سہولت ضرورت اور قیمت
یہ وہ موازنہ ہے جو میاں برادران اور ان کے وکیلوں کی تمام تر دلیلوں پر بھاری پڑتا ہے۔
لاہور کے بعد اب اسلام آباد میں بھی میٹروبس سروس کا آغاز ہوگیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مختلف پلیٹ فارموں پر جاری اس بحث کی شدت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے کہ اسلام آباد کی فی الوقت اس سہولت کی کیا اور کتنی ضرورت تھی؟ ہماری قومی اور عوامی ترجیحات میں اس کا کیا مقام ہے؟ اور جو قیمت اس کے لیے ادا کی گئی ہے وہ کسی حد تک جائز اور شفاف ہے؟ موجودہ سرکار کے ہم خیال یا مراعات یافتہ دوستوں کی طرف سے اس کے حق میں کچھ دلائل پیش کیے جا رہے ہیں جن میں سے بیشتر واقعاتی طور پر درست مانے جاسکتے ہیں لیکن کم و بیش جو دلائل مخالفین کی طرف سے پیش کیے جا رہے ہیں ان میں بھی وزن اور صداقت کی کمی نہیں۔ ایسے میں یہ فیصلہ کرنا واقعی بہت مشکل ہوگیا ہے کہ کس کی بات مانی جائے۔
میٹروبس سسٹم کے حق میں جو سب سے مضبوط دلیل دی جاتی ہے وہ یہی ہے کہ جس طرح موٹروے کی تعمیر کے دوران بھی اس منصوبے کی بے حد مخالفت کی گئی تھی مگر اب سب اس کے گن گاتے ہیں۔
اسی طرح آیندہ کچھ عرصے میں لوگ میٹروبس کی ضرورت، اہمیت اور سہولت سے آگاہ ہوکر اس کے سوچنے اور بنانے والوں کو بھی دعائیں دیا کریں گے۔ بادی النظر میں یہ دلیل اپنے اندر ایک اپیل ضرور رکھتی ہے مگر یہ موازنہ اس لیے درست نہیں کہ کسی بھی ایسی سہولت کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں جس سے عوام کی زندگیوں میں کوئی معیاری تبدیلی آتی ہو۔ سو اصل مسئلہ ''سہولت'' کا نہیں ترجیحات میں اس کی اہمیت اور اس قیمت کا ہے جو اس کے لیے ادا کی جاتی ہے۔
ایک عمومی جائزے کے مطابق میٹرو بس کے حوالے سے راولپنڈی، اسلام آباد کا نمبر کراچی، ملتان، فیصل آباد، پشاور اور حیدر آباد کے بعد آتا ہے کہ ان شہروں کی آبادی نسبتاً زیادہ اور سفری سہولیات بہت کم اور بے ترتیب ہیں جب کہ اسلام آباد میں آبادی اور اس کے وسائل کے اعتبار سے فی الوقت اس طرح کے منصوبے کی ضرورت اور افادیت متذکرہ بالا تمام شہروں سے کم ہے۔
یہ وہ موازنہ ہے جو میاں برادران اور ان کے وکیلوں کی تمام تر دلیلوں پر بھاری پڑتا ہے۔ یہ تو ہوئی منطق اور کامن سنس کی بات جس پر خواہ مخواہ کی بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کہ مقصد پوائنٹ اسکورنگ نہیں مسئلے کی تفہیم ہے۔ چلیے ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ حکومتی ترجیحات ہی درست ہیں اور واقعی اگلا نمبر راولپنڈی اسلام آباد کا بنتا تھا یہ بھی تسلیم کہ جتنی تکالیف وہاں کے رہائشیوں اور آنے جانے والوں نے اس دوران میں اٹھائیں وہ بھی اس کھیل کا حصہ ہیں کہ کچھ لینے کے لیے کچھ دینا بھی پڑتا ہے۔ اور اس دینے میں وہ لاگت بھی شامل ہے جو اس منصوبے پر آئی۔
میرا اپنا ''حساب'' ذرا کمزور ہے اور خاص طور پر دو چار ملین سے آگے تو مجھے ہندسوں کی سمجھ بھی نہیں آتی۔ سو بلین اور ٹریلین کی گنتی اور ڈالر کو روپے اور روپے کو ڈالر میں بدلنے کی جادوگریاں تو میرے سر پر سے ہی گزرجاتی ہیں مگر اس ملک میں اور اس سے باہر سارے لوگ مجھ جیسے نہیں ہیں۔ وہ اس کھیل کو بھی جانتے ہیں اور اس سے منسلک شعبدہ بازیوں کو بھی۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جھوٹ کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ (1) جھوٹ (2) سفید جھوٹ (3) اعدادو شمار۔ واضح رہے کہ میری اس بات کا اسحاق ڈار صاحب کی بجٹ تقریر اور میاں برادران کے اس منصوبے کے بارے میں دیے گئے اعدادو شمار سے کوئی تعلق واسطہ نہیں کہ یہ بقول شخصے میرا Cup of tea ہے ہی نہیں۔
میں تو کچھ ماہرین کے ان بیانات پر بات کرنا بلکہ سمجھنا چاہ رہا ہوں جنہوں نے عالمی سطح پر تصدیق شدہ معلومات کے حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ ہماری اسلام آباد میٹروبس پر فی کلومیٹر جو خرچہ آیا ہے اس کا اس طرح کے کسی اور منصوبے پر اٹھنے والے اخراجات سے فرق دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔ ان اطلاعات کے مطابق گزشتہ دس برس میں دنیا بھر میں جو میٹروبس پراجیکٹ مکمل ہوئے ہیں ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔ واضح رہے کہ یہ خرچہ ایک کلومیٹر پر آنے والی لاگت سے ہے۔
احمد آباد (انڈیا) سال 2012ء خرچ 2.4 ملین ڈالر
بیجنگ (چین) 2013ء خرچ 4.8 ملین ڈالر
پیرس (فرانس) 2006ء خرچ 7 ملین ڈالر
استنبول (ترکی) 2002ء خرچ 8.8 ملین ڈالر
لاہور (پاکستان) 2013ء خرچ 11 ملین ڈالر
اسلام آباد (پاکستان) 2015ء خرچ 20 ملین ڈالر
پاکستان سے پہلے دنیا کی مہنگی ترین میٹروبس سروس 2013ء میں ترکی میں بنی جس پر 88 ملین ڈالر فی کلومیٹر خرچ آیا تھا۔ ان تمام ممالک کے مقابلے میں ہمارے یہاں لیبر سب سے سستی ہے۔ سو اگر یہ اعداد و شمار ہمارے کسی ناراض ہمسائے یا بین الاقوامی سازش کے تحت تیار کردہ ہیں تو متعلقہ حکام کو چاہیے کہ وہ فوراً ان کی قابل اعتبار اور قابل تصدیق ایسی وضاحت جاری کریں جس میں ان ''الزامات'' کا کوئی مؤثر اور معقول جواب اور جواز سامنے آسکے۔ واضح رہے کہ اب معاملہ اس میٹروبس پراجیکٹ کی اہمیت، ضرورت لاگت وغیرہ وغیرہ کا نہیں بلکہ اس پر اٹھنے والے ان اضافی اخراجات کا ہے جو موجودہ شواہد کے مطابق ہر طرح کے منطقی حساب سے باہر ہیں۔
میری معلومات کے مطابق یہ منصوبہ ترکی کی میٹروبس سروس سے متاثر ہوکر (غالباً) اسی کمپنی کی مدد سے مکمل کیا گیا ہے جس نے لاہور اور اسلام آباد سے قبل اپنے ملک میں اس نوع کی مہنگی ترین سروس مہیا کی تھی۔
ہمارے میاں برادران بات بات میں چین کی مثال دیتے ہیں اور آئے دن وہاں کے دورے بھی کرتے رہتے ہیں۔ کیا انھوں نے کبھی چین سے یہ دریافت کرنے کی کوشش کی کہ انھوں نے اتنے کم پیسوں میں یہ منصوبہ کیسے مکمل کیا تھا؟ ترکی ہمارا برادر ملک ہے اور بلاشبہ مسلمان ممالک میں ہمارا سب سے پکا اور قابل اعتماد دوست بھی ہے لیکن جہاں ملکی مفاد کا معاملہ ہو وہاں یہ رشتے وقتی طور پر ثانوی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں۔ سو اس سوال کو پی ٹی آئی یا کسی اور مخالف پروپیگنڈے کا حصہ کہہ کر رد کرنے کے بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی ''شفافیت'' کو واضح اور ثابت کیا جائے کہ جمہوریت میں حاکم وقت ملکی خزانے کے مخافظ تو ہوتے ہیں مالک نہیں۔