بھارت میں جنم لیتا انوکھا انقلاب
اس وقت سوا ایک ارب بھارتیوںمیں سے 85 کروڑ بھارتی موبائل فون رکھتے ہیں جبکہ 24کروڑ بھارتی انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں
یہ 1963ء کی بات ہے جب کینیڈین فلسفی' مارشل ملکوہان (1980-1911ء ) نے اپنی کتب میں یہ تصّور پیش کیا کہ مستقبل میں دنیا ''گلوبل ویلج'' یا عالمی گاؤں کی صورت اختیار کر لے گی... ایسی دنیا جہاں ہر انسان بآسانی دوسرے انسانوں سے رابطہ کر سکے گا۔
1963ء میں ٹیلی فون اور تارکی ایجادات سامنے آ چکی تھیں' مگر ان کا دائرہ کار شہروں میں بھی مخصوص جگہوں تک محدود تھا۔ اسی لیے مارشل ملکوہان کے نظریے کو بچکانہ قرار دے کر اس کا مذاق اڑایا گیا۔ مگر صرف تیس سال بعد انٹرنیٹ اور پھر موبائل فون کی ایجادات نے ملکوہان کے تصّور میں حقیقی رنگ بھر دیئے ۔ یوں کینیڈین فلسفی کی پیشن گوئی درست ثابت ہوئی۔
آج پشاور یا چترال میں بیٹھا پاکستانی بذریعہ انٹرنیٹ چشم زدن میں ہزاروں میل دور واقع کینیڈین شہر ٹورنٹو یا وینکوور میں کسی بھی دوست سے یوں باتیں کر سکتا ہے جیسے وہ اس کے سامنے بیٹھا ہو۔ یہ کرشمہ انٹرنیٹ اور پھر جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجیوں کی بدولت ہی وجود میں آیا۔ دریں اثناء موبائل اور سمارٹ فونوں کے پھیلاؤ نے بھی دنیا کو عالمی گاؤں بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس وقت دنیا کے سات ارب باشندوں میں سے تقریباً پونے سات ارب انسان موبائل یا سمارٹ فون استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد تین ارب تک پہنچ چکی ۔ انٹرنیٹ اور موبائل کی خاص بات یہ ہے کہ ان ایجادات نے باہمی رابطہ ہی آسان نہیں بنایا بلکہ کاروبار کو بھی نیا رخ دے ڈالا۔
انٹرنیٹ کے باطن سے ''ای کامرس'' اور موبائل کی کوکھ سے ''ایم کامرس'' نے جنم لیا۔ فی الوقت ای کامرس کی عالمی مارکیٹ میںسالانہ ''1500ارب ڈالر'' کا کاروبار ہورہا ہے،جبکہ عالمی ایم کامرس کی مالیت 200 ارب ڈالر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایم کامرس کی شرح ترقی بہت زیادہ ہے۔ خیال ہے ' محض ا گلے پانچ برس میں بین الاقوامی ایم کامرس کی مالیت1000ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
پاکستان کی نسبت ہمارا پڑوسی بھارت ای کامرس اور ایم کامرس... دونوں کاروباری شعبوں میں کہیں زیادہ آگے ہے۔ اس بڑھوتری کی ایک وجہ محیرالعقول بھارتی آبادی ہے ۔ اور دوسری وجہ یہ کہ بھارتی حکمرانوں کی معاشی و سیاسی پالیسیاں پاکستانی حکمران طبقے کی نسبت زیادہ بہتر ہیں۔
اس وقت سوا ایک ارب بھارتیوںمیں سے ''85 کروڑ'' بھارتی موبائل فون رکھتے ہیں۔ جبکہ 24کروڑ بھارتی انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں ۔ یہ دنیا میں چین (64کروڑ) اور امریکہ (28کروڑ) کے بعد تیسری بڑی تعداد ہے۔(پاکستان اکیسویں نمبر پر ہے)۔نمایاں بات یہ کہ بھارتی انٹرنیٹ یوزر میں سے ''65فیصد'' موبائل یا سمارٹ فون کے ذریعے نیٹ استعمال کرتے ہیں۔ گویا نائجیریا (76 فیصد) کے بعد بذریعہ موبائل انٹرنیٹ استعمال کرنے والے سب سے زیادہ لوگ بھارت میں آباد ہیں۔ اس کے بعد جنوبی افریقہ (75فیصد)' انڈونیشیا(57فیصد) ' پولینڈ (52فیصد)' ترکی (39 فیصد) اور ایران (38 فیصد) کا نمبر ہے۔
بھارت میں موبائل' سمارٹ فون ا ور انٹرنیٹ کی بڑھتی مقبولیت کے پیش نظر تمام بڑی نیٹ و کمپیوٹر کمپنیاں بھارتیوں کی طرف متوجہ ہیں۔ اعداد و شمار کی رو سے فیس بک اور لنک ڈلن میں بھارتی ہی(امریکیوں کے بعد) دوسرا بڑا گروہ ہیں۔ جبکہ وٹس ایپ میں بھارتی سب سے بڑا گروپ بن چکے۔ اس طرح ٹویٹر اور یوٹیوب کے لاکھوں یوزر بھارت میں آباد ہیں۔
یہ یاد رہے، دنیا ئے نیٹ میں وہی کمپنیاں ہر لحاظ سے ''جن'' ہیں جنہیں لوگ کسی نہ کسی ضرورت کے تحت استعمال کرتے ہیں۔ ان کمپنیوں میں ایپل' گوگل' علی بابا (چین کی مشہور آن لائن کاروباری سائٹ) ' مائکروسافٹ' فیس بک' ایمزن ' یاہو' ای بے' وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے ایپل' گوگل اور مائیکروسافٹ مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی نجی کمپنیاں شمار ہوتی ہیں۔
بھارت کی شرح ترقی' 7.5 فیصد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ مزیدبراں وہاں انٹرنیٹ استعمال کنندگان کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ خیال ہے' اگلے پچاس برس میں ''50 کروڑ '' بھارتی انٹرنیٹ سے وابستہ ہو جائیں گے۔ گویا بھارت اب (امریکا اور چین کے بعد) دنیا کی تیسری بڑی ''انٹرنیٹ معیشت '' بننے کی راہ پر گامزن ہو چکا۔ اور اس معیشت کی بڑھوتری میں موبائل و سمارٹ فون اہم حصہ لیں گے۔
خاص بات یہ کہ انٹرنیٹ معیشت اب اشیا خریدنے یا بیچنے تک محدود نہیں' بلکہ یہ تفریح' تعلیم' صحت' بینک کاری' باہمی رابطے' نقل و حمل ا ور دیگر انسانی شعبوں میں بھی تیزی سے دخیل ہو رہا ہے ۔عام انسانی زندگی میں اس کا بڑھتا عمل دخل ہی اسے بے پناہ اہمیت دے ڈالتا ہے۔ انٹرنیٹ معیشت میں اب یہ طاقت ہے کہ ایک غریب مگر ذہین انسان اس کی مدد سے اپنی قسمت بدل لے۔ یہ نئی معاشی قوت بھارت اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں لاکھوں غریبوں کا معیار زندگی بلند کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔
انٹرنیٹ معیشت کے بیش بہا فوائد جا ن کر ہی بھارتی سائنسی ادارے' اسرو(Indian Space Research Organisation ) کے ماہرین بھارت کا سب سے بڑا مواصلاتی سیارہ ''Gsat-11'' تیار کر رہے ہیں۔ یہ چار ہزار کلو وزنی سیارہ 2016ء میں خلا میں پہنچ کر بھارت میں انٹرنیٹ معیشت کو پھلنے پھولنے میں مدد دینے والا بہترین ذریعہ ثابت ہو گا ۔یہ سیارہ خلا میں پہنچ کر بھارت کے کونے کونے میں نیٹ ڈیٹا ''10گیگا بائٹ فی سکینڈ'' کی محیر العقول رفتار سے بھیج سکے گا۔ گویا بھارتی ایک فلم سکینڈ سے کم عرصے میں بھی ڈاؤن لوڈ کر سکیں گے۔
گیسٹ 11سے ڈیٹا لینے کی خاطر بھارت بھر میں مقامی وائی فائی ٹاور تعمیر ہو رہے ہیں۔ یہ ٹاور پھر اردگرد لاکھوں گھروں میں موجود موبائل سمارٹ فون اور کمپیوٹروں تک ڈیٹا پہنچائیں گے۔ بلکہ گیسٹ 11کی مدد سے انٹرنیٹ ٹی وی دیکھنا بھی بہت آسان ہو جائے گا۔
پاکستان نے اپنا پہلا مواصلاتی سیارہ'' پاک سیٹ 1آر ''(Paksat-IR)چار سال قبل چھوڑا تھا۔ اس کے ڈیٹا ٹرانسفر کی رفتار زیادہ نہیں کیونکہ سب سے بڑی پاکستانی ٹیلی کام کمپنی 36میگا بائٹس فی سیکنڈ کی سپیڈ ہی آفر کرتی ہے جو موجودہ حالات میں بہت تھوڑی ہو چکی۔یہ حقیقت مد نظر رکھ کر ضروری ہے' پاکستان جلدایسا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجے جو زیادہ رفتار میں ڈیٹا زمین تک پہنچا سکے۔ اس طرح وطن عزیز بھی انٹرنیٹ معیشت کے گوناں گوں فوائد سے مستفید ہو سکے گا۔
1963ء میں ٹیلی فون اور تارکی ایجادات سامنے آ چکی تھیں' مگر ان کا دائرہ کار شہروں میں بھی مخصوص جگہوں تک محدود تھا۔ اسی لیے مارشل ملکوہان کے نظریے کو بچکانہ قرار دے کر اس کا مذاق اڑایا گیا۔ مگر صرف تیس سال بعد انٹرنیٹ اور پھر موبائل فون کی ایجادات نے ملکوہان کے تصّور میں حقیقی رنگ بھر دیئے ۔ یوں کینیڈین فلسفی کی پیشن گوئی درست ثابت ہوئی۔
آج پشاور یا چترال میں بیٹھا پاکستانی بذریعہ انٹرنیٹ چشم زدن میں ہزاروں میل دور واقع کینیڈین شہر ٹورنٹو یا وینکوور میں کسی بھی دوست سے یوں باتیں کر سکتا ہے جیسے وہ اس کے سامنے بیٹھا ہو۔ یہ کرشمہ انٹرنیٹ اور پھر جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجیوں کی بدولت ہی وجود میں آیا۔ دریں اثناء موبائل اور سمارٹ فونوں کے پھیلاؤ نے بھی دنیا کو عالمی گاؤں بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس وقت دنیا کے سات ارب باشندوں میں سے تقریباً پونے سات ارب انسان موبائل یا سمارٹ فون استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد تین ارب تک پہنچ چکی ۔ انٹرنیٹ اور موبائل کی خاص بات یہ ہے کہ ان ایجادات نے باہمی رابطہ ہی آسان نہیں بنایا بلکہ کاروبار کو بھی نیا رخ دے ڈالا۔
انٹرنیٹ کے باطن سے ''ای کامرس'' اور موبائل کی کوکھ سے ''ایم کامرس'' نے جنم لیا۔ فی الوقت ای کامرس کی عالمی مارکیٹ میںسالانہ ''1500ارب ڈالر'' کا کاروبار ہورہا ہے،جبکہ عالمی ایم کامرس کی مالیت 200 ارب ڈالر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایم کامرس کی شرح ترقی بہت زیادہ ہے۔ خیال ہے ' محض ا گلے پانچ برس میں بین الاقوامی ایم کامرس کی مالیت1000ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
پاکستان کی نسبت ہمارا پڑوسی بھارت ای کامرس اور ایم کامرس... دونوں کاروباری شعبوں میں کہیں زیادہ آگے ہے۔ اس بڑھوتری کی ایک وجہ محیرالعقول بھارتی آبادی ہے ۔ اور دوسری وجہ یہ کہ بھارتی حکمرانوں کی معاشی و سیاسی پالیسیاں پاکستانی حکمران طبقے کی نسبت زیادہ بہتر ہیں۔
اس وقت سوا ایک ارب بھارتیوںمیں سے ''85 کروڑ'' بھارتی موبائل فون رکھتے ہیں۔ جبکہ 24کروڑ بھارتی انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں ۔ یہ دنیا میں چین (64کروڑ) اور امریکہ (28کروڑ) کے بعد تیسری بڑی تعداد ہے۔(پاکستان اکیسویں نمبر پر ہے)۔نمایاں بات یہ کہ بھارتی انٹرنیٹ یوزر میں سے ''65فیصد'' موبائل یا سمارٹ فون کے ذریعے نیٹ استعمال کرتے ہیں۔ گویا نائجیریا (76 فیصد) کے بعد بذریعہ موبائل انٹرنیٹ استعمال کرنے والے سب سے زیادہ لوگ بھارت میں آباد ہیں۔ اس کے بعد جنوبی افریقہ (75فیصد)' انڈونیشیا(57فیصد) ' پولینڈ (52فیصد)' ترکی (39 فیصد) اور ایران (38 فیصد) کا نمبر ہے۔
بھارت میں موبائل' سمارٹ فون ا ور انٹرنیٹ کی بڑھتی مقبولیت کے پیش نظر تمام بڑی نیٹ و کمپیوٹر کمپنیاں بھارتیوں کی طرف متوجہ ہیں۔ اعداد و شمار کی رو سے فیس بک اور لنک ڈلن میں بھارتی ہی(امریکیوں کے بعد) دوسرا بڑا گروہ ہیں۔ جبکہ وٹس ایپ میں بھارتی سب سے بڑا گروپ بن چکے۔ اس طرح ٹویٹر اور یوٹیوب کے لاکھوں یوزر بھارت میں آباد ہیں۔
یہ یاد رہے، دنیا ئے نیٹ میں وہی کمپنیاں ہر لحاظ سے ''جن'' ہیں جنہیں لوگ کسی نہ کسی ضرورت کے تحت استعمال کرتے ہیں۔ ان کمپنیوں میں ایپل' گوگل' علی بابا (چین کی مشہور آن لائن کاروباری سائٹ) ' مائکروسافٹ' فیس بک' ایمزن ' یاہو' ای بے' وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے ایپل' گوگل اور مائیکروسافٹ مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی نجی کمپنیاں شمار ہوتی ہیں۔
بھارت کی شرح ترقی' 7.5 فیصد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ مزیدبراں وہاں انٹرنیٹ استعمال کنندگان کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ خیال ہے' اگلے پچاس برس میں ''50 کروڑ '' بھارتی انٹرنیٹ سے وابستہ ہو جائیں گے۔ گویا بھارت اب (امریکا اور چین کے بعد) دنیا کی تیسری بڑی ''انٹرنیٹ معیشت '' بننے کی راہ پر گامزن ہو چکا۔ اور اس معیشت کی بڑھوتری میں موبائل و سمارٹ فون اہم حصہ لیں گے۔
خاص بات یہ کہ انٹرنیٹ معیشت اب اشیا خریدنے یا بیچنے تک محدود نہیں' بلکہ یہ تفریح' تعلیم' صحت' بینک کاری' باہمی رابطے' نقل و حمل ا ور دیگر انسانی شعبوں میں بھی تیزی سے دخیل ہو رہا ہے ۔عام انسانی زندگی میں اس کا بڑھتا عمل دخل ہی اسے بے پناہ اہمیت دے ڈالتا ہے۔ انٹرنیٹ معیشت میں اب یہ طاقت ہے کہ ایک غریب مگر ذہین انسان اس کی مدد سے اپنی قسمت بدل لے۔ یہ نئی معاشی قوت بھارت اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں لاکھوں غریبوں کا معیار زندگی بلند کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔
انٹرنیٹ معیشت کے بیش بہا فوائد جا ن کر ہی بھارتی سائنسی ادارے' اسرو(Indian Space Research Organisation ) کے ماہرین بھارت کا سب سے بڑا مواصلاتی سیارہ ''Gsat-11'' تیار کر رہے ہیں۔ یہ چار ہزار کلو وزنی سیارہ 2016ء میں خلا میں پہنچ کر بھارت میں انٹرنیٹ معیشت کو پھلنے پھولنے میں مدد دینے والا بہترین ذریعہ ثابت ہو گا ۔یہ سیارہ خلا میں پہنچ کر بھارت کے کونے کونے میں نیٹ ڈیٹا ''10گیگا بائٹ فی سکینڈ'' کی محیر العقول رفتار سے بھیج سکے گا۔ گویا بھارتی ایک فلم سکینڈ سے کم عرصے میں بھی ڈاؤن لوڈ کر سکیں گے۔
گیسٹ 11سے ڈیٹا لینے کی خاطر بھارت بھر میں مقامی وائی فائی ٹاور تعمیر ہو رہے ہیں۔ یہ ٹاور پھر اردگرد لاکھوں گھروں میں موجود موبائل سمارٹ فون اور کمپیوٹروں تک ڈیٹا پہنچائیں گے۔ بلکہ گیسٹ 11کی مدد سے انٹرنیٹ ٹی وی دیکھنا بھی بہت آسان ہو جائے گا۔
پاکستان نے اپنا پہلا مواصلاتی سیارہ'' پاک سیٹ 1آر ''(Paksat-IR)چار سال قبل چھوڑا تھا۔ اس کے ڈیٹا ٹرانسفر کی رفتار زیادہ نہیں کیونکہ سب سے بڑی پاکستانی ٹیلی کام کمپنی 36میگا بائٹس فی سیکنڈ کی سپیڈ ہی آفر کرتی ہے جو موجودہ حالات میں بہت تھوڑی ہو چکی۔یہ حقیقت مد نظر رکھ کر ضروری ہے' پاکستان جلدایسا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجے جو زیادہ رفتار میں ڈیٹا زمین تک پہنچا سکے۔ اس طرح وطن عزیز بھی انٹرنیٹ معیشت کے گوناں گوں فوائد سے مستفید ہو سکے گا۔