الیکشن 2015 طیب اردگان عدم مقبولیت کا شکار
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی انتخاب میں کامیاب ہی رہی ہے کیونکہ اس نے 40 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں
ترک انتخابات میں حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار قبل از انتخاب کیاجارہاتھا، وہ پورے ہوگئے۔ اندازہ تھا کہ جسٹس پارٹی کی حمایت کی شرح 49 فیصد سے 40فیصد تک گرجائے گی، اگرچہ جسٹس پارٹی کے ذرائع اس اندازے کو مسترد کررہے تھے، ان کاخیال تھا کہ ان کے ووٹ بنک میں کمی واقع ہوئی تو زیادہ سے زیادہ دو سے تین فیصد کی ہوگی۔
جسٹس پارٹی کا ہدف 330 سیٹیں تھا تاکہ وہ اپنے ویژن کے مطابق بغیر کسی احتیاج کے نیا آئین منظور کرلے۔ گزشتہ سے پیوستہ رپورٹ میں لکھاتھا کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو 330 نشستیں صرف اسی صورت میں ملیں گی، جب دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والی پارٹیوں کا ووٹ بنک نہ بڑھے جبکہ چوتھے نمبر پر آنے والی کردپارٹی 10 فیصد کی حد سے پیچھے رہے۔ یادرہے کہ ترکی میں وہی پارٹی پارلیمان میں داخل ہوسکتی ہے جسے مجموعی ووٹوں میں کم ازکم دس فیصد حصہ ملے۔ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اگر کوئی جماعت پورے ملک میں ڈالے گئے ووٹوں کا دس فیصد حاصل نہ کر سکے تو اس کی حاصل کردہ نشستیں دیگر بڑی جماعتوں میں تقسیم کر دی جاتی ہیں۔
آٹھ جون کی صبح نتائج سامنے آئے تو بیلٹ باکسز سے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے حق میں41 فیصد ووٹ نکلے، سن 2011ء کے عام انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے 49.83 فیصد ووٹ حاصل کرکے312 نشستیں حاصل کیں۔ اس بار اس کی نشستوں کی تعداد 258 ہے۔ دوسرے نمبر پر رہنے والی سیکولر جماعت ری پبلکن پیپلزپارٹی اپنا ووٹ بنک بڑھانے میں قطعی طورپر ناکام رہی۔ بلکہ اس کی حمایت میں کمی دیکھنے کو ملی ہے، اسے اس بار 24.96 فیصد ووٹ ملے۔اس کی بنیاد پر پارلیمان میں اس کی نشستیں 132 ہوں گی۔
یادرہے کہ گزشتہ انتخاب میں کمال اتاترک کی قائم کردہ اس پارٹی کو25.98فیصد ووٹ ملے تھے۔ انتخابات 2011ء میں تیسرے اور چوتھے نمبر پر آنے والی پارٹیوں کا 2015ء کے انتخابات میں ووٹ بنک بڑھا ہے، قبل ازانتخاب کہاجارہاتھا کہ پہلی تین پارٹیوں کے لئے عوامی حمایت کم وبیش سابقہ انتخابی نتائج جتنی ہی ہے البتہ چوتھے نمبر کی پارٹی کے ووٹ بنک میں اضافہ نظر آرہاہے۔ تاہم تیسرے نمبر پر کمیونزم مخالف اور نیشنلسٹ جماعت 'ملی حرکت پارٹی' نے 16.29فیصد ووٹ حاصل کئے۔ اس اعتبار سے پارلیمان میں اس کی سیٹیں 82 ہوں گی ۔
یادرہے کہ سن 2011ء میں اسے 13.01 فیصد ووٹ ملا تھا۔ چوتھے نمبر پر کردوں کی پیپلزپارٹی ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹ بنک میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ پچھلی بار5.67 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی نے اس بار 13.12 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ پارلیمان میں اسے 80نشستیں ملیں گی۔گزشتہ انتخابات میں اس پارٹی کے آزادامیدوار ہی کامیاب ہوکر پارلیمان میں پہنچے تھے تاہم اس بار وہ اپنے پارٹی پرچم کے ساتھ پارلیمان میں بیٹھیں گے ۔
