بھارت سے خشک دودھ کا سیلاب
ایک اخباری اطلاع کے مطابق2010 سے 2015 تک پاکستان، بھارت سے72ملین ڈالر سے زیادہ رقم کا خشک دودھ درآمد کر چکا ہے
عالمی اعداد وشمار کے مطابق وطن عزیز دودھ پیدا کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے،جو سالانہ 35 ارب لیٹر دودھ پیدا کرتا ہے لیکن آج اصل صورت حال اس سے یک سر مختلف نظر آتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ عن قریب یہ اعزاز بھی بھارت ہم سے چھین لے گا۔
اس وقت پاکستان ڈیری فارمنگ کی صنعت ایک ایسی خطرناک صورتِ احوال سے دوچار ہے جس پر اگر فوری توجہ نہ دی گئی تو پاکستان پانی کے دائمی بحران کے بعد دودھ کے بحران سے بھی دوچار ہوجائے گا۔ خشک دودھ کا سیلاب ملک میں مائع دودھ کی ایک ایسی خشک سالی کا منظر پیش کرنے والا ہے کہ جہاں خالص دودھ تو ناپید ہوگا ہی، لوگ گوشت کھانے کو بھی ترس جائیں گے۔
ایک اخباری اطلاع کے مطابق2010 سے 2015 تک پاکستان، بھارت سے72ملین ڈالر سے زیادہ رقم کا خشک دودھ درآمد کر چکا ہے اور دوسری طرف اسی عرصے میں مویشی پالنے والے کسان اپنے دودھ دینے والے جانور سستے داموں، قصابوں کے ہاتھ فروخت کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں اور پاکستان سے دودھ دینے والے صحت مند زندہ جانور دھڑا دھڑ افغانستان کی طرف اسمگل ہو رہے ہیں۔
کسان صدیوں سے اس کار و بار سے وابستہ ہیں لیکن ناقص معاشی اور سیاسی پالیسیوں کی وجہ سے جیسے اور بہت کچھ وطنِ عزیز میں زوال پذیر ہے، اب یہ کار و بار بھی تباہی کی زد پر آ رہا ہے۔ گلہ بانی، دودھ، دہی، مکھن، گھی وغیرہ کے کار و بار سے وابستہ کسانوں نے بھی تو اب اپنے کام کو گھاٹے کا سودا قرار دے دیا ہے۔
ایک وقت تھا جب دودھیل مویشیوں کی قدر کی جاتی تھی، اب اپنے پالنے والوں کے لیے وبالِ جاں بنتے جا رہے ہیں کیوں کہ ان بھاری بھرکم جانور کے اخراجات ان کی آمدنیوں پر بھاری پڑ رہے ہیں، اس غیر متوازن صورتِ حال کے پیشِ نظر ان جانوروں کو کم قیمت پر فروخت کر کے کسان اپنے کاندھوں پر پڑے بدحالی کے بے پناہ بوجھ کو اپنے تئیں کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ مشق اتنی بڑھ چکی ہے کہ اس ضمن میں حکومت پنجاب نے چند دن پہلے گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے اس عمل کو روکنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، اللہ کرے کہ کوئی مثبت پالیسی ترتیب پائے وگرنہ تو اس ملک میں خرگوش کی نیند اتنی فراواں ہے کہ توبہ ہی بھلی۔
اس بارے میں پنجاب لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے ہنگامی طور پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن (پی ڈی اے) اور دودھ پراسس کرنے والی مقامی اور غیر ملکی کمپنیوں کوایک خط لکھا ہے کہ وہ دودھ دینے والے جانوروں کو ذبح خانوں تک بلاوجہ جانے سے روکنے کے لیے اقدامات میں تعاون کریں۔
اس شعبے کے صوبائی سیکریٹری نسیم صادق نے اپنے مراسلے میں واضح کیا ہے کہ دودھ دینے والے جانوروں کو جس افراتفری کے عالم میں کسانوں نے فروخت کرنا شروع کر دیا ہے، اس سے ملک میں دودھ کا شدید بحران پیدا ہونے کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ حال ہی میں تازہ دودھ کی برائے نام خریداری کی وجہ سے دودھ کے تاجر تشویش میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اسی تشویش نے ان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی قریب قریب سلب کر لیا ہے۔ یہ لوگ پہلے ہی دودھ کی پیکنگ کے یونٹس کی اجارہ داریوں سے پریشان ہیں۔
