رسی کھچ جائے گی…
حضرت عمر ؓ نے کہا تھا کہ اگر ایک کتا بھی بھوکا مر جائے تو میری ذمے داری ہے۔
لاہور:
کوئی رات دن محنت کرے اپنا لہو پسینہ کی طرح بہائے لیکن اگر اُس کے پیٹ میں دو وقت کی روٹی نہ جا سکے تو وہ کیا کرے گا؟ ایک نہیں دو دو نوکریاں کرے۔ دن رات محنت کرے اور صرف 4 گھنٹے کی نیند مل سکے لیکن اُس کے باوجود بھی وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم تو دور کی بات ہے اُن کا پیٹ تک نہ بھر سکے۔ اچھی رہائش تو ایک سہانا خواب ہے لیکن وہ اپنے بچوں کے جسم پر کپڑے تک نہ ڈال سکے تو آپ مجھے بتائیں کہ اس میں قصور کس کا ہے؟ قصور اُن کا ہے جو ایمان داری کے ساتھ اپنے دن رات ایک کرتے ہیں لیکن وہ اپنے بچوں کا علاج تک نہیں کرا سکتا ہو یا پھر اُن کے گریبان پکڑے جائے جو خود کو اس ریاست اور حکومت کا بادشاہ کہتے ہیں۔ جن کا دعویٰ ہے کہ وہ سب سے بڑے مسیحا ہیں۔ کیونکہ حضرت عمرؓ نے کہا تھا کہ اگر ایک کتا بھی بھوکا مر جائے تو میری ذمے داری ہے۔ یہ لوگ مجھے بتائیں کہ ایک مجبور باپ اپنے بچوں کا قاتل ہو گا یا پھر وہ لوگ جو اس ملک کے سرپرست ہونے کا دم بھرتے رہتے ہیں۔
یہ پنجاب کی مشہور جگہ ہے جڑانوالہ۔ یہ اُس صنعتی حب سے قریب ہے جسے ہم فیصل آباد کے نام سے جانتے ہیں۔ جہاں طاقت رکھنے والے اس وقت بھی حکومت میں میں اپنا اثر رکھتے ہیں۔ اس میں ایک جگہ چک جھمرہ بھی ہے۔ آپ نے اعلان کر دیا کہ یہاں کم سے کم مزدور کی تنخواہ `13ہزار سے 15 ہزار تک ہو گی لیکن آپ مجھے یہ بتائیں کہ کیا اس رقم میں کسی کا گزارا ہو سکتا ہے۔ اور آپ یہ بھی سمجھا دیجیے کہ آپ کے اس حکم کی تعمیل کتنی جگہوں پر ہو رہی ہے۔ کاغذات میں مزدوروں کی تنخواہ کئی گنا لکھی ہوئی ہے لیکن انھیں اُن کا حق نہیں ملتا۔ صرف باتوں سے کبھی بھی کسی کا پیٹ نہیں بھرتا۔ پھلائی کا رہائشی ارشاد بھی اپنی ایسی ہی قسمت لکھوا کر آیا تھا۔ وہ رات د ن محنت کرتا۔ صبح سے شام تک ایک فیکٹری میں نوکری کرتا تھا۔ اپنے بچوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے رات کے وقت رکشہ چلاتا تھا۔ حکومت کے منہ سے تو ہر وقت یہ نکلتا رہتا ہے کہ ملک میں سب لوگ بہت خوش ہیں اور بقول ہمارے وزیر خزانہ کے یہاں عام آدمی کی سالانہ آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن عام آدمی کے گھر میں جھانکنے جتنا بڑا دل کہاں سے لایا جائے۔
ہر وقت اس بات کا شور کیا جاتا ہے ہماری تجارت بہت بڑھ گئی ہے۔ لیکن اصل صورت حال صرف فیصل آباد میں ہی دیکھ لیں کہ کتنے نئے یونٹ لگ رہے ہیں اور پرانے یونٹ کس حال میں جی رہے ہیں۔ ارشاد بھی اسی فیکٹریوں میں نوکریاں کر رہا تھا مگر پچھلے کچھ سالوں میں بہت سی وجوہات کی بنیاد پر فیکٹریوں نے لوگوں کو گھر بھیج دیا ہے اور اس کی وجہ نقصان بتایا گیا ہے۔ دو ماہ پہلے ارشاد کو بھی جواب دے دیا گیا کہ اُسے اب کام پر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اب اُس کی آمدنی کا صرف ذریعہ رکشہ رہ گیا تھا جو وہ کرائے پر لیتا تھا۔ ایسے میں آپ بتائیں کہ جس کے پانچ بچے ہوں وہ گھر کا گزارا کس طرح کرے گا؟ پانچ بچوں میں چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ سب سے چھوٹی بیٹی کی عمر پانچ سال تھی۔
اس غربت کے عالم میں اگر کسی قریبی رشتے دار کے گھر انتقال ہو جائے یا پھر شادی ہو تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنا مشکل وقت ہو گا۔ دو مہینے سے بے روزگاری کی وجہ سے گھر میں فاقوں کی نوبت تھی لیکن ایسے میں ایک قریبی رشتے دار کے یہاں سے شادی کا دعوت نامہ آ گیا۔ ہماری روایت کے مطابق شادی میں دولہا دلہن کو کچھ تحفہ یا رقم دینا بھی ضروری ہے اور کپڑے بھی اچھے پہن کر جانے ہوتے ہیں۔ اب ایسے میں پہلے سے ارشاد بہت زیادہ ادھار لے چکا تھا۔ وہ کس کے آگے ہاتھ پھیلاتا جب کہ سب جاننے والوں کو معلوم تھا کہ اس وقت وہ بے روزگار ہے اور رقم واپس ملنے کے امکانات بھی نہیں ہیں۔ میاں بیوی نے بہت سوچ بچار کیا اور پھر طے یہ کیا کہ کرایا اور خرچہ بچانے کے لیے صرف بیوی، بیٹا اور ایک بیٹی چلی جائے۔ اور وہاں یہ کہہ دے کہ ایک بیٹی کی طبعیت خراب ہے اس لیے اُس کا شوہر اور تین بچے نہیں آ سکے۔ اس طرح عزت بھی بچ جائے گی اور شادی میں شرکت بھی ہو جائے گی ۔
یہ کوئی دور کی بات نہیں ہے بلکہ پچھلے ہفتے یہ شادی تھی۔ بیوی، بیٹا اور ایک بیٹی شادی میں شرکت کے لیے جانے لگے دیگر بیٹیوں نے بھی ضد کی کہ ہمیں بھی شادی میں لے جایا جائے لیکن ماں اور باپ نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ بیٹا اگلی بار لے جائینگے۔
بچے مان نہیں رہے تھے جس پر باپ نے انھیں ڈانٹا۔ اور یہ ڈانٹ ایک پچھتاوئے اور بے بسی میں بدل گئی۔ بیوی دو بچوں کو لے کر شادی میں چلی گئی اور باپ اپنی 7 سال کی دو جڑواں بیٹیوں امان اور پشمان کے ساتھ 5 سال کی فضا کو دیکھ دیکھ کر یہ سوچنے لگا کہ وہ کتنا بے بس ہے جو اپنی پیاری چھوٹی چھوٹی بیٹیوں کی خواہش کو بھی پورا نہیں کر سکتا۔ ایک بس شادی میں جانا تھا اور وہ بھی اُن کی یہ بات نہیں مان سکتا۔ باپ کا دل روتے روتے ایک دم سخت ہو گیا اور اُس نے فیصلہ کر لیا کہ کیا میں اپنے بچوں کو ساری عمر اسی طرح ڈانٹتا رہونگا۔ کیا میں کبھی ان کی کوئی خواہش پوری کر سکوں گا۔ کیا میں کبھی انھیں شادی میں شرکت کے لیے اچھے کپڑے دلا سکوں گا۔ اس نے اپنے اردگرد کے حالات کا سوچا ہو گا۔ فیکٹریوں میں کوئی کام مل نہیں رہا بلکہ یہاں کے مالکان حکومت پر تنقید کرتے ہوئے بس ملازمین کو نکال رہے ہیں۔ یہاں رکشہ چلا کر گزارا ممکن نہیں ہو رہا۔ تو پھر کیا کروں میں؟ شاید اُس نے یہ ہی سوچا ہو گا کہ روز روز مرنے سے بہتر ہے کہ ایک بار ہی انھیں آزاد کر دوں۔
پچھلے ہفتے 7 جون کی بات ہے اُس نے ایک ایک کر کے اپنی تینوں بیٹیوں کا گلا دبا دیا۔ میں اُس لمحے کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ وہ باپ انتہائی ظالم ہو گا یا پھر انتہائی مجبور کہ جو اپنے بچوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے رات دن محنت کر رہا تھا اُس کے ذہن میں ایک لمحے کے لیے بھی محبت نہیں جاگی۔ یا پھر اُس نے محبت میں بھی اپنی بیٹوں کا گلا دبا دیا۔ اُس کے کانوں میں اُن معصوم بیٹیوں کی چیخیں نہیں آئی ہونگی یا پھر وہ مکمل طور پر بہرہ ہو چکا تھا۔ ایسا ہی بہرہ جیسی کے ہماری حکومتیں ہیں۔ جنھیں کوئی چیخیوں کی آواز نہیں آتی۔ جن کے کانوں میں کسی مظلوم کی پکار نہیں آتی۔ یہ باپ تو معصوم کلیوں کو اپنے ہاتھوں سے مسل کر بھاگ گیا۔ لیکن کوئی مجھے یہ بتائے کہ یہ قاتل باپ ہی صرف مجرم ہے۔ یا پھر ہم سب کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔
یہ جو خود کو سب سے زیادہ محب وطن تصور کرتے ہیں اور خود کو اس صوبے اور ملک کا حکمران بھی کہتے ہیں انھوں نے کبھی حضرت عمرؓ کا نظام نہیں سُنا۔ یہ جو ہر وقت جمہوریت کی بات کرتے ہیں انھیں نہیں معلوم کہ آج کے مغرب میں پیدا ہونے والا بچہ ریاست کی ذمے داری ہوتا ہے۔ انھیں نہیں معلوم جو چین کو اپنا دوست کہتے ہیں لیکن اُس کے نظام کو دور سے سلام کہتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ یہ دھاندھلی کا شور کرنے والوں کے کانوں میں ان معصوم بیٹیوں کی چیخیں نہیں آئیں۔ بس اور کتنے بجٹ آئیں گے جس میں لوگ غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے ہی خون کے پیاسے ہو جاینگے ۔ خدا کے لیے خدا کی مخلوق پر رحم کیجیے ورنہ کسی بھی وقت رسی کھچ جائے گی۔