موت کی آہٹ
16 دسمبرکے بعد پاکستان میں شدید عوامی ردعمل اور احتجاج کے نتیجے میں پھانسیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
زندگی کے سفرکا اختتام موت ہی ہے۔ ہر ذی روح کو ایک دن خاک ہونا ہی ہے۔ لیکن خاک سے خاک تک کا سفر کٹھن یا سہل گزارنا ہی پڑتا ہے لیکن یہ سفر ان کے لیے اور بھی خوفناک اور اذیت ناک بن جاتا ہے جن کی عمر کے ماہ و سال جیل کی کال کوٹھڑی میں موت کی دستک کے انتظار میں گزریں۔ لمحہ لمحہ وہ موت کی آہٹ سنیں پھر چند دن زندگی کے بھیک میں مل جائیں۔ عمر کے کشکول میں گرے ہوئے یہ چند دنوں کے سکے ان کی اذیت میں اور بھی اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق16 دسمبر سے آج تک پاکستان میں 157 افراد پھانسی پر لٹکائے جا چکے ہیں۔ اور 2,800 موت کی دستک کے منتظر بیٹھے ہیں۔ سالوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والے ملک کے لیے 16 دسمبر 2014ء کا دن، ایسادن تھا جو ملک کی دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی پالیسیوں میں واضح تبدیلیاں لایا اور ریاستی اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف جارحانہ جوابی کارروائی کا فیصلہ کیا۔ پشاور اسکول کے معصوم بچوں کا قتل، مستقبل کا قتل تھا جو سب کے لیے برداشت کے قابل نہ تھا۔ جس طرح 9/11 کے واقعے کے بعد بین الاقوامی تعلقات مختلف رخ اختیار کرنے لگے تھے اور دہشت گردی کے بہت سارے نیٹ ورک عام لوگوں کے سامنے آ گئے اور پاکستان کے لیے بھی بہت سارے چیلنجز سامنے آئے۔ اسی طرح 16دسمبر بھی ملک کی تاریخ کا اہم دن بن گیا۔ جس نے بہت سارے منصوبوں کو تبدیل کر دیا۔
16 دسمبرکے بعد پاکستان میں شدید عوامی ردعمل اور احتجاج کے نتیجے میں پھانسیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس کا اثر مجرموں پر تو ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، لیکن عام انسان نے ان قیدیوں کے درد کو ضرور محسوس کیا جو سالوں سے جیل میں قید تھے اور انتظار کر رہے تھے اپنی آزادی یا موت کا۔ وہ منتظر تھے کہ فیصلہ سنایا جائے کہ وہ مجرم ہیں یا ملزم؟
23 سال، 18 سال، 20 سال سے زائد عرصہ جیل کی کال کوٹھڑی میں گزارنے والوں کو جب پھانسیوں کی سزائیں سنائی جانے لگیں تو ان گنت سوال بھی ذہنوں میں ابھرنے لگے۔ 23 سال کا عرصہ تو عمر قید سے بھی زیادہ ہے اگر وقت پر ان کی قسمت کا فیصلہ کر دیا جاتا تو وہ سزا کاٹ کر آزاد فضاؤں میں سانس لے سکتے تھے۔ ان لوگوں نے نہ جانے کتنی بار موت کو قریب سے محسوس کیا ہو گا۔
آفتاب بہادر مسیح جس کو چند دن پہلے پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ وہ 1992ء میں 15 سال کی عمر میں قتل کے الزام کے تحت گرفتار ہوا تھا۔ ایک خبر رساں ایجنسی کے مطابق آفتاب بہادر مسیح آرٹسٹ تھا نظمیں لکھتا تھا، پینٹنگ کرتا تھا، تصویریں بناتا تھا۔ اپنے بیان میں آفتاب بہادر مسیح کہتا ہے کہ مسیحی ہونے کی وجہ سے جیل میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا پھر آخر کار اس کو دوسرے مسیحی افراد کے ساتھ الگ کوٹھڑی میں رکھا گیا۔
آزاد دنیا اس کی نظروں سے اوجھل ہوئی تو اس کے اندر کا آرٹسٹ بھی مر گیا۔ کئی بار اس کے بلیک وارنٹ جاری ہوئے کئی بار وہ ذہنی اذیت سے گزرا۔ اعتراف قتل بھی شدید تشدد کے بعد کروایا گیا تھا۔ بالآخر 23 سال آزادی کا انتظار کرنے کے بعد اس کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ حیدر آباد کی سینٹرل جیل میں 2 مجرموں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ وہ جہاز کے اغوا کے جرم میں قید تھے۔ 18 سال انتظار کے بعد انھیں سزا سنائی گئی۔
موت کی سزا کے خاتمے کے لیے، انسانی حقوق کی تنظیموں نے لمبی جدوجہد کی تھی۔ لیکن ملک میں ہونے والے بے حساب بم بلاسٹ، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات نے سب کو خاموش کرا دیا ہے۔ اس وقت پاکستان پوری دنیا میں موت کی سزا دینے والے ملکوں میں سر فہرست ہے۔ زیادہ سے زیادہ موت کی سزا سعودی عرب میں دی جاتی ہے اور اب پاکستان، سعودی عرب کی شرح کے قریب پہنچ گیا ہے۔
قانون کے مطابق 27 جرائم میں موت کی سزا ہو سکتی ہے۔ جس میں جنسی تشدد بھی شامل ہے۔ لیکن ایسی کوئی مثال ہمارے سامنے نہیں ہے جس میں مجرم کو موت کی سزا سنائی گئی ہو۔ ہاں ایک مثال پچھلے سال کی ضرور ہے جس میں ایران کی لڑکی ریحانہ جباری کو خود کو جنسی تشدد سے بچانے پر اتفاقی قتل کرنے پر پھانسی دی گئی تھی۔
عجیب موت کی سی خاموشی ہے جو کہ سب کی سانس بند کر رہی ہے، امن پسند لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر کار دہشت کا جواب صرف دہشت سے دینا ٹھیک ہے؟ دہشت کے بڑھتے ہوئے واقعات کے نتیجے میں قومی ایکشن پلان تشکیل دیا گیا۔ دیکھا جائے تو ایکشن پلان کی موجودگی میں بھی کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات ہوتے تھے۔ سبین محمود کا قتل اور اسماعیلی برادری کے افراد کی بس پر قاتلانہ حملہ اندوہناک واقعات تھے۔ ابھی ڈی جی رینجرز نے جو ایکشن کمیٹی کو رپورٹ پیش کی ہے اس میں جرائم کے سبھی نیٹ ورکس کو ظاہر کر دیا گیا ہے۔ معاشرے میں خون کی مانند دوڑنے والی دہشت گردی اب ہمارے ہر ادارے میں موجود ہے ڈی جی رینجرز نے تفصیلی رپورٹ پیش کی ہے جس میں سب کی نشاندہی کی گئی ہے۔
جب اسماعیلی برادری کی بس پر قاتلانہ حملہ ہوا معصوم لوگ قتل کیے گئے، اور جب وہ مجرم گرفتار ہوئے تو انھوں نے سبین محمود کے قتل کا اعتراف بھی کیا۔ مجرموں کی گرفتاری کی خبر اپنی جگہ خوش آیند ہونے کے ساتھ ساتھ بہت تکلیف دہ بھی تھی، کیوں کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، انجینئرنگ کی ڈگری رکھنے والے جنھوں نے سوچ سمجھ کر جرم کی راہ اپنائی تھی۔ وہ غریب نہیں تھے کہ غربت کے ہاتھوں تنگ آ کر ہتھیار اٹھا لیے ہوں۔ وہ ملک کے مہنگے ترین نجی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوئے تھے۔ بی بی اے، انجینئرنگ اور ماسٹرز کرنے والوں نے ظاہر ہے کہ اپنے اداروں میں موجود نیٹ ورک سے ہی سیکھا ہو گا۔ اور اس میں شامل ہو کر تخریب کاری اور دہشت کی تربیت لی ہو گی۔ ہمارے تعلیمی ادارے ہمارے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور برائی اور جرم کا نیٹ ورک ہماری ریڑھ کی ہڈی پر حملہ آور ہو چکا ہے۔ اس صورتحال پر حکومتی اداروں اور اہلکاروں کی کارکردگی پر ہزاروں سوال اٹھتے ہیں۔
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے مختلف واقعات پر جو گرفتاریاں ہوئیں اس پر سزاؤں کا کوئی سلسلہ سامنے نہیں آیا۔ لیکن ہم مسلسل 20 سال اور 23 سال پرانے قیدیوں کی پھانسیوں کے سلسلے پر باخبر رکھے جاتے ہیں۔
عیسائی عورت جو کہ 5 بچوں کی ماں ہے، قید میں ہے اس کی رحم کی ہر اپیل رد ہوتی جا رہی ہے۔ وہ سالوں سے آزادی کی منتظر ہے۔ لیکن ہم خاموش ہیں۔ ہم اپنے نظام سے سوال پوچھنے کا حق بھی نہیں رکھتے انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو اپنے چارٹر پر دوبارہ سے نظرثانی کرنی پڑے گی۔