این جی اوز اور بھولا پاکستان

این جی اوز پاکستان کو بھولا بھالا ملک سمجھ کر یہاں اپنی آزادی کا جشن نہ منائیں۔


حکومت پاکستان کو بھی این جی اوز کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے کسی بھی قسم کا بیرونی دبائو قبول نہیں کرنا چاہیے۔

ضرب عضب کا ایک سال کامیابی سے مکمل ہوگیا ہے، اس میں پاک فوج کے جوانوں کی قربانیاں، قوم کی ہم آہنگی اور آئی ڈی پیز کی استقامت مبارکباد کی مستحق ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے حکومت کی سنجیدگی بھی لائق تحسین ہے مگر پاکستان کا دفاع صرف اندرونی اور بیرونی طور پر مسلح حملوں کو ناکام بنانے کا نام نہیں بلکہ پاکستان کے نظریاتی تشخص اور قومی ہم آہنگی کو مجروح کرکے بھی قوم و ملک کو کمزور کیا جا رہا ہے۔

اس میں ایک بڑا ہاتھ ملک میں بڑھتا ہوا این جی اوز کلچر ہے۔ اِس کی مثالیں آئے روز پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے منظرِعام پر آرہی ہیں۔ گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی مگر موجودہ حکومت کے راست اقدامات داد تحسین کے مستحق ہیں۔ ملک کے نوجوانوں کو روشن خیالی کا خوبصورت خواب، عورتوں کو نام نہاد آزادی کے نام پر پروموشن پروڈکٹ بنانا، اولاد کو والدین سے بیگانہ کرنا، مادیت پرستی کا خواب، میڈیا کی آزادی اور دولت کا لالچ این جی اوز کا بنیادی ہتھیار ہے۔



ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی اصطلاح متعارف کرتے ہوئے قوم میں تفریق ڈالی گئی۔ پولیو ٹیموں پر حملے، عورتوں پر نام نہاد تشدد کی ویڈیوز کی شوٹنگ اور غیر ملکیوں کے ذہنوں پر پاکستان کا دہشت گردانہ تصور دینا، سیاحوں پر حملے کرا کے یہاں سے سیاحت کی صنعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، چند ایک واقعات کو بنیاد بنا کر غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان آنے سے روکنا بھی پاکستان کو ایک ناکام ریاست بنانے کا ایک راستہ ہے۔

پاکستان میں این جی اوز کا طوفان 2005ء میں خیبر پختونخواہ اور کشمیر میں آنے والے قیامت خیز زلزلے کے بعد آیا۔ اُس وقت کی حکومت نے این جی اوز کو بلا تحقیق رسمی کارروائی کے بعد شتر بے مہار کی مانند آزاد چھوڑ دیا جس کے باعث بین الاقوامی حکومتوں نے این جی اوز کی آڑ میں اپنے درپردہ مقاصد کو ہوا دی۔ اُس وقت کی میڈیا رپورٹس کے بعد بعض امریکی این جی اوز میں بلیک واٹر کے اہلکاروں کی موجودگی کی نشاندہی کی گئی مگرحکومت کی جانب سے اُس پر کوئی توجہ دی گئی نہ ہی تحقیق و غور کی زخمت گوارہ کی۔ جبکہ بعد ازاں ملک میں آنے والے سیلابی ریلوں اور تھر کے قحط کے بعد این جی اوز اتنی بڑی تعداد میں ملک میں وارد ہوئیں کے انہیں سنبھالنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوگیا۔