صوبائی سیکریٹری نسیم صادق نے اپنے خط میں یہ وضاحت بھی کی ہے کہ اس سے قبل پی ڈی اے نے کہا تھا کہ اس نے وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیوریٹی اینڈ ریسرچ کو خود لکھا ہے کہ وہ اپنے طور پر اُس تازہ دودھ کی وصولی کے کام میں ملوث نہیں، جو عام لوگوں کی ضرورت کو پوری کرتا ہے لیکن اب پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ پیکنگ والا دودھ، تازہ دودھ کا متبادل تو نہیں ہو سکتا مگر جب دست یاب تازہ دودھ ہی غیر میعاری (بل کہ خطرناک حد تک ناقص) ہو تو اُسے کون استعمال کرنے کا خطرہ مول لے گا؟ یہ دو الگ الگ بیانات ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ اس لیے اس طرح کے بیانات سے گریز کرنا چاہیے اور اُن اقدامات میں معاونت فراہم کی جانی چاہیے، جس سے مقامی ڈیری فارمنگ انڈسٹری کو فروغ ملے۔
صوبائی حکومت نے پی ڈی اے سے فوری طور پر ملک بھر کے تمام اضلاع کے گوالوں کی مکمل فہرستیں طلب کر لی ہیں، جن سے وہ دودھ کی خریداری کررہی ہے۔ علاوہ ازیں تمام ''فریش ملک کولیکشن پوائنٹس'' کے کوائف اور اُن کے نرخ نامے بھی طلب کر لیے گئے ہیں۔ ایسوسی ایشن کو یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ وہ تازہ دودھ کی خریداری کی مقدار اور ہر یونٹ پر پیک کیے جانے والے دودھ کی تفصیل بھی مہیا کرے تاکہ اصل اعد و شمار کی روشنی میں جامع لائحۂ عمل تیار کیا جاسکے۔
اِدھر تو یہ بپتا چل رہی ہے اور دوسری طرف ایک اور عالم ہے وہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان ڈیری فارمنگ صنعت کے ذرائع کے مطابق گذشتہ پانچ سال کے دوران میں پاکستان نے بھارت سے21.48 ملین کلوگرام خشک دودھ درآمد کیا ہے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
2010 میں بھارت سے1.168ملین کلو گرام درآمد کیا گیا،2011 میں یہ مقدار گر گئی تو درآمد 0.539 ملین کلو گرام ہو گئی، 2012 میں اس در آمد میں تیزی آئی اور 2.65 ملین کلو گرام تک پہنچ گئی۔2013 میںاس میں چار گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا، یعنی اس برس9.077 ملین کلو گرام دودھ درآمد کیا گیا لیکن 2014 میں تھوڑی سی کمی کے ساتھ خشک دودھ کی درآمد کی مقدار 8.043 ملین پر ٹھہری۔
اب ذرا اس درآمد کے عوض وطن عزیز کو جو ادائگی کرنا پڑی، اس کی بھی تفصیل ملاحظہ ہو:
2010 میں 2.50 ملین ڈالر،
2011 میں2 ملین ڈالر،
2012 میں7.8 ملین ڈالر اور
2013 اور 2014 میں 30، 30 ملین ڈالر
کی خطیر رقم ہمیں بھارت کو ادا کرنا پڑی۔
ان پانچ برسوں میں آپ دیکھ رہیں ہیں کہ2011 کا ایک برس چھوڑ کر باقی برسوں میں دودھ کی ہماری درآمد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے اور ایسا نہیں کہ ہم نے بھارت سے دودھ کی درآمد پانچ سال پہلے شروع کی تھی، حقیقت یہ ہے کہ یہ سلسلہ گذشتہ دس برس سے جاری ہے اور اس میں ہر برس اضافہ ہی ہوا ہے، اس اضافے میں تیزی البتہ خاص طور پر گذشتہ پانچ برسوں میں ہوئی ہے، ان برسوں میں درآمد کی شرح آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے۔
اس کے علاوہ جب آپ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار دیکھتے ہیں تو سر شرم سے مزید جھک جاتا ہے۔ 2014 میں پاکستان نے دنیا بھر سے بھارت کے علاوہ 117 ملین ڈالر مالیت کا33.5 ملین کلو گرام خشک دودھ منگوایا،2013 میں 70.7 ملین ڈالر سے 22 ملین کلوگرام دودھ اور 2012 میں102.1ملین ڈالر مالیت کا 35 ملین کلوگرام دودھ درآمدکیا۔ شاید اسی لیے ''مویشی پال کسان'' اب بر ملا کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ بھارت نے اپنے کسانوں کو اتنی زیادہ سہولیاتیں دے رکھی ہیں۔
جن کے متعلق ہم صرف سوچ سکتے ہیں جب کہ ہماری حکومت تو صرف نظرآنے والے اور تشہیری ترقیاتی منصوبوں، جیسے میٹرو بس، اورنج ٹرین جیسے نمائشی منصوبوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے جو ان ملکوں کو زیب دیتے ہیں جو اپنے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنا چکے ہوں۔ ہمارا ملک اس مکان کی صورت ہے جو اندر سے تباہ حال ہو لیکن باہر کی دیواروں کو رنگ روغن سے مزین کر دیا گیا ہو، بنیادی کاموں کے لیے ہماری حکومتوں کے پاس فرصت ہی نہیں۔
ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس شعبے کی طرف توجہ ہی نہیں دی جارہی،حال آں کہ یہ شعبہ (لائیو سٹاک) ملک کی مجموعی پیداوار کا 22 فی صد ہے اور ملک کی مجموعی زرعی پیداوار میں اس کا حصہ 55 فی صد سے زیادہ ہے۔ اگر ہم اس شعبے کو نظر انداز کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم ملک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی)کے12فی صد حصے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
بھارت کو دیکھتے ہیں تو اس نے اس شعبے کو فعال بنا کر اس سے بھر پور استفادہ کیا ہے اور خاص طور پر پاکستان کی طرف سے عائد کردہ کم درآمدی ڈیوٹی اور خشک دودھ سے متعلق درآمدی قوانین میں کم زوریوں کے باعث بھارت کے برآمد کنندگان نے خوب خوب ہاتھ رنگے ہیں۔ یاد رہے کہ بھارت کو اس حوالے سے بھی یہ سہولت میسر ہے کہ وہ سارک ممالک تنظیم کے رکن کی حیثیت سے 20 فی صد سے بھی کم ڈیوٹی پاکستان کو ادا کررہا ہے۔ جب کہ اسی ڈیوٹی کی شرح بھارت نے اپنے ہاں68 فی صد رکھی ہے، جس کے باعث اس کا صنعتی شعبہ محفوظ تر ہو گیا ہے۔
ایک اطلاع کے مطابق اس وقت پاکستان میں لاکھوں ٹن بھارتی خشک دودھ پاکستان میں ذخیرہ ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے مقامی کسان اپنے جانور قصابوں کو فروخت کرنے پر مجبورہو چکے ہیں۔ ماہرین طعنہ زن ہیں کہ یوں تو حکومت بڑھ بڑھ کر ترکی کی ترقی کی مثالیں دیتی ہے لیکن وہ اپنی اس صنعت کو بچانے کے لیے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے؟ واضح رہے کہ ترکی نے اپنے ڈیری فارمنگ کے شعبے کو تحفظ دینے کے لیے درآمدی ڈیوٹی کی شرح 180 فی صد کردی تھی، جس سے ترکی کے اندر مقامی ڈیری فارمنگ نے لمبی لمبی دہائیوں کے بجائے مہینوں کے اندر اندر صنعت کا درجہ اختیار کر لیا تھا۔
عام لوگوں کے علم میں یہ بات شاید نہ ہو کہ ڈیری فارمنگ کی صنعت کتنی کثیر پہلو ہے۔ وہ اسے صرف دودھ اور دہی کے حوالے سے ہی جانتے ہیں جب کہ یہ صنعت بیکریوں سے لے کر حلوائیوں تک اور اس آگے بہت دور دور تک اپنی مصنوعات فراہم کرتی ہے۔ اب ملک میں دودھ جیسی نعمت کو بچانے کے لیے مزیدکیا اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے لیکن دودھ کے تحفظ کی اس جنگ میں اب تمام شراکت دار کھل کر سامنے آچکے ہیں۔
