وفاقی بجٹ۔چند مثبت پہلو
واز شریف حکومت کے اقدامات سے تباہ حال معیشت میں بہتری کے کچھ آثار پیدا ہونا شروع ہو گئے
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے 2015-16ء کا 44 کھرب 51 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا ہے اس بجٹ پر اقتصادی ماہرین سیاستدانوں، مختلف حلقوں اور عوامی سطح پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ایک خیال ہے کہ اس سے عام آدمی کو کچھ نہیں ملے گا۔ بلکہ اس میں امیروں کے مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے۔ تاہم نواز شریف حکومت کے اقدامات سے تباہ حال معیشت میں بہتری کے کچھ آثار پیدا ہونا شروع ہو گئے اور پاکستان کی ریٹنگ بھی بہتر ہو گئی ہے۔
جس کا سہرا وزیر اعظم محمد نواز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے سر ہے۔ حکومت کو بعض شعبوں کے حوالے سے کچھ سخت فیصلے بھی کرنے پڑے ہیں۔ زیرِنظر سطور میں ہم دونوں پہلوئوں سے بجٹ کا جائزہ لیں گے۔ وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ساڑھے سات فیصد اضافہ کیا گیا جب کہ محنت کشوں کی کم سے کم اجرت 12 ہزار روپے سے بڑھا کر 13 ہزار روپے کر دی گئی ہے بلاشبہ یہ اضافہ عوامی خواہشات کے مطابقت نہیں لیکن موجودہ مشکل حالات میں حکومت کی اس نیک نیتی کا ثبوت ہے کہ وہ تنخواہوں میں اضافے کی خواہاں ہے اور اپنے وسائل کے مطابق اس نے کچھ اضافہ بھی ضرور کر دیا ہے۔ حکومت نے سولر پینل کے آلات پر ٹیکسوں میں چھوٹ دیدی ہے۔
جس سے لوگوں کے گھروں میں چھوٹے چھوٹے سولر یونٹ قائم کرنے میں آسانی ہو گی اور وہ اپنی ضرورت کی بجلی بھی آسانی سے پیدا کر سکیں گے۔ پاکستان میں ریلوے شدید مسائل سے دوچار رہی ہے اور ماضی میں متعدد ٹرینیں بند کردی گئی تھیں۔ ان حالات میں ریلوے کی ترقی کے لیے 78 ارب مختص کرنا مستحسن اقدام ہے اس سے ریلوے کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور بعض بند ٹرینوں کو دوبارہ چلانے کی امید پیدا ہو گی۔ اسلام آباد سے کراچی تک گرین ٹرین بھی چل پڑی ہے جس میں تمام تر سہولتیں موجود ہیں۔
خیبرپختونخوا کے تمام صنعتی یونٹس کو 5 سال کے لیے ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے جس کی بدولت اس صوبے میں صنعتی ترقی کو فروغ حاصل ہو گا۔ یہ صوبہ عدم استحکام کا شکار رہا ہے، ایسے میں یہ اقدام خوش آیند قرار دیا جا سکتا ہے۔ حالیہ بجٹ میں سرکاری ملازمین اور پینشنرز کے میڈیکل الائونس میں اضافہ کر دیا ہے اس سے سرکاری ملازمین اور پینشنرز کو علاج و معالجے میں سہولت حاصل ہو گی۔
اس کے ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی اور ایم فل کی ڈگری رکھنے والے ملازمین کا الائونس بڑھانا بھی نہایت درست فیصلہ ہے۔ کیونکہ ایسے افراد کی حوصلہ افزائی سے ہی وطن عزیز کو اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد مل سکیں گے، یقینا یہ فیصلہ اعلیٰ تعلیم کے فروغ میں معاون ثابت ہو گا۔ اور تحقیق کے شعبے کو فروغ حاصل ہو گا۔ وفاقی بجٹ میں یہ اہتمام کی گیا ہے کہ حلال گوشت، زرعی مشینوں، مچھلی، ہائبرڈ گاڑیوں، زرعی اجناس، چاول، خشک دودھ، ونڈ اور شمسی توانائی پیدا کرنے والے آلات چمڑا، کھلونے، بچوں کی گولیاں، ٹافیاں اورآٹو پارٹس پر ٹیکس میں رعایت دیدی گئی ہے یقینا اس سے یہ چیزیں سستی دستیاب ہوں گی۔
یہ امر بھی خوش آیند ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ کے لیے 97 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں یہ غربت اور مہنگائی کے لیے عوام کا پروگرام ہے اور اس پروگرام سے غریبوں کی خاطرخواہ تعداد استفادہ کر رہی ہے ۔ 2015-16ء کے وفاقی بجٹ میں تعمیراتی شعبے کے لیے بھی بعض مراعات کا اعلان کیا گیا ہے جس کے ذریعے تعمیرات کے شعبے میں استعمال ہونے والی اشیاء سیمنٹ، لکڑی، سریا، ٹائلز، سینٹری اور بجلی کے آلات تیار کرنے والے صنعتوں کو فعال بنایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی معیشت میں ٹیکسٹائل سیکٹر کو بھی نمایاں اہمیت حاصل ہے حالیہ بجٹ میں اس شعبے کے لیے 64.15 ارب روپے کا پیکیج دیا گیا ہے اور ایکسپورٹ کو فروغ کے لیے ایکسپورٹ دی فنانس ریٹ میں کمی کی گئی ہے یقینا اس کے مثبت اثرات ٹیکسٹائل سیکٹر پر پڑیں گے اگرچہ ابھی اس سیکٹر کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے، اس حوالے سے ہم بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔ زراعت میں استعمال ہونے والی مشنری کی درآمد پر ٹیکس اور سیلز ٹیکس میں واضح کمی سے زرعی شعبوں کو جدید خطوط پر استوار کیا جا سکتا ہے۔
شمسی ٹیوب ویلوں کے لیے بلاسود قرضوں سے آبپاشی کے لیے پانی کی باسہولت دستیابی میں مدد ملے گی۔ بلاشبہ پاکستان زرعی ملک ہے وسیع و عریض زرخیز زمین معقول آبی وسائل اور سازگار موسم، ہرقسم کی اجناس کی کاشت کے لیے انتہائی موزوں، سب سے بڑھ کر محنت کسان یعنی اس شعبے پر بھرپور توجہ دے کر خطے کے ملکوں کو اناج کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے اس شعبے پر قیام پاکستان کے بعد سے وہ توجہ نہیں دی گئی جو اس کاحق تھا۔ یعنی اس سلسلے میں کی جانے والے ہرکوشش کا خیرمقدم کیاجانا چاہیے۔ اس لیے حکومت کی زرعی شعبے کو دی گئیں مراعات کو حوصلہ افزاء اقدام قرار دیا جا سکتا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے، آیندہ سال روزگار کے 25 لاکھ مواقعے بھی پیدا ہوں گے، ملک میں بیروزگاری کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور غربت کی وجہ سے ملک میں جرائم بھی بڑھ رہے ہیں یہ تھے بجٹ کے چند مثبت پہلو۔ جب کہ بجٹ میں پیک دہی اور پنیر پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے مہنگے فونز پر ٹیکس لگایا گیا ہے، مجموعی طور پر نئے ریونیو عائد کرنے سے 270 ارب روپے حاصل کیے جائیں گے۔ اس سال بجٹ میں پاور سیکٹر سے 130 ارب روپے کی زرتلافی اور بے شمار رعایتی ایس آر اوز ختم کروا دیے گئے ہیں ۔
جس کی وجہ سے بجلی کی قیمت میں اضافے کے خدشات ظاہرکیے جا رہے ہیں۔ بعض حلقے اس خدشے کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ درآمدی خوردنی بیج پر 16 فیصد سیلز ٹیکس کا نفاذ اور سویا بین تیل پر ٹیکس دگنا کرنے سے چند ہفتوں پہلے عوام کو خوراک کے طور پر استعمال ہونے والے تیل اور گھی پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کی وجہ سے جو ریلیف ملا تھا وہ ختم ہو جائے گا۔ سگریٹ پر بھی ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیا ہے یقینا یہ مناسب اقدام ہے کیونکہ سگریٹ نوشی کینسر اور دیگر بیماریوں کا سبب بنتی ہے اور موذی امراض میں مبتلا کرنے والے ایسی چیزوں پر زائد ٹیکس مناسب بات ہے۔ بلاشبہ اپوزیشن کا حق ہے کہ وہ حکومت اور بجٹ پر تنقید کرے جیساکہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں اپنے طویل ترین خطاب میں کھل کر حکومت کو ہدف تنقید بنایا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 5 سال ان کی حکومت رہی اس وقت وہ کیا کرتے رہے، عوام کو کتنا ریلیف دیا۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ کیوں نہیں کیا۔ اشیائے ضرورت کی قیمتوں کو قابل ذکر حد تک کم کیوں نہیں کیا گیا۔ غیر ضروری ٹیکسوں کا خاتمہ کیوں نہیں کیا۔ وہ سارے اقدامات جو اب تجویزکیے جا رہے ہیں وہ 5 سال کی حکومت کے دوران کیے جانے چاہیے تھے موجودہ حالات میں وفاقی بجٹ کو ایک متوازن بجٹ ہی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ جب تک معیشت بہتر نہ ہو اور ملک کو قرضوں سے نجات نہ ملے اس وقت تک اس سے بہتر بجٹ بنانا مشکل امر ہے۔ باقی رہی بات بجٹ کے بعد مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے کی باتیں سمجھ سے باہر ہے، بجٹ سے پہلے چینی، آٹا، چاول اور روز مرہ کی اشیاء کے جو ریٹ تھے بجٹ آنے کے بعد بھی وہ ہی ہیں۔