ایک مشہور سیاستدان … کچھ یادیں
اگر ایسا اعتراف کسی مُہذّب معاشرے میں ہوتا تو اس سیاستدان کا سیاسی کیریئر ختم ہوجاتا
وزیرِاعلیٰ صاحب نے راولپنڈی میں تعینات سینئر افسروں سے واقعہ کے بارے میں دریافت کیاتوانھوں نے بتایا کہ ایس پی نے جوئے کا بدنام اڈہ ختم کرکے اچھا کام کیا ہے اور اس نے کوئی زیادتی نہیں کی۔
انھوں نے اپنے دیگر ذرایع سے بھی حقائق دریافت کرلیے تووہ ایم این اے صاحب کا مطالبہ ماننے پر آمادہ نہ ہوئے اس پر ملزموں کے ورثاء حویلی جا پہنچے اور موصوف کاگریبان پکڑکر اپنی مالی خدمات گنوائیں، لہذا ایم این اے صاحب نے لاہور جاکر ڈیرہ لگا لیااور اس حد تک ضِد کی کہ "یہ میری عزّت بے عزّتی کا سوال ہے اگر ایس پی وہاں رہتا ہے تو میں کسی صورت پنڈی نہیں جا سکتا۔۔ اگر آپ کو میری عزّت کا پاس ہے تو ایس پی کو تبدیل کردیں"۔ بالآخر چیف منسٹر کواپنے ایم این اے کی ضد ماننا پڑی اور میرا تبادلہ کردیا گیا۔
اب اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ میری سوچ اور تصوّرسے باہر تھا، اخبار میں تبادلے کی خبر چھپتے ہی شہر میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ شہریوں کی مختلف تنظیموں نے تبادلے کے خلاف جلوس نکالنے شروع کردیے۔ چیمبر آف کامرس میں تبادلے کے خلاف اور میونسپل کارپوریشن میں ایم این اے کے خلاف قرارداد یںپاس ہوگئیں۔ تاجروں نے بازار بند کر دینے کی دھمکی دے دی۔۔۔ تبادلے کے دوسرے روز میں صبح اُٹھا اور اخبار پر نظر ڈالی تو ہکاّ بکاّ رہ گیا سب اخباروں کا پہلا صفحہ ایس پی کے تبادلے کے خلاف شہریوں کے جذبات سے بھرا ہوا تھا۔ دوسرے روز بھی ایسا ہی ہوا۔
شہریوں کے تمام طبقے اپنے ایم این اے کے بجائے باہر سے آئے ہوئے ایک نوجوان ایس پی کے ساتھ کھڑے ہوگئے، تبادلے کا اِشوہر گھر کا موضوع بن گیا ( نوجوان افسر سپورٹ نہ ملنے کا رونا روتے رہتے ہیں انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ نیک نِیّتی کے ساتھ اچھا کام کریں گے تو انھیں اﷲ کی مدد کے علاوہ عوام کی بھرپور حمایت اور سپورٹ ملے گی) اس سے گزشتہ روز کسی کرسچن لیڈر کے انتقال پر افسوس کے لیے چیف منسٹر صاحب راولپنڈی پہنچے۔ بعد میںاخبارات کے ذریعے معلوم ہوا کہ وہ شہرمیں تین چار مختلف جگہوں پر گئے اور ہر جگہ لوگوں نے ان کے سامنے تبادلے کے خلاف احتجاج کیا وہ خاموش رہے اور شام کو واپس چلے گئے۔
