عالمی مالیاتی بحران ……چند حقائق

دنیا بھر میں افرادی قوت میں4 کروڑ افراد سالانہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔

زیادہ ترماہرین اقتصادیات عالمی مالیاتی بحران کو امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کی جنگجوانہ پالیسیوں کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں. فوٹو : اے ایف پی

حالیہ عالمی مالیاتی بحران شروع ہونے کے بعد سے دنیا بھر میں مزید تین کروڑ (30 ملین) افراد بیروز گاری کا شکار ہو گئے ہیں جن کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

یہ تشویشناک انکشاف محنت کشوں کے بین الاقوامی ادارے آئی ایل اونے کیا ہے۔ جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک کے سربراہ اجلاس کے موقع پر آئی ایل او چیف نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ بیروزگاروں کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ یورپی ممالک میں ہوا ہے جہاں کی حکومتوں کو اپنے بجٹ میں خاصی ناروا کٹوتیاں کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

اس کے نتیجے میں بعض یورپی ممالک میں بیروزگاروں کی شرح 25 فیصد تک بلند ہو گئی ہے۔ مغربی یورپ میں یونان اور اسپین بطور خاص زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ آئی ایل او کے ڈائریکٹر جنرل گائی رائیڈر نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ دنیا بھر میںبے روز گار ہونے والے 3کروڑ افراد کے علاوہ 4کروڑ ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے حالات سے دل برداشتہ ہوکر روز گار کی تلاش ہی ترک کر دی ہے۔ ان میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے سربراہ عالمی مالیاتی اداروں کے سربراہوں کے سامنے یہ انکشاف بھی کیا کہ دنیا بھر میں بیروزگاروں کی تعداد 20 کروڑ سے زائد ہے جن میں ایک تہائی 25سال سے کم عمر کے ہیں۔


دنیا بھر میں افرادی قوت میں4 کروڑ افراد سالانہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سال بہ سال بیروزگاروں کی تعداد میں اگر اسی تناسب سے اضافہ ہوتا رہے توآیندہ چند سال میں کیا صورت ہو گی؟ اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے، دنیا بھر میں برسر روز گار عورتوں' مردوں کی تعداد کا اندازہ 90کروڑ لگایا گیا ہے مگر ان میں سے بیشتر کی آمدنی اتنی نہیں ہے کہ وہ بہ سہولت اپنے اہل خانہ کی کفالت کر سکیں۔ کئی گھرانوں کے افراد محض دو ڈالر یومیہ کما رہے ہیں لیکن اس آمدنی میں بھی بتدریج کمی ہورہی ہے۔ اس سے یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ حکومتوں کی سطح پر کفایت شعاری کے لیے جو اقدامات کیے گئے تھے وہ تقریباً بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں۔

لہٰذا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مالیاتی توازن قائم کرنے کی خاطر اور زیادہ سخت اقدامات کیے جائیں۔ اس اجلاس میں آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لاگریڈ نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ بہت زیادہ کفایت شعاری پر زور دینے کے نتائج مزید مشکلات پیدا کریں گے بالخصوص جب بہت زیادہ ممالک بہت زیادہ معاشی اہداف کا بیک وقت تعاقب شروع کر دیں۔ لاگریڈ نے ایک پریس کانفرنس میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ آئی ایم ایف نے یونان کو اپنی معیشت کو پٹڑی پر چڑھانے کے لیے مزید دو سال کی مہلت دیدی ہے۔ اس وقت یونان کی یہ حالت ہے کہ وہاں ہر چار افراد میں سے ایک بیروز گارہے۔

زیادہ ترماہرین اقتصادیات عالمی مالیاتی بحران کو امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کی جنگجوانہ پالیسیوں کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں جس کے نتیجے میں اسلحہ ساز فیکٹریوں' اسلحہ ڈیلروں اور تیل کمپنیوں کی ضرور چاندی ہورہی ہے مگر باقی دنیا مالیاتی بحران کا شکار ہے۔ٹوکیو کانفرنس میں جو حقائق سامنے آرہے ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ طاقتور ممالک کی پالیسیوں کے باعث عالمی معیشت بحران کا شکار ہوئی ہے۔دنیا کے پسماندہ ممالک گو اس بحران سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے لیکن امیر ممالک اپنی معیشتوں کو بہتر کرنے کے لیے غریب ممالک پر مزید سختی کریں گے جس سے صورتحال مزید خراب ہوگی۔

عالمی مالیاتی اداروں کے پالیسی سازوں اور دنیا کے طاقتور ممالک کے منصوبہ سازوں کو احساس کرنا چاہیے کہ ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پوری دنیا مصائب اور مشکلات کا شکار ہے۔ جب تک مالیاتی نظام کو انصاف کے مطابق نہیں چلایا جائے گا، عالمی سطح پر امن کا قیام ممکن نہیں ہوگا۔
Load Next Story