سالانہ مالی بجٹ2015-16 سے پہلے ہی خشک دودھ درآمد اور پراسس کرنے والے تاجروں کے ایک وفد نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے بڑوں سے ایک ہنگامی ملاقات میں یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ''کے سی سی آئی'' حکومت پر زور ڈالے کہ وہ نئے بجٹ میں خشک دودھ پر عائد 25 فی صد درآمدی ڈیوٹی کوکم کرکے15 فی صد کرے۔
اس لچھے دار مؤقف میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ درآمدی پاؤڈردودھ کی اگر ڈیوٹی کم ہوجاتی ہے تو اس سے، جہاں بڑھتی ہوئی طلب پوری ہوسکے گی، وہاں غذائی قلت کے شکار بچوں کو اور عوام کو یہ دودھ مزید کم نرخ پر دست یاب ہوگا۔ یہ موقف بہ ظاہر بہت سادہ، پرکشش اور ترغیب دینے والا دکھائی دیتا ہے مگر غور کیا جائے تو کھلتا ہے۔ اس موقف کے حاملین یہ بات گول کر گئے کہ اس طرح کے فیصلے سے ملک کی ڈیری فارمنگ کی صنعت مزید دیوالیہ ہوجائے گی۔
امپورٹر حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک کی ڈیری فارمنگ صنعت چوں کہ مقامی ضرورتوں کو پورا نہیں کر پا رہی، اس لیے ہم زیادہ سے زیادہ خشک دودھ درآمد کرنا چاہتے ہیں، (چوں کہ عوام کا ہم سے زیادہ ہم درد کوئی نہیں) اس لیے حکومت عام آدمی کے دکھ کو سمجھے اور درآمدی ڈیوٹی کم کرے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کے راستے خشک دودھ کی اسمگلنگ ہورہی ہے، جس کے باعث مارکیٹ سے ڈیوٹی کی شرح کم ہوجاتی ہے اگر یہ ڈیوٹی کم ہوجاتی ہے، تو اسمگلنگ کی لعنت کا بھی قلع قمع ہو جائے گا۔ خیال رہے کہ اس موضوع پر کوئی بات نہیں کر رہا کہ افغانستان کو گوشت کی جو اسمگلنگ دھڑ دھڑ ہو رہی ہے، اس پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں۔
اس وقت پاکستان ڈیری فارمنگ کی صنعت ایک ایسی خطرناک صورتِ احوال سے دوچار ہے جس پر اگر فوری توجہ نہ دی گئی تو پاکستان پانی کے دائمی بحران کے بعد دودھ کے بحران سے بھی دوچار ہوجائے گا۔ خشک دودھ کا سیلاب ملک میں مائع دودھ کی ایک ایسی خشک سالی کا منظر پیش کرنے والا ہے کہ جہاں خالص دودھ تو ناپید ہوگا ہی، لوگ گوشت کھانے کو بھی ترس جائیں گے۔
ایک اخباری اطلاع کے مطابق2010 سے 2015 تک پاکستان، بھارت سے72ملین ڈالر سے زیادہ رقم کا خشک دودھ درآمد کر چکا ہے اور دوسری طرف اسی عرصے میں مویشی پالنے والے کسان اپنے دودھ دینے والے جانور سستے داموں، قصابوں کے ہاتھ فروخت کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں اور پاکستان سے دودھ دینے والے صحت مند زندہ جانور دھڑا دھڑ افغانستان کی طرف اسمگل ہو رہے ہیں۔
کسان صدیوں سے اس کار و بار سے وابستہ ہیں لیکن ناقص معاشی اور سیاسی پالیسیوں کی وجہ سے جیسے اور بہت کچھ وطنِ عزیز میں زوال پذیر ہے، اب یہ کار و بار بھی تباہی کی زد پر آ رہا ہے۔ گلہ بانی، دودھ، دہی، مکھن، گھی وغیرہ کے کار و بار سے وابستہ کسانوں نے بھی تو اب اپنے کام کو گھاٹے کا سودا قرار دے دیا ہے۔
