بونے کرائے پر لیں

28 سالہ ایرک کے مطابق ایک پستہ قد آدمی سے ملاقات کے بعد اس کے ذہن میں یہ سروس شروع کرنے کا خیال آیا۔

سویڈن میں پستہ قد افراد کی خدمات فراہم کرنے والی پہلی کمپنی قائم ۔ فوٹو : فائل

سرکس، شاپنگ مالز اور مختلف ریستورانوں میں آپ نے جوکر تو دیکھے ہوں گے جن کا کام آنے والے لوگوں بالخصوص بچوں کی دل بستگی کا سامان کرنا ہوتا ہے۔

ان جوکروں میں کچھ پستہ قد یعنی بونے بھی ہوتے ہیں، جن میں بچے خصوصی دل چسپی لیتے ہیں۔ گھریلو محفلوں میں بھی ان کی موجودگی یقیناً مہمانوں پر خوش گوار تاثر چھوڑتی ہے۔ اسی لیے سویڈن میں لوگ بونوں کی خدمات حاصل کرنے لگے ہیں۔

ان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے سویڈن میں اپنی نوعیت کی پہلی کمپنی قائم کی گئی ہے جو کرائے پر بونے فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کی ویب سائٹ پر مختلف خدمات کا تذکرہ موجود ہے جو بونے انجام دے سکتے ہیں۔ ہر خدمت کے ساتھ اس کا معاوضہ بھی دیا گیا ہے۔ اپنی محفل میں بونوں کی کشتی منعقد کرانے کا معاوضہ 4000 سویڈش کرونا فی بونا ہے۔ اسی طرح بونا باڈی گارڈ رکھنے کی خواہش 5000 کرونا میں پوری ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر کاموں کے لیے بونوں کی خدمات 1000 کرونا فی گھنٹہ کے حساب سے لی جاسکتی ہیں۔

ان خدمات کی اخلاقی نوعیت پر سوال اٹھائے جارہے ہیں اور اس کمپنی کو نوجوان نسل کے لیے ایک بری مثال بھی قرار دیا جارہا ہے۔ تاہم کمپنی کا چیف ایگزیکٹیو آفیسر اور مشترک بانی جوہانس ایرکسن اس تنقید سے بالکل متاثر نہیں۔ اس کے خیال میں معاوضے کے عوض بونوں کی خدمات فراہم کرنا کوئی بُرا کام نہیں۔


28 سالہ ایرک کے مطابق ایک پستہ قد آدمی سے ملاقات کے بعد اس کے ذہن میں یہ سروس شروع کرنے کا خیال آیا۔Arash Ayatinejad نامی یہ بونا ڈنمارک میں ایک ایسی ہی کمپنی کے لیے کام کرتا تھا۔ اس نے ایرکسن سے کہا کہ وہ اس کے لیے آن لائن مارکیٹنگ کا بندوبست کرے کیوں کہ وہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے کچھ زیادہ واقف نہیں۔آن لائن سرچنگ کے دوران ایرکسن پر انکشاف ہوا کہ بہت سے لوگ بونوں کی خدمات لینا چاہتے تھے مگر سویڈن میں اس مقصد کے لیے کوئی کمپنی موجود نہیں تھی۔

ایرکسن نے اسے سنہری کاروباری موقع سمجھتے ہوئے بونوں کی خدمات فراہم کرنے والی پہلی کمپنی قائم کر ڈالی۔ چند ہی روز میں اس کے پاس سیکڑوں ای میل جمع ہوگئیں جن میں بونوں کی خدمات حاصل کرنے کی درخواستیں کی گئی تھیں۔ ایرکسن کے پاس اب دس بونے ملازم ہیں جو مشہور و معروف اداروں کے لیے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

ایرکسن کے اس کاروبار کے خلاف انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے آواز بلند کررہے ہیں۔ سویڈش نیشنل ایسوسی ایشن فار ڈس ایبلڈ چلڈرن اینڈ ینگ پیپل کی چیئرمین ماریا پرسڈوٹر کا کہنا ہے کہ یہ کاروبار انسانیت کی تذلیل کے مترادف ہے۔ ایرکسن نے پستہ قد افراد کو انسان کے درجے سے گرا کر تفریح کا سامان کرنے والی شے بنادیا ہے۔ وہ انھیں دولت اکٹھی کرنے کے لیے استعمال کررہا ہے۔

ایرکسن خود پر ہونے والی تنقید کو مسترد کرتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پستہ قد Arash، جس نے ایرکسن کے ساتھ مل کر یہ کمپنی قائم کی، وہ بھی تنقید کو درست نہیں سمجھتا۔ اگرچہ اس بات کا اقرار وہ بھی کرتا ہے کہ محفلوں میں ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ لیکن Arash کا کہنا ہے اگر میری مضحکہ خیز ہیئت روزی روٹی کمانے میں معاون ہوتی ہے تو پھر اس پر اعتراضات نہیں کیے جانے چاہییں۔
Load Next Story