پروسوپاگنوسیا ایک ایسا مرض جس میں چہرے شناخت کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے
کوئی صحت مند انسان جب ایک چہرہ دیکھتا ہے تو اس کے دماغ کا مخصوص حصّہ سب سے پہلے اس چہرے کی ایک شبیہہ بناتا ہے،محقق
اپنے والدین، بہن بھائی، شریک حیات، بچوں یہاں تک کہ خود کو بھی آئینے میں دیکھ کر شناخت کرنے میں ناکامی کو طبی ماہرین Prosopagnosia کہتے ہیں۔ یہ ان امراض میں سے ایک ہے، جو براہِ راست ہمارے ذہن اور انسانی نفسیات کو متأثر کرتے ہیں۔
اسے فیس بلائنڈنیس بھی کہا جاتا ہے، جس کا شکار کوئی بھی فرد دیکھے ہوئے چہروں کو نہیں پہچان سکتا۔ طبی محققین اس کا بنیادی سبب دماغ کو کسی وجہ سے پہنچنے والا نقصان بتاتے ہیں۔ دماغ کے مخصوص حصوں پر فالج کا حملہ یا کسی وجہ سے سَر پر لگنے والی چوٹ بھی اس کی وجہ بن سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس عارضے کی وجہ دماغ کی تحریک کا عمل متأثر ہونا ہے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے طبی محققین بتاتے ہیں کہ کوئی صحت مند انسان جب ایک چہرہ دیکھتا ہے تو اس کے دماغ کا مخصوص حصّہ سب سے پہلے اس چہرے کی ایک شبیہہ بناتا ہے۔ اس کے بعد دماغ کے دوسرا حصّہ متحرک ہو کر چہرے کے تاثرات، بناوٹ اور حرکت وغیرہ محفوظ کر لیتا ہے جب کہ ایک اور دماغی حصّہ اس کا مکمل جائزہ لیتا ہے اور اس طرح انسان چہرے شناخت کرنے کے قابل ہوتا ہے۔
ٹیرا کو بھی یہی مسئلہ لاحق ہے۔ وہ ایک ایسی عورت ہے، جو کسی کو بھی چہرے سے نہیں پہچان سکتی۔ کرب ناک بات یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کے چہرے بھی ذہن میں نہیں رکھ سکتی۔ وہ اپنے بچوں کو ان کے ہاتھوں، پیروں کی جلد، قد کاٹھ، ہیئر اسٹائل، کپڑوں یا ان کے اسکول بیگز اور ہینڈ رائٹنگ سے شناخت کرتی ہے۔ فیس بلائنڈنیس کا شکار ہونے والی ٹیرا کو ایک بیماری کے علاج کے لیے دماغ کی سرجری کروانا پڑی تھی، جو کام یاب رہی، لیکن اس کے بعد ٹیرا چہروں کو پہچاننے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی۔ 37 سالہ ٹیرا فال گذشتہ دس برس سے اس بیماری میں مبتلا ہے۔
اس کا دماغ کسی کی بھی شکل کو اپنے مخصوص نظام کے ذریعے شناخت کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر بھی ٹیرا کا دماغ اسے یہ احساس تک نہیں دلاتا کہ وہ کون ہے۔ ماہرین کے مطابق آپریشن کے دوران ہونے والی کسی پیچیدگی کی وجہ سے ٹیرا کے دماغ کو کوئی نقصان پہنچا ہو گا جس کے نتیجے میں دماغ کا دایاں حصّہ شدید متأثر ہوا اور وہ فیس بلائنڈنیس کا شکار ہو گئی۔ سرجری سے قبل ٹیرا ایک نارمل انسان کی طرح ہر کسی کو پہچان سکتی تھی۔
سرجری کے بعد رفتہ رفتہ اس کی جسمانی حالت کافی بہتر ہوگئی، لیکن یہ صلاحیت واپس نہ آسکی۔ Natalie Whitear نامی ایک خاتون بھی اسی مسئلے کا شکار ہے۔ یہ مسئلہ مرد یا عورت کسی کو بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ ایک نارمل انسان آنکھیں بند کر کے بھی کسی دیکھے بھالے چہرے کو تصور کر سکتا ہے، مگر فیس بلائنڈنیس کے باعث یہ بھی ممکن نہیں رہتا البتہ مریض کئی برس قبل ذہن میں محفوظ کی گئی کسی شے کو دیکھے تو پہچان سکتا ہے۔
اسے فیس بلائنڈنیس بھی کہا جاتا ہے، جس کا شکار کوئی بھی فرد دیکھے ہوئے چہروں کو نہیں پہچان سکتا۔ طبی محققین اس کا بنیادی سبب دماغ کو کسی وجہ سے پہنچنے والا نقصان بتاتے ہیں۔ دماغ کے مخصوص حصوں پر فالج کا حملہ یا کسی وجہ سے سَر پر لگنے والی چوٹ بھی اس کی وجہ بن سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس عارضے کی وجہ دماغ کی تحریک کا عمل متأثر ہونا ہے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے طبی محققین بتاتے ہیں کہ کوئی صحت مند انسان جب ایک چہرہ دیکھتا ہے تو اس کے دماغ کا مخصوص حصّہ سب سے پہلے اس چہرے کی ایک شبیہہ بناتا ہے۔ اس کے بعد دماغ کے دوسرا حصّہ متحرک ہو کر چہرے کے تاثرات، بناوٹ اور حرکت وغیرہ محفوظ کر لیتا ہے جب کہ ایک اور دماغی حصّہ اس کا مکمل جائزہ لیتا ہے اور اس طرح انسان چہرے شناخت کرنے کے قابل ہوتا ہے۔
ٹیرا کو بھی یہی مسئلہ لاحق ہے۔ وہ ایک ایسی عورت ہے، جو کسی کو بھی چہرے سے نہیں پہچان سکتی۔ کرب ناک بات یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کے چہرے بھی ذہن میں نہیں رکھ سکتی۔ وہ اپنے بچوں کو ان کے ہاتھوں، پیروں کی جلد، قد کاٹھ، ہیئر اسٹائل، کپڑوں یا ان کے اسکول بیگز اور ہینڈ رائٹنگ سے شناخت کرتی ہے۔ فیس بلائنڈنیس کا شکار ہونے والی ٹیرا کو ایک بیماری کے علاج کے لیے دماغ کی سرجری کروانا پڑی تھی، جو کام یاب رہی، لیکن اس کے بعد ٹیرا چہروں کو پہچاننے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی۔ 37 سالہ ٹیرا فال گذشتہ دس برس سے اس بیماری میں مبتلا ہے۔
اس کا دماغ کسی کی بھی شکل کو اپنے مخصوص نظام کے ذریعے شناخت کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر بھی ٹیرا کا دماغ اسے یہ احساس تک نہیں دلاتا کہ وہ کون ہے۔ ماہرین کے مطابق آپریشن کے دوران ہونے والی کسی پیچیدگی کی وجہ سے ٹیرا کے دماغ کو کوئی نقصان پہنچا ہو گا جس کے نتیجے میں دماغ کا دایاں حصّہ شدید متأثر ہوا اور وہ فیس بلائنڈنیس کا شکار ہو گئی۔ سرجری سے قبل ٹیرا ایک نارمل انسان کی طرح ہر کسی کو پہچان سکتی تھی۔
سرجری کے بعد رفتہ رفتہ اس کی جسمانی حالت کافی بہتر ہوگئی، لیکن یہ صلاحیت واپس نہ آسکی۔ Natalie Whitear نامی ایک خاتون بھی اسی مسئلے کا شکار ہے۔ یہ مسئلہ مرد یا عورت کسی کو بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ ایک نارمل انسان آنکھیں بند کر کے بھی کسی دیکھے بھالے چہرے کو تصور کر سکتا ہے، مگر فیس بلائنڈنیس کے باعث یہ بھی ممکن نہیں رہتا البتہ مریض کئی برس قبل ذہن میں محفوظ کی گئی کسی شے کو دیکھے تو پہچان سکتا ہے۔