ترک انتخابات کے نتائج بخوبی ظاہر کرتے ہیں کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو سن2011ء میں ملنے والا کرد ووٹ اس بار نہیں ملا بلکہ کردجماعت 'پیپلزپارٹی ڈیموکریٹک پارٹی' کو ملا جبکہ تیسرے نمبر پر آنے والی کمیونزم مخالف اور نیشنلسٹ جماعت 'ملی حرکت پارٹی' کے رہنماؤں کا یہ خیال جزوی طورپر درست ثابت ہوا کہ کردوں کے ساتھ امن عمل شروع کرنے کی وجہ سے حکمران جسٹس پارٹی بڑ ی تعداد میں نیشنلسٹ ووٹ سے محروم ہو گی۔
کہا جاسکتاہے کہ ملی حرکت پارٹی نے تین فیصد سے کچھ زائد ووٹ حکمران جسٹس پارٹی ہی سے چھینا ہے۔ اس ساری صورت حال میں سیکولر پارٹی کے سربراہ کمال قلیدار اوغلو کا یہ دعویٰ قطعی طورپر غلط ثابت ہوا کہ ان کی پارٹی 35فیصد ووٹ حاصل کرکے اتحادیوںکے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دے گی۔
سوال یہ ہے کہ معلق ترک پارلیمان میں اب کیا ہوگا؟ سن 2002ء کے انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے 34.28 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے، سن 2007ء میں 46.58 فیصد اور سن 2011ء میں 49.83 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ تاہم اس بار41فیصد ووٹ اس کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہیں۔ اگرچہ اب بھی وہ مقبولیت میں باقی جماعتوں سے کہیں آگے ہے، سیکولر ری پبلکن پارٹی تمام تر تدابیر اختیار کرکے بھی بہتر پوزیشن میں نہیں آسکی تاہم کرد ووٹ کے الگ ہونے سے اسے ایک بحران جیسی کیفیت کا سامنا ہے۔ 550 رکنی پارلیمان میں جسٹس پارٹی کو حکومت سازی کے لئے 18سیٹوں کی ضرورت ہے۔ حالیہ انتخابی نتائج سے اس کی حکومت بنتی ہے یا نہیں، تاہم اگلے انتخابات میں کامیابی کے لئے اسے پچھلی بار ملنے والے کرد ووٹ کا متبادل تلاش کرناہوگا۔
بعض مغربی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جسٹس پارٹی کی مقبولیت میں کمی طیب اردگان کے آمرانہ طرزعمل کا نتیجہ ہے۔ یہ خیال درست نہیں ہے۔ یہ وہ تجزیہ نگار تھے جنھوں نے حالیہ انتخابات سے قبل جان لیاتھا کہ جسٹس پارٹی ہی سب سے آگے رہے گی چنانچہ انھوں نے ایک نئے موضوع پر بحث کا دروازہ کھول دیا کہ ترکی کا متناسب نمائندگی کا نظام انصاف کے منافی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ کرد علاقوں کے علاوہ باقی ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی آج بھی 2011ء جتنی ہی مقبول ہے۔ فرق یہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں ووٹ بنک سے آٹھ فیصد کرد ووٹ پیپلزپارٹی ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹ بنک میں چلاگیاہے۔ درج بالا سطور میں کرد پارٹی کے ووٹ کے سن 2011ء اور 2015ء کے ووٹ بنک کا تقابل بیان کیاگیاہے جس میں قریباً آٹھ فیصد ہی اضافہ ہواہے۔
حکمران پارٹی کے رہنما اور ملک کے وزیرِ اعظم احمد داؤد اوغلو نے کہا ہے کہ ہر کسی کو یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے الیکشن جیتا ہے۔ انھوں نے دیگر جماعتوں سے اپیل کی وہ نئے آئین کی تیاری کے عمل میں شامل ہوں۔ استنبول میں ایک غیرملکی خبررساں ادارے کے نامہ نگار مارک لوون کا کہناہے :''ترکی کے لیے یہ نیا دور ثابت ہو سکتا ہے۔
