ٹوئنٹی20لیگ کے دعوے ہوائی فائر ثابت ہونے لگے
میدان دوسروں کے آباد ہوں گے ہمارا مقصد تو پورا نہیں ہوگا، ثقلین مشتاق
پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے ٹوئنٹی 20 لیگ کے دعوے ایک بار پھر 'ہوائی فائر' ثابت ہونے لگے، اربوں روپے مالیت کے ایونٹ کی بچکانہ منصوبہ بندی چند ہی دنوں میں عیاں ہوگئی، ٹیموں کی انٹرنیشنل مصروفیات نظرانداز کرکے فروری میں یو اے ای میں میلہ سجانے کا اعلان کرنے کے2دن بعد بورڈ نے اپریل کی تاریخ دے دی۔
اب مجوزہ تاریخ انڈین پریمیئر لیگ سے متصادم ہوچکی، ٹورنامنٹ کی کامیابی کا جو تھوڑا بہت امکان تھا وہ بھی خاک میں ملتا ہوا دکھائی دے رہا ہے،دوسری جانب لیگ کو پردیسی بنانے کیخلاف آوازیں اٹھنے لگیں، سابق کپتان جاوید میانداد نے کہاکہ انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا بنتا کھیل خود ہی بگاڑا جارہا ہے، اپنے ملک، سیکیورٹی اور اداروں کی انتظامی صلاحیتوں پر خود ہی نااعتباری کا لیبل لگا دیا گیا۔ عامر سہیل نے کہاکہ ایک طرف زمبابوے کیخلاف سیریز سے انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے دروازے کھولنے کا دعوی، دوسری جانب غیر ملکی کھلاڑیوں کی شرکت یقینی بنانے کیلیے لیگ یواے ای میں کرانے کا فیصلہ، اس تضاد سے دنیاکو کیا پیغام دیا جارہا ہے؟ ثقلین مشتاق نے کہا کہ میدان دوسروں کے آباد ہوں گے ہمارا مقصد تو پورا نہیں ہوگا، مزید تاخیر ہی کیوں نہ کرنا پڑے ایونٹ پاک سرزمین پر ہی ہونا چاہیے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ نے تیسری مرتبہ اپنی ٹوئنٹی 20 لیگ دیار غیر میں شروع کرنے کا اعلان کیا، مگر اس بار بھی ایونٹ کے حوالے سے ہوم ورک مکمل نہیں ہوا، جس کے بعد دعوے اور اعلانات ہوائی فائر ثابت ہونے لگے ہیں، اس سے قبل اسے پاکستان سپر لیگ کے نام سے2مرتبہ لانچ کرکے کروڑوں روپے بورڈ کے اکائونٹس سے منتقل ہوئے مگر اس مردہ گھوڑے میں کوئی جان نہیں پڑی۔ اب نام کے بغیر ایونٹ کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ آئندہ برس فروری میں منعقد ہوگا، اس وقت صرف پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیم فارغ ہوتیں جبکہ پہلے ہی سے اس ماہ میں یو اے ای میں ہی ویٹرن انٹرنیشنل کرکٹرز کے درمیان ایک لیگ منعقد ہونے والی ہے۔
اس صورتحال کی جانب توجہ دلائے جانے کے بعد شہریار خان نے اپریل میں ایونٹ منعقد کرنے کا اعلان کردیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اپریل کے پہلے ہفتے میں ورلڈ ٹوئنٹی 20 کا اختتام ہوگا، آئی سی سی قوانین کی رو سے کسی بھی عالمی ایونٹ کے اختتام پر ایک ہفتے میں کوئی اور ٹورنامنٹ نہیں ہوسکتا،ہفتہ گزرنے کے بعد آئی پی ایل شروع ہوجائے گی جس میں دنیا بھر کے نامی گرامی پلیئرز حصہ لیں گے۔ ایسے حالات میں ایونٹ کا انعقاد ابھی سے دشوار دکھائی دیتا ہے۔ دوسری جانب اپنا ''شو '' دیار غیر میں کرانے پر ملکی شائقین کے ساتھ سابق کرکٹرز بھی حیران ہیں۔ ایک انٹرویو میں سابق کپتان جاوید میانداد نے کہا کہ انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا سفر شروع کرنے کے بعد خود ہی بنتا کھیل بگاڑا جارہا ہے، زمبابوے کیخلاف سیریز کا کامیابی سے انعقاد ہوا، شائقین نے بھی مہمان کرکٹرز کا بڑے جوش و خروش سے استقبال کیا، قذافی اسٹیڈیم میں رونقوں نے ثابت کیا کہ عوام ملک میں میچز کیلیے کتنے ترسے ہوئے ہیں،ایک طرف سیریز کو کامیاب بنانے پر وزیر اعظم نواز شریف اپنے زمبابوین ہم منصب کو خط لکھ کر شکریہ ادا کررہے ہیں۔
دوسری طرف ہم اپنی پریمیئر لیگ کا میلہ ایک غیر ملک میں سجاکر ملک، سیکیورٹی اور اداروں کی انتظامی صلاحیتوں پر خود ہی نااعتباری کا لیبل لگا رہے ہیں، انھوں نے کہا کہ زمبابوے کیخلاف سیریز کی کامیابی کے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے اولین ترجیح پاکستان میں انعقاد کو ہی دینی چاہیے، کوئی مسائل ہوں تو پھر دوسرے آپشن پر غور بھی کیا جائے، کوشش سے پہلے ہی ہمت ہارنا منفی سوچ اور اپنے سسٹم کو خود ہی بے کار قرار دینے کے مترادف ہے۔ سابق ٹیسٹ کپتان عامر سہیل نے کہاکہ ایک طرف ہمارا دعویٰ ہے کہ زمبابوے کو بلا کر ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے کھول دیے، دوسری جانب پی سی بی کا عجیب و غریب بیان سامنے آتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ غیر ملکی کھلاڑیوں کی شرکت یقینی بنانے کیلیے ٹی ٹوئنٹی لیگ کا انعقاد یو اے ای میں کررہے ہیں،اس تضاد سے انٹرنیشنل برادری کو کیا پیغام دیا جارہا ہے؟
اگر پی سی بی زمبابوے کیخلاف سیریز کی کامیابی کو بنیاد بناتے ہوئے درست سمت میں گامزن رہتا تو بہتری کے امکانات زندہ رہتے، اب کوئی ایسی صورت نظر نہیں آتی۔ سابق اسپنر ثقلین مشتاق نے کہا کہ پاکستان کی سپر لیگ کو اپنے ملک میں ہی ہونا چاہیے، زمبابوے کیخلاف سیریز کی کامیابی ایک پلیٹ فارم تھا جس سے اگلا سفر شروع ہونے کی توقع ہو رہی تھی،ایونٹ یو اے ای میں ہونے سے وہاں کے میدان آباد ہونگے، ہمارا وہ مقصد تو پورا نہیں ہوگا جس کیلیے طویل عرصے سے کوشاں ہیں، انھوں نے کہا کہ آئی پی ایل سے بھارتی ٹیلنٹ کو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع اور قومی ٹیموں کیلیے نئی کھیپ میسر آئی، انھوں نے مزید کہا کہ لیگ پاکستان میں ہی ہونی چاہیے، خواہ راہ ہموار کرنے اور تیاری میں مزید تاخیر ہی کیوں نہ ہوجائے۔
اب مجوزہ تاریخ انڈین پریمیئر لیگ سے متصادم ہوچکی، ٹورنامنٹ کی کامیابی کا جو تھوڑا بہت امکان تھا وہ بھی خاک میں ملتا ہوا دکھائی دے رہا ہے،دوسری جانب لیگ کو پردیسی بنانے کیخلاف آوازیں اٹھنے لگیں، سابق کپتان جاوید میانداد نے کہاکہ انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا بنتا کھیل خود ہی بگاڑا جارہا ہے، اپنے ملک، سیکیورٹی اور اداروں کی انتظامی صلاحیتوں پر خود ہی نااعتباری کا لیبل لگا دیا گیا۔ عامر سہیل نے کہاکہ ایک طرف زمبابوے کیخلاف سیریز سے انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے دروازے کھولنے کا دعوی، دوسری جانب غیر ملکی کھلاڑیوں کی شرکت یقینی بنانے کیلیے لیگ یواے ای میں کرانے کا فیصلہ، اس تضاد سے دنیاکو کیا پیغام دیا جارہا ہے؟ ثقلین مشتاق نے کہا کہ میدان دوسروں کے آباد ہوں گے ہمارا مقصد تو پورا نہیں ہوگا، مزید تاخیر ہی کیوں نہ کرنا پڑے ایونٹ پاک سرزمین پر ہی ہونا چاہیے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ نے تیسری مرتبہ اپنی ٹوئنٹی 20 لیگ دیار غیر میں شروع کرنے کا اعلان کیا، مگر اس بار بھی ایونٹ کے حوالے سے ہوم ورک مکمل نہیں ہوا، جس کے بعد دعوے اور اعلانات ہوائی فائر ثابت ہونے لگے ہیں، اس سے قبل اسے پاکستان سپر لیگ کے نام سے2مرتبہ لانچ کرکے کروڑوں روپے بورڈ کے اکائونٹس سے منتقل ہوئے مگر اس مردہ گھوڑے میں کوئی جان نہیں پڑی۔ اب نام کے بغیر ایونٹ کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ آئندہ برس فروری میں منعقد ہوگا، اس وقت صرف پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیم فارغ ہوتیں جبکہ پہلے ہی سے اس ماہ میں یو اے ای میں ہی ویٹرن انٹرنیشنل کرکٹرز کے درمیان ایک لیگ منعقد ہونے والی ہے۔
اس صورتحال کی جانب توجہ دلائے جانے کے بعد شہریار خان نے اپریل میں ایونٹ منعقد کرنے کا اعلان کردیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اپریل کے پہلے ہفتے میں ورلڈ ٹوئنٹی 20 کا اختتام ہوگا، آئی سی سی قوانین کی رو سے کسی بھی عالمی ایونٹ کے اختتام پر ایک ہفتے میں کوئی اور ٹورنامنٹ نہیں ہوسکتا،ہفتہ گزرنے کے بعد آئی پی ایل شروع ہوجائے گی جس میں دنیا بھر کے نامی گرامی پلیئرز حصہ لیں گے۔ ایسے حالات میں ایونٹ کا انعقاد ابھی سے دشوار دکھائی دیتا ہے۔ دوسری جانب اپنا ''شو '' دیار غیر میں کرانے پر ملکی شائقین کے ساتھ سابق کرکٹرز بھی حیران ہیں۔ ایک انٹرویو میں سابق کپتان جاوید میانداد نے کہا کہ انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا سفر شروع کرنے کے بعد خود ہی بنتا کھیل بگاڑا جارہا ہے، زمبابوے کیخلاف سیریز کا کامیابی سے انعقاد ہوا، شائقین نے بھی مہمان کرکٹرز کا بڑے جوش و خروش سے استقبال کیا، قذافی اسٹیڈیم میں رونقوں نے ثابت کیا کہ عوام ملک میں میچز کیلیے کتنے ترسے ہوئے ہیں،ایک طرف سیریز کو کامیاب بنانے پر وزیر اعظم نواز شریف اپنے زمبابوین ہم منصب کو خط لکھ کر شکریہ ادا کررہے ہیں۔
دوسری طرف ہم اپنی پریمیئر لیگ کا میلہ ایک غیر ملک میں سجاکر ملک، سیکیورٹی اور اداروں کی انتظامی صلاحیتوں پر خود ہی نااعتباری کا لیبل لگا رہے ہیں، انھوں نے کہا کہ زمبابوے کیخلاف سیریز کی کامیابی کے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے اولین ترجیح پاکستان میں انعقاد کو ہی دینی چاہیے، کوئی مسائل ہوں تو پھر دوسرے آپشن پر غور بھی کیا جائے، کوشش سے پہلے ہی ہمت ہارنا منفی سوچ اور اپنے سسٹم کو خود ہی بے کار قرار دینے کے مترادف ہے۔ سابق ٹیسٹ کپتان عامر سہیل نے کہاکہ ایک طرف ہمارا دعویٰ ہے کہ زمبابوے کو بلا کر ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے کھول دیے، دوسری جانب پی سی بی کا عجیب و غریب بیان سامنے آتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ غیر ملکی کھلاڑیوں کی شرکت یقینی بنانے کیلیے ٹی ٹوئنٹی لیگ کا انعقاد یو اے ای میں کررہے ہیں،اس تضاد سے انٹرنیشنل برادری کو کیا پیغام دیا جارہا ہے؟
اگر پی سی بی زمبابوے کیخلاف سیریز کی کامیابی کو بنیاد بناتے ہوئے درست سمت میں گامزن رہتا تو بہتری کے امکانات زندہ رہتے، اب کوئی ایسی صورت نظر نہیں آتی۔ سابق اسپنر ثقلین مشتاق نے کہا کہ پاکستان کی سپر لیگ کو اپنے ملک میں ہی ہونا چاہیے، زمبابوے کیخلاف سیریز کی کامیابی ایک پلیٹ فارم تھا جس سے اگلا سفر شروع ہونے کی توقع ہو رہی تھی،ایونٹ یو اے ای میں ہونے سے وہاں کے میدان آباد ہونگے، ہمارا وہ مقصد تو پورا نہیں ہوگا جس کