پاکستان میں فن کاروں کو ذلت کے سمندر میں ڈبو کرماردیا جاتا ہےکمال احمد رضوی

ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے فقط لوٹ کھسوٹ کی، عمران خان سے بہتری کی امید ہے

نام وَر فن کار، کمال احمد رضوی کے حالات و خیالات ۔ فوٹو : فائل

فن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ جب کسی ستھرے نکھرے منشور سے، کسی سچے کلاکار سے گزرتا ہے، تو اپنا ہر رنگ عیاں کر دیتا ہے۔ روشنی قوس قزح میں ڈھل جاتی ہے، بھلی لگتی ہے!

جو ہمہ جہت فن کار آج ہمارا موضوع، اُن کا معاملہ بھی یہی۔ فن گھٹی میں تھا۔ شوق اور مطالعے نے مہمیز کا کام کیا۔ کلا کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد جس صنف کو چُھوا، کندن کر دیا۔ پاکستان میں تھیٹر کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے۔ اِسے اوج بخشنے کا سہرا اُن کے سر۔ ابتدائی دور کے کئی آرٹسٹوں نے اُن سے اکتساب فیض کیا۔ یادگار ڈرامے لکھے۔ ہدایت کاری میں اپنا لوہا منوایا۔ بچوں کا ادب تخلیق کیا۔ تراجم کیے۔ فلم انڈسٹری کی طرف بھی گئے، مگر جی نہیں لگا۔

کمال احمد رضوی کا تذکرہ ہو، تو دفتر کے دفتر سیاہ ہوجائیں۔ شہرہ آفاق ڈراما ''الف نون'' تو تحقیق کا موضوع ہے۔ جب کبھی نشر ہو رہا ہو، سامعین کو ٹی وی اسکرین سے باندھ لیتا ہے۔ اِس کے علاوہ تھیٹر اور ٹی وی کے جن ڈراموں میں اپنے فن کے جوہر دِکھائے، ان میں ''مسٹر شیطان''، ''آدھی بات''، ''بلاقی بدذات''، ''بادشاہت کا خاتمہ''، ''جولیس سیزر''، ''کھویا ہوا آدمی''، ''خوابوں کے مسافر''، ''صاحب بی بی غلام''، ''چور مچائے شور''، ''ہم سب پاگل ہیں'' اور ''آپ کا مخلص'' نمایاں۔ بیش تر خود ہی لکھے۔ ہدایت کار بھی خود۔ یہ لگن تھی، جس نے تحریک کا کام کیا، ورنہ اُس وقت اِس کام میں پیسے کہاں تھے۔ ریڈیو کے لیے بھی لکھا۔ قلم کار باکمال۔ ''تہذیب''، ''آئینہ'' اور ''شمع'' نامی رسائل کی ادارت کرتے رہے۔ بچوں کا ادب بھی لکھا۔ ''بچوں کی دنیا''، ''تعلیم و تربیت'' کی ذمے داری سنبھالی۔ ''پھلواری'' نامی پرچا نکالا۔ کچھ عرصے بی بی سی اُردو سروس سے بھی منسلک رہے۔

ماضی کا یہ بے بدل فن کار، جس کے روبرو احترام اور دبدبے کا احساس ہوتا ہے، اب ماضی کے بارے میں بات کرنے سے اجتناب برتتا ہے۔ کئی سوالوں کا جواب ''میں اِس بارے میں پہلے بھی بہت کچھ کہہ چکا ہوں!'' کی صورت ملتا ہے۔ ایک بھرپور زندگی گزارنے والے کمال احمد رضوی اب لوگوں سے زیادہ ملتے جلتے نہیں۔ گھر سے کم ہی نکلتے ہیں۔ اخبار بند کروا دیا ہے کہ وہ خیر کی کوئی خبر نہیں لاتا۔ ٹی وی دیکھتے نہیں کہ سیاست داں صرف الزام تراشیاں اور لعن طعن ہی کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے فقط لوٹ کھسوٹ کی ۔ اپنوں کو نوازا۔ البتہ مایوس نہیں، عمران خان کی صورت بہتری کی امید ہے۔ دوران گفت گو دینی رجحان کی جھلک بھی نظر آئی۔ جھوٹ کو وہ فساد کی وجہ ٹھہراتے ہیں۔ اِس سے جان چھڑائے بغیر، ان کے بہ قول، سماج میں بہتری کا امکان نہیں۔

اُن کی کتاب زندگی کے کچھ اوراق پیش خدمت ہیں:
سن پیدایش؛ 1930۔ جائے پیدایش؛ گیا، ریاست بہار۔ وہی شہر، جہاں گوتم بدھ کو نروان ملا۔ اُس شہر کی یادیں ذہن پر نقش ۔ کپل وستو کے گوتم کے مانند اُنھوں نے بھی سفر کیا۔ اپنا دیس چھوڑا۔

والد، سیّد عبدالرشید پولیس میں ملازم۔ پنج وقتہ نمازی۔ سچے اور کھرے انسان۔ یہی کھراپن بیٹے کو وراثت میں ملا۔ انھوں نے تین شادیاں کی تھیں۔ کمال صاحب اپنی والدہ کی اکلوتی اولاد۔ تین برس کے تھے، جب ماں کے سائے سے محروم ہوئے۔ والد کی شفقت اُسی محرومی کے ازالے کی کوشش تھی۔ طالب علم ذہین۔ اداکاری کا شوق بچپن سے ساتھ۔ ڈراما انھوں نے پڑھا بہت۔ دن بھر لائبریری میں بیٹھے مغربی ڈراما نگاروں کی تخلیقات پڑھا کرتے۔ کالج کے ڈرامے اولین پلیٹ فورم۔ گریجویشن بہار ہی سے کیا۔ 19 سال کی عمر میں، چند رشتے داروں کے ہم راہ کھوکھراپار کے راستے کراچی چلے آئے۔ والد کا خیال تھا کہ وہ گھوم پھر کر لوٹ آئیں گے، مگر وہ یہاں آئے، تو یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ پاکستان چوک کے علاقے میں رہایش اختیار کی۔ نئے شہر سے جلد ہم آہنگ ہوگئے۔ گزر بسر کا ذریعہ وہ رقم، جو والد سے لے کر آئے تھے، جو اب دھیرے دھیرے گھٹ رہی تھی۔

ایک دن لائٹ ہاؤس سے گزرتے ہوئے ایک عمارت پر لال جھنڈا نظر آیا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا دفتر تھا۔ مارکس ازم سے واقفیت تھی کہ ہندوستان میں اِس نظریے کا بڑا چرچا تھا۔ پھر اُن کے چند اساتذہ بھی کمیونسٹ تھے۔ اُدھر سیکریٹری صاحب کو قائل کرنے کی لاکھ کوشش کہ وہ ''داس کپیٹل'' پڑھ چکے ہیں، مگر وہ نہ مانے۔ کہنے لگے؛ میاں ابھی تم بہت چھوٹے ہو، دہلی مسلم ہوٹل کے اوپر ترقی پسند مصنفین کا دفتر ہے، اُدھر چلے جاؤ۔ بہ قول اُن کے،''نوجوانی میں پروگریسو رائٹرز میں شامل ہوا تھا، اور آج بھی وہیں ہوں!''

اِس تنظیم کے باعث منہاج برنا، شوکت صدیقی، ابراہیم جلیس، مجتبیٰ حسین اور دیگر ترقی پسندوں سے ملاقات ہوئی۔ صدر کے علاقے میں واقع کیفے جارج میں بیٹھک ہوتی۔ ان ہی ملاقاتوں کے باعث ایک سی آئی ڈی اہل کار ان کا پیچھا کرنے لگا۔ ایک بار روک کر سمجھایا بھی کہ یہ سب بلیک لسٹڈ لوگ ہیں، تمھاری زندگی تباہ کر دیں گے۔ اُنھوں نے یہ کہہ کر جھڑک دیا،''آیندہ مجھ سے بات کرنے کی کوشش مت کرنا!''

مگر وہ صاحب بھی اڑیل۔ اگلی بار ملے، تو کہا؛ مجھے تم سے ہم دردی ہے۔ تمھیں دیکھ کر اپنا مرحوم بیٹا یاد آتا ہے۔ اُس روز وہ مجتبیٰ حسین کی جانب سے سونپی ہوئی فراق گورکھپوری کے مجموعے ''روپ'' کی کچھ جلدیں بازار میں فروخت کرنے جارہے تھے کہ مجتبیٰ صاحب کو پیسوں کی ضرورت پڑ گئی تھی۔ وہ تمام کتابیں اُسی ناصح نے خرید لیں۔

لاہور جانے کی کہانی کچھ یوں کہ ہندوستان سے گرم کپڑے لائے تھے۔ کراچی میں ایک دوست بنا، جو کسی کام سے کوئٹہ گیا، تو اُن کے کپڑے ساتھ لے گیا، اور کبھی پلٹ کر نہیں آیا۔ اب جو سردیاں پڑیں، تو ٹھٹھرتے ہوئے راتیں کاٹنی پڑتیں۔ ٹھنڈ بڑھی، تو لاہور میں اپنے سوتیلے بھائی کے پاس جانے کا ارادہ باندھ لیا۔ کرایے کے پیسے کسی اور نے نہیں، اُسی سی آئی ڈی اہل کار نے دیے۔ لاہور پہنچ کر گرم بستر پر کمبل اوڑھ کر سونا انوکھا تجربہ ثابت ہوا۔

یہ سفر کئی معنوں میں بابرکت رہا۔ لاہور کے پاک ٹی ہاؤس میں ادیبوں، شاعروں اور فن کاروں کی بیٹھک ہوا کرتی تھی۔ چراغ حسن حسرت، عبدالمجید سالک، غلام رسول مہر، اختر شیرانی، فیض احمد فیض جیسی شخصیات وہاں اکٹھی ہوتیں۔ منٹو بھی وہاں آیا کرتے۔ اُن قدآور شخصیات کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ پاک ٹی ہاؤس کے باہر جمع ہو جاتے تھے۔

منٹو سے اُن کے ایک دوست، شاد امرتسری (شاعر، ریڈیو پروڈیوسر) کے توسط ملاقات ہوئی۔ جب میزبان نے اُن کا منٹو سے تعارف کرواتے ہوئے کہا؛ انھوں نے کچھ ڈرامے بھی لکھے ہیں، تو منٹو نے پوچھا،''اچھا، تم ڈرامے بھی لکھتے ہو۔ کوئی ڈراما نشر ہوا ہے؟'' ان کا جواب نفی میں ملا، تو کہنے لگے،''جب ڈراما نشر ہی نہیں ہوا، تو پھر لکھنے کا کیا فائدہ!'' آنے والے برسوں میں اُن سے خاصی ملاقاتیں رہیں۔ منٹو کے ساتھ تانگے میں گھوما کیے۔ لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اپنا پہلا ڈراما ''خانے، تہہ خانے'' حلقۂ ارباب ذوق کی نشست میں پڑھا۔

لاہور میں ضیا محی الدین سے ملاقات ہوئی۔ ان دنوں ولیم شیکسپیر کے ڈرامے ''جولیس سیزر'' کا بڑا چرچا تھا۔ بی بی سی اُردو سروس کے حفیظ جاوید نے اس کا اُردو ترجمہ کیا تھا۔ ضیا محی الدین اور انھوں نے وہ ڈراما اسٹیج کیا۔ ''کاسکا'' کا کردار اُنھوں نے نبھایا۔

اُس وقت تھیٹر کا رواج کہاں تھا۔ آرٹسٹ نایاب۔ جو کچھ مطالعے اور مشق سے سیکھا تھا، اوروں میں منتقل کیا۔ یاد رہے، اُن کے لاہور جانے کے بعد ہی کراچی میں خواجہ معین الدین نے تھیٹر شروع کیا، جن کے کام کو وہ سراہتے ہیں۔

وہ منٹو کا افسانہ ''بادشاہت کا خاتمہ'' اسٹیج کرنا چاہتے تھے۔ جب منٹو کے سامنے اپنی خواہش ظاہر کی، تو انھوں نے کہا: ''میری زندگی میں تو یہ ناممکن ہے۔'' کمال صاحب کہنے لگے: ''ٹھیک ہے، آپ کے مرنے کے بعد میں اس پر ڈراما بناؤں گا۔'' تو یہ ان کا دوسرا ڈراما تھا، جو الحمرا ہال میں پیش کیا گیا۔ فیض احمد فیض اور منٹو کی بیگم صفیہ نے بھی یہ ڈراما دیکھا۔ بعد میں یہ پی ٹی وی پر ''منٹو راما'' میں بھی پیش ہوا۔


1958 میں انھوں نے ''آدھی بات'' اور ''بلاقی بد ذات'' نامی ڈرامے کیے، جن کا بہت شہرہ ہوا۔ جب کراچی آئے، تو یہ ڈرامے ساتھ لے آئے۔ تھیوسوفیکل ہال میں اب رونق رہنے لگی۔ ''آدھی بات'' کی ساری کاسٹ لاہور کی، صرف طلعت حسین کو یہاں سے کاسٹ کیا۔ البتہ ''بلاقی بد ذات'' کی کاسٹ کراچی کی تھی۔

تھیٹر ہی سے پی ٹی وی کا راستہ نکلا۔ پی ٹی وی کے ڈائریکٹر، اسلم اظہر نے ان کا اسٹیج ڈراما ''خوابوں کے مسافر'' دیکھا، تو ٹی وی کے لیے لکھنے کی پیش کش کی۔ اب افسانوی شہرت حاصل کرنے والے ''الف نون'' کا آغاز ہوتا ہے۔

رفیع خاور (ننھا) آڈیشن میں فیل ہوگئے تھے کہ وہ ایک ہندوستانی اداکار کی نقل کرتے رہے، مگر پھر کمال احمد رضوی کو اُن کے جثہ اور چہرے کی مناسبت سے ننھا کا کردار سوجھا۔ ایوب خان کے دورمیں پہلی بار ''الف نون'' شروع ہوا۔ پھر جنرل ضیا کے دور میں نشر ہوا۔ مارشل لا اور سینسر شپ کے باوجود کتنے ہی سماجی مسائل کی نشان دہی کی اس ڈرامے نے۔

اُس کی شہرت سے جڑے کئی قصّے ہیں۔ مثلاً ایک شام اپنی گاڑی مرمت کے لیے مکینک کے پاس لے کر گئے، مگر مکینک ورک شاپ بند کرکے یہ کہتے ہوئے چل دیا کہ اُسے ''الف نون'' دیکھنا ہے۔ گو ڈرامے کا مرکزی کردار'' الن ''سامنے تھا، مگر وہ قسط چھوڑنے کو تیار نہیں تھا۔ وہ دن بھی یاد ہے، جب ممتاز حسین یہ کہہ کر اپنے گھر لے گئے،''اب تم بہت مشہور ہوگئے ہو۔ ذرا میرے بچوں سے مل لو، تمھیں دیکھ کر خوش ہوں گے۔''

آج ادبی میلوں میں ''الف نون'' کی سی ڈیز کا بھی اسٹال لگتا ہے۔ اِس کلاسیک سے متعلق ''آرٹ لورز'' کا ردعمل پوچھا، تو کہنے لگے؛ وقت کے ساتھ لوگوں کا مزاج اور رجحانات بدلتے ہیں، مگر جس نسل نے یہ ڈراما دیکھا ہے، وہ آج بھی اِس میں دل چسپی لیتی ہے۔

ننھا کی خودکشی سے متعلق یوں بات کرنے سے اجتناب کرتے ہیں کہ اِس پر خاصی بات ہوچکی ہے۔ بس یہی کہتے ہیں؛ جس پر عشق کا بھوت سوار ہوجائے، اُسے کوئی کیا سمجھائے۔ عقل پر پردہ پڑجاتا ہے۔

اس پیدایشی فن کار نے کتنے ہی آرٹسٹوں کو یہ کلا سکھائی، تو کیا کبھی اکیڈمی بنانے کا خیال آیا؟ کہتے ہیں، باقاعدہ اکیڈمی تو نہیں بنائی، مگر ساری زندگی یہی کام کیا۔ جن دنوں تھیٹر کر رہے تھے، کئی فن کاروں کی تربیت کی۔ ٹی وی کو اُن ہی کے طفیل تربیت یافتہ آرٹسٹ میسر آئے۔ بہ قول ان کے،''اگر میں اُنھیں نہ سکھاتا، تو پی ٹی وی کو ابتدائی دور میں ایک بھی فن کار نہیں ملتا۔'' اداکاری کا فن، اُن کے مطابق اُسی شخص کو سکھایا جاسکتا ہے، جس میں اس کے جراثیم ہوں۔ تو ایک معنوں میں اکیڈمیز سودمند ہی ثابت ہوتی ہیں،کم از کم تاثرات اور مکالموں کی ادائی سکھا دیتی ہیں۔

ڈراما نگاری کیوں ترک کر دی؟ اِس کا سیدھا سا جواب ہے اُن کے پاس کہ وہ پیسوں کے لیے نہیں لکھتے۔ انھیں اس کی ضرورت نہیں۔ تب ہی لکھتے ہیں، جب کوئی شے اُنھیں متاثر کرے۔ انسپائریشن کے بغیر ڈراما تخلیق ہو ہی نہیں سکتا۔ اب کوئی شے متاثر نہیں کرتی، تو لکھیں کیا خاک۔

فروغ فن کے لیے انھیں حکومت سے کوئی امید نہیں کہ جہاں بنیادی سہولیات میسر نہ ہوں، بے روزگاری پر قابو نہ پایا جاسکے، وہاں فن کی جانب کون توجہ دے گا۔ یہاں حکومت کی ہاں میں ہاں ملانا، خوشامد کرنا ہی کام یابی کی کنجی۔ ہر طرف قتل و غارت گری۔ ہر طرف بگاڑ۔ اصلاح کی کوئی کوشش نہیں کرتا۔

خود کو زندگی سے مطمئن پاتے ہیں، مگر یہ شکوہ ضرور کہ پاکستان میں فن کاروں کے ساتھ بدترین سلوک کیا گیا۔ اُنھیں ذلت کے سمندر میں ڈبو کر ماردیا جاتا ہے۔ دیگر ممالک میں افسانہ نگاروں کو اتنا معاوضہ ملتا ہے کہ وہ فکروں سے آزاد، تخلیقی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہاں تو منٹو جیسے فن کار کو بھی فی افسانہ پچیس روپے ملا کرتے تھے۔ اُس زمانے میں پچیس روپے اچھی رقم تھی، مگر اتنی بھی نہیں کہ گھر چل سکے۔

مطالعے کے شایق، معتدل موسم سے لطف اندوز ہونے والے کمال احمد رضوی سادہ خوراک کو ترجیح دیتے ہیں۔ کلاسیکی اور جدید؛ دونوں ہی شعرا کو پڑھا۔ مصوری سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ 84ء میں شادی ہوئی۔ ایک بیٹا ہے۔

جالب، شعر گاؤ
یہ الم ناک واقعہ اُس سلوک کی ایک جھلک، جو ہم نے اپنے فن کاروں کے ساتھ کیا۔
حبیب جالب ان کے دوست تھے۔ ایک روز بازار سے گزر رہے تھے کہ اُن پر نظر پڑی۔ وہ ایک دکان میں کھڑے تھے۔ دکان دار لہک لہک کر کہہ رہا تھا: شعر گاؤ، شعر گاؤ!
انھیں بڑا غصہ آیا۔ جالب کو اشارے سے باہر بلایا۔ لعن طعن کرتے ہوئے کہا،''تجھے شرم نہیں آتی۔ ایک چائے کی پیالی کے لیے وہ شخص تجھے گانے کے لیے کہہ رہا ہے، اور تو گا رہا ہے۔ چل میرے ساتھ، میں چائے پلاتا ہوں۔''
جالب نے جواب میں کہا،''کمال، تو کتنی پیالی پلا سکے گا۔ میرا کیا جاتا ہے، کوئی شعر کا کہتا ہے، میں شعر سنا دیتا ہوں۔کوئی گانے کو کہتا ہے، تو گا دیتا ہوں۔''

ہم نے منٹوسے اچھا سلوک نہیں کیا
یوں تو دنیا بھر کا ادب پڑھا، کلاسیکی ادیبوں نے متاثر بھی کیا، لیکن کسی ایک فکشن نگار کا نام لینا ہو، تو وہ سعادت حسن منٹو ہی ہوگا۔ اُن کے نزدیک زندگی سے اپنی تخلیقات کے لیے مواد کشید کرنے والے والا منٹو ایک عظیم ادیب تھا، جس کے قلم سے ''ٹوبہ ٹیک سنگھ''، ''موذیل''، ''سیاہ حاشیے'' اور ''کھول دو'' جیسے شاہ کار نکلے۔ وہ یہ سوچ کر پاکستان چلے آئے کہ یہاں خوب آؤبھگت ہوگی، مگر لوگوں نے اُن کی توقعات پر پانی پھیر دیا۔ یہاں ہجرت کے بعد جو واقعات ہوئے، اُنھوں نے منٹو کو یاسیت میں دھکیل دیا تھا۔ آخری عمر میں گرتی صحت کے باعث اُنھوں نے افسانے لکھنے بھی کم کر دیے۔ بہ قول اُن کے،''ہم نے منٹو جیسے بڑے ادیب سے اچھا سلوک نہیں کیا۔ ہماری اجتماعی بے حسی کے باعث وہ انتہائی کسمپرسی کے عالم میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ ایسی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔''
Load Next Story