رات گئے مجھے آئی جی صاحب کا فون آیا کہ "تمہیں کل صبح نو بجے وزیرِاعلیٰ صاحب نے بلایا ہے وقت پر لاہور پہنچ جائیں"صبح کی پہلی فلائٹ پکڑنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ لاؤنج اور جہاز کے اندر بھی لوگوں نے محبّت اور یکجہتی کا اظہار کیا۔میں وقت پر 90،شاہراہ قائداعظم پر پہنچ گیا۔۔ یہ میری میاں نوازشریف صاحب کے ساتھ پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ اُنہوں نے بڑی گرمجوشی کے ساتھ مصافحہ کیا اور میری کارکردگی کی تعریف کی۔ انھوں نے کہا کہ " مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ دیانتدار بھی ہیں اور کرائم فائٹر بھی۔ ہمیں ایسے افسروں کی ضرورت ہے۔
آپ بتائیں کہ آپ کو کس ضلعے کا انچارج لگایا جائے تاکہ آپکی صلاحیّتیں وہاں کام آئیں" میں نے کہا " سر! تقرری اور تبادلہ حکومت کی صوابدید ہے مگر اسوقت میرا تبادلہ جُوئے کے اڈّے ختم کرنے کا نتیجہ سمجھا جا رہا ہے اس سے منفی تاثر جائیگا اور نوجوان پولیس افسر بددل ہوجائیں گے اس لیے تبادلہ کچھ دیر کے لیے موخر ہوجائے اس کے بعد جہاں چاہیں بھیج دیں" انھوں نے کہا کہ ہم آپ کو سزا نہیں دے رہے، پنڈی سے بہتر پوسٹنگ دے رہے ہیں اس لیے اسے اچھے کام کا انعام بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے دو تین مرتبہ مجھ سے میری چوائس پوچھی جس پر میں نے کہا کہ میری کوئی چوائس نہیں ہے جہاں تبادلہ ہوگا میں وہیں جاکر کام شروع کردونگا انھوں نے کہا کہ اگر کسی ضلع میں نہیںلگنا چاہتے تو پھر آپ کی صلاحیتیں لاہور کے لیے استعمال ہونی چاہئیں۔ لاہور میں جرائم بہت بڑھ گئے ہیں موجودہ ایس پی سٹی غیرموثّرہے اس سے جرائم کنٹرول نہیں ہورہے آپ آکر لاہور کو ٹھیک کریں۔
آپ کو لاہور کا ایس پی سٹی لگایا جائے تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ؟ میں خاموش رہا تو انھوں نے سیکریٹری جی ایم سکندر کو بُلا کر ہدایات دے دیں۔ اس طرح مجھے راولپنڈی سے تبدیل کرکے ایس پی سٹی لاہور تعینات کر دیا گیا۔ بعد میں" نوائے وقت"کو اِنٹرویو دیتے ہوئے ایم این اے موصوف نے خود فخر سے اعتراف کیا کہ "ہاں راولپنڈی سے ذوالفقار چیمہ کا تبادلہ میں نے کرایا تھا"۔
اگر ایسا اعتراف کسی مُہذّب معاشرے میں ہوتا تو اس سیاستدان کا سیاسی کیریئر ختم ہوجاتا لیکن ہمارے ہاں سب چلتا ہے۔ پوری سروس میں راولپنڈی کی واحد تعیناتی ہے جو مجھے میری خواہش پر ملی تھی۔ میرے دونوں بڑے بھائی ڈاکٹر صاحب اور جج صاحب اتفاق سے اسی شہر میں تعینات تھے اورجب والدہ صاحبہ بھی اکثر آجاتیں اور ہم سب رات کو کھانے پر اکٹّھے ہوتے اسلام آباد سے بھی اکثرمیری بہن ،اُنکے بچیّ اور ماموںجان آجاتے تو بڑی رونق ہوجاتی۔
