بھارتی ٹماٹر اور پاکستانی ’’سرکاری‘‘ شیف
اس ملک کا درد دل میں رکھنے والے لکھ رہے ہیں کہ منتخب وزیر اعظم اور تیسری دنیا کے عظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا۔۔۔
خبر ہے کہ ''واہگہ بارڈر سے آنے والے بھارتی ٹماٹر کی پیٹیوں سے جاسوسی کرنے کی حساس ڈیوائس برآمد کر لی گئی ہے۔''
خبر کے متن میں بیان کیا گیا کہ ٹماٹروں کی پیٹیاں جس شخص کے نام بُک ہوئی تھیں وہ غائب ہو چکا ہے۔ تھرل، ایکشن اور ایڈونچر سے بھر پور اس اسٹوری کے پیچھے خبر یہ تھی کہ واہگہ پر آنے والے ٹماٹر کی پیٹیوں میں حساس ڈیوائسز نہیں بلکہ ''ٹائمز آف انڈیا '' کی تشہیری (CHIP) تھی جسے لوڈ کر کے قاری اخبار کے مختلف صفحات کو اپنے موبائیل پر بھی دیکھ سکتا ہے۔ اس ضمن میں پاکستانی کسٹم حکام نے بھارتی ایکسپورٹر سے دریافت کیا ہے جس پر اس نے بتایا کہ chip اخبار کو مشہور کرنے کے لیے استعمال ہوئی تھی جس کی مدت میعاد ختم ہو چکی ہے تاہم اس سلسلے میں متعلقہ ادارے اس کی تحقیق بھی کررہے ہیں جس کی حتمی رپورٹ بھی منظر عام پر آ جائے گی۔
ہماری کہانی یہ ہے کہ ہم اپنے ملی نغموں اور قومی گیتوں میں بھی بھارت دشمنی کا عزم کرتے ہیں۔ ہمیں پرائمری اسکول میں ہی بھارت دشمنی پالنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ جب کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہم گذشتہ 30 سال سے دہشت گردی کی جنگ لڑ رہے ہیں جس کے ڈانڈے افغانستان سے ہوتے ہوئے نجانے کس، کس ملک سے جا ملتے ہیں مگر فی الحال ہمارا روایتی دشمن بھارت ہی ہے۔ شریکے کا یہ عہدہ ہم بھارت کے سواکسی دوسرے کو دینے کے لیے تیار نہیں حالانکہ دشمنی نبھانے کا ''انٹری ٹیسٹ'' تو بعض دوسرے ملک بھی امیتازی نمبروں میں پاس کر چکے ہیں۔ اگرچہ ہماری خارجہ پالیسی کی نگران اسٹبلشمنٹ ہی رہی ہے مگر اب یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ جنگ اور سفارت کاری میں فرق ہوتا ہے۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوری نمایندے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے خارجہ پالیسی کو اسٹبلشمنٹ کے پنجوں سے آزادی دلائیں اس کے لیے چاہے انھیں بھاری قیمت ہی ادا کرنا پڑے۔ وطن عزیز کے محب وطن اور روشن دماغ یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ جنگ مسئلہ کا حل نہیں خاص طور پر بھارت کے حوالے سے ہم اس فرضی جنگی جنون سے آزادی چاہتے ہیں جس کے تحت ہم گذشتہ نصف صدی سے اپنا بیش قیمت وقت اور محدود وسائل کو جنگی جنون میں جھونک دیتے ہیں۔ یہ تمام واہمات گزشتہ عہد کے تھے ہمیں اب ان فرسودہ نظریات کو دفن کر کے آگے سفر کرنا ہو گا۔ جون ایلیا نے کہا تھاکہ:
گذشتہ عہد گزرنے ہی میں نہیں آتا،
یہ حادثہ بھی لکھو معجزوںکے خانے میں
جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے،
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں،
اس ملک کا درد دل میں رکھنے والے لکھ رہے ہیں کہ منتخب وزیر اعظم اور تیسری دنیا کے عظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا۔ بھٹوز میں سے بھٹو صاحب کے علاوہ شاہ نواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا۔ لیکن وطن سے محبت اور غریب عوام کے لیے ان کے خون میں پائی جانے والی حدت آج تک ٹھنڈی نہیں پڑ رہی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں گجرات سے جرمنی اور بعد ازاں امریکا آباد ہونے والے شاہ نواز بھٹو کے قریبی ساتھی عرفان میر بتاتے ہیں کہ: ''شاہ نواز بھٹو اپنے والد بھٹو صاحب کی ہو بہو تصویر تھا جو د نیا کی تاریخ، معاشرت، معیشت، ثقافت اور سیاست کا ''حافظ'' تھا۔
اس کے سینے میں باپ کے انتقام سے کہیں زیادہ پاکستان کے غیور عوام کا دکھ درد تھا، وہ اپنے ملک کے لوگوں کے لیے کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتا تھا مگر فرانس میں اس رات قتل کر دیا گیا جب وہ اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو اور بہن بے نظیر بھٹو سے ملاقات کر کے اپنی افغان بیوی کے ہاں گیا تھا۔'' گذشتہ دنوںجب میری عرفان میرسے نیویارک میں ملاقاتیں ہوتی رہیں تو ہمارا موضوعِ گفتگو میر شاہ نواز بھٹو ہوا کرتے تھے۔ عرفان میر نے بتایا کہ شاہ نواز بھٹو سے افغان دوست (جو بعد ازاں شاہ نواز کی بیوی بنی) کے چنگل میں پھنسانے والا شخص وہی تھا جس نے بھٹو صاحب کی گرفتاری پر ورکروں اور عوامی حلقوں کی طرف سے چلائی جانی والی تحریک میں خود سوزیاں شامل کر کے اسے نقصان پہنچایا تھا ... بھٹوز کے خلاف سازشوں کی داستان پرانی ہے مگر اب دنیا بدل رہی ہے، اب کوئی آمر عوامی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے کوئی ''آپریشن قومی سلامتی'' برپا نہیں کر سکے گا۔
تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ خلق ِخدا نے بھی فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف سے زیادہ جنرل جہانگیر کرامت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا ہے جنہوں نے آئین کے مطابق اپنے پیشہ وارانہ کردار کو نبھاتے ہوئے ''قومی سلامتی'' کی اصل روح کو مجروح نہ ہونے دیا۔
سوال یہ ہے کہ کب تک بھارت سے آنے والے ٹماٹروں اور آلووں میں سے جاسوسی کے آلات برآمد ہوتے رہیں گے؟ کیا ہمارے ہاں سے بھیجی گئی ترکاری وغیرہ مراد ہے کہ کانسی پھل اور کدو کی پیٹیوں میں سے بھی جاسوسی کے آلات برآمد ہوئے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے کانسی پھل اور کدو کی پیٹیوں یعنی پاکستانی ترکاری سے جاسوسی کے آلات تو برآمد نہیں ہوئے مگر ان سبزیوں میں ''گوشت ڈالنے'' اور ہنڈیا پکانے کا مبینہ الزام تو لگایا گیا ہے۔ اجمل قصاب پیشہ ور قصاب ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو کیا یہ چھوٹے گوشت کے کاریگر ہیں یا بڑا گوشت کرنے کے ماہر؟ ہمیں کچھ علم نہیں مگر موصوف جائے وقوعہ پر ''ہنڈیا میں گوشت ڈالتے'' رنگے ہاتھوںپکڑے گئے تھے۔
اجمل قصاب کا ممبئی کے تاج محل ہوٹل سے ''برآمد'' ہونے کا عمل پاکستان اور بھارت دونوں کی سفارتی کوششوں سے انھیں بہت دور لے جاتا ہے۔ ایسے قصابوں کے لیے ہمارے صدر زرداری ''نان اسٹیٹ ایکٹر '' کی اصطلاح استعمال کیا کرتے ہیںجو پاک بھارت ''ویجی ٹیرین ڈپلومیسی'' میں اچھی خاصی مقدار میں بیف (گائے یا بھینس کا گوشت) ڈالتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں۔ ہم بھلے کہتے رہیں کہ جائے وقوعہ سے گرفتار ہونے والا (نان اسٹیٹ ایکٹر) ہے لیکن بھارتی یہ پکا راگ الاپتے رہتے ہیں کہ رنگے ہاتھوں گرفتار ہونے والا شیف ''سرکاری''ہے۔ اجمل قصاب تو''نان ویج ہانڈی'' (گوشت والی ہانڈی) چڑھانے کا پیر کاریگر بتایا گیا ہے لیکن سربجیت سنگھ اور کشمیر سنگھ بھی تو ''ویجی ٹیرین'' نہیں تھے۔
سربجیت سنگھ پر پاکستان میں دھماکے کرنے کا جرم ثابت ہو چکا ہے لہٰذا اس کی ہانڈی چڑھانے کی صلاحیتیوں سے انکار ممکن نہیں جب کہ کشمیر سنگھ ''درجہ دوم'' (کم خطرناک) قسم کا جاسوس تھا جو ہمار ی جیلوں میں سکھ سے مسلمان ہونے کا ڈرامہ رچا کر رہا ہو گیا تھا ... اے کاش! پاکستان اور بھارت میں درآمد ہونے والی اشیائے ضرورت میں سے جاسوسی کے آلات برآمد ہونا بند ہوجائیں اور دونوں ملکوں کے ایکٹر اور نان ایکٹر اپنی، اپنی ''پرفارمنس'' اپنے، اپنے تھیٹروں میں ہی دکھایا کریں اگر ایسا ہو جائے تو دونوں ملکوں میں پائے جانے والے سوا ارب سے زیادہ غریب عوام بھی سکھ کا کوئی سانس لے سکیں۔