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی انتخاب میں کامیاب ہی رہی ہے کیونکہ اس نے 40 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔کسی اور جمہوریت میں جماعتیں اتنے ہی ووٹوں کی خواہاں ہوتی ہیں۔ اب بھی ان کی پارٹی کافی حد تک مقبول ہے اور ان کے حامی زیادہ تر مذہبی اور قدامت پسند ترک ہیں جن کے خیال میں صدر اور جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ان کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ تاہم تیرہ برس سے جاری پارٹی کے 'ون میں شو' کو نقصان پہنچا ہے''۔
بعض دوسرے مغربی تجزیہ نگار ان انتخابی نتائج کو طیب اردگان اور جسٹس پارٹی کی عدم مقبولیت بتارہے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ انتخابی نتائج سابق وزیر اعظم اور موجودہ صدر رجب طیب اردگان کے لیے دھچکا ہیں اور ان کا ملک میں صدارتی نظامِ جمہوریت متعارف کرانے کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔
چوتھے نمبر پر رہنے والی کرد نواز جماعت 'ایچ ڈی پی' کی نائب سربراہ ثریا اوندر نے انتخابی نتائج کے بعد کہا کہ 'جمہوریت نے سیاسی بدعنوانی کو شکست دے دی ہے۔'پارٹی سربراہ صلاح الدین دمیترس نے یوم انتخاب پراس امکان کو مسترد کردیاتھا کہ حکمران جماعت مخلوط حکومت بنانے پر مجبور ہوئی تو وہ اس کا ساتھ دیں گے۔ صلاح الدین نے کہا کہ انتخابی نتائج نے صدارتی نظام حکومت کے بارے میں بحث کو ختم کر دیا ہے۔
جب یہ طے ہے کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی تن تنہا حکومت نہیں بناسکتی تو سوال یہ ہے کہ کیا مخلوط حکومت بنے گی؟ ایسا ہوا تو کون سی پارٹی جسٹس پارٹی کا ساتھ دے گی؟ دوسرے اور چوتھے نمبر کی پارٹیوں کی مخلوط حکومت میں شرکت خارج ازامکان ہے، کردوں کی پارٹی طیب اردگان کے کردوں کے ساتھ امن عمل سے خوش ہے لیکن وہ ترک صدر کی زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی خواہش پر کڑی تنقید کرتی رہی ہے۔ تاہم تیسری بڑی جماعت ' ملی حرکت پارٹی' اپنے نظریات کی بنیاد پر جسٹس پارٹی کے ساتھ شریک اقتدار ہوسکتی ہے۔
تاہم پارٹی کے ایک عہدیدارکا کہنا ہے کہ ابھی یہ بات قبل از وقت ہے کہ واقعی ایسا ہوگا۔ ملی حرکت پارٹی شریک اقتدار ہوئی تو وہ جسٹس پارٹی سے کئی ایک باتیں منوانے کی کوشش کرے گی۔ وہ ترک صدر طیب اردگان کی زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنے گی۔ پارٹی کے سربراہ دولت باہلی کہتے ہیں:'' صدر طیب اردگان کو آئین کی حدود میں رہنا چاہئے''۔ انھوں نے مزید کہا کہ جسٹس پارٹی حکومت سازی میں ناکام رہے یا دوسری دونوں جماعتیں بھی مل کر حکومت نہ بناسکیں تو ترکی کو ایک بار پھر انتخابات کی طرف جاناچاہئے''۔
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ملی حرکت پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کرتی ہے تو اس کا کردوں کے ساتھ امن عمل پر برا اثر پڑے گا۔ ایم ایچ پی کے سیاسی نعروں میں اس امن عمل کی مخالفت بھی شامل ہے۔ حکمران پارٹی کردعسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کرتی رہی جبکہ ایم ایچ پی اس پر کڑی تنقید کرتی رہی۔
ترک سیاسی روایت ہے کہ جسٹس پارٹی کے احمد داؤد اوغلو حکومت سازی میں ناکام رہیں تو ترک صدر دوسری بڑی جماعت ری پبلکن پیپلزپارٹی کو حکومت سازی کی دعوت دیں گے۔ تاہم ایسا کرنا سیاسی روایت ہی ہے، آئینی ضرورت نہیں۔ اس لئے بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ طیب اردگان جن کی ساری زندگی ری پبلکن پیپلزپارٹی کی مخالفت میں گزری ہے، وہ اسے حکومت سازی کی دعوت نہیں دیں گے۔
اگرترک صدر ری پبلکن پارٹی کو دعوت دے دیں تو اس کے لئے مخلوط حکومت کا قیام ناممکن کی حد تک مشکل ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ طیب اردگان مخالفت کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر والی پارٹیاں مخلوط حکومت قائم کرسکیں۔ کردوں کے بارے میں ری پبلکن پارٹی اور ملی حرکت پارٹی ، دونوں ہی سخت گیر واقع ہوئی ہیں۔ تاہم اول الذکر سیکولر ہے ، ثانی الذکر اسلام پسند اور نیشنلسٹ۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد ترک نائب وزیراعظم بلند ایرینک نے چیلنج کے اندازمیں کہاہے کہ جسٹس پارٹی حکومت نہ بناسکی تو باقی تینوں جماعتیں بھی ایسا نہیں کرسکیں گی۔
اگر ملی حرکت پارٹی کے ساتھ بھی اتحاد نہ ہوسکا تو ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ایم ایچ پی جسٹس پارٹی سے حکومت سازی کرنے کو کہے اور جب اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا مرحلہ آئے تو وہ حکمران جماعت کی یہ ضرورت بھی پوری کردے۔ وہ اس کے عوض حکومت سے اپنے کچھ مطالبات ماننے کو کہہ سکتی ہے۔ جسٹس پارٹی سمیت کوئی بھی پارٹی 45دن کے اندر حکومت بھی قائم نہ کرسکی تو آخری آپشن ازسرنو عام انتخابات ہی ہوں گے۔ چنانچہ اس کے بعد 90 روز کے اندر عام انتخابات ہوں گے۔
جسٹس پارٹی کا ہدف 330 سیٹیں تھا تاکہ وہ اپنے ویژن کے مطابق بغیر کسی احتیاج کے نیا آئین منظور کرلے۔ گزشتہ سے پیوستہ رپورٹ میں لکھاتھا کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو 330 نشستیں صرف اسی صورت میں ملیں گی، جب دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والی پارٹیوں کا ووٹ بنک نہ بڑھے جبکہ چوتھے نمبر پر آنے والی کردپارٹی 10 فیصد کی حد سے پیچھے رہے۔ یادرہے کہ ترکی میں وہی پارٹی پارلیمان میں داخل ہوسکتی ہے جسے مجموعی ووٹوں میں کم ازکم دس فیصد حصہ ملے۔ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اگر کوئی جماعت پورے ملک میں ڈالے گئے ووٹوں کا دس فیصد حاصل نہ کر سکے تو اس کی حاصل کردہ نشستیں دیگر بڑی جماعتوں میں تقسیم کر دی جاتی ہیں۔
آٹھ جون کی صبح نتائج سامنے آئے تو بیلٹ باکسز سے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے حق میں41 فیصد ووٹ نکلے، سن 2011ء کے عام انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے 49.83 فیصد ووٹ حاصل کرکے312 نشستیں حاصل کیں۔ اس بار اس کی نشستوں کی تعداد 258 ہے۔ دوسرے نمبر پر رہنے والی سیکولر جماعت ری پبلکن پیپلزپارٹی اپنا ووٹ بنک بڑھانے میں قطعی طورپر ناکام رہی۔ بلکہ اس کی حمایت میں کمی دیکھنے کو ملی ہے، اسے اس بار 24.96 فیصد ووٹ ملے۔اس کی بنیاد پر پارلیمان میں اس کی نشستیں 132 ہوں گی۔
یادرہے کہ گزشتہ انتخاب میں کمال اتاترک کی قائم کردہ اس پارٹی کو25.98فیصد ووٹ ملے تھے۔ انتخابات 2011ء میں تیسرے اور چوتھے نمبر پر آنے والی پارٹیوں کا 2015ء کے انتخابات میں ووٹ بنک بڑھا ہے، قبل ازانتخاب کہاجارہاتھا کہ پہلی تین پارٹیوں کے لئے عوامی حمایت کم وبیش سابقہ انتخابی نتائج جتنی ہی ہے البتہ چوتھے نمبر کی پارٹی کے ووٹ بنک میں اضافہ نظر آرہاہے۔ تاہم تیسرے نمبر پر کمیونزم مخالف اور نیشنلسٹ جماعت 'ملی حرکت پارٹی' نے 16.29فیصد ووٹ حاصل کئے۔ اس اعتبار سے پارلیمان میں اس کی سیٹیں 82 ہوں گی ۔
یادرہے کہ سن 2011ء میں اسے 13.01 فیصد ووٹ ملا تھا۔ چوتھے نمبر پر کردوں کی پیپلزپارٹی ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹ بنک میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ پچھلی بار5.67 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی نے اس بار 13.12 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ پارلیمان میں اسے 80نشستیں ملیں گی۔گزشتہ انتخابات میں اس پارٹی کے آزادامیدوار ہی کامیاب ہوکر پارلیمان میں پہنچے تھے تاہم اس بار وہ اپنے پارٹی پرچم کے ساتھ پارلیمان میں بیٹھیں گے ۔
ترک انتخابات کے نتائج بخوبی ظاہر کرتے ہیں کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو سن2011ء میں ملنے والا کرد ووٹ اس بار نہیں ملا بلکہ کردجماعت 'پیپلزپارٹی ڈیموکریٹک پارٹی' کو ملا جبکہ تیسرے نمبر پر آنے والی کمیونزم مخالف اور نیشنلسٹ جماعت 'ملی حرکت پارٹی' کے رہنماؤں کا یہ خیال جزوی طورپر درست ثابت ہوا کہ کردوں کے ساتھ امن عمل شروع کرنے کی وجہ سے حکمران جسٹس پارٹی بڑ ی تعداد میں نیشنلسٹ ووٹ سے محروم ہو گی۔
کہا جاسکتاہے کہ ملی حرکت پارٹی نے تین فیصد سے کچھ زائد ووٹ حکمران جسٹس پارٹی ہی سے چھینا ہے۔ اس ساری صورت حال میں سیکولر پارٹی کے سربراہ کمال قلیدار اوغلو کا یہ دعویٰ قطعی طورپر غلط ثابت ہوا کہ ان کی پارٹی 35فیصد ووٹ حاصل کرکے اتحادیوںکے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دے گی۔
سوال یہ ہے کہ معلق ترک پارلیمان میں اب کیا ہوگا؟ سن 2002ء کے انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے 34.28 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے، سن 2007ء میں 46.58 فیصد اور سن 2011ء میں 49.83 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ تاہم اس بار41فیصد ووٹ اس کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہیں۔ اگرچہ اب بھی وہ مقبولیت میں باقی جماعتوں سے کہیں آگے ہے، سیکولر ری پبلکن پارٹی تمام تر تدابیر اختیار کرکے بھی بہتر پوزیشن میں نہیں آسکی تاہم کرد ووٹ کے الگ ہونے سے اسے ایک بحران جیسی کیفیت کا سامنا ہے۔ 550 رکنی پارلیمان میں جسٹس پارٹی کو حکومت سازی کے لئے 18سیٹوں کی ضرورت ہے۔ حالیہ انتخابی نتائج سے اس کی حکومت بنتی ہے یا نہیں، تاہم اگلے انتخابات میں کامیابی کے لئے اسے پچھلی بار ملنے والے کرد ووٹ کا متبادل تلاش کرناہوگا۔
