کیا صرف مہنگائی قوم کو گداگر بنا رہی ہے
ہمارا نظام اور مہنگائی کا عفریت بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔
میں اپنے خیالات میں غلطاں گاڑی کی ونڈ سکرین سے باہر خلاوں میں کہیں گھور رہا تھا کہ گاڑی کے شیشے کو کسی نے کھٹکھٹایا۔ میں نے چونک کر دروازے کے شیشے سے باہر جھانکا تو ایک نسوانی ہاتھ دروازے کے شیشے پر دستک دے رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک جوان سال لڑکی مجھے دیکھتے پا کر اپنا ہاتھ لقمے کی طرح منہ کی طرف لے جا رہی تھی۔میں نے دروازے کا شیشہ تھوڑا نیچے کیا تو میرے کانوں تک آواز پہنچی، بابو جی اللہ کے نام پر کچھ دے جاو بہت بھوک لگی ہے صبح سے کچھ نہیں کھایا۔
میں ویسے تو ایسے جوان سال فقیروں کو کچھ دینے کا قائل نہیں ہوں لیکن ناجانے اس کے چہرے پر کیا لکھا تھا یا شاید اللہ کے نام پر مانگا تھا اس لئے میں نے ایک دس کا نوٹ نکالا اور کھڑکی کے تھوڑے سے اترے ہوئے شیشے سے باہر کی جانب نکال دیا۔ اس نے تیزی سے نوٹ اچک لیا۔ اتنے میں اشارہ کھل گیا اور ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ جب میری نظر بیک مرر پر پڑی تو دیکھا کہ ایک ہٹے کٹے فرد نے اس لڑکی سے وہ نوٹ چھین لیا۔
میرے دفتر میں ایک چپراسی تھا اپنی چال ڈھال اور حلئے سے وہ عجیب سی چیز تھا۔ دفتر کے سارے چپراسی اسے ڈمرو کہہ کر بلاتے تھے۔ ایک دن میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ میرا چپراسی میرے لئے چائے لے کر آیا۔ چائے میرے سامنے رکھ کر کہنے لگا سر جی ڈمرو کی اپنے دفتر سے تبدیلی کرا دیں کیونکہ دفتر کی بڑی بدنامی ہو رہی ہے۔ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگا سر جی یہ جو ڈمرو ہے نا یہ چھٹی کے بعد ریگل چوک پر کھڑا ہو کر بھیک مانگتا ہے۔ ہمارے دفتر میں صحافی بھی آتے ہیں کسی نے دیکھ کر خبر لگا دی تو بڑی بدنامی ہوگی۔میں نے کہا اچھا دیکھتے ہیں۔
چھٹی کے بعد میں دفتر سے باہر نکلا تو گھر جانے کے بجائے میں پیدل ہی مال پر ریگل کی طرف چل دیا۔ مسجدِ شہدا کے قریب ایک درخت کے نیچے کھڑا ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے ڈمرو کو آتے دیکھا تو میں تھوڑا سائیڈ میں ہوگیا۔ ڈمرو اِدھر اُدھر دیکھے بغیر ریگل چوک کے اشارے پر جا کر کھڑا ہوگیا۔ اشارہ بند ہوتے ہی ڈمرو گاڑیوں کی طرف بڑھا اور دستِ سوال دراز کرنا شروع کردیا۔ میں اسے یہ حرکت کرتے دیکھ کر واپس آگیا۔ دوسرے دن میں نے اسے بلایا اور پوچھا کہ کل ریگل چوک پر کیا کر رہے تھے؟ کہنے لگا صاحب لوگوں سے پیسے مانگ رہا تھا۔ یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر کوئی شرمندگی نہیں تھی۔ میں نے اسے واپس بھیج دیا اور انتظامیہ کو کہہ کر اسے کسی دوسرے دفتر میں تبادلہ کرادیا۔ بعد میں مجھے دوسرے ملازمین نے بتایا کہ وہ بڑی ڈھٹائی سے بتاتا تھا کہ پہلی بار مانگتے ہوئے شرم محسوس ہوئی تھی پھر جب شام کو میرے ہاتھ میں اتنے نوٹ تھے جتنی میرے پورے ماہ کی تنخواہ تو میں نے پارٹ ٹائم یہ کام شروع کردیا۔
