پرتشدد سیاست کا پھیلائو
ہمارے محترم سندھی اوربلوچی دوستوں کو سنجیدگی سےسوچنا چاہیےکہ اس قسم کی تحریکوں سےسندھی اوربلوچ قوم کامستقبل کیا ہو گا۔
پاکستان کی سیاست میں اشرافیہ نے تو کبھی اصولوں کی پاسداری نہیں کی اور ذاتی اور جماعتی مفادات ہی کی سیاست کی۔
لیکن حیرت کا مقام یہ ہے کہ درمیانے طبقات پر مشتمل بعض سیاسی جماعتیں بھی اصولوں کی سیاست کو پسِ پشت ڈال کر لسانی سیاست پر اس طرح اتر آئی ہیں کہ ملک و قوم خاص طور پر غریب طبقات کے مفادات کو بھی روندنا شروع کر دیا ہے اور اس حوالے سے اس حد تک آگے نکل گئے ہیں کہ کھلے تشدد پر اتر آئے ہیں اور جماعتی مفادات اور تعصبات اس قدر حاوی ہو گئے ہیں کہ تشدد کی سیاست بھی اب ان کے لیے معیوب بات نہیں رہی۔
بلدیاتی انتخابات اور بلدیاتی نظام کے حوالے سے لسانی سیاست میں یہ ترقی پسند دوست اس حد تک آگے نکل گئے ہیں کہ منتخب بلدیاتی نظام کی جگہ انگریزوں کے چھوڑے ہوئے کمشنری نظام کے سوا کسی بلدیاتی نظام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس مخالفانہ سیاست کا عالم یہ ہے کہ منتخب بلدیاتی نظام کی حمایت میں پی پی پی کی طرف سے نکالی جانے والی ریلی پر اندرون سندھ فائرنگ کی گئی کہ کئی افراد اس فائرنگ میں ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے۔ تشدد کے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہی جا رہا تھا کہ 9 اکتوبر کو پی پی پی کے کئی رہنمائوں کے گھروں پر بموں سے حملے کیے گئے اور مزید تشدد کی نوید دی گئی۔
سندھ میں منتخب بلدیاتی نظام کی مخالفت کی وجہ یہ سمجھی جا رہی ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور متحدہ ممکنہ بلدیاتی انتخابات میں میدان مار لیں گی۔ اس خوف کی وجہ یہ ہے کہ مشرف دور میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں شہری علاقوں میں متحدہ نے اور دیہی علاقوں میں پی پی پی نے واضح کامیابی حاصل کی۔ یہی صورت حال تھوڑے بہت فرق کے ساتھ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابی نتائج کی ہے۔ متحدہ اور پی پی پی کی یہ کامیابیاں محض دھاندلی کا نتیجہ نہیں، نہ اتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی ممکن ہے، یہ کامیابی عوام کی عمومی حمایت کا نتیجہ ہے اور جمہوری سیاست میں عوامی حمایت ہی جمہوریت کی روح سمجھی جاتی ہے۔ جمہوریت پر یقین رکھنے کے ساتھ عوامی حمایت کو تسلیم نہ کرنا جمہوری قدروں کی کھلی نفی ہے۔ بلدیاتی آرڈیننس کو بات چیت کے ذریعے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
خیبرپختون خوا میں پچھلے تقریباً ساڑھے چار سال سے اے این پی کی حکومت قائم ہے۔ اے این پی یا سابقہ نیپ کا پاکستان کی جمہوری سیاست میں ایک اہم رول رہا ہے۔ اے این پی کی ایک پہچان یہ ہے کہ یہ جماعت مڈل کلاس پر مشتمل ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ جماعت اپنی فکر میں لبرل اور سیکولر بھی ہے۔ مقام حیرت ہے کہ درمیانے طبقات اور سیکولر سیاست کی حامی یہ جماعت کمشنری نظام کے سوا کسی نظام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور اسی فکری پس منظر میں اے این پی سندھ بھی بلدیاتی نظام کی مخالفت اور کمشنری نظام کی نہ صرف حمایت کر رہی ہے بلکہ ان جماعتوں کے ساتھ کھڑی نظر آ رہی ہے جو کمشنری نظام کی حمایت کر رہی ہیں۔
کراچی میں اے این پی کی سندھ اسمبلی میں برائے نام نمایندگی ہے۔ اس برائے نام نمایندگی سے اے این پی کو اس لیے پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ خیبرپختون خوا میں اس کی بلا شرکت غیرے حکومت ہے۔ بلوچستان کی سیاست میں اور پنجاب میں ابھی تک اسے اپنے قدم جمانے کا موقع نہیں مل سکا ہے۔
پی پی پی یا متحدہ سے بہت سارے لوگوں کو اختلاف ہے بلکہ یہ اختلاف مخاصمت تک پہنچے ہوئے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں عوام کی حمایت سے طاقتور بنی ہیں۔ اگر ان جماعتوں سے اختلاف ہے اور قوم پرست ان کی سیاسی بالادستی کو پسند نہیں کرتے تو اس کا ایک جمہوری اور اخلاقی طریقہ یہ ہے کہ یہ جماعتیں پی پی پی اور متحدہ سے بہتر اور عوام کو متاثر کرنے والے پروگرام اور منشور کے ساتھ عوام میں آئیں اور عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
اس طریقہ کار سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس کے بر خلاف پر تشدد سیاست کے راستے پر چلنا نہ ہمارے قوم پرست دوستوں کے حق میں ہے نہ عوام اور ملک کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ اندرون سندھ ہونے والی پر تشدد کارروائیوں کی ذمے داری سندھو دیش، لبریشن آرمی نے قبول کی ہے۔ بلوچستان میں بھی لبریشن آرمی جیسی کئی تنظیمیں سرگرم ہیں اور بلوچستان سخت انارکی کی زد میں ہے۔
ہمارے محترم سندھی اور بلوچی دوستوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ اس قسم کی تحریکوں سے سندھی اور بلوچ قوم کا مستقبل کیا ہو گا۔
اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں روزِ اوّل سے چھوٹے صوبوں کے ساتھ نو آبادیوں جیسا سلوک روا رکھا گیا، جس کا ایک بھیانک نتیجہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی شکل میں نکلا۔ بلوچستان اور سندھ کے قوم پرست دوست بھی مشرقی پاکستان کے راستے پر یہ سمجھے بغیر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مشرقی پاکستان اور سندھ بلوچستان کی جغرافیائی صورتِ حال میں بہت فرق ہے۔ یہاں کی آبادی مختلف لسانی گروہوں میں بٹی ہوئی ہے جن کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔
ان حقائق کو سمجھے بغیر کسی بھی آزادی کے راستے پر چل نکلنے سے کیا فوائد کیا نقصان ہوں گے، اس کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس رجحان سے ایک بڑا نقصان یہ ہو سکتا ہے کہ لسانی اختلافات فقہی قتل و غارت کی شکل اختیار کر سکتے ہیں، جس کا نقصان اس ملک کے 18 کروڑ غریب عوام کی اس جدوجہد کو ہو گا جو وہ عوام دشمن اشرافیہ سے نجات حاصل کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔
پاکستان میں چھوٹے صوبوں کی حق تلفی یقیناً نا قابل قبول ہے۔ صوبوں کے حقوق کی جنگ اب تک قوم پرستی کے پلیٹ فارم سے لڑی جاتی رہی، جس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اب اس لڑائی کو صوبائی سطح سے اٹھا کر قومی سطح پر لانے کی ضرورت ہے۔ قوم پرستی کی سیاست کو قومی سیاست میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ہم یہاں کراچی میں ہونے والے ایک اجلاس میں رسول بخش پلیجو کے ایک اعلان کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
اس اجلاس میں ہم سمیت عابد حسن منٹو، معراج محمد خان، یوسف مستی خان اور دیگر اہم سیاسی رہنما موجود تھے۔ سینئر پلیجو صاحب نے اعلان کیا تھا کہ وہ اب ''قوم پرستی کی سیاست میں مزید وقت برباد کرنے کے بجائے قومی سیاست کریں گے۔'' لیکن یہ اعلان شرمندہ عمل نہ ہو سکا، اس کے برخلاف پلیجو صاحب نے اپنے صاحبزادے کو قوم پرستی کی سیاست میں ملوث کر دیا۔ اس پس منظر میں اب ضرورت اس بات کی ہے کہ لسانی سیاست سے نکل کر ہمیں اب قومی سیاست میں آنا چاہیے اور کمشنری نظام کی غیر اصولی حمایت کے بجائے منتخب بلدیاتی نظام کی حمایت کرنی چاہیے اور تشدد کی سیاست کے بجائے جمہوری اور اصولی سیاست کی طرف آنا ہوگا۔