بعض مغربی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جسٹس پارٹی کی مقبولیت میں کمی طیب اردگان کے آمرانہ طرزعمل کا نتیجہ ہے۔ یہ خیال درست نہیں ہے۔ یہ وہ تجزیہ نگار تھے جنھوں نے حالیہ انتخابات سے قبل جان لیاتھا کہ جسٹس پارٹی ہی سب سے آگے رہے گی چنانچہ انھوں نے ایک نئے موضوع پر بحث کا دروازہ کھول دیا کہ ترکی کا متناسب نمائندگی کا نظام انصاف کے منافی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ کرد علاقوں کے علاوہ باقی ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی آج بھی 2011ء جتنی ہی مقبول ہے۔ فرق یہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں ووٹ بنک سے آٹھ فیصد کرد ووٹ پیپلزپارٹی ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹ بنک میں چلاگیاہے۔ درج بالا سطور میں کرد پارٹی کے ووٹ کے سن 2011ء اور 2015ء کے ووٹ بنک کا تقابل بیان کیاگیاہے جس میں قریباً آٹھ فیصد ہی اضافہ ہواہے۔
حکمران پارٹی کے رہنما اور ملک کے وزیرِ اعظم احمد داؤد اوغلو نے کہا ہے کہ ہر کسی کو یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے الیکشن جیتا ہے۔ انھوں نے دیگر جماعتوں سے اپیل کی وہ نئے آئین کی تیاری کے عمل میں شامل ہوں۔ استنبول میں ایک غیرملکی خبررساں ادارے کے نامہ نگار مارک لوون کا کہناہے :''ترکی کے لیے یہ نیا دور ثابت ہو سکتا ہے۔
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی انتخاب میں کامیاب ہی رہی ہے کیونکہ اس نے 40 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔کسی اور جمہوریت میں جماعتیں اتنے ہی ووٹوں کی خواہاں ہوتی ہیں۔ اب بھی ان کی پارٹی کافی حد تک مقبول ہے اور ان کے حامی زیادہ تر مذہبی اور قدامت پسند ترک ہیں جن کے خیال میں صدر اور جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ان کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ تاہم تیرہ برس سے جاری پارٹی کے 'ون میں شو' کو نقصان پہنچا ہے''۔
بعض دوسرے مغربی تجزیہ نگار ان انتخابی نتائج کو طیب اردگان اور جسٹس پارٹی کی عدم مقبولیت بتارہے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ انتخابی نتائج سابق وزیر اعظم اور موجودہ صدر رجب طیب اردگان کے لیے دھچکا ہیں اور ان کا ملک میں صدارتی نظامِ جمہوریت متعارف کرانے کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔
چوتھے نمبر پر رہنے والی کرد نواز جماعت 'ایچ ڈی پی' کی نائب سربراہ ثریا اوندر نے انتخابی نتائج کے بعد کہا کہ 'جمہوریت نے سیاسی بدعنوانی کو شکست دے دی ہے۔'پارٹی سربراہ صلاح الدین دمیترس نے یوم انتخاب پراس امکان کو مسترد کردیاتھا کہ حکمران جماعت مخلوط حکومت بنانے پر مجبور ہوئی تو وہ اس کا ساتھ دیں گے۔ صلاح الدین نے کہا کہ انتخابی نتائج نے صدارتی نظام حکومت کے بارے میں بحث کو ختم کر دیا ہے۔
جب یہ طے ہے کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی تن تنہا حکومت نہیں بناسکتی تو سوال یہ ہے کہ کیا مخلوط حکومت بنے گی؟ ایسا ہوا تو کون سی پارٹی جسٹس پارٹی کا ساتھ دے گی؟ دوسرے اور چوتھے نمبر کی پارٹیوں کی مخلوط حکومت میں شرکت خارج ازامکان ہے، کردوں کی پارٹی طیب اردگان کے کردوں کے ساتھ امن عمل سے خوش ہے لیکن وہ ترک صدر کی زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی خواہش پر کڑی تنقید کرتی رہی ہے۔ تاہم تیسری بڑی جماعت ' ملی حرکت پارٹی' اپنے نظریات کی بنیاد پر جسٹس پارٹی کے ساتھ شریک اقتدار ہوسکتی ہے۔
تاہم پارٹی کے ایک عہدیدارکا کہنا ہے کہ ابھی یہ بات قبل از وقت ہے کہ واقعی ایسا ہوگا۔ ملی حرکت پارٹی شریک اقتدار ہوئی تو وہ جسٹس پارٹی سے کئی ایک باتیں منوانے کی کوشش کرے گی۔ وہ ترک صدر طیب اردگان کی زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنے گی۔ پارٹی کے سربراہ دولت باہلی کہتے ہیں:'' صدر طیب اردگان کو آئین کی حدود میں رہنا چاہئے''۔ انھوں نے مزید کہا کہ جسٹس پارٹی حکومت سازی میں ناکام رہے یا دوسری دونوں جماعتیں بھی مل کر حکومت نہ بناسکیں تو ترکی کو ایک بار پھر انتخابات کی طرف جاناچاہئے''۔
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ملی حرکت پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کرتی ہے تو اس کا کردوں کے ساتھ امن عمل پر برا اثر پڑے گا۔ ایم ایچ پی کے سیاسی نعروں میں اس امن عمل کی مخالفت بھی شامل ہے۔ حکمران پارٹی کردعسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کرتی رہی جبکہ ایم ایچ پی اس پر کڑی تنقید کرتی رہی۔
ترک سیاسی روایت ہے کہ جسٹس پارٹی کے احمد داؤد اوغلو حکومت سازی میں ناکام رہیں تو ترک صدر دوسری بڑی جماعت ری پبلکن پیپلزپارٹی کو حکومت سازی کی دعوت دیں گے۔ تاہم ایسا کرنا سیاسی روایت ہی ہے، آئینی ضرورت نہیں۔ اس لئے بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ طیب اردگان جن کی ساری زندگی ری پبلکن پیپلزپارٹی کی مخالفت میں گزری ہے، وہ اسے حکومت سازی کی دعوت نہیں دیں گے۔
اگرترک صدر ری پبلکن پارٹی کو دعوت دے دیں تو اس کے لئے مخلوط حکومت کا قیام ناممکن کی حد تک مشکل ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ طیب اردگان مخالفت کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر والی پارٹیاں مخلوط حکومت قائم کرسکیں۔ کردوں کے بارے میں ری پبلکن پارٹی اور ملی حرکت پارٹی ، دونوں ہی سخت گیر واقع ہوئی ہیں۔ تاہم اول الذکر سیکولر ہے ، ثانی الذکر اسلام پسند اور نیشنلسٹ۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد ترک نائب وزیراعظم بلند ایرینک نے چیلنج کے اندازمیں کہاہے کہ جسٹس پارٹی حکومت نہ بناسکی تو باقی تینوں جماعتیں بھی ایسا نہیں کرسکیں گی۔
اگر ملی حرکت پارٹی کے ساتھ بھی اتحاد نہ ہوسکا تو ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ایم ایچ پی جسٹس پارٹی سے حکومت سازی کرنے کو کہے اور جب اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا مرحلہ آئے تو وہ حکمران جماعت کی یہ ضرورت بھی پوری کردے۔ وہ اس کے عوض حکومت سے اپنے کچھ مطالبات ماننے کو کہہ سکتی ہے۔ جسٹس پارٹی سمیت کوئی بھی پارٹی 45دن کے اندر حکومت بھی قائم نہ کرسکی تو آخری آپشن ازسرنو عام انتخابات ہی ہوں گے۔ چنانچہ اس کے بعد 90 روز کے اندر عام انتخابات ہوں گے۔