ایک وقت تھا جب دودھیل مویشیوں کی قدر کی جاتی تھی، اب اپنے پالنے والوں کے لیے وبالِ جاں بنتے جا رہے ہیں کیوں کہ ان بھاری بھرکم جانور کے اخراجات ان کی آمدنیوں پر بھاری پڑ رہے ہیں، اس غیر متوازن صورتِ حال کے پیشِ نظر ان جانوروں کو کم قیمت پر فروخت کر کے کسان اپنے کاندھوں پر پڑے بدحالی کے بے پناہ بوجھ کو اپنے تئیں کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ مشق اتنی بڑھ چکی ہے کہ اس ضمن میں حکومت پنجاب نے چند دن پہلے گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے اس عمل کو روکنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، اللہ کرے کہ کوئی مثبت پالیسی ترتیب پائے وگرنہ تو اس ملک میں خرگوش کی نیند اتنی فراواں ہے کہ توبہ ہی بھلی۔
اس بارے میں پنجاب لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے ہنگامی طور پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن (پی ڈی اے) اور دودھ پراسس کرنے والی مقامی اور غیر ملکی کمپنیوں کوایک خط لکھا ہے کہ وہ دودھ دینے والے جانوروں کو ذبح خانوں تک بلاوجہ جانے سے روکنے کے لیے اقدامات میں تعاون کریں۔
اس شعبے کے صوبائی سیکریٹری نسیم صادق نے اپنے مراسلے میں واضح کیا ہے کہ دودھ دینے والے جانوروں کو جس افراتفری کے عالم میں کسانوں نے فروخت کرنا شروع کر دیا ہے، اس سے ملک میں دودھ کا شدید بحران پیدا ہونے کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ حال ہی میں تازہ دودھ کی برائے نام خریداری کی وجہ سے دودھ کے تاجر تشویش میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اسی تشویش نے ان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی قریب قریب سلب کر لیا ہے۔ یہ لوگ پہلے ہی دودھ کی پیکنگ کے یونٹس کی اجارہ داریوں سے پریشان ہیں۔
صوبائی سیکریٹری نسیم صادق نے اپنے خط میں یہ وضاحت بھی کی ہے کہ اس سے قبل پی ڈی اے نے کہا تھا کہ اس نے وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیوریٹی اینڈ ریسرچ کو خود لکھا ہے کہ وہ اپنے طور پر اُس تازہ دودھ کی وصولی کے کام میں ملوث نہیں، جو عام لوگوں کی ضرورت کو پوری کرتا ہے لیکن اب پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ پیکنگ والا دودھ، تازہ دودھ کا متبادل تو نہیں ہو سکتا مگر جب دست یاب تازہ دودھ ہی غیر میعاری (بل کہ خطرناک حد تک ناقص) ہو تو اُسے کون استعمال کرنے کا خطرہ مول لے گا؟ یہ دو الگ الگ بیانات ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ اس لیے اس طرح کے بیانات سے گریز کرنا چاہیے اور اُن اقدامات میں معاونت فراہم کی جانی چاہیے، جس سے مقامی ڈیری فارمنگ انڈسٹری کو فروغ ملے۔
صوبائی حکومت نے پی ڈی اے سے فوری طور پر ملک بھر کے تمام اضلاع کے گوالوں کی مکمل فہرستیں طلب کر لی ہیں، جن سے وہ دودھ کی خریداری کررہی ہے۔ علاوہ ازیں تمام ''فریش ملک کولیکشن پوائنٹس'' کے کوائف اور اُن کے نرخ نامے بھی طلب کر لیے گئے ہیں۔ ایسوسی ایشن کو یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ وہ تازہ دودھ کی خریداری کی مقدار اور ہر یونٹ پر پیک کیے جانے والے دودھ کی تفصیل بھی مہیا کرے تاکہ اصل اعد و شمار کی روشنی میں جامع لائحۂ عمل تیار کیا جاسکے۔
اِدھر تو یہ بپتا چل رہی ہے اور دوسری طرف ایک اور عالم ہے وہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان ڈیری فارمنگ صنعت کے ذرائع کے مطابق گذشتہ پانچ سال کے دوران میں پاکستان نے بھارت سے21.48 ملین کلوگرام خشک دودھ درآمد کیا ہے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