خبر کے متن میں بیان کیا گیا کہ ٹماٹروں کی پیٹیاں جس شخص کے نام بُک ہوئی تھیں وہ غائب ہو چکا ہے۔ تھرل، ایکشن اور ایڈونچر سے بھر پور اس اسٹوری کے پیچھے خبر یہ تھی کہ واہگہ پر آنے والے ٹماٹر کی پیٹیوں میں حساس ڈیوائسز نہیں بلکہ ''ٹائمز آف انڈیا '' کی تشہیری (CHIP) تھی جسے لوڈ کر کے قاری اخبار کے مختلف صفحات کو اپنے موبائیل پر بھی دیکھ سکتا ہے۔ اس ضمن میں پاکستانی کسٹم حکام نے بھارتی ایکسپورٹر سے دریافت کیا ہے جس پر اس نے بتایا کہ chip اخبار کو مشہور کرنے کے لیے استعمال ہوئی تھی جس کی مدت میعاد ختم ہو چکی ہے تاہم اس سلسلے میں متعلقہ ادارے اس کی تحقیق بھی کررہے ہیں جس کی حتمی رپورٹ بھی منظر عام پر آ جائے گی۔
ہماری کہانی یہ ہے کہ ہم اپنے ملی نغموں اور قومی گیتوں میں بھی بھارت دشمنی کا عزم کرتے ہیں۔ ہمیں پرائمری اسکول میں ہی بھارت دشمنی پالنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ جب کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہم گذشتہ 30 سال سے دہشت گردی کی جنگ لڑ رہے ہیں جس کے ڈانڈے افغانستان سے ہوتے ہوئے نجانے کس، کس ملک سے جا ملتے ہیں مگر فی الحال ہمارا روایتی دشمن بھارت ہی ہے۔ شریکے کا یہ عہدہ ہم بھارت کے سواکسی دوسرے کو دینے کے لیے تیار نہیں حالانکہ دشمنی نبھانے کا ''انٹری ٹیسٹ'' تو بعض دوسرے ملک بھی امیتازی نمبروں میں پاس کر چکے ہیں۔ اگرچہ ہماری خارجہ پالیسی کی نگران اسٹبلشمنٹ ہی رہی ہے مگر اب یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ جنگ اور سفارت کاری میں فرق ہوتا ہے۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوری نمایندے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے خارجہ پالیسی کو اسٹبلشمنٹ کے پنجوں سے آزادی دلائیں اس کے لیے چاہے انھیں بھاری قیمت ہی ادا کرنا پڑے۔ وطن عزیز کے محب وطن اور روشن دماغ یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ جنگ مسئلہ کا حل نہیں خاص طور پر بھارت کے حوالے سے ہم اس فرضی جنگی جنون سے آزادی چاہتے ہیں جس کے تحت ہم گذشتہ نصف صدی سے اپنا بیش قیمت وقت اور محدود وسائل کو جنگی جنون میں جھونک دیتے ہیں۔ یہ تمام واہمات گزشتہ عہد کے تھے ہمیں اب ان فرسودہ نظریات کو دفن کر کے آگے سفر کرنا ہو گا۔ جون ایلیا نے کہا تھاکہ:
گذشتہ عہد گزرنے ہی میں نہیں آتا،
یہ حادثہ بھی لکھو معجزوںکے خانے میں
جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے،
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں،
اس ملک کا درد دل میں رکھنے والے لکھ رہے ہیں کہ منتخب وزیر اعظم اور تیسری دنیا کے عظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا۔ بھٹوز میں سے بھٹو صاحب کے علاوہ شاہ نواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا۔ لیکن وطن سے محبت اور غریب عوام کے لیے ان کے خون میں پائی جانے والی حدت آج تک ٹھنڈی نہیں پڑ رہی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں گجرات سے جرمنی اور بعد ازاں امریکا آباد ہونے والے شاہ نواز بھٹو کے قریبی ساتھی عرفان میر بتاتے ہیں کہ: ''شاہ نواز بھٹو اپنے والد بھٹو صاحب کی ہو بہو تصویر تھا جو د نیا کی تاریخ، معاشرت، معیشت، ثقافت اور سیاست کا ''حافظ'' تھا۔
اس کے سینے میں باپ کے انتقام سے کہیں زیادہ پاکستان کے غیور عوام کا دکھ درد تھا، وہ اپنے ملک کے لوگوں کے لیے کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتا تھا مگر فرانس میں اس رات قتل کر دیا گیا جب وہ اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو اور بہن بے نظیر بھٹو سے ملاقات کر کے اپنی افغان بیوی کے ہاں گیا تھا۔'' گذشتہ دنوںجب میری عرفان میرسے نیویارک میں ملاقاتیں ہوتی رہیں تو ہمارا موضوعِ گفتگو میر شاہ نواز بھٹو ہوا کرتے تھے۔ عرفان میر نے بتایا کہ شاہ نواز بھٹو سے افغان دوست (جو بعد ازاں شاہ نواز کی بیوی بنی) کے چنگل میں پھنسانے والا شخص وہی تھا جس نے بھٹو صاحب کی گرفتاری پر ورکروں اور عوامی حلقوں کی طرف سے چلائی جانی والی تحریک میں خود سوزیاں شامل کر کے اسے نقصان پہنچایا تھا ... بھٹوز کے خلاف سازشوں کی داستان پرانی ہے مگر اب دنیا بدل رہی ہے، اب کوئی آمر عوامی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے کوئی ''آپریشن قومی سلامتی'' برپا نہیں کر سکے گا۔
تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ خلق ِخدا نے بھی فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف سے زیادہ جنرل جہانگیر کرامت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا ہے جنہوں نے آئین کے مطابق اپنے پیشہ وارانہ کردار کو نبھاتے ہوئے ''قومی سلامتی'' کی اصل روح کو مجروح نہ ہونے دیا۔
سوال یہ ہے کہ کب تک بھارت سے آنے والے ٹماٹروں اور آلووں میں سے جاسوسی کے آلات برآمد ہوتے رہیں گے؟ کیا ہمارے ہاں سے بھیجی گئی ترکاری وغیرہ مراد ہے کہ کانسی پھل اور کدو کی پیٹیوں میں سے بھی جاسوسی کے آلات برآمد ہوئے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے کانسی پھل اور کدو کی پیٹیوں یعنی پاکستانی ترکاری سے جاسوسی کے آلات تو برآمد نہیں ہوئے مگر ان سبزیوں میں ''گوشت ڈالنے'' اور ہنڈیا پکانے کا مبینہ الزام تو لگایا گیا ہے۔ اجمل قصاب پیشہ ور قصاب ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو کیا یہ چھوٹے گوشت کے کاریگر ہیں یا بڑا گوشت کرنے کے ماہر؟ ہمیں کچھ علم نہیں مگر موصوف جائے وقوعہ پر ''ہنڈیا میں گوشت ڈالتے'' رنگے ہاتھوںپکڑے گئے تھے۔
اجمل قصاب کا ممبئی کے تاج محل ہوٹل سے ''برآمد'' ہونے کا عمل پاکستان اور بھارت دونوں کی سفارتی کوششوں سے انھیں بہت دور لے جاتا ہے۔ ایسے قصابوں کے لیے ہمارے صدر زرداری ''نان اسٹیٹ ایکٹر '' کی اصطلاح استعمال کیا کرتے ہیںجو پاک بھارت ''ویجی ٹیرین ڈپلومیسی'' میں اچھی خاصی مقدار میں بیف (گائے یا بھینس کا گوشت) ڈالتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں۔ ہم بھلے کہتے رہیں کہ جائے وقوعہ سے گرفتار ہونے والا (نان اسٹیٹ ایکٹر) ہے لیکن بھارتی یہ پکا راگ الاپتے رہتے ہیں کہ رنگے ہاتھوں گرفتار ہونے والا شیف ''سرکاری''ہے۔ اجمل قصاب تو''نان ویج ہانڈی'' (گوشت والی ہانڈی) چڑھانے کا پیر کاریگر بتایا گیا ہے لیکن سربجیت سنگھ اور کشمیر سنگھ بھی تو ''ویجی ٹیرین'' نہیں تھے۔
سربجیت سنگھ پر پاکستان میں دھماکے کرنے کا جرم ثابت ہو چکا ہے لہٰذا اس کی ہانڈی چڑھانے کی صلاحیتیوں سے انکار ممکن نہیں جب کہ کشمیر سنگھ ''درجہ دوم'' (کم خطرناک) قسم کا جاسوس تھا جو ہمار ی جیلوں میں سکھ سے مسلمان ہونے کا ڈرامہ رچا کر رہا ہو گیا تھا ... اے کاش! پاکستان اور بھارت میں درآمد ہونے والی اشیائے ضرورت میں سے جاسوسی کے آلات برآمد ہونا بند ہوجائیں اور دونوں ملکوں کے ایکٹر اور نان ایکٹر اپنی، اپنی ''پرفارمنس'' اپنے، اپنے تھیٹروں میں ہی دکھایا کریں اگر ایسا ہو جائے تو دونوں ملکوں میں پائے جانے والے سوا ارب سے زیادہ غریب عوام بھی سکھ کا کوئی سانس لے سکیں۔