پاکستان میں میڈیا رپورٹس کے مطابق 380 این جی اوز کا کردار مشکوک ہے جن میں 13 بین الاقوامی این جی اوز شامل ہیں جبکہ ایک لاکھ سے زائد این جی اوز ملک میں کام کر رہی ہیں۔ ان این جی اوز نے جہاں ملک کو اخلاقی طور پر زوال کا شکار کیا وہیں معصوم اذہان کو پٹری سے ہٹانے کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈز جاری کئے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی بھی ملک یا قوم کسی دوسرے ملک کو بڑے پیمانے پر فنڈز کیوں دے؟ اور پاکستان میں تو جیسے فنڈز کا سونامی بہایا جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے ان ممالک یا اقوام کا مخصوص ایجنڈا کار فرما ہے جس کو پورا کرنے کے لئے وہ این جی اوز کا سہارا لے رہے ہیں۔

گذشتہ دنوں ایک این جی او ''سیو دی چلڈرن'' کی سرگرمیوں پر ملک میں پابندی عائد کی گئی جو کہ پاکستان کی سالمیت اور بقاء کے خلاف کام کر رہی تھی۔ اس موقع پر وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے واضح طورپر کہا ہے کہ پاکستان میں کسی این جی او کو ملکی مفادات کیخلاف کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ تمام مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز کو پاکستان کے قوانین اور ضوابط کا احترام کرنا ہوگا۔ پچھلے کئی سال سے یہ مادر پدرآزاد این جی اوز کام کر رہی تھیں لیکن اب ان سب کو جان لینا چاہئے کہ ان کو مروجہ قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل پاکستان میں غیرقانونی کام کرنیوالی این جی اوز کی حمایت کرتے ہیں۔ کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے اپنے گھناؤنے مقاصد کی تکمیل کیلئے پاکستانی معاشرے سے ایسے افراد کی خدمات حاصل کی ہیں جو یا تو سابق سیاستدان ہیں یا انکا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے ہے۔

یقیناً وزارت داخلہ کا یہ اقدام بالکل درست اور بروقت ہے اور یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کیونکہ پاکستان میں اس سے قبل بھی متعدد بار غیر ملکی این جی اوز پر پابندیاں عائد کی گئیں تھیں۔ کراچی میں کام کرنے والی این جی او آئی میپ کے دفتر پر چھاپے کے بعد مختلف حساس جگہوں کے نقشے برآمد ہونے کے بعد اسے پاکستان میں BAN کردیا گیا تھا۔ سیو دی چلڈرن پرپابندی کے بعد وزارت داخلہ کی جانب سے پوری دنیا کو یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اپنے چارٹر کے اندر رہ کر کام کرنیوالی این جی اوز کے کام پر کوئی قدغن نہیں لیکن اس دائرے سے باہر کسی کو کام نہیں کرنے دیا جائیگا۔

لیکن پابندی کے بعد وزیراعظم پاکستان کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 6 ماہ تک این جی اوز کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دے دی جائے، جناب اعلیٰ انہیں 6 ماہ تک کس بنیاد پر کھلی چھوٹ دی جائے گی؟ سیو دی چلڈرن پر پابندی کے بعد جو خدشات پاکستانی میڈیا اور عوام کے ذہنوں پر مسلط تھے کہ کہیں سابقہ ادوار کی طرح اس بار بھی ''کہیں'' سے کوئی واضح پیغام تو نہیں مل جائے گا؟ کیا وہ خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں؟ کیا ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسی پارلیمنٹ کے بجائے ''کہیں اور'' بنائی جاتی ہے؟ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ریاست نہیں ہے؟ ایوان اقتدار میں تشریف فرما انتہائی قابل احترام ممبران و وزراء کرام خدارا قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ اس قوم نے تمام قربانیاں اپنی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی بقاء کی لئے دی ہیں۔ ان قربانیوں کو محض ڈالروں کی بندش کی خوف سے ضائع نہ کریں، پوری دنیا کو جرات مندانہ پیغام دیں کہ اس ملک کی قیادت اور عوام غریب ضرور ہیں مگر وہ بھکاری اور بزدل قطعاََ نہیں ہیں۔ اس قوم نے ''گھاس کھاو، ایٹم بم بنائو'' نعرے کی پاسداری کی ہے۔

اسی قوم نے اپنے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا جرات اور استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ اس قوم کے جذبات کا احترام کریں۔ پوری دنیا کو پیغام دیں کہ قومی مفادات میں کسی این جی او پر پابندی لگانے کا فیصلہ حکومت نے کرنا ہے غیروں نے نہیں۔ بہت سے بیرونی ممالک ایسے ہیں جنہوں نے ہمارے ارکان پارلیمنٹ کو ان کی پالیسی کے خلاف بیان دینے پر ویزے تک نہیں دیئے۔ یہ ان کا اختیار ہے۔ ہم ان کی خود مختاری اور حق کو تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ بھی ہمارے اختیاراور حق کو بھی تسلیم کریں۔

این جی اوز کو فنڈنگ بے شک بیرون ملک سے ہوتی ہے لیکن کام تو وہ یہاں کر رہی ہیں۔ جو رجسٹرڈ ہوگی اور چارٹر کے اندر کام کرے گی وہی این جی او یہاں کام کر سکے گی۔ پاکستان مخالف پروپیگنڈے پر اقوام متحدہ نے 2 این جی اوز کی مشاورتی حیثیت ختم کردی ہے۔



افریقن ٹیکنالوجی ڈیولپمنٹ لنک اور افریقن ٹیکنیکل ایسوسی ایشن پاکستان کے خلاف غلط بیانی کے لئے پلیٹ فارم مہیا کررہی تھیں۔ پاکستان نے یہ معاملہ اقوام متحدہ کی این جی اوز کمیٹی میں اٹھایا تھا۔ پاکستان نے شکایت کی تھی کہ یہ این جی اوز مہران بلوچ کے ساتھ کام کررہی تھیں اور انہیں پاکستان کے خلاف الزامات لگانے کے لئے پلیٹ فارم مہیا کررہی تھیں۔ افریقن ٹیکنالوجی ڈیولپمنٹ لنک کے خلاف درخواست پر اقوام متحدہ کی این جی اوز کمیٹی میں رائے شماری ہوئی، جس کا پاکستان بھی رکن ہے۔ پاکستان کے موقف کے حق میں 12 اور مخالفت میں 5 ووٹ آئے جبکہ افریقن ٹیکنیکل ایسوسی ایشن کے خلاف درخواست پر 13 ووٹ پاکستان کے حق میں اور 5 ووٹ مخالفت میں آئے۔ درخواست میں ووٹنگ کے بعد اقوام متحدہ میں ان این جی اوز کی مشاورتی حیثیت ختم کردی گئی ہے اور اب یہ این جی اوز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کو سفارشات نہیں دے سکیں گی۔ رائے شماری کے دوران بھارت اور اسرائیل سمیت 5 ممالک نے ان این جی اوز کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے پاکستانی موقف کی مخالفت کی جبکہ چین، ایران، روس اور ترکی سمیت 13 ملکوں نے پاکستان کی حمایت کی۔ یہاں ایک بات قابل غور بھی ہے کہ بعض این جی اوز صرف اسلام آباد کیلئے رجسٹرڈ تھیں وہ بغیر اجازت بلوچستان پہنچ جاتی تھیں۔ پنجاب میں کام کرنے والی این جی اوز خیبر پی کے اور قبائلی علاقہ جات تک جاپہنچیں۔ انہیں کھلی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

این جی اوز کی آڑ میں غیرملکی ایجنڈا کو پروان چڑھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ حکومت پاکستان کو این جی اوز کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے کسی بھی قسم کا بیرونی دبائو قبول نہیں کرنا چاہیے، پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ دنیا بھر کو پیغام دینا چاہئے کہ اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کسی کو کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وزات داخلہ این جی اوز کے آڈٹ کو یقینی بنائیں اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث این جی اوز کے خلاف کارروائی کرے، تاکہ این جی اوز پاکستان کو بھولا بھالا ملک سمجھ کر یہاں اپنے آزادی کا جشن نہ منائیں۔

[poll id="485"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں