صورتحال ایک جیسی ہے

اصل بات یہ ہے کہ ہمارا عدالتی نظام مالدار لوگوں کے حق میں فیصلے کرتا ہے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

'عدالتوں کا امرا کی طرف جھکاؤ' یہ عنوان بھارت کے معروف کالم نگار اور دانشورکلدیپ نیئر کے ایک کالم کا ہے۔ اس کالم میں کلدیپ نے بھارت کے سپراسٹار اداکار سلمان خان اور تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ جئے جیا للیتا کے حوالوں سے انصاف کی جانبداری اور امیروں کی طرف جھکاؤ کی شکایت کی ہے۔

انھوں نے اس کالم میں خود اپنے حوالے سے بھی عدلیہ میں ہونے والی ناانصافیوں کا ذکرکیا ہے، لکھتے ہیں کہ بھارت میں اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد مجھے گرفتار کرلیاگیا، مجھے گرفتاری کی کوئی وجہ بتائی گئی نہ قصور بتایاگیا۔ میری گرفتاری کے خلاف میری بیوی کی جانب سے دائر کی گئی حبس بے جا کی پٹیشن کو منظور کرتے ہوئے دو رکنی بنچ نے جو سینئر جج رنگا راجن اور جسٹس این آر اگروال پر مشتمل تھی مجھے بری کردیا۔

مجھے رہا کرنے کی سزا ان دونوں محترم ججوں کو بھگتنی پڑی جج رنگا راجن کا تبادلہ سکم کے دور دراز مقام پر کردیا گیا اور جسٹس اگروال کو ان کے عہدے سے تنزل کر کے سیشن کورٹ بھیج دیا گیا، اعلیٰ عدالت سے سیشن کورٹ کی تنزلی کی وجہ یہ تھی کہ ان جج صاحب نے ہماری رہائی کا حکم دیا تھا۔ ان دونوں ججوں کو آزادیٔ صحافت کی قربان گاہ پر قربان کردیاگیا، یہ شکایت کلدیپ جی نے ذاتی تجربات کے حوالے سے کی ہے، کہتے ہیں کہ مجھے اپنے عدالتی نظام پر اعتماد ہے لیکن ان واقعات نے میرے اعتماد کو متزلزل کردیا ہے، فلمی اداکار پر الزام تھا کہ اس نے شراب کے نشے میں گاڑی چلاتے ہوئے فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے غریب شہریوں کو کچل دیا تھا۔

اس جرم کی قانون میں جو کم سے کم سزا یعنی پانچ سال قید تھی وہ سلمان خان کو دی گئی لیکن سلمان خان کو جیل میں ایک منٹ بھی گزارے بغیر ضمانت پر رہا کردیاگیا۔ تامل ناڈوکی وزیراعلیٰ جے للیتا کو ناجائز دولت جمع کرنے پر وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹادیاگیا تھا ان پر سے یہ الزام واپس لے کر انھیں دوبارہ وزارت اعلیٰ کے عہدے پر بحال کردیاگیا۔

سلمان خان اور جے للیتا کو اعلیٰ پائے کے وکلا کی اعانت حاصل تھی لیکن جج صاحبان کو یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ استغاثہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہیے۔ مجھے افسوس ہے کہ ایسا نہ ہوسکا اس کی وجہ یہ نہیں کہ وکلا صاحبان جج حضرات سے زیادہ قابل تھے بلکہ مجھے لگتا ہے کہ اگر ان کیسوں میں مال و دولت نے کوئی کردار ادا نہیں کیا تو یقینا اس کے پیچھے ''کچھ اور محرکات'' موجود رہے ہوں گے۔

اصل بات یہ ہے کہ ہمارا عدالتی نظام مالدار لوگوں کے حق میں فیصلے کرتا ہے۔ اس معاملے میں نہ ریفرنڈم کرایا جاسکتا ہے نہ پارلیمنٹ ہی کچھ کرسکتی ہے کیوں کہ دونوں بڑی پارٹیاں کانگریس اور بی جے پی اس قانون میں کسی بڑی اور منصفانہ تبدیلی پر رضامند نہیں ہوں گی؟


کلدیپ نیئر نے ان دو کیسز کا حوالہ غالباً اس لیے دیا ہے کہ یہ کیسز میڈیا میں آنے کی وجہ سے سب کی نظروں میں آگئے لیکن وہ ہزاروں لاکھوں نا منصفانہ کیسز جو میڈیا میں نہیں آئے غریب اور محروم طبقات کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو عوام اور خواص کی نظروں سے دور رکھتے ہیں۔کلدیپ نے اس نا انصافی کو اجاگر تو کیا ہے لیکن وہ اس حقیقت کی پردہ کشائی نہ کرسکے کہ عدلیہ میں اس قسم کی نا انصافیوں کی اصل وجہ وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں قانون اور انصاف کٹھ پتلیوں کی طرح سرمائے اور طاقت کے ہاتھوں میں کھیلتے رہتے ہیں۔ اس قسم کی نا انصافیاں صرف بھارت ہی میں موجود نہیں بلکہ ہر اس ملک میں موجود ہیں جہاں یہ نظام رائج ہے۔

ہمارے عدالتی نظام اور ہمارے قانون اور انصاف کا عالم یہ ہے کہ شہریوں کو پکڑ کر جیلوں میں بند کردیا جاتا ہے اور 15،20 سال کی بے گناہ اسیری کے بعد قانون ان کو بے گناہ قرار دیتا ہے بہت سارے قتل کے ملزموں کو موت کی سزا اس وقت سنائی جاتی ہے جب وہ آدھی زندگی جیل میں گزار دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو ملزمان یا مجرمان جیلوں میں 20،25 سال گزارنے کے بعد انصاف حاصل کرتے ہیں، ان کے 20،25 سالوں کے ضیاع کا ذمے دار کون ہے؟ کیا اس ظلم کے خلاف آج تک کوئی موثر آواز اٹھائی گئی ہے۔

پاکستان کی دیہی معیشت جس میں ملکی آبادی کا 60 فی صد حصہ رہتا ہے وہ پوری طرح جاگیرداروں اور وڈیروں کے تلے دبی ہوئی ہے جس نظام میں انتظامیہ کے عہدیدار جاگیرداروں اور وڈیروں کے غلام بنے ہوئے ہوں اس نظام میں غریب کسانوں، ہاریوں کو کس قسم کا انصاف مل سکتا ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔کلدیپ نیئر نے شکوہ کیا ہے کہ انھیں انصاف دینے والے ججوں کے دور دراز مقامات پر تبادلے کردیے گئے اور انھیں ان کے عہدوں سے تنزلی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ رونا صرف بھارت کا نہیں بلکہ پاکستان سمیت ہر پسماندہ ملک میں اس قسم کی نا انصافیاں انصاف فراہم کرنے والے اداروں میں دھڑلے سے جاری ہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ وکلا برادری کا کام مظلوموں کو انصاف دلانا ہوتا ہے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ وکلا برادری اپنی تمام تر پیشہ ورانہ مہارت نا انصافیوں کا دفاع کرنے میں خرچ کررہی ہے وہ وکیل سب سے بڑا وکیل مانا جاتا ہے جو حقیقی قتل کے ملزم کو سزا سے بچالیتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ اس قسم کی ساری خدمات صرف پیسے کے عوض خریدی جاسکتی ہیں۔ہر ملک میں عوام کو قانون کا احترام کرنے کا درس دیا جاتا ہے بے شک کوئی بھی ملک قانون اور انصاف کی بالادستی کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا لیکن شرط یہ ہے کہ قانون اور انصاف آزاد اور غیر جانبدار ہو۔

کیا ایسا ممکن ہے؟ اس کا جواب منفی میں اس لیے آتا ہے کہ غریب کے پاس نہ اثر و رسوخ ہوتا ہے نہ مال و زر اور ان دونوں چیزوں کے بغیر نہ قانون مظلوم کا ساتھ دیتا ہے نہ انصاف۔ ایک مل یا کارخانے میں مزدور اپنی نا منصفانہ اجرت یا تنخواہ میں اضافے کے لیے احتجاج یا ہڑتال کرتے ہیں تو فوری قانون حرکت میں آجاتا ہے اور احتجاج یا ہڑتال کرنے والوں کو مختلف دفعات کے تحت گرفتار کرلیا جاتا ہے یہی حال کسانوں اور ہاریوں کا ہے۔ اگر وہ وڈیروں کے خلاف حرف شکایت زبان پر لاتے ہیں تو ان پرکئی کئی جھوٹے مقدمات بنادیے جاتے ہیں جو وہ نسل در نسل بھگتتے رہتے ہیں اور اگر کسی ہاری یا کسان نے کوئی گستاخی کی تو پھر اس کی وڈیرہ شاہی کے ہاتھوں سزائے موت ہوتی ہے۔

ہماری نظروں سے آئے دن درجنوں ہاریوں کو وڈیروں کی نجی جیلوں سے بازیاب کرانے کی خبریں گزرتی ہیں لیکن ان چار سطری خبروں کے بعد کیا ہوا۔ اس کا کوئی پتا نہیں چلتا۔ مشہور افسانہ نگارکافکا کا ایک افسانہ مجھے یاد آرہا ہے جس میں دور دراز علاقے سے ایک مظلوم پیدل سفر کر کے شہر پہنچتا ہے اور ایوان انصاف کے دروازے پر پہنچ کر انصاف طلبگار ہوتا ہے ایوان انصاف کے دروازے پر کھڑا لحیم شحیم دربان اس سے کہتا ہے کہ تم ابھی اندر ایوان انصاف تک نہیں جاسکتے کیوں کہ جج صاحبان انصاف میں مصروف ہیں اور اس ایوان انصاف کے بے شمار دروازے ہیں ہر دروازے پر مجھ سے برا خونخوار دربان موجود ہے۔

سو بے چارا انصاف کا طالب دربان سے کہتا ہے کہ وہ اسے یہاں بیٹھنے کی اجازت دے تاکہ وہ ایوان انصاف میں پذیرائی کا انتظار کرسکے۔ مظلوم دروازے پر بیٹھے بیٹھے بوڑھا ہوجاتا ہے اور پھر مرجاتا ہے لیکن اس کی ایوان انصاف میں جانے کی آرزو پوری نہیں ہوتی۔ ہمارے ملک میں لاکھوں مظلوم انصاف کے انتظار میں عمریں بتادیتے ہیں اور اس دار فانی سے رخصت ہوجاتے ہیں لیکن انھیں انصاف نہیں ملتا، سلمان خان اور جے للیتا جیسے کردار ہمارے ملک میں بھی قدم قدم پر دیکھے جاسکتے ہیں اور یہاں بھی کئی کلدیپ نیئر شکوہ کناں ہیں لیکن انصاف نہیں ملتا، کلدیپ نے کہا ہے کہ ملک کی دو بڑی پارٹیاں انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں کیا یہی صورت حال ہمارے ملک میں نہیں۔
Load Next Story