شہر کی رونقیں
گورنر سندھ سے کہہ دیا ہے کہ کراچی میں ہڑتال نہیں ہونی چاہیے
''گورنر سندھ سے کہہ دیا ہے کہ کراچی میں ہڑتال نہیں ہونی چاہیے۔ مکھی بھی مرجائے تو شہر بند ہوجاتا ہے۔ شہر میں تمام مافیاز کا جڑ سے خاتمہ کیا جائے۔ کراچی میں ہڑتالیں بند ہونے سے ملک خوشحال ہوگا''۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی کے تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے کراچی کی صورتحال کا تجزیہ کیا۔ اس سے پہلے رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل نے کراچی شہر سے اربوں روپے بھتہ وصول کرنے اور غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث سیاسی جماعتوں اور مافیاز کے بارے میں ایک رپورٹ اپیکس کمیٹی کو پیش کی تھی۔
سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے وزیراعظم سے ملاقات میں شکوہ کیا تھا کہ حکومت کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے وزیراعظم کی تقریر کے ردعمل میں کہا کہ شہید کارکنوں کو مکھی کہنے پر وزیراعظم معافی مانگیں۔ انھوں نے اپنے ٹیلی فونک خطاب میں کہا کہ جن صنعتکاروں نے ایم کیو ایم کے شہید کارکنوں کے لیے مکھی کا لفظ استعمال کیا ان کے نام معلوم کررہا ہوں۔ ایم کیو ایم نے سندھ کے بجٹ کے خلاف آدھے دن کی ہڑتال کی جو وزیراعظم کے بیان کے خلاف ردعمل کا اظہار بھی سمجھی گئی۔ متوقع بلدیاتی انتخابات سے قبل سندھ میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔ برسر اقتدار مسلم لیگ کی اپنے غیر رسمی اتحادیوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ پہلی دفعہ محاذ آرائی کے امکانات بڑھ گئے۔
کراچی کا مسئلہ گزشتہ صدی کی آخری دھائیوں سے گمبھیر ہے مگر 35 سال گزرنے کے باوجود شہر کے حالات میں بہتری کے آثار نظر نہیں آرہے۔ جب 2013 میں میاں نواز شریف نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تو وفاق نے صوبوں میں حکومت سازی کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی سابق صدر آصف زرداری کی پالیسی کی پیروی کی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی۔کچھ عرصے بعد ایم کیو ایم بھی حکومت میں شامل ہوگئی مگر اس دفعہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان قربت کا عرصہ بہت زیادہ طویل نہ ہوا مگر شہر میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ، اغوا برائے تاوان اور لیاری میں گینگ وار کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم کے احتجاج اور شہر کے بند ہونے کی روایت بھی برقرار رہی۔
جب شہر میں روزانہ ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں تاجروں سے بھتے کی وصولی کے لیے دستی بموں کا استعمال بڑھ گیا تو وزیراعظم میاں نواز شریف اپنے وزیر داخلہ چوہدری نثار کے ساتھ کراچی آئے اور ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ ہوا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ آپریشن کے کپتان مقرر ہوئے۔ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ پولیس اور انتظامی محکموں میں تقرریوں اور تبادلوں کے معاملات اپیکس کمیٹی میں طے ہوں گے۔ اس ٹارگٹڈ آپریشن کا تجزیہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ قائم علی شاہ عملی طور پر آپریشن کے کپتان نہیں ہیں۔
جب یہ آپریشن شروع ہوا تھا تو کراچی پولیس کے سربراہ کا تقرر اپیکس کمیٹی کی منظوری سے ہوا تھا مگر پھر کمیٹی کے مشورے کے بغیر تقرریاں ہونے لگیں۔ اسی دوران ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر 90 پر رینجرز نے چھاپہ مارا۔ ملیر زون کے ایس ایس پی راؤ انور نے ایم کیو ایم کے کارکنوں پر را کا ایجنٹ ہونے کے الزامات لگائے۔ اس دوران شہر میں ایک دفعہ پھر ٹارگٹ کلنگ کی لہر آئی۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے استاد ڈاکٹر وحید الرحمن اور سماجی کارکن سبین محمود قتل کردیے گئے۔
ایک امریکی نژاد پروفیسر پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا اور صفورا چوک کے قریب اسماعیلی برادری کی بس پر حملہ ہوا اور اس حملے میں 45 کے قریب بے گناہ افراد قتل کردیے گئے۔ صفورا حملے میں شریک ملزمان اور سماجی کارکن سبین محمود کے قاتل گرفتار ہوئے تاہم باقی قتل ہونے والوں کے قاتل تا حال گرفتار نہیں ہوئے۔ گو وزیراعلیٰ نے ڈاکٹر وحیدالرحمن کے قتل میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کا اعلان کیا مگر بعد میں پتہ چلا کہ پولیس اساتذہ کے غصے کو کم کرنے کے لیے بے بنیاد دعویٰ کررہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سندھ حکومت میں بدعنوانیوں، لوٹ مار اور قانون شکنی کے بارے میں تحقیقات کی خبریں شایع ہوئیں۔
جب ایم کیو ایم کا کوئی کارکن پولیس حراست میں جاں بحق ہوتا ہے تو وہ شہر میں یوم سوگ منانے کا اعلان کرتے ہیں۔ کراچی میں امن و امان کی صورتحال کی رپورٹنگ کرنے والے بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کی یوم سوگ کی اپیل پر مختلف نوعیت کا ردعمل ہوتا ہے۔ جہاں ایم کیو ایم اکثریت میں ہے وہاں بہت سے دکاندار رضاکارانہ طور پر کاروبار بند کردیتے ہیں مگر شہر کے مرکزی علاقوں میں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ مگر ایم کیو ایم کی ان اپیلوں کے شہر کی ترقی پر منفی اثرات نکلتے ہیں۔
یوم سوگ پر کئی ارب کا نقصان ہوتا ہے ۔ عام آدمی براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ تعلیمی اداروں، اسپتالوں، انتظامی و مالیاتی اداروں اور عدالتوں کا شیڈول بھی متاثر ہوتا ہے۔ شہر میں پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال نہ صرف ملکی ترقی کو متاثر کرتی ہے بلکہ غیر ممالک سے آنے والی سرمایہ کاری بھی لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں کو منتقل ہوتی ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اپنے کارکنوں کی ہلاکتوں پر وہ یوم سوگ منا کر ہی اپنا احتجاج ریکارڈ کراسکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ ہاؤس سے قربت رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ کراچی کی کور کمانڈر اور رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل کے اس بیان کے بیشتر نکات سے قائم علی شاہ کو بھی اتفاق ہے مگر وہ عملی طور پر بے اختیار ہیں اس لیے کوئی مؤثر اقدام نہیں کرسکتے۔
اگر وزیراعلیٰ سندھ یہ سمجھتے ہیں کہ رینجرز کے ڈی جی نے شہر کی صورتحال کا جو تجزیہ کیا ہے وہ حقائق پر مبنی ہے تو انھیں اپنے قانونی اختیارات کو استعمال کرنا چاہیے۔ بدعنوان وزرا اور ان کے ماتحت افسروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی پولیس میں ہونے والی 10 ہزار بھرتیوں کے بارے میں بھی شفاف نظام تیار کرنا چاہیے۔ یہ معاملہ این ٹی ایس ٹیسٹ یا سندھ پبلک سروس کمیشن کے سپرد کردیا جائے مگر سندھ پبلک سروس کمیشن (SPSC) کے نظام کی میرٹ کے فیصلوں کے معیار پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ ایم کیو ایم کو اپنی صفوں سے جرائم پیشہ افراد کے اخراج کے معاملے کو اولیت دینی چاہیے اور ہڑتالوں کے بجائے احتجاج کے دیگر طریقے اختیار کرنے چاہئیں۔ مگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں تحقیقات کے دوران ہلاکتوں کے خاتمے کے لیے حقیقی اقدامات کریں اور حراست کے دوران کسی فرد کی ہلاکت پر متعلقہ اہلکاروں کو سزائیں ہوں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے خلاف کسی قسم کے ثبوت عدالتوں میں پیش کے جائیں، محض میڈیا ٹرائل سے گریز کیا جائے تو کراچی کے حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عشرت العباد کے استعفیٰ سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس وقت رینجرز، پولیس اور حکومت سندھ کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ ن اور عسکری افسران اس مایوس کن صورتحال کے اسباب تلاش کریں تو اس شہر کی رونقیں بحال ہوسکتی ہیں۔