برائی میں اچھائی کے پہلو
لوگ اب سمجھ رہے ہیں کہ ایوارڈ اور انعام صرف اسی کو ملتا ہے جو ہر طرح سے یہ ثابت کر دیتا ہے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں.
آج تک ہم اپنی خامیوں، کمزوریوں اور محرومیوں، تہی دستیوں کا رونا روتے آئے ہیں اور ہمارا پکا پکا عقیدہ تھا کہ ہمارے اندر اور ہماری قسمت کے اندر کسی بھی خوبی کا کوئی وجود نہیں ہے۔
لیکن اس دن اچانک جب ہم نے اپنے ساتھ لڑائی چھوڑ کر تھوڑا سا غور کیا تو انگشت بدندان ہو کر رہ گئے۔ ہمارے اندر تو خوبیوں کا پورا بھنڈار بھرا ہوا تھا، پھر اپنی قسمت پر نظر ڈالی تو وہ بھی اتنی گئی گزری نہیں تھی بلکہ کئی لحاظ سے قابل رشک تھی، بڑا پچھتاوا ہوا ہم یونہی خواہ مخواہ دن رات اپنے اور اپنی قسمت کے ساتھ مشت و گریباں رہتے تھے۔
دراصل یہ سارا کچھ کیا دھرا سوچ کا ہے سوچ منفی ہو تو سارے لوگ لیڈر نظر آتے ہیں اور جب سوچ مثبت ہوتی ہے تو وزیر بھی آدمی دکھائی دیتا ہے مثلاً ہم آج تک یہ رونا روتے رہے کہ دنیا نے ہماری قدر نہیں کی خصوصاً یہ ایوارڈز اور انعامات والے نہ جانے کس کس کو انعامات اور ایوارڈات بانٹتے پھرتے ہیں اور ہمیں مسلسل نظر انداز کیے جا رہے ہیں، لیکن اس سوچ کو جب ہم نے منفی سے مثبت کر لیا تو اچانک یہ دھماکا خیز انکشاف ہو گیا کہ سب سے بڑا ایوارڈ تو یہ لوگ ہمیں ایوارڈ نہ دے کر دے چکے ہیں کیوں کہ دنیا بھر کے چنے ہوئے نااہلوں، نالائقوں اور نکمے، نکھٹوؤں کو مسلسل دے دے کر انھوں نے ایوارڈوں کو اتنا بے توقیر کر دیا ہے کہ آج کل ایوارڈ یافتہ کا نام سن کر لوگ ناک بھوں چڑھا لیتے ہیں کہ ہو گا کوئی نالائق، نکما، کسی کا چمچہ، چاپلوس، خوشامدی اور جن کے ناموں کے ساتھ کسی ایوارڈ کا دم چھلہ نہیں ہوتا۔
اس کے ساتھ لوگ بڑی اپنائیت عزت اور حقیقی احترام کا سلوک کرتے ہیں، اب یہ یقین عام ہو گیا ہے کہ جن لوگوں کو سرکاری ایوارڈ یا انعام نہیں ملتا، ان کے اندر یقیناً کچھ ہوتا ہے اور یہ ہم کوئی سنی سنائی اور بنی بنائی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ ایسا کئی مرتبہ ہمارے سامنے ہو چکا ہے، تقریبات میں جن ناموں کے ساتھ کئی لاحقے سابقے ڈگریاں ڈپلومے اور انعامات و خطابات ہوتے ہیں، لوگ ان کے نام پکارے جانے پر ٹس سے مس نہیں ہوتے بلکہ نام سن کر برا سا منہ بناتے ہیں اور بیزاری سے یا تو آنکھیں بند کر کے سونے لگتے ہیں یا ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت شروع کر دیتے ہیں۔
کچھ بھی نہ ہو تو موبائل نکال کر اس کے ساتھ مصروف ہو جاتے ہیں البتہ جن ناموں کے ساتھ ایسا کچھ بھی جائز و ناجائز دم چھلہ نہیں ہوتا اس کے لیے تالیاں بھی بجاتے ہیں اگر سو رہے ہوتے ہیں تو جاگ پڑتے ہیں، ٹیڑھے میڑھے لیٹے ہوں تو سیدھے ہو کر بیٹھ جاتے ہیں، سب سے پہلے ہمارے ساتھ یہ سلسلہ ایک چھوٹی سی تقریب میں ہوا جس میں کل سات آٹھ شاعر تھے، ان میں آدھے تو پروفیسر ڈاکٹر کا سابقہ اپنے ساتھ لگا کر لائے تھے اور باقی سارے کے سارے سرکاری ایوارڈ یافتہ تھے، سب سے پہلا گھپلا تو اسٹیج سیکریٹری نے کیا، وہ ہر نام کے ساتھ لگے ہوئے سابقے لاحقے کچھ اس انداز سے پکارتا جیسے چور چور کہہ رہا ہو، الفاظ میں اسٹریس اور پاز کے ذریعے طنز پیدا کرنے کا اچھا خاصا ملکہ رکھتا تھا۔