میں گاڑی میں سوچتا جارہا تھا کہ ڈمرو نے تو زیادہ کمائی کے لالچ میں گداگری شروع کی تھی لیکن اشارے پر کھڑی پکھی واسوں کی جوان سال لڑکی کیوں سرعام بھیک مانگ رہی تھی؟کیونکہ پکھی واسوں کی تو اپنی قدیم روایات ہیں اور یہ تو قدیم فنونِ لطیفہ کے حامل لوگ ہیں۔ ان کی خالص موسیقی، دستکاری، گھوگھو گھوڑے، ناٹک، پتلی تماشہ کے علاوہ بندر ریچھ اور سانپ کے تماشے انہی سے منسوب ہیں۔ میرا ڈرئیور بڑی چیز ہے، میں نے ایسے ہی اپنی یہ بات اس سے کی تو وہ کہنے لگا کہ سر جی آپ ٹھیک سوچتے ہیں لیکن یہ بہت پرانی بات ہے۔ ان پکھی واسوں یا ان خانہ بدوشوں کی ایک بڑی تعداد اب بھیک مانگتی ہے کیونکہ پہلے یہ گھوگھو گھوڑے بیچتے تھے، ریچھ بندر کا تماشہ دکھاتے تھے تو ان کے گرد جھمگھٹا لگ جاتا تھا۔ اُسی سے یہ اپنا پیٹ پالتے تھے لیکن جب سے ہر گھر میں ٹی وی اور جدید سائینسی تفریحات آئی ہیں اور لوگوں نے اُن میں دلچسپی لینی شروع کی ہے تو اِن کے گھر فاقے آگئے اور یہ پکھی واس بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے۔
پاکستان میں متعدد پکھی واس قبائل آباد ہیں جن میں جوگی، کنگرے، قلندر اور للی شامل ہیں۔ ان قبائل کے افراد جن کی پاکستان میں تعداد لاکھوں میں ہے اس خطے میں ہزاروں سال سے آباد چلے آرہے ہیں۔ یہ شہری آبادیوں سے باہر (اب تو شہری آبادیوں کے خالی پلاٹوں میں) کپڑے، سرکنڈے اور بانس کی جھونپڑیاں بنا کر رہتے ہیں۔ ان کی اپنی اپنی روایات، رسم و رواج اور طور طریقے ہیں لیکن یہ روزی کے لئے دوردراز کے علاقوں میں سفر کرتے رہتے ہیں۔ اب تو انہوں نے شہروں کے نزدیک مستقل ٹھکانے بنا لئے ہیں جہاں سے یہ سارے شہر میں پھیل جاتے ہیں۔ سارا دن اور رات بھیک مانگنے کے بعد اپنے ٹھکانے پر چلے جاتے ہیں۔
افغانستان میں جاری جنگ کے باعث افغانستان اور تاجکستان کے سرحدی علاقوں سے بھی پیشہ ور گداگروں کی ایک بڑی تعداد یہاں پہنچی ہوئی ہے، بڑے بڑے پلازوں اور اہم شاہراہوں پر بھیک مانگتے سرخ و سفید بچے اور خواتیں کی اکثریت افغانی اور تاجکستانی گداگروں کی ہے۔
معاشرے میں خاموشی سے پنپنے والی اس لعنت کی مختلف شکلیں ہیں اور اب تو گداگری یک مافیا کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ان کا ایک نیٹ ورک بن چکا ہے۔ ہر علاقے کا ایک ٹھیکے دار ہوتا ہے جو تھامیو کہلاتا ہے۔ اب ان گداگروں میں جرائم پیشہ افراد بھی شامل ہوگئے ہیں جو بھکاری عورتوں کے ذریعے نا صرف منشیات کا گھناونا کاروبار کر رہے ہیں بلکہ جسم فروشی بھی ان میں سرایت کرگئی ہے۔ اس کے علاوہ گداگر مافیا ان بھکاری عورتوں کے ذریعے گھروں میں بھیک منگواتے ہیں جہاں یہ عورتیں گھر کا بھید مافیا کے لوگوں کو بتاتی ہیں اور یوں مافیا چوری اور ڈکیتی بھی کرتے ہیں۔
آج کی بے روزگاری اور ہوش ربا مہنگائی نے سفید پوش طبقے کو بھی بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کے سات بڑے شہروں میں کل آبادی کا 0.3 فیصد جبکہ کراچی شہر میں ہر 100 میں سے ایک فرد نے رضاکارانہ طور پر تسلیم کیا کہ وہ باقاعدہ گداگری کے پیشے سے منسلک ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق رضاکارانہ طور پر تسلیم کرنے والے افراد میں سے 65 فیصد ایسے افراد کی ہے جو کام کاج کرسکتے ہیں لیکن انہوں نے گداگری کو پیشہ بنایا ہوا ہے بالکل اسی طرح جیسے میرے دفتر کے چپراسی ڈمرو نے اپنایا ہوا تھا۔
گداگری معاشرتی، نفسیاتی اور معاشی لحاظ سے ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس کا ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر سامنا ہے۔ گداگری کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن ہمیں اِس بات کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ گداگری ایک لعنت ہے۔ یہ عزتِ نفس اور محنت میں عظمت کے نظریات کو بُری طرح متاثر کرتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس لعنت کا خاتمہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہمارے نبیﷺ نے اس فعل سے کراہت محسوس کی ہے اور فرمایا کہ سوال کرنے سے کہیں بہتر ہے کام کرنا۔ ایک شخص نے حضور ﷺ سے سوال کیا۔ آپ نے فرمایا تیرے پاس کچھ ہے اس نے کہا ایک چٹائی اور ایک پیالہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا دونوں لے آو۔ وہ دونوں چیزیں لے آیا۔ آپ ﷺ نے دونوں چیزیں نیلام کر دیں۔ جس سے دو درہم حاصل ہوئے۔ آپ ﷺ نے سوال کرنے والے سے کہا کہ ایک درہم کا کھانا خریدو اور دوسرے درہم کی کلہاڑی خرید کر لاو۔ وہ شخص کلہاڑی لے آیا تو آپ ﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے اس میں دستہ ٹھونکا اور اس شخص سے کہا جنگل میں جاو اور لکڑیاں کاٹ کر بیچو۔ یہ سوال کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ قیامت کے روز تیرے ماتھے پر بھیک کا نشان ہو۔
ہمارا نظام بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت گداگری کے انسداد کے لئے ان کے ہاتھ میں کلہاڑی (ہنر) تھما دے تاکہ وہ بھی روزگار کما سکیں۔ لیکن میں اِس بات سے اختلاف نہٰں کرسکتا کہ قصور وار محض حکومت ہے بلکہ ہوسکتا ہے لوگ بھی ہوں جو زیادہ آمدنی اور محنت سے بچنے کے لیے خود گداگری کے پیشے کا انتخاب کرتے ہوں۔ آغا خان فائونڈیشن کے مطابق پاکستان میں سالانہ 70 ارب زکوۃ اور خیرات تقسیم ہوتی ہے۔ یہ اس کے علاوہ ہے جو بینکوں میں ہر سال کاٹی جاتی ہے۔ اگر یہ رقم حکومت خزانے میں شامل کرنے کے بجائے کسی ادارے کے ذریعے گداگری کے انسداد اور انہیں کلہاڑی (ہنر) فراہم کرنے پر لگا دے تو یقین کیجئے کہ اس ملک میں آواز لگانے پر بھی کوئی مانگنے والا نہیں ملے گا۔حضور ﷺ کے اس عمل پر عمل کرکے دیکھئیے یہ ملک مالا مال ہوجائے گا کیونکہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
میں ویسے تو ایسے جوان سال فقیروں کو کچھ دینے کا قائل نہیں ہوں لیکن ناجانے اس کے چہرے پر کیا لکھا تھا یا شاید اللہ کے نام پر مانگا تھا اس لئے میں نے ایک دس کا نوٹ نکالا اور کھڑکی کے تھوڑے سے اترے ہوئے شیشے سے باہر کی جانب نکال دیا۔ اس نے تیزی سے نوٹ اچک لیا۔ اتنے میں اشارہ کھل گیا اور ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ جب میری نظر بیک مرر پر پڑی تو دیکھا کہ ایک ہٹے کٹے فرد نے اس لڑکی سے وہ نوٹ چھین لیا۔
میرے دفتر میں ایک چپراسی تھا اپنی چال ڈھال اور حلئے سے وہ عجیب سی چیز تھا۔ دفتر کے سارے چپراسی اسے ڈمرو کہہ کر بلاتے تھے۔ ایک دن میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ میرا چپراسی میرے لئے چائے لے کر آیا۔ چائے میرے سامنے رکھ کر کہنے لگا سر جی ڈمرو کی اپنے دفتر سے تبدیلی کرا دیں کیونکہ دفتر کی بڑی بدنامی ہو رہی ہے۔ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگا سر جی یہ جو ڈمرو ہے نا یہ چھٹی کے بعد ریگل چوک پر کھڑا ہو کر بھیک مانگتا ہے۔ ہمارے دفتر میں صحافی بھی آتے ہیں کسی نے دیکھ کر خبر لگا دی تو بڑی بدنامی ہوگی۔میں نے کہا اچھا دیکھتے ہیں۔
چھٹی کے بعد میں دفتر سے باہر نکلا تو گھر جانے کے بجائے میں پیدل ہی مال پر ریگل کی طرف چل دیا۔ مسجدِ شہدا کے قریب ایک درخت کے نیچے کھڑا ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے ڈمرو کو آتے دیکھا تو میں تھوڑا سائیڈ میں ہوگیا۔ ڈمرو اِدھر اُدھر دیکھے بغیر ریگل چوک کے اشارے پر جا کر کھڑا ہوگیا۔ اشارہ بند ہوتے ہی ڈمرو گاڑیوں کی طرف بڑھا اور دستِ سوال دراز کرنا شروع کردیا۔ میں اسے یہ حرکت کرتے دیکھ کر واپس آگیا۔ دوسرے دن میں نے اسے بلایا اور پوچھا کہ کل ریگل چوک پر کیا کر رہے تھے؟ کہنے لگا صاحب لوگوں سے پیسے مانگ رہا تھا۔ یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر کوئی شرمندگی نہیں تھی۔ میں نے اسے واپس بھیج دیا اور انتظامیہ کو کہہ کر اسے کسی دوسرے دفتر میں تبادلہ کرادیا۔ بعد میں مجھے دوسرے ملازمین نے بتایا کہ وہ بڑی ڈھٹائی سے بتاتا تھا کہ پہلی بار مانگتے ہوئے شرم محسوس ہوئی تھی پھر جب شام کو میرے ہاتھ میں اتنے نوٹ تھے جتنی میرے پورے ماہ کی تنخواہ تو میں نے پارٹ ٹائم یہ کام شروع کردیا۔
میں گاڑی میں سوچتا جارہا تھا کہ ڈمرو نے تو زیادہ کمائی کے لالچ میں گداگری شروع کی تھی لیکن اشارے پر کھڑی پکھی واسوں کی جوان سال لڑکی کیوں سرعام بھیک مانگ رہی تھی؟کیونکہ پکھی واسوں کی تو اپنی قدیم روایات ہیں اور یہ تو قدیم فنونِ لطیفہ کے حامل لوگ ہیں۔ ان کی خالص موسیقی، دستکاری، گھوگھو گھوڑے، ناٹک، پتلی تماشہ کے علاوہ بندر ریچھ اور سانپ کے تماشے انہی سے منسوب ہیں۔ میرا ڈرئیور بڑی چیز ہے، میں نے ایسے ہی اپنی یہ بات اس سے کی تو وہ کہنے لگا کہ سر جی آپ ٹھیک سوچتے ہیں لیکن یہ بہت پرانی بات ہے۔ ان پکھی واسوں یا ان خانہ بدوشوں کی ایک بڑی تعداد اب بھیک مانگتی ہے کیونکہ پہلے یہ گھوگھو گھوڑے بیچتے تھے، ریچھ بندر کا تماشہ دکھاتے تھے تو ان کے گرد جھمگھٹا لگ جاتا تھا۔ اُسی سے یہ اپنا پیٹ پالتے تھے لیکن جب سے ہر گھر میں ٹی وی اور جدید سائینسی تفریحات آئی ہیں اور لوگوں نے اُن میں دلچسپی لینی شروع کی ہے تو اِن کے گھر فاقے آگئے اور یہ پکھی واس بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے۔
پاکستان میں متعدد پکھی واس قبائل آباد ہیں جن میں جوگی، کنگرے، قلندر اور للی شامل ہیں۔ ان قبائل کے افراد جن کی پاکستان میں تعداد لاکھوں میں ہے اس خطے میں ہزاروں سال سے آباد چلے آرہے ہیں۔ یہ شہری آبادیوں سے باہر (اب تو شہری آبادیوں کے خالی پلاٹوں میں) کپڑے، سرکنڈے اور بانس کی جھونپڑیاں بنا کر رہتے ہیں۔ ان کی اپنی اپنی روایات، رسم و رواج اور طور طریقے ہیں لیکن یہ روزی کے لئے دوردراز کے علاقوں میں سفر کرتے رہتے ہیں۔ اب تو انہوں نے شہروں کے نزدیک مستقل ٹھکانے بنا لئے ہیں جہاں سے یہ سارے شہر میں پھیل جاتے ہیں۔ سارا دن اور رات بھیک مانگنے کے بعد اپنے ٹھکانے پر چلے جاتے ہیں۔
افغانستان میں جاری جنگ کے باعث افغانستان اور تاجکستان کے سرحدی علاقوں سے بھی پیشہ ور گداگروں کی ایک بڑی تعداد یہاں پہنچی ہوئی ہے، بڑے بڑے پلازوں اور اہم شاہراہوں پر بھیک مانگتے سرخ و سفید بچے اور خواتیں کی اکثریت افغانی اور تاجکستانی گداگروں کی ہے۔
معاشرے میں خاموشی سے پنپنے والی اس لعنت کی مختلف شکلیں ہیں اور اب تو گداگری یک مافیا کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ان کا ایک نیٹ ورک بن چکا ہے۔ ہر علاقے کا ایک ٹھیکے دار ہوتا ہے جو تھامیو کہلاتا ہے۔ اب ان گداگروں میں جرائم پیشہ افراد بھی شامل ہوگئے ہیں جو بھکاری عورتوں کے ذریعے نا صرف منشیات کا گھناونا کاروبار کر رہے ہیں بلکہ جسم فروشی بھی ان میں سرایت کرگئی ہے۔ اس کے علاوہ گداگر مافیا ان بھکاری عورتوں کے ذریعے گھروں میں بھیک منگواتے ہیں جہاں یہ عورتیں گھر کا بھید مافیا کے لوگوں کو بتاتی ہیں اور یوں مافیا چوری اور ڈکیتی بھی کرتے ہیں۔
آج کی بے روزگاری اور ہوش ربا مہنگائی نے سفید پوش طبقے کو بھی بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کے سات بڑے شہروں میں کل آبادی کا 0.3 فیصد جبکہ کراچی شہر میں ہر 100 میں سے ایک فرد نے رضاکارانہ طور پر تسلیم کیا کہ وہ باقاعدہ گداگری کے پیشے سے منسلک ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق رضاکارانہ طور پر تسلیم کرنے والے افراد میں سے 65 فیصد ایسے افراد کی ہے جو کام کاج کرسکتے ہیں لیکن انہوں نے گداگری کو پیشہ بنایا ہوا ہے بالکل اسی طرح جیسے میرے دفتر کے چپراسی ڈمرو نے اپنایا ہوا تھا۔
گداگری معاشرتی، نفسیاتی اور معاشی لحاظ سے ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس کا ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر سامنا ہے۔ گداگری کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن ہمیں اِس بات کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ گداگری ایک لعنت ہے۔ یہ عزتِ نفس اور محنت میں عظمت کے نظریات کو بُری طرح متاثر کرتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس لعنت کا خاتمہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہمارے نبیﷺ نے اس فعل سے کراہت محسوس کی ہے اور فرمایا کہ سوال کرنے سے کہیں بہتر ہے کام کرنا۔ ایک شخص نے حضور ﷺ سے سوال کیا۔ آپ نے فرمایا تیرے پاس کچھ ہے اس نے کہا ایک چٹائی اور ایک پیالہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا دونوں لے آو۔ وہ دونوں چیزیں لے آیا۔ آپ ﷺ نے دونوں چیزیں نیلام کر دیں۔ جس سے دو درہم حاصل ہوئے۔ آپ ﷺ نے سوال کرنے والے سے کہا کہ ایک درہم کا کھانا خریدو اور دوسرے درہم کی کلہاڑی خرید کر لاو۔ وہ شخص کلہاڑی لے آیا تو آپ ﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے اس میں دستہ ٹھونکا اور اس شخص سے کہا جنگل میں جاو اور لکڑیاں کاٹ کر بیچو۔ یہ سوال کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ قیامت کے روز تیرے ماتھے پر بھیک کا نشان ہو۔
ہمارا نظام بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت گداگری کے انسداد کے لئے ان کے ہاتھ میں کلہاڑی (ہنر) تھما دے تاکہ وہ بھی روزگار کما سکیں۔ لیکن میں اِس بات سے اختلاف نہٰں کرسکتا کہ قصور وار محض حکومت ہے بلکہ ہوسکتا ہے لوگ بھی ہوں جو زیادہ آمدنی اور محنت سے بچنے کے لیے خود گداگری کے پیشے کا انتخاب کرتے ہوں۔ آغا خان فائونڈیشن کے مطابق پاکستان میں سالانہ 70 ارب زکوۃ اور خیرات تقسیم ہوتی ہے۔ یہ اس کے علاوہ ہے جو بینکوں میں ہر سال کاٹی جاتی ہے۔ اگر یہ رقم حکومت خزانے میں شامل کرنے کے بجائے کسی ادارے کے ذریعے گداگری کے انسداد اور انہیں کلہاڑی (ہنر) فراہم کرنے پر لگا دے تو یقین کیجئے کہ اس ملک میں آواز لگانے پر بھی کوئی مانگنے والا نہیں ملے گا۔حضور ﷺ کے اس عمل پر عمل کرکے دیکھئیے یہ ملک مالا مال ہوجائے گا کیونکہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس