے بلوچستان اور فاٹا کے ساتھ بالترتیب اپنی پوزیشنوں کو تبدیل کیا ہے۔ سب سے زیادہ بہتری بلوچستان، سندھ اور پنجاب کی کارکردگی میں رونما ہوئی ہے اور ان میں سے ہر ایک صوبے نے صوبائی درجہ بندی میں ایک درجہ ترقی کی ہے۔آزاد جموں وکشمیر، فاٹا اور خیبرپختونخواہ تین ایسے علاقے ہیں جہاں گزشتہ سال سے اب تک تعلیم کے مجموعی معیار میں تنزلی واقع ہوئی ہے، گوکہ یہ کمی بہت معمولی نوعیت کی ہے (2 فیصد پوائنٹ سے بھی کم)۔
درجہ بندی میں پہلے 20 سے 14 پنجاب کے اضلاع ہیں۔ 3 آزاد جموں و کشمیر جب کہ ایک گلگت بلتستان ایک بلوچستان اور ایک اسلام آباد کا ضلع ہے۔ پہلی 20 درجہ بندیوں میں سندھ اور خیبرپختونخواہ کا ایک بھی ضلع شامل نہیں۔
طلبا نے شہدائے آرمی پبلک اسکول کو بھی خراج عقیدت پیش کیا۔ اے ڈی او پرائمری ایجوکیشن گل محمد خاص خیلی نے اس موقعے پر الف اعلان کی کاوشوں کو سراہا اورعہدکیا کہ لیاری میں ہر بچے کو اسکول میں داخل کروائیں گے۔الف اعلان کے نیٹ ورک کوآرڈی نیٹر عندیل علی نے طلبا وطالبات، والدین اوراساتذہ کے درمیان ایک سیر حاصل فکری نشست کا انعقادکیا جس کا مقصد نظام تعلیم میں موجود مسائل کو تلاش کرنا اور ان کا حل تجویز کرنا تھا۔
وومن ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن پاکستان کی چیئرپرسن صبیحہ شاہ نے پاکستان خاص طور پر سماجی و معاشی اعتبار سے زبوں حال لیاری میں تعلیم کی ترقی میں نوجوانوں کے کردار پر روشنی ڈالی۔ عائلہ اریبہ واجد نے تعلیم اور شخصیت سازی پر لب کشائی کی۔ بلوچ سیکنڈری اسکول کے ہیڈ ماسٹر ڈاکٹر شفیق الرحمن اور بلوچ پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر آفتاب احمد نے امتحانات میں بہترین کارکردگی دکھانے والے طلبا و طالبات میں شیلڈ و انعامات تقسیم کیے۔ بلوچ پرائمری اسکول کے مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین شبیر احمد ارمان نے معزز شرکا کا شکریہ ادا کیا کہ جن کی بدولت لیاری میں تعلیم کی اہمیت و افادیت پر اتنی بہترین تقریب ممکن ہوسکی۔
اساتذہ اور والدین نے الف اعلان کی اس کاوش کو بہت سراہا، ان کا کہنا تھا کہ لیاری ایک محنت کشوں کا پروقار علاقہ ہے ایسی صحت مند کاوشیں اس علاقے کا وقار بحال کرنے میں معاون ثابت ہوں گی۔ طلبا و طالبات جوکہ تعلیم کی مفلوک الحالی پر نالاں تھے اس پروگرام میں شرکت کے بعد اپنے اسکول اور پروگرام کے میزبانوں پر نازاں تھے کہ آج ان کا اسکول بھی بہترین معیار پر چل رہا ہے۔
پروگرام میں شریک سول سوسائٹی کی شخصیات عابد حسین بروہی، حبیب حسن، شاہد بلوچ، شکور شاد، سعید بلوچ، داد رحیم، گلاب اور دیگر شامل تھے۔ اس تعلیمی کانفرنس میں اس تلخ سچائی کا ادراک کیا گیا کہ آج پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں لیاری میں بھی حالات کی ستم ظریفی کے باعث بہت سے اسکول بند ہوگئے تھے، لیکن آج وہ عہد کرتے ہیں کہ ان بچوں کو ہر صورت اسکولوں تک لائیں گے اور لیاری کے اسکولوں کو فعال بنائیں گے۔
واضح رہے کہ تعلیمی تنظیم ''الف اعلان'' پاکستان ضلع تعلیمی درجہ بندی SDPI 2014 اور الف اعلان کی شراکت سے تشکیل دی گئی ہیں جو ضلع سطح پر تعلیمی کارکردگی کا موازنہ کرنے اور اسکولوں میں دستیاب سہولتوں کے معیار کا جائزہ لینے کی ایک کاوش ہے۔
درجہ بندی کے مقاصد ، پاکستان میں تعلیمی معیار کو جانچنے اور تقابلی جائزے کے لیے ایک ایسا جامع پیمانہ تشکیل دینا جو تعلیم کے بنیادی پہلو جیسا کہ رسائی، معیار، صنفی برابری اور اسکولوں میں دستیاب سہولتوں کا احاطہ کرسکے۔ اس پیمانے کے ذریعے ملک کے مختلف حصوں کی تعلیمی کارکردگی کا موازنہ اور اضلاع اور صوبوں کے درمیان ایک صحت مندانہ مقابلے کی حوصلہ افزائی کرنا، ایک ہدف مقررکرنا جس کیمطابق مستقبل میں ضلعی سطح پر تعلیمی شعبے میں بہتری یا ابتری کو جانچا جاسکے۔
تعلیمی صورتحال کا تعین کرنا اور تعلیم کے لیے پالیسی سازی میں اعداد و شمار اور شواہد کی اہمیت سے متعلق آگاہی پیدا کرنا، اعداد وشمارکو استعمال میں لانے کی ترغیب دینا اور سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کو اعداد و شمار جمع کرنے کے دائرہ کار کو وسیع کرنے اور ان میں بہتری لانے کے لیے حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
الف اعلان کی رپورٹ ''پاکستان ضلع تعلیمی درجہ بندی 2014'' کیمطابق گزشتہ برس کی طرح بلوچستان کے اضلاع کی تعلیمی کارکردگی بدستور خراب رہی۔ صوبائی اسکور کے لحاظ سے دوسرے صوبوں اور علاقوں کے مقابلے میں بلوچستان نے تعلیمی اسکور میں سب سے زیادہ بہتری دکھائی (11.4فی صد پوائنٹ)۔ بلوچستان کے 30 میں سے صرف 17 اضلاع نے 50 سے زائد اسکور حاصل کیا ہے۔
بلوچستان کے سب سے اوپر کے درجے پر گوادر اور کوئٹہ ہیں جب کہ ڈیرہ بگٹی اور قلعہ عبداللہ صوبے میں سب سے کم اسکور حاصل کرنیوالے اضلاع ہیں۔ خیبرپختونخواہ صوبے میں سب سے بہتر کارکردگی دکھانے والے اضلاع ہری پور اور ایبٹ آباد کے ساتھ اب مالا کنڈ، مردان اور نوشہرہ بھی شامل ہوگئے ہیں، جن کی کارکردگی گزشتہ سال کے مقابلے میں خاصی بہتر ہوئی ہے۔ تاہم مجموعی طور پرگزشتہ سال متاثر کن کارکردگی دکھانے والے خیبرپختونخواہ کے اضلاع اس سال بہت اچھی کارکردگی پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ پچھلے سال کے اسکور کے مقابلے میں خیبر پختونخواہ کا مجموعی صوبائی تعلیمی اسکور 1.13 فیصد پوائنٹ نیچے آیا ہے۔
اس کے باوجود خیبرپختونخواہ کے 24 میں سے 22 اضلاع نے 50 سے زائد اسکور حاصل کیے ہیں جب کہ گزشتہ برس 24 میں سے 21 نے 50 سے زائد اسکور لیے تھے۔ خیبر پختونخواہ کے سب سے اوپر کے درجے پر رہنے والے اضلاع مالا کنڈ اور ہری پور ہیں۔ سب سے نچلے درجے پر رہنے والے اضلاع کوہستان اور شانگلہ ہیں۔
پنجاب کے اضلاع، بالخصوص صوبے کا شمالی حصہ تعلیمی منظر نامے پر نمایاں نہیں۔ پنجاب کے شمالی، وسطی اور جنوبی اضلاع بالترتیب درجہ بندی بدستور رہی ہیں۔ پنجاب کے تمام 36 اضلاع کا تعلیمی اسکور50 سے زائد رہا۔گزشتہ سال 36 میں سے 35 اضلاع 50 سے زائد اسکورکر پائے تھے۔ پنجاب کے سب سے اوپرکے درجوں پر رہنے والے اضلاع چکوال، راولپنڈی اور اٹک ہیں۔ سب سے نیچے کے درجنوں پر راجن پور، رحیم یار خان اور مظفرگڑھ کے اضلاع ہیں۔گزشتہ سال کے مقابلے میں صوبائی تعلیمی اسکور میں 10.42 فی صد پوائنٹ کی بہتری آئی ہے۔ سندھ کے معاملے میں صرف ایک ضلع کراچی ہی اوپری 50 درجوں میں شامل ہے۔
جب کہ حیدرآباد کا نمبر 53 واں رہا۔ گزشتہ سال سندھ کا ایک بھی ضلع پہلے 50 درجوں میں جگہ نہیں بناسکا تھا۔ سندھ کے 24 میں سے 18 اضلاع نے 50 سے زیادہ اسکور حاصل کیا جب کہ گزشتہ برس 30 میں سے صرف 8 اضلاع 50 سے زائد اسکور حاصل کر پائے تھے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجموعی کارکردگی میں بہتری آئی ہے تاہم پہلے 30 اضلاع میں سندھ کا ایک ضلع بھی شامل نہیں۔ ٹھٹھہ، میرپورخاص اور عمر کوٹ سندھ میں سب سے کم اسکور لینے والے اضلاع ہیں۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں سندھ کے صوبائی تعلیمی اسکور میں 11.32 فیصد پوائنٹ کی بہتری آئی ہے۔
اس طرح گزشتہ سال سے اب تک تین علاقوں کی درجہ بندیوں میں تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ پنجاب، آزاد جموں وکشمیر سے سبقت لے کر دوسرے درجے پر چلا گیا ہے۔ اسی طرح سندھ اور خیبر پختونخواہ نے بلوچستان اور فاٹا کے ساتھ بالترتیب اپنی پوزیشنوں کو تبدیل کیا ہے۔ سب سے زیادہ بہتری بلوچستان، سندھ اور پنجاب کی کارکردگی میں رونما ہوئی ہے اور ان میں سے ہر ایک صوبے نے صوبائی درجہ بندی میں ایک درجہ ترقی کی ہے۔آزاد جموں وکشمیر، فاٹا اور خیبرپختونخواہ تین ایسے علاقے ہیں جہاں گزشتہ سال سے اب تک تعلیم کے مجموعی معیار میں تنزلی واقع ہوئی ہے، گوکہ یہ کمی بہت معمولی نوعیت کی ہے (2 فیصد پوائنٹ سے بھی کم)۔
درجہ بندی میں پہلے 20 سے 14 پنجاب کے اضلاع ہیں۔ 3 آزاد جموں و کشمیر جب کہ ایک گلگت بلتستان ایک بلوچستان اور ایک اسلام آباد کا ضلع ہے۔ پہلی 20 درجہ بندیوں میں سندھ اور خیبرپختونخواہ کا ایک بھی ضلع شامل نہیں۔