زندگی بڑے اطمینان اورمسّرت سے گزر رہی تھی یہاں سے تبدیل ہونے کا میری ساری فیملی کو بہت افسوس ہوا مگر والد صاحب اور ماموں جان نے اﷲکے ہر فیصلے پر راضی رہنے پر زور دیااور اس فیصلے کے روشن پہلوؤں کو اُجاگر کیا تو سب مطمئن ہوگئے۔ گھر میں کھانے کے دوران ایک بے تکلّف دوست نے صاف کہہ دیا کہ" اگر تم ایک بااثر سیاسی لیڈر کو ناراض نہ کرتے تو تبادلہ نہ ہوتا"You asked for it میں نے کہا " میں جُرم دیکھ کر آنکھیں بند نہیں رکھ سکتا اور مجرم چاہے کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو اس پر ضرور ہاتھ ڈالونگا چاہے لاہور کے بجائے آخری ضلع رحیم یارخان یا ڈیرہ اسمعیل خان بھیج دیں"۔ بعد میں رحیم یارخان اور ڈیرہ اسمعیل خان جانے کی بھی باری آگئی مگر اس کا ذِکر پھر کبھی ہوگا۔
راولپنڈی سے تبادلے کے چار سال بعد(جب میں ایف سی میں تعینات تھا) ایک روز میں راولپنڈی صدر میں جیپ سے اُترا تو مجھے دیکھ کر پنڈی میں ہی تعینات ایک پولیس اِنسپکٹر آگیا اس نے سلیوٹ کیا مگر میں نے اسے درشت لہجے میں کہا کہ "آپ لوگوں کا ضمیر اورایمان ختم ہوگیا ہے؟" کہنے لگا سروہ کیسے؟ میں نے کہا "پولیس کو منتخب ایم این اے کے خلاف کلاشنکوف کا جھوٹا مقدمہ درج کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے تھی " کہنے لگا" سر! ایم این اے کونسا اچھا آدمی ہے جرائم پیشہ عناصر کو سپورٹ کرتا ہے اور آپ تو راولپنڈی کے محسن تھے آپ کو بھی اس نے تبدیل کرادیا" ۔"مگر میں اس کے خلاف کبھی بھی جھوٹا پرچہ درج نہ کراتا' حکومت کسی طریقے سے جھوٹا پرچہ کرا دیتی تو صحیح تفتیش کراکے اسے خارج کرا دیتا " میں نے سختی سے کہا تو انسپکٹرنے مدافعانہ انداز میں کہا "سرجی! پرچہ کرنے کا فیصلہ تو ڈی آئی جی صاحب کا تھا میرے ذمّے تو تفتیش تھی جو میں نے ان کے حکم کے مطابق مکمل کردی " مجھے دھچکا سا لگا، میں نے کہا " ڈی آئی جی صاحب توپی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی ہیں اور ایماندار بھی سمجھے جاتے ہیں۔
پھر انھوں نے یہ غلط اور غیر قانونی کام کیوں کیا؟" کہنے لگا " سر جی! سُنا ہے گورنر الطاف صاحب اور راجہ پرویز اشرف صاحب نے انھیں ایم این اے کے بارے میں کہا تھا کہ یہ اسمبلی میں بڑی غلط تقریریں کرتا ہے اسے ڈوز دینی ہے۔ ڈی آئی جی صاحب کا راجہ پرویز اشرف صاحب سے بڑا تعلق ہے وہ اکثر ڈی آئی جی آفس میں آکر بیٹھے ہوتے ہیں " ڈی آئی جی صاحب پیپلزپارٹی کے لیڈروں کے آگے انکارنہیں کرسکے"۔ جس روز مذکورہ ایم این اے کو جھوٹے کیس میںسات سال سزا ہوئی اُسی شام مجھے اسلام آباد سے ایک بہت سینئر اور روشن ضمیر افسر کا فون آیا کہنے لگے "آج ایک جھوٹے کیس کا بے گناہ ملزم سزایاب ہوکر اسمبلی سے کچھ عرصے کے لیے نکلا ہے مگر جھوٹے کیس کا بانی اور مُدعی یعنی پنڈی کا ڈی آئی جی ہمیشہ کے لیے میرے دل سے نکل گیا ہے میں جانتا ہوں تمہارا ڈی آئی جی سے اچھا تعلّق ہے وہ بڑے عرصے بعد فیلڈ میں لگا ہے مگر پہلے امتحان میں ہی فیل ہوگیاہے۔
" میں نے کہا سر! مجھے بھی بہت دکھ ہوا ہے انھیں حکومت کے کہنے پر جھوٹا پرچہ ہر گز نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ایم این اے صاحب کو بہاولپور جیل میں رکھا گیا جہاں گرمی زوروں پر تھی' اوپر سے کھانے اور ــ"پینے" پر پابندیاں لگ گئیں۔ موصوف برداشت نہ کرسکے اور اندر سے ٹوٹ گئے۔ کچھ خفیہ ملاقاتیں بھی ہوگئیں۔ رِہا ہوکر وہ اپنے آپ کو بڑا لیڈر سمجھنے لگے۔
ایشیائی سیاست میں تو پارٹی میں بڑا لیڈرایک ہی ہوتا ہے لہٰذا ان کے اور قیادت کے درمیان اعتماد میںدراڑ پڑ گئی۔۔۔کہتے ہیں ہر چیز جُڑ سکتی ہے مگر ٹوٹا ہوا اعتماد نہیں۔۔۔ جنرل مشرّف نے آئین توڑ کر نوازشریف حکومت کو ہٹایا تو موصوف جدوّجہد کا مشکل راستہ اختیار کرنے کے بجائے مشرّف کے قدموں میں جا گرے اور سُواو موٹو ایکشن کے تحت مُشّرف کوآلِ رسولؐ قرار دے ڈالا۔ہر آمَر کی طرح پرویز مشرّف زوال پذیر ہوا تو توقع کے عین مطابق موصوف اس سے منہ موڑ گئے۔
کسی نے کہا حضرت !آپ کو توجنرل صاحب سے بڑی عقیدت تھی اُن سے ملاقات ہی کر لیں۔ سِگار کا کَش لگا کر فرمانے لگے "میں کاروباری آدمی ہوں ہمیں صِرف حاضر سروس جنرل سے عقیدت ہوتی ہے "۔ کچھ عرصہ پہلے سننے میں آیا تھاکہ میاں صاحب سے معافی تلافی ہو گئی ہے مگر ن لیگ کا پوٹھوہاری گروپ اَڑ گیا یہاں بات سرے نہ چڑھی تو قبلہ عمران خان کے کینٹینر پر جا چڑھے۔ بلا شُبہ وہ تبدیلی کے لیے بہت بیتاب ہیں وہ گاڑی اور بنگلہ دونوں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ پنڈی کے راجہ بازارسے اسلام آباد کی منسٹر کالونی میں جانے کے لیے تڑپ رہے ہیں۔
دھرنے کے دوران ایک باخبر صحافی سے ملاقات ہوئی تو میں نے ـتبدیلی کا پوچھا،کہنے لگے "تبدیلی آتی ہے مگر موصوف کو کنٹینر پر دیکھ کر خوف کے مارے بھاگ جاتی ہے"۔پھر انھوں نے برملا کہاکہ 'جب کبھی اصل تبدیلی والا گروہ آن پہنچا توایسے بزرگوار کٹہرے میں ہونگے'۔ اپنی جس خوبی کی بِناء پر وہ پچیس سال پہلے مسلم لیگ کے چہیتے تھے اسی خوبی کے باعث وہ عمران خان کے چہیتے بن گئے ہیں۔ پچیّس سال میں سیاسی لیڈروں میںاتنی تبدیلی بھی نہیں آئی کہ آج بھی ان کے ہاں کردار کے بجائے زبان درازی پسندیدہ جوہر ہے۔
مسلم لیگ ن نے پنڈی میںموصوف کی جگہ جس پیادے پر ہاتھ رکھا ہے لگتا ہے اس کی بھی صرف زبان دیکھی گئی ہے باقی "اوصاف " پر نظر نہیں ڈالی گئی۔ کیا میاں صاحب اور خان صاحب سے گزارش کی جاسکتی ہے کہ صحیح تبدیلی کے لیے راولپنڈی میں اپنے گھوڑے ہی تبدیل کرلیں۔ اس اہم شہر کی نمایندگی کا حق انھیں دیںجنکے دامن پر داغ نہ ہوں، صرف اعلیٰ کردار۔۔پارلیمنٹ کا وقار اور جمہوریّت کا حصار بن سکتا ہے۔