2010 میں بھارت سے1.168ملین کلو گرام درآمد کیا گیا،2011 میں یہ مقدار گر گئی تو درآمد 0.539 ملین کلو گرام ہو گئی، 2012 میں اس در آمد میں تیزی آئی اور 2.65 ملین کلو گرام تک پہنچ گئی۔2013 میںاس میں چار گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا، یعنی اس برس9.077 ملین کلو گرام دودھ درآمد کیا گیا لیکن 2014 میں تھوڑی سی کمی کے ساتھ خشک دودھ کی درآمد کی مقدار 8.043 ملین پر ٹھہری۔
اب ذرا اس درآمد کے عوض وطن عزیز کو جو ادائگی کرنا پڑی، اس کی بھی تفصیل ملاحظہ ہو:
2010 میں 2.50 ملین ڈالر،
2011 میں2 ملین ڈالر،
2012 میں7.8 ملین ڈالر اور
2013 اور 2014 میں 30، 30 ملین ڈالر
کی خطیر رقم ہمیں بھارت کو ادا کرنا پڑی۔
ان پانچ برسوں میں آپ دیکھ رہیں ہیں کہ2011 کا ایک برس چھوڑ کر باقی برسوں میں دودھ کی ہماری درآمد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے اور ایسا نہیں کہ ہم نے بھارت سے دودھ کی درآمد پانچ سال پہلے شروع کی تھی، حقیقت یہ ہے کہ یہ سلسلہ گذشتہ دس برس سے جاری ہے اور اس میں ہر برس اضافہ ہی ہوا ہے، اس اضافے میں تیزی البتہ خاص طور پر گذشتہ پانچ برسوں میں ہوئی ہے، ان برسوں میں درآمد کی شرح آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے۔
اس کے علاوہ جب آپ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار دیکھتے ہیں تو سر شرم سے مزید جھک جاتا ہے۔ 2014 میں پاکستان نے دنیا بھر سے بھارت کے علاوہ 117 ملین ڈالر مالیت کا33.5 ملین کلو گرام خشک دودھ منگوایا،2013 میں 70.7 ملین ڈالر سے 22 ملین کلوگرام دودھ اور 2012 میں102.1ملین ڈالر مالیت کا 35 ملین کلوگرام دودھ درآمدکیا۔ شاید اسی لیے ''مویشی پال کسان'' اب بر ملا کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ بھارت نے اپنے کسانوں کو اتنی زیادہ سہولیاتیں دے رکھی ہیں۔
جن کے متعلق ہم صرف سوچ سکتے ہیں جب کہ ہماری حکومت تو صرف نظرآنے والے اور تشہیری ترقیاتی منصوبوں، جیسے میٹرو بس، اورنج ٹرین جیسے نمائشی منصوبوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے جو ان ملکوں کو زیب دیتے ہیں جو اپنے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنا چکے ہوں۔ ہمارا ملک اس مکان کی صورت ہے جو اندر سے تباہ حال ہو لیکن باہر کی دیواروں کو رنگ روغن سے مزین کر دیا گیا ہو، بنیادی کاموں کے لیے ہماری حکومتوں کے پاس فرصت ہی نہیں۔
ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس شعبے کی طرف توجہ ہی نہیں دی جارہی،حال آں کہ یہ شعبہ (لائیو سٹاک) ملک کی مجموعی پیداوار کا 22 فی صد ہے اور ملک کی مجموعی زرعی پیداوار میں اس کا حصہ 55 فی صد سے زیادہ ہے۔ اگر ہم اس شعبے کو نظر انداز کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم ملک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی)کے12فی صد حصے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
