روزہ رکھیں فاقہ نہ کریں
کیا اللہ ایسا روزہ پسند کریگا کہ ہم لڑائی جھگڑا کریں، فرائض کی انجام دہی سے کوتاہی کریں اورپھر کہیں کہ میرا توروزہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جہاں اپنی عبادت کے لئے خلق کیا ہے وہیں زندگی کی حقیقت بھی یہی بتائی ہے کہ وہ دوسروں کے کام آئے یعنی حقوق العباد کو ادا کرے، ماہ مبارک رمضان کی آمد آمد ہے اور رمضان کو اللہ تعالیٰ کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے، قرآن پاک سورۃ البقراء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ؛
سورۃ البقراء میں ایک اور مقام پر ارشاد ہوا کہ؛
نہ صرف یہ بلکہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن مجید کی اور بھی آیات میں جہاں نماز کا تذکرہ کیا ہے تو اسکے ساتھ روزے کا بھی ذکر کیا ہے، اب اصل چیز یہ ہے کہ ہمیں روزہ کو سمجھنا ہوگا کہ یہ عبادت ہم سے کیا چاہتی ہے اور ہمیں اس عبادت کو کس طریقے سے ادا کرنا چاہئے۔
تو دراصل ہمارے ہاں گزشتہ 9، 8 برسوں سے رمضان المبارک ایک اسلامی مہینہ نہیں بلکہ ایک تفریح سے بھرپور ایونٹ کے طور پر منانے کا رواج بڑھ رہا ہے اور شاید اس میں ہماری اپنی ہی غلطی ہے۔ ویسے تو اِس موضوع پر بہت سے لوگوں نے لکھا پر عمل کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا لہذا میں رمضان المبارک میں ہونے والے کسی گیم شو کی بات نہیں کروں، ہم آج بات کرتے ہیں اپنی ۔۔۔ جی ہاں کے ہم خود کیا کرتے ہیں؟ آیا ہم کوئی مثبت کام بھی کرتے ہیں یا صرف تنقید تنقید اور تنقید ہی ہم نے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔ دوسروں کو احترام کرنا ان سے تمیز و تہذیب سے پیش آنا ہی رمضان کا پیغام ہے لیکن ہم میں سے کتنے ایسے لوگ ہیں جو اس پیغام کو یاد رکھتے ہیں۔
اگر ہم اس مبارک ماہ کی رحمتوں اور فضیلتوں کی حقیقت جان لیں تو شاید اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کریں کے یااللہ یہ مہینہ کبھی ختم نہ ہو مگر ہم تو کوشش میں ہوتے ہیں بائیک، گاڑی، لیپ ٹاپ جیتنے کی اور پھر ٹی وی پر آکے آم کھانے کی تاکہ بس کسی طرح ٹی وی پر دنیا ہمارا دیدار کر لے۔ اس بات سے ہر گز انکار نہیں ہے کہ کھیل کود صحت کے لئے بہترین ہیں لیکن ابھی رمضان شروع ہونے سے قبل بیٹ، بال، لیڈو، اونو، تاش کے پتے اور دیگر چیزوں کی فروخت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر وجہ معلوم کی جائے تو پتا چلے گا کہ وہ لوگ جو بچارے بے روزگار ہوتے ہیں، یا جو امتحانات سے فارغ ہو کر نتیجے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں یا پھر وہ جن سے روزہ مشکل سے کٹتا ہے تو وہ اپنا وقت کہیں نہ کہیں صرف کرنے کے لئے رات بھر لیڈو، کیرم بورڈ اور کرکٹ کھیلتے ہیں۔ اس کے بعد سحری کی، اگر دل کیا تو نماز پڑھ لی پھر اسکے بعد ایک بار پھر کرکٹ کا ایک میچ تو ہو ہی جاتا ہے اور آخر میں صبح نو بجے تک ایک آواز لگائی جاتی ہے امی ۔۔۔۔ آلو، ٹماٹر، بیسن ، پھل فروٹ جو بھی لانا ہو شام کو بتائیے گا کیونکہ اب میں افطار سے ایک گھنٹہ پہلے ہی اٹھوں گا۔
واہ بھئی واہ کیا بات ہے آپکی، ایک صاحب سے میں نے پوچھ لیا کہ یار آپ پورا سال دن میں نہیں سوتے لیکن رمضان میں سونے کی کیا وجہ ہے تو فوراً انہوں نے کہا کہ ارے بھئی عون آ پکو نہیں پتا کہ روزے کی حالت میں سونا بھی بہت ثواب ہے! میں نے کہا کہ جی مجھے پتا ہے لیکن بھائی حصول رزق حلال کمانا بھی تو ایک عظیم عبادت ہے؟ اس کے جواب میں موصوف نے فرمایا ارے یار وہ تو صحیح ہے لیکن میں اپنی ایک مہینے کی سالانہ چھٹیاں ہی رمضان میں لیتا ہوں تاکہ روزے سکون سے گزریں! اب کون جائے نوکری پر وہ بھی رمضان جیسے مبارک مہینے میں!!!
اس کے بعد ایک اور اہم چیز جو رمضان میں بہت زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے وہ یہ کہ عوام کے اندر سے صبر و سکون جیسے ختم سا ہوجاتا ہے۔ کوئی سڑکوں پر گاڑی چلا رہا ہے تو وہ بھی 80 سے کم اسپیڈ کو اپنی توہین سمجھتا ہے، کوئی بازار میں پھل اور سبزی خریدنے نکلا اور اگر بیو پاری نے قیمت زیادہ بتا دی تو تھپڑ رسید کرنے میں کوئی دیر نہیں کی جاتی۔ اگر کوئی وجہ پوچھ لے تو فوراً ایک ہی جواب دیا جاتا ہے کہ ارے یار میرا روزہ ہے اور یہ دماغ خراب کر رہا ہے!
ہاں جہاں تک بات ہے حکومتی سطح کے لوگوں کی تو ان کو اس عوام سے کیا تعلق کے جن میں سے اکثر ایسے سفید پوش مستحق افراد بھی ہیں کے جن کے گھروں میں سحری اور افطاری کرنے کے لئے سوائے سوکھی روٹی کے کچھ نہیں ہوتا، اور حکمرانوں کا یہ عالم ہے کہ ان کی میزوں پر جگہ نہیں ہوتی کہ مزید کچھ کھانے پینے کی چیز رکھی جائے۔
یاد رکھیں اس دنیا کے تقریباً ہر مذہب میں انسانیت کی خدمت کو اہم فریضہ قرار دیا ہے جس کی بہترین مثال دسمبر کے مہینے میں کرسمس کے موقع پر یوں دیکھنے میں آتی ہے کہ ابھی دسمبر شروع ہوا اور یورپ، امریکہ سمیت عیسائی اکثریت والے ممالک میں کھانے پینے کی اشیاء اور کپڑے جوتوں پر بھی ٹیکس یا تو معاف کردیا جاتا ہے یا پھر ان کی قیمت اتنی کم کر دی جاتی ہے کہ کم آمدنی والے لوگ انھیں با آسانی خرید سکیں، لیکن کیا کہنے ہیں ہماری حکمرانوں کی پالیسیوں کہ عام دنوں میں 15 روپے فروخت ہونے والے آلو رمضان میں 80 روپے کلو تک فروخت ہوتے ہیں اور اگر کہیں حکومت کی جانب سے سستا آٹا بیچا بھی جارہا ہوتا ہے تو یہ نا چیز اس بات کا گواہ ہے کہ اُس آٹے سے بننے والی روٹی کھانے کے بعد پیٹ کا وہ حال ہوا کہ دو دن تک روزہ رکھنا مشکل ہوگیا، تو ایسی صورتحال میں جب ہم اپنی زندگیاں گزر بسر کر رہے ہیں تو پھر کس طرح ہم ایک اچھے مسلمان بن سکتے ہیں؟ آیا ہمارا اس طرح روزہ رکھنا اللہ پسند کرتا ہوگا کہ لڑائی جھگڑے، اپنے فرائض کی انجام دہی سے کوتاہی اور تمام تر معاملات کے بعد یہ کہنا ہے کہ میرا تو روزہ ہے۔ اب آپ خود ہی بتائیے کہ کیا اللہ تعالیٰ آپ سے ایسے ہی عبادت کا طلبگار ہے؟
ہمیں اس بات کو خود بھی سمجھنا چاہئے کہ جتنی ہم بھی عبادات کرتے ہیں چاہے وہ نماز ہو، قرآن پاک کی تلاوت کرنا ہو، کسی غریب کی مدد کرنا ہو۔ تو ان تمام تر عبادات میں کسی بھی طرح سے نمود و نمائش کی جھلک آسکتی ہے، لیکن روزہ ایک واحد ایسی عبادت ہے جس میں کسی کو کوئی دکھاوے والی نوبت آ ہی نہیں سکتی کیونکہ اگر کوئی چھپ کے کھانا کھا لے یا پانی پی لے تو اسے کون روکے گا؟ ہاں اصل چیز ہے اللہ تعالیٰ کا ڈر جو بندے کے دل میں ہوتا ہے اور اگر ہم اس حقیقت کو سمجھ لیں تو پھر ہم ایک مہینے کے لئے پکے مسلمان نہیں بلکہ پورے سال کے لیے ایک بہترین مسلمان بن سکتے ہیں ورنہ تو پھر صحیح بخاری کتاب صوم میں آپ ﷺ کی حدیث ہے کہ؛
بس اگر ہم اس حدیث کے مفہوم کو سمجھ جائیں تو پھر ہمارے روزے بلکل اس طرح ہوسکتے ہیں جیسے اللہ ہم سے چاہتا ہے ورنہ پھر یہ صرف اور صرف فاقے کی مانند ہے۔
[poll id="484"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اے ایمان والوں تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کئے گئے تھے، تاکہ تم متقی ہو جاو۔
سورۃ البقراء میں ایک اور مقام پر ارشاد ہوا کہ؛
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔
نہ صرف یہ بلکہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن مجید کی اور بھی آیات میں جہاں نماز کا تذکرہ کیا ہے تو اسکے ساتھ روزے کا بھی ذکر کیا ہے، اب اصل چیز یہ ہے کہ ہمیں روزہ کو سمجھنا ہوگا کہ یہ عبادت ہم سے کیا چاہتی ہے اور ہمیں اس عبادت کو کس طریقے سے ادا کرنا چاہئے۔
تو دراصل ہمارے ہاں گزشتہ 9، 8 برسوں سے رمضان المبارک ایک اسلامی مہینہ نہیں بلکہ ایک تفریح سے بھرپور ایونٹ کے طور پر منانے کا رواج بڑھ رہا ہے اور شاید اس میں ہماری اپنی ہی غلطی ہے۔ ویسے تو اِس موضوع پر بہت سے لوگوں نے لکھا پر عمل کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا لہذا میں رمضان المبارک میں ہونے والے کسی گیم شو کی بات نہیں کروں، ہم آج بات کرتے ہیں اپنی ۔۔۔ جی ہاں کے ہم خود کیا کرتے ہیں؟ آیا ہم کوئی مثبت کام بھی کرتے ہیں یا صرف تنقید تنقید اور تنقید ہی ہم نے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔ دوسروں کو احترام کرنا ان سے تمیز و تہذیب سے پیش آنا ہی رمضان کا پیغام ہے لیکن ہم میں سے کتنے ایسے لوگ ہیں جو اس پیغام کو یاد رکھتے ہیں۔
اگر ہم اس مبارک ماہ کی رحمتوں اور فضیلتوں کی حقیقت جان لیں تو شاید اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کریں کے یااللہ یہ مہینہ کبھی ختم نہ ہو مگر ہم تو کوشش میں ہوتے ہیں بائیک، گاڑی، لیپ ٹاپ جیتنے کی اور پھر ٹی وی پر آکے آم کھانے کی تاکہ بس کسی طرح ٹی وی پر دنیا ہمارا دیدار کر لے۔ اس بات سے ہر گز انکار نہیں ہے کہ کھیل کود صحت کے لئے بہترین ہیں لیکن ابھی رمضان شروع ہونے سے قبل بیٹ، بال، لیڈو، اونو، تاش کے پتے اور دیگر چیزوں کی فروخت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر وجہ معلوم کی جائے تو پتا چلے گا کہ وہ لوگ جو بچارے بے روزگار ہوتے ہیں، یا جو امتحانات سے فارغ ہو کر نتیجے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں یا پھر وہ جن سے روزہ مشکل سے کٹتا ہے تو وہ اپنا وقت کہیں نہ کہیں صرف کرنے کے لئے رات بھر لیڈو، کیرم بورڈ اور کرکٹ کھیلتے ہیں۔ اس کے بعد سحری کی، اگر دل کیا تو نماز پڑھ لی پھر اسکے بعد ایک بار پھر کرکٹ کا ایک میچ تو ہو ہی جاتا ہے اور آخر میں صبح نو بجے تک ایک آواز لگائی جاتی ہے امی ۔۔۔۔ آلو، ٹماٹر، بیسن ، پھل فروٹ جو بھی لانا ہو شام کو بتائیے گا کیونکہ اب میں افطار سے ایک گھنٹہ پہلے ہی اٹھوں گا۔
واہ بھئی واہ کیا بات ہے آپکی، ایک صاحب سے میں نے پوچھ لیا کہ یار آپ پورا سال دن میں نہیں سوتے لیکن رمضان میں سونے کی کیا وجہ ہے تو فوراً انہوں نے کہا کہ ارے بھئی عون آ پکو نہیں پتا کہ روزے کی حالت میں سونا بھی بہت ثواب ہے! میں نے کہا کہ جی مجھے پتا ہے لیکن بھائی حصول رزق حلال کمانا بھی تو ایک عظیم عبادت ہے؟ اس کے جواب میں موصوف نے فرمایا ارے یار وہ تو صحیح ہے لیکن میں اپنی ایک مہینے کی سالانہ چھٹیاں ہی رمضان میں لیتا ہوں تاکہ روزے سکون سے گزریں! اب کون جائے نوکری پر وہ بھی رمضان جیسے مبارک مہینے میں!!!
اس کے بعد ایک اور اہم چیز جو رمضان میں بہت زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے وہ یہ کہ عوام کے اندر سے صبر و سکون جیسے ختم سا ہوجاتا ہے۔ کوئی سڑکوں پر گاڑی چلا رہا ہے تو وہ بھی 80 سے کم اسپیڈ کو اپنی توہین سمجھتا ہے، کوئی بازار میں پھل اور سبزی خریدنے نکلا اور اگر بیو پاری نے قیمت زیادہ بتا دی تو تھپڑ رسید کرنے میں کوئی دیر نہیں کی جاتی۔ اگر کوئی وجہ پوچھ لے تو فوراً ایک ہی جواب دیا جاتا ہے کہ ارے یار میرا روزہ ہے اور یہ دماغ خراب کر رہا ہے!
ہاں جہاں تک بات ہے حکومتی سطح کے لوگوں کی تو ان کو اس عوام سے کیا تعلق کے جن میں سے اکثر ایسے سفید پوش مستحق افراد بھی ہیں کے جن کے گھروں میں سحری اور افطاری کرنے کے لئے سوائے سوکھی روٹی کے کچھ نہیں ہوتا، اور حکمرانوں کا یہ عالم ہے کہ ان کی میزوں پر جگہ نہیں ہوتی کہ مزید کچھ کھانے پینے کی چیز رکھی جائے۔
یاد رکھیں اس دنیا کے تقریباً ہر مذہب میں انسانیت کی خدمت کو اہم فریضہ قرار دیا ہے جس کی بہترین مثال دسمبر کے مہینے میں کرسمس کے موقع پر یوں دیکھنے میں آتی ہے کہ ابھی دسمبر شروع ہوا اور یورپ، امریکہ سمیت عیسائی اکثریت والے ممالک میں کھانے پینے کی اشیاء اور کپڑے جوتوں پر بھی ٹیکس یا تو معاف کردیا جاتا ہے یا پھر ان کی قیمت اتنی کم کر دی جاتی ہے کہ کم آمدنی والے لوگ انھیں با آسانی خرید سکیں، لیکن کیا کہنے ہیں ہماری حکمرانوں کی پالیسیوں کہ عام دنوں میں 15 روپے فروخت ہونے والے آلو رمضان میں 80 روپے کلو تک فروخت ہوتے ہیں اور اگر کہیں حکومت کی جانب سے سستا آٹا بیچا بھی جارہا ہوتا ہے تو یہ نا چیز اس بات کا گواہ ہے کہ اُس آٹے سے بننے والی روٹی کھانے کے بعد پیٹ کا وہ حال ہوا کہ دو دن تک روزہ رکھنا مشکل ہوگیا، تو ایسی صورتحال میں جب ہم اپنی زندگیاں گزر بسر کر رہے ہیں تو پھر کس طرح ہم ایک اچھے مسلمان بن سکتے ہیں؟ آیا ہمارا اس طرح روزہ رکھنا اللہ پسند کرتا ہوگا کہ لڑائی جھگڑے، اپنے فرائض کی انجام دہی سے کوتاہی اور تمام تر معاملات کے بعد یہ کہنا ہے کہ میرا تو روزہ ہے۔ اب آپ خود ہی بتائیے کہ کیا اللہ تعالیٰ آپ سے ایسے ہی عبادت کا طلبگار ہے؟
ہمیں اس بات کو خود بھی سمجھنا چاہئے کہ جتنی ہم بھی عبادات کرتے ہیں چاہے وہ نماز ہو، قرآن پاک کی تلاوت کرنا ہو، کسی غریب کی مدد کرنا ہو۔ تو ان تمام تر عبادات میں کسی بھی طرح سے نمود و نمائش کی جھلک آسکتی ہے، لیکن روزہ ایک واحد ایسی عبادت ہے جس میں کسی کو کوئی دکھاوے والی نوبت آ ہی نہیں سکتی کیونکہ اگر کوئی چھپ کے کھانا کھا لے یا پانی پی لے تو اسے کون روکے گا؟ ہاں اصل چیز ہے اللہ تعالیٰ کا ڈر جو بندے کے دل میں ہوتا ہے اور اگر ہم اس حقیقت کو سمجھ لیں تو پھر ہم ایک مہینے کے لئے پکے مسلمان نہیں بلکہ پورے سال کے لیے ایک بہترین مسلمان بن سکتے ہیں ورنہ تو پھر صحیح بخاری کتاب صوم میں آپ ﷺ کی حدیث ہے کہ؛
بہت سے ایسے روزے دار ہیں ، جنہیں بھوک اور پیاس کے علاوہ روزہ کچھ نہیں دیتا
بس اگر ہم اس حدیث کے مفہوم کو سمجھ جائیں تو پھر ہمارے روزے بلکل اس طرح ہوسکتے ہیں جیسے اللہ ہم سے چاہتا ہے ورنہ پھر یہ صرف اور صرف فاقے کی مانند ہے۔
[poll id="484"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس