مجرم تک رسائی میں مدد دینے والے روبوٹس تیار
جدید ٹیکنالوجی کی حامل ان مشینوں کی بدولت فنگر پرنٹس اور دیگر شواہد ضایع نہیں ہوں گے
PESHAWAR:
روبوٹ ٹیکنالوجی کا ابتدا میں استعمال بھاری اورمشکل کام انجام دینے کے لیے کیا جاتا تھا، لیکن بعد میں انہیں عام مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا اور اس ٹیکنالوجی میں کمال حاصل کرنے والے ملک گھریلو کام کاج انجام دینے کے لیے بھی چھوٹے روبوٹس تیار کررہے ہیں۔
یہ گھروں کے بہت سے کام نمٹانے کے ساتھ اب ترقی یافتہ ملکوں میں مختلف سرکاری اور نجی اداروں کے لیے بھی خدمات انجام دیتے نظر آتے ہیں۔ صنعتی مقاصد کے لیے تیار کردہ روبوٹس افرادی قوت اور وقت کی بچت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اسی طرح یہ بہت سے خطرناک اور مشکل حالات میں بھی انسانوں کے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
آج روبوٹس کے علاوہ دوسرے جدید برقی آلات نے ہمارے بے شمار کام آسان کردیے ہیں، لیکن اس ترقی کے باوجود بعض کام ایسے ہیں، جن میں انسان کی زندگی ضایع ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ جرمنی کی ایک یونیورسٹی کے ماہرین نے دو نئے روبوٹ تیار کیے ہیں جو جرم اور دہشت گردی کے خلاف مل کر اپنا کردار ادا کریں گے۔ ان کی مدد سے کسی دھماکا خیز مواد کو تلف کرنے کے ساتھ بم وغیرہ کے پھٹنے سے پہلے اس پر موجود مجرموں کے فنگر پرنٹس حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
اس نئی ایجاد کو ایک منفرد کوشش قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ ایک طرف تو یہ پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اہل کاروں کی زندگی کو محفوظ بنانے میں کام یابی ہے اور دوسری جانب اب تک ان مشینوں کے لیے استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی کے برعکس ان روبوٹس کو کسی شے سے فنگر پرنٹس حاصل کرنے کے لیے اسے چُھونا نہیں پڑے گا۔
سائنسی ماہر لوتھار کوئلر کے مطابق ان روبوٹک مشینیوں کو کسی شے پر موجود انگلیوں کے نشانات حاصل کرنے کے لیے انہیں گرفت کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس طرح شواہد جمع کرنے کے عمل کے دوران کسی اہم ثبوت اور نشان کے ضایع ہونے کا امکان بہت کم رہ جائے گا۔ یہ روبوٹ انتہائی خطرناک اور نازک صورتِ حال میں ہمارے کام آئیں گے۔ فنگر پرنٹس اور دیگر شواہد حاصل کرنے کے بعد متعلقہ اداروں کے لیے مجرموں تک پہنچنا آسان ہو جائے گا۔
روبوٹ ٹیکنالوجی کے اس منصوبے کا آغاز 2012 میں ہوا تھا۔ اس پروجیکٹ کے ایک ماہر لوتھار کوئلر کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے پولیس لیبارٹری، میونخ کی یونیورسٹی آف اپلائڈ سائنسز اینڈ ریسرچ اور باویریا کی ایک انجینئرنگ کمپنی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ یہ روبوٹس کسی بھی خطرناک مقام اور جگہ پر ہدایات لینے کے بعد اپنا کام آسانی سے انجام دے سکیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دو خود کار مشینیں ہیں جو دو مختلف کام انجام دیں گی۔ ایک روبوٹ کسی بھی بم اور ہتھیار یا کسی دوسری شے پر موجود مجرموں کی انگلیوں کے نشانات کو مخصوص لائٹنگ کے ذریعے واضح کر دے گا جب کہ دوسرا روبوٹ ایک کیمیائی مادے کے بخارات کو استعمال کرتے ہوئے ان نشانات کو تصویری شکل میں محفوظ کر لے گا۔ دہشت گردوں کی جانب سے کسی مقام پر نصب کردہ بم یا دوسرے دھماکا خیز مواد کی اطلاع ملنے پر پولیس اہل کار اس مقام سے دور رہتے ہوئے اپنے مددگار ان روبوٹس کی کارروائی دیکھ سکیں گے۔
روبوٹ ٹیکنالوجی کا ابتدا میں استعمال بھاری اورمشکل کام انجام دینے کے لیے کیا جاتا تھا، لیکن بعد میں انہیں عام مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا اور اس ٹیکنالوجی میں کمال حاصل کرنے والے ملک گھریلو کام کاج انجام دینے کے لیے بھی چھوٹے روبوٹس تیار کررہے ہیں۔
یہ گھروں کے بہت سے کام نمٹانے کے ساتھ اب ترقی یافتہ ملکوں میں مختلف سرکاری اور نجی اداروں کے لیے بھی خدمات انجام دیتے نظر آتے ہیں۔ صنعتی مقاصد کے لیے تیار کردہ روبوٹس افرادی قوت اور وقت کی بچت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اسی طرح یہ بہت سے خطرناک اور مشکل حالات میں بھی انسانوں کے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
آج روبوٹس کے علاوہ دوسرے جدید برقی آلات نے ہمارے بے شمار کام آسان کردیے ہیں، لیکن اس ترقی کے باوجود بعض کام ایسے ہیں، جن میں انسان کی زندگی ضایع ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ جرمنی کی ایک یونیورسٹی کے ماہرین نے دو نئے روبوٹ تیار کیے ہیں جو جرم اور دہشت گردی کے خلاف مل کر اپنا کردار ادا کریں گے۔ ان کی مدد سے کسی دھماکا خیز مواد کو تلف کرنے کے ساتھ بم وغیرہ کے پھٹنے سے پہلے اس پر موجود مجرموں کے فنگر پرنٹس حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
اس نئی ایجاد کو ایک منفرد کوشش قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ ایک طرف تو یہ پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اہل کاروں کی زندگی کو محفوظ بنانے میں کام یابی ہے اور دوسری جانب اب تک ان مشینوں کے لیے استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی کے برعکس ان روبوٹس کو کسی شے سے فنگر پرنٹس حاصل کرنے کے لیے اسے چُھونا نہیں پڑے گا۔
سائنسی ماہر لوتھار کوئلر کے مطابق ان روبوٹک مشینیوں کو کسی شے پر موجود انگلیوں کے نشانات حاصل کرنے کے لیے انہیں گرفت کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس طرح شواہد جمع کرنے کے عمل کے دوران کسی اہم ثبوت اور نشان کے ضایع ہونے کا امکان بہت کم رہ جائے گا۔ یہ روبوٹ انتہائی خطرناک اور نازک صورتِ حال میں ہمارے کام آئیں گے۔ فنگر پرنٹس اور دیگر شواہد حاصل کرنے کے بعد متعلقہ اداروں کے لیے مجرموں تک پہنچنا آسان ہو جائے گا۔
روبوٹ ٹیکنالوجی کے اس منصوبے کا آغاز 2012 میں ہوا تھا۔ اس پروجیکٹ کے ایک ماہر لوتھار کوئلر کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے پولیس لیبارٹری، میونخ کی یونیورسٹی آف اپلائڈ سائنسز اینڈ ریسرچ اور باویریا کی ایک انجینئرنگ کمپنی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ یہ روبوٹس کسی بھی خطرناک مقام اور جگہ پر ہدایات لینے کے بعد اپنا کام آسانی سے انجام دے سکیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دو خود کار مشینیں ہیں جو دو مختلف کام انجام دیں گی۔ ایک روبوٹ کسی بھی بم اور ہتھیار یا کسی دوسری شے پر موجود مجرموں کی انگلیوں کے نشانات کو مخصوص لائٹنگ کے ذریعے واضح کر دے گا جب کہ دوسرا روبوٹ ایک کیمیائی مادے کے بخارات کو استعمال کرتے ہوئے ان نشانات کو تصویری شکل میں محفوظ کر لے گا۔ دہشت گردوں کی جانب سے کسی مقام پر نصب کردہ بم یا دوسرے دھماکا خیز مواد کی اطلاع ملنے پر پولیس اہل کار اس مقام سے دور رہتے ہوئے اپنے مددگار ان روبوٹس کی کارروائی دیکھ سکیں گے۔