بھارت کو دیکھتے ہیں تو اس نے اس شعبے کو فعال بنا کر اس سے بھر پور استفادہ کیا ہے اور خاص طور پر پاکستان کی طرف سے عائد کردہ کم درآمدی ڈیوٹی اور خشک دودھ سے متعلق درآمدی قوانین میں کم زوریوں کے باعث بھارت کے برآمد کنندگان نے خوب خوب ہاتھ رنگے ہیں۔ یاد رہے کہ بھارت کو اس حوالے سے بھی یہ سہولت میسر ہے کہ وہ سارک ممالک تنظیم کے رکن کی حیثیت سے 20 فی صد سے بھی کم ڈیوٹی پاکستان کو ادا کررہا ہے۔ جب کہ اسی ڈیوٹی کی شرح بھارت نے اپنے ہاں68 فی صد رکھی ہے، جس کے باعث اس کا صنعتی شعبہ محفوظ تر ہو گیا ہے۔
ایک اطلاع کے مطابق اس وقت پاکستان میں لاکھوں ٹن بھارتی خشک دودھ پاکستان میں ذخیرہ ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے مقامی کسان اپنے جانور قصابوں کو فروخت کرنے پر مجبورہو چکے ہیں۔ ماہرین طعنہ زن ہیں کہ یوں تو حکومت بڑھ بڑھ کر ترکی کی ترقی کی مثالیں دیتی ہے لیکن وہ اپنی اس صنعت کو بچانے کے لیے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے؟ واضح رہے کہ ترکی نے اپنے ڈیری فارمنگ کے شعبے کو تحفظ دینے کے لیے درآمدی ڈیوٹی کی شرح 180 فی صد کردی تھی، جس سے ترکی کے اندر مقامی ڈیری فارمنگ نے لمبی لمبی دہائیوں کے بجائے مہینوں کے اندر اندر صنعت کا درجہ اختیار کر لیا تھا۔
عام لوگوں کے علم میں یہ بات شاید نہ ہو کہ ڈیری فارمنگ کی صنعت کتنی کثیر پہلو ہے۔ وہ اسے صرف دودھ اور دہی کے حوالے سے ہی جانتے ہیں جب کہ یہ صنعت بیکریوں سے لے کر حلوائیوں تک اور اس آگے بہت دور دور تک اپنی مصنوعات فراہم کرتی ہے۔ اب ملک میں دودھ جیسی نعمت کو بچانے کے لیے مزیدکیا اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے لیکن دودھ کے تحفظ کی اس جنگ میں اب تمام شراکت دار کھل کر سامنے آچکے ہیں۔
سالانہ مالی بجٹ2015-16 سے پہلے ہی خشک دودھ درآمد اور پراسس کرنے والے تاجروں کے ایک وفد نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے بڑوں سے ایک ہنگامی ملاقات میں یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ''کے سی سی آئی'' حکومت پر زور ڈالے کہ وہ نئے بجٹ میں خشک دودھ پر عائد 25 فی صد درآمدی ڈیوٹی کوکم کرکے15 فی صد کرے۔
اس لچھے دار مؤقف میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ درآمدی پاؤڈردودھ کی اگر ڈیوٹی کم ہوجاتی ہے تو اس سے، جہاں بڑھتی ہوئی طلب پوری ہوسکے گی، وہاں غذائی قلت کے شکار بچوں کو اور عوام کو یہ دودھ مزید کم نرخ پر دست یاب ہوگا۔ یہ موقف بہ ظاہر بہت سادہ، پرکشش اور ترغیب دینے والا دکھائی دیتا ہے مگر غور کیا جائے تو کھلتا ہے۔ اس موقف کے حاملین یہ بات گول کر گئے کہ اس طرح کے فیصلے سے ملک کی ڈیری فارمنگ کی صنعت مزید دیوالیہ ہوجائے گی۔
امپورٹر حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک کی ڈیری فارمنگ صنعت چوں کہ مقامی ضرورتوں کو پورا نہیں کر پا رہی، اس لیے ہم زیادہ سے زیادہ خشک دودھ درآمد کرنا چاہتے ہیں، (چوں کہ عوام کا ہم سے زیادہ ہم درد کوئی نہیں) اس لیے حکومت عام آدمی کے دکھ کو سمجھے اور درآمدی ڈیوٹی کم کرے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کے راستے خشک دودھ کی اسمگلنگ ہورہی ہے، جس کے باعث مارکیٹ سے ڈیوٹی کی شرح کم ہوجاتی ہے اگر یہ ڈیوٹی کم ہوجاتی ہے، تو اسمگلنگ کی لعنت کا بھی قلع قمع ہو جائے گا۔ خیال رہے کہ اس موضوع پر کوئی بات نہیں کر رہا کہ افغانستان کو گوشت کی جو اسمگلنگ دھڑ دھڑ ہو رہی ہے، اس پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں۔