چنانچہ جب وہ کوئی سابقہ لاحقہ یعنی پروفیسر، ڈاکٹر یا ستارہ امتیاز، پرائیڈ آف پرفارمنس کہتا تو یوں لگتا جیسے ہر سابقے لاحقے کے ساتھ تین تین کوئسچن مارک (؟ ؟ ؟) بھی لگا رہا ہو، صرف ہم ہی اکیلے تھے جو کچھ بھی نہیں رکھتے تھے چنانچہ اس نے سیدھا سادا نام لیا جس کے آگے پیچھے کوئی کوئسچن مارک نہیں لگایا تب ہم نے حاضرین میں اچانک توجہ اور کھانے کے انتظار کی جگہ کچھ بیداری سی محسوس کی، اس دن سے ہم مسلسل اپنا مطالعہ اور لوگوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور مسلسل دیکھ رہے ہیں جیسے سارے کے سارے ایوارڈ ہم نے حاصل کیے ہوں ،کوئی ایوارڈ نہ لے کر، یہ معاملہ ہم نے جب ایک اور دوست سے شیئر کیا تو وہ بولا ،تمہیں پتہ نہیں یہ رجحان تو کافی عرصے سے پیدا ہو رہا ہے۔
لوگ اب سمجھ رہے ہیں کہ ایوارڈ اور انعام صرف اسی کو ملتا ہے جو ہر طرح سے یہ ثابت کر دیتا ہے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں ۔۔۔ میرے اندر کچھ بھی نہیں کوئی شعلہ، کوئی شرارہ کوئی خطرہ، نہیں ہے اور جن جن کو ایوارڈ اور انعامات نہیں ملتے لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ اس بندے کے اندر ضرور کوئی خطرناک، ہائیلی انفلیم ایبل مواد چھپا ہوا ہے کیوں کہ اب عوام آہستہ آہستہ جاننے لگے ہیں کہ سرکار اور عوام باقاعدہ الگ الگ کنارے ہیں جو اس کنارے کا ہوتا ہے وہ اس کنارے کا نہیں ہوتا جو حکومت کو پسند آتا ہے وہ عوام کے لیے ناپسندیدہ ہوتا ہے اور جو عوام کا پسندیدہ ہوتا ہے وہ حکومت کی پسند ہو نہیں سکتا، دشمن کا دوست بھی دشمن ہی ہوتا ہے اور دوست کا دوست بھی تو دوست ہی ہوتا ہے۔
لیکن اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ ہم نے اپنے اندر صرف یہی ایک خوبی یا انفرادیت ڈھونڈ کر پائی ہے کہ ابھی تک کسی ایوارڈ یا انعام کی ''تہمت'' اپنے اوپر نہیں لگنے دی ہے تو آپ غلط سوچ رہے ہیں اس کے علاوہ بھی ہمارے اندر کئی گن چھپے ہوئے ہیں جو ہم ''خود دشمنی'' کے باعث ابھی تک دیکھ نہیں پائے تھے، مثلاً خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارا ایسا کوئی دوست یا رشتہ دار یا ساجھے دار نہیں ہے جس سے کسی بھی قسم کی ''سفارش'' کی جا سکے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے لوگ تھے ہی نہیں، ایسے بہت سارے لوگ تھے جن سے ہمارا کوئی نہ کوئی سمبندھ تھا اور جو اپنی خوش قسمتی یا ہنر مندی سے ایسے مقامات پر پہنچ گئے جہاں ان سے سفارش کی جا سکتی تھی لیکن اس کے ساتھ یہ خوش قسمتی بھی ہمیشہ ہمارے شامل حال رہی ہے کہ تعلق کی وہ رسی ہی تڑاق کر کے ٹوٹ گئی جس کے سہارے سفارش ان تک پہنچائی جا سکتی۔
تعلق کی یہ رسی اکثر تو دوسری جانب سے کاٹ دی جاتی ہے لیکن کبھی کبھی ہم بھی اسے دو پتھروں کے بیچ لا کر اور کوٹ کوٹ کر توڑ دیتے ہیں اس کے علاوہ اکثر یہ رسی اتنی تن جاتی ہے کہ خود ہی تڑاق کر کے ٹوٹ جاتی ہے بظاہر یہ نقصان اور محرومی لگتی ہے اور ہم سمجھتے بھی اسے اپنی بدقسمتی تھے لیکن بھلا ہو مثبت سوچ کا کہ اب ہم اسے اپنی سب سے بڑی خوش نصیبی پاتے ہیں نہ کوئی سفارش کروانے کے لیے آتا ہے نہ ہم سفارش کرنے جاتے ہیں اور نہ ہی نتیجے میں اپنا سا منہ لے کر واپس آتے ہیں کیوں کہ یہ خبر شاید آپ تک نہیں پہنچی ہو گی کہ سفارش کی ماں بھی مر چکی ہے اور خود سفارش بھی ''نقد'' کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر چکی ہے۔ تھانے سے لے کر خانے تک اور ایک ''ستارہ'' اہلکار سے لے لے کر فائیو اسٹار عہدیداروں تک سب کے سب نے دکانیں ڈالی ہوئی ہیں جہاں اس ہاتھ دے اور اس ہاتھ لے کا سلسلہ چل رہا ہے ایسے میں ظاہر ہے کہ سفارش کا وجود ہی باقی نہیں رہا
رگوں میں زہر کے نشتر اتر گئے چپ چاپ
ہم اہل درد جہاں سے گزر گئے چپ چاپ
چنانچہ یہ کتنی بڑی خوش نصیبی ہے کہ کسی کو ہم سے کسی سفارش کی توقع ہی نہیں اور ہم نہایت عافیت اور آرام سے چین کی بانسری بجا رہے ہیں، لیکن اصل اور سب سے بڑی خوش نصیبی یا خوبی یا صفت کا ذکر تو ابھی ہم نے کیا ہی نہیں، اسے پوری طرح سمجھانے کے لیے ایک چھوٹا سا واقعہ سنئے، کافی عرصہ پہلے اچانک ہمارے ایک بیٹے کے ساتھ ایک عجیب واقعہ ہوا اس کا کہنا تھا کہ کھیتوں کے درمیان اچانک کچھ مسلح لوگوں نے اسے بازو سے پکڑا اور زبردستی گاؤں سے دور لے گئے وہاں ایک گاڑی کھڑی تھی، وہ مجھے گاڑی میں ڈالنا چاہتے تھے کہ اچانک ان میں سے ایک نے گاؤں کے ایک مالدار آدمی کا نام لیتے ہوئے پوچھا تم فلاں کے لڑکے ہو نا ۔۔۔ میں نے کہا نہیں وہ آدمی دوسروں پر برس پڑا یہ تم کسے اٹھا لائے کا فی چیخ چیخ کے بعد فیصلہ ہوا کہ اب اٹھا لائے ہیں تو یہی سہی، اس کے ماں باپ بھی کچھ نہ کچھ تو دے ہی مریں گے، گاڑی میں چڑھا کر وہ آدمی پھر بولا، کس کے بیٹے ہو تم ۔۔۔۔ ؟ میں نے نام بتا دیا تو وہ پھر چیخ پڑا روکو روکو گاڑی ۔۔۔ یہ تو فلاں کا بیٹا ہے مفلسی مارے شاعر سے کیا خاک وصول ہو گا اور مجھے وہیں پر اتار کر چلے گئے، دیکھا آپ نے کتنا بڑا فائدہ ہوتا ہے بعض خامیوں کا ۔۔۔ اگر وہ اسے لے جاتے اور کچھ مانگتے تو گھر بیچ کر خود کو نیلام پر چڑھا کر سود پر لے کر ادائیگی ضرور کرتے لیکن یہ ہماری مفلسی کی شہرت ہی تھی کہ انھوں نے بلا سوچے سمجھے کانوں کو ہاتھ لگایا، سارے عیش تو مفلسی میں چھپے ہوئے ہیں ذرا جا کر دولت مندوں سے پوچھئے، چوروں، لیٹروں، اغوا کاروں ، انکم ٹیکس، ویلتھ ٹیکس وغیرہ نہ جانے کتنے ڈاکوؤں لیٹروں سے ہر وقت کانپتے رہتے ہیں، ایسی اور بھی بہت ساری خوبیاں اور خوش نصیبیاں ہیں جو بظاہر ''بری'' نظر آتی ہیں لیکن درحقیقت نعمت ہوتی ہیں آپ بھی اپنے اندر ڈھونڈیئے بہت ساری ایسی خوش نصیبیاں پا لیں گے۔