بھارت کے عزائم

افغانستان کے صدر اشرف غنی کی جرات مندانہ مساعی سے پاکستان کے ساتھ افغانستان کے تعلقات میں بہتری کی امید پیدا ہوئی


اکرام سہگل June 18, 2015

ISLAMABAD: بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم پاکستان دشمن تقاریر کے سر پر چلائی۔ یہی وجہ ہے کہ جب وزیر اعظم نواز شریف کو گزشتہ مئی میں نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت ملی تو یہاں یہ سوچ بچار کی گئی کہ آیا اس دعوت کو قبول کیا جائے یا رد کر دیا جائے تاہم فیصلہ یہی ہوا کہ امن کی ترویج کی خاطر تقریب میں شرکت کی جانی چاہیے لیکن دہلی میں ہمارے وزیر اعظم کے ساتھ جس قسم کا برتائو کیا گیا اس سے بی جے پی کا منفی ''مائنڈ سیٹ'' آشکار ہوا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات یکلخت تلخی کا شکار نہیں ہوئے بلکہ اس موقع کے بعد سے تعلقات مسلسل روبہ زوال ہیں۔

گزشتہ سال عید کی صبح بھارت کی طرف سے سیالکوٹ کے قریب متعدد سرحدی دیہات پر گولہ باری کی گئی جس کے نتیجے میں عید کی تیاری کرنے والی متعدد خواتین اور بچے مارٹر گولوں کی زد میں آ گئے۔ کنٹرول لائن پر بھارت کی طرف سے خلاف ورزیاں معمول کی بات ہیں نیز خارجہ سیکرٹویوں کی سطح پر جو ملاقات طے کی گئی تھی اس کو عین وقت پر بے معنی وجوہات کی بنا پر بھارت کی طرف سے منسوخ کر دیا گیا۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی کی جرات مندانہ مساعی سے پاکستان کے ساتھ افغانستان کے تعلقات میں بہتری کی امید پیدا ہوئی جس سے بھارت کی حکمت عملی کو نقصان پہنچا ہے۔ صدر اشرف غنی نے راولپنڈی میں جی ایچ کیو کا دورہ کیا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کی عسکری قیادت سے ملاقاتیں کیں۔ نومبر2014ء میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کی پہل کاری نے بھارت کو دھچکے سے دوچار کر دیا جب بھارت کو اپنی خارجہ سیاست ناکام ہوتی نظر آئی جس کے جواب میں بھارت نے افغان صدر اشرف غنی کی پیشرفت کو ناکام بنانے کے لیے سابق افغان صدر کے ساتھ رابطہ قائم کیا۔ شمالی اتحاد سے تعلق رکھنے والے عبداللہ عبداللہ جو موجودہ افغان حکومت میں چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر فائز ہیں انھوں نے بھی پاکستان کے خلاف زہریلی زبان استعمال کی۔

ہمارے لیڈر امن کی خواہش لے کر بھارت کے ساتھ بار بار رابطہ کی کوشش کرتے رہے لیکن بھارت کی ہمیشہ کوشش ہمیں پیچھے دھکیلنے کی رہی۔ بھارت کے خلاف تن کر کھڑے ہونے والے ہمارے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ہیں جنہوں نے پوکھران میں کیے جانے والے بھارتی ایٹمی تجربے کے جواب میں 28 مئی 1998ء کو بین الاقوامی دبائو کو مسترد کرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کر دیے۔ یہ ایک ایسا مزاحمتی عمل تھا جس کا فائدہ ہمیں آج تک مل رہا ہے جب کہ بھارتی سیاستدان بے چینی سے کروٹیں بدل رہے ہیں کہ وہ ہمیں پہلے کی طرح دبائو میں لانے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) جو کہ نہ صرف پاکستان اور چین بلکہ پورے خطے کے لیے اقتصادی حالات کو انقلابی طور پر بہتر بنانے کا عمل ہے لیکن اس سے بھارت کو سخت بے چینی لاحق ہو رہی ہے اور وہ اس منصوبے کی کھلم کھلا مخالفت کر رہا ہے تاہم جنرل راحیل شریف نے بھارت کی تازہ دھمکیوں کا بڑا مضبوط جواب دیا ہے جس سے پاکستانی عوام کے جذبات کو تسکین ملی ہے۔ ہماری سرکاری مشینری کو بھارت کی لفظی جنگ کا جواب دینے میں کچھ وقت لگ گیا جب کہ وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے ابتدائی طور پر بہت نرم جواب دیا گیا تاہم بعدازاں انھوں نے بھی ایک سخت موقف اپنا لیا۔ غالباً اسی وجہ سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے فون کر کے وزیر اعظم پاکستان کو رمضان کی مبارک باد دی۔

سولہ اگست 1965ء کو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''وقت آ گیا ہے کہ ہم جارحیت کا جواب جارحیت سے دیں اور جب امن کا موقع ہو گا تو اس کو ہم اپنی مرضی سے اختیار کریں گے'' موجودہ بھارتی وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دیول پاکستان کو زک پہنچانے کے بیانات جاری کر کے اپنے تئیں بہت لطف لیتے ہیں اور دیگر باتوں کے علاوہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی بات بھی کرتے ہیں جب کہ بھارتی وزیر دفاع پاریکر (جن کا تعلق بھی مودی کی طرح گجرات سے ہے اور وہ ان کے بہت قریبی معتمد بھی ہیں) نے حال ہی میں تصدیق کی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کو ''پراکسی وار'' کے لیے استعمال کریں گے جب کہ میانمار کے خلاف جس فوجی کارروائی کا بہت زور شور سے ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا وہ ''بالی ووڈ کی فلم پروڈکشن'' ثابت ہوئی۔

پاریکر نے اس کو دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں کے خلاف ''باوردی ریہرسل'' کا نام دیا۔ مودی کی کچن کیبنٹ میں ان کی وزیر خارجہ سشما سوراج بھی شامل ہیں جب کہ ان کے نائب وزیر دفاع کھل کر انھی الفاظ کو استعمال کر رہے ہیں جو پچاس برس قبل شاستری نے اسی قسم کے موقع پر استعمال کیے تھے جس کو بھارت میں ''کولڈ اسٹارٹ'' کا نام دیا گیا تھا۔ تو ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس کے لیے ذرا سنیے کہ پاریکر کیا فرماتے ہیں، ''بھارتی فوج کی اہمیت خاصی معدوم ہو چکی ہے کیونکہ اس نے گزشتہ 40 یا 50 سال سے کوئی جنگ نہیں لڑی'' تاہم اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ جنگی جنون نہیں پھیلانا چاہتے۔ لیکن کیا ہم ان کے اس بیان پر یقین کر لیں گے کہ وہ جنگ سے گریز کرنا چاہتے ہیں؟

ہمارے اہل دانش میں سے بعض اور میڈیا میں سے بھی کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ انھیں بھارت کی طرف سے جنگی جنون کے اظہار پر زیادہ توجہ نہیں دینی چاہیے بلکہ اس کے جواب میں خاموشی اختیار کرنا زیادہ بہتر ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے افغانستان کے صدر کو ان دہشت گردوں کے بارے میں ٹھوس ثبوت فراہم کر دیے جو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ملوث تھے اور جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں زیر حراست ہیں لیکن ابھی تک انھیں ہمارے حوالے نہیں کیا گیا۔ ان پر تفتیش کر کے بلوچستان میں ''را'' کی سرگرمیوں کا مکمل ثبوت حاصل ہو سکتا ہے جو کہ وہ بلوچستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مل کر کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں این ڈی ایس آئی کے سربراہ نبیل کے انٹرویو کو دیکھنا چاہیے جو گزشتہ مارچ میں انٹرنیشنل نیویارک ٹائم میں شایع ہوا تھا۔

اگرچہ روایتی طور پر ہماری مسلح افواج کی تعداد دشمن کے مقابلے میں کافی کم ہے لیکن جب وقت آئے گا تو ہم انھیں ناکوں چنے چبوا دیںگے۔ ہمارے جوہری ہتھیار محض نمائش کے لیے نہیں ہیں۔ اگر کوئی ہمارے ساتھ الجھنے کا احمقانہ اقدام کرے گا تو اس کو دن میں تارے نظر آ جائیں گے۔ اگرچہ ہم مذاکرات کے ذریعے متنازعہ مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری امن کی خواہش کو ہماری کمزوری سے ہر گز محمول نہیں کرنا چاہیے۔ بھارت اور پاکستان کو کشمیر کے مسئلے پر کسی نہ کسی سمجھوتے پر ہی پہنچنا ہو گا۔

ستمبر 1965ء کی جنگ اسی سال مئی میں رن آف کچھ کے مقام پر ہونے والی جھڑپوں کے بعد ہوئی تھی۔ اب اس کو تقریباً 50 سال گزر چکے ہیں۔ ہمیں دشمن کی لفاظی سے متاثر نہیں ہونا چاہیے بلکہ دشمن کو ایسے الفاظ میں صاف صاف جواب دینا چاہیے جو اس کو سمجھ آ سکے۔ مزید برآں ملکی دفاع کے لیے ہر قسم کی قربانی کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے جیسے کہ ہم نے 1965ء میں کیا تھا۔ یاد رکھیں ایک چینی دانشور سن زی زو (Sun Tze Tzu) نے کہا تھا کہ اگر آپ دریا کے کنارے کافی دیر تک انتظار کرتے رہیں تو آپ کو اپنے دشمن کی لاشیں تیرتی ہوئی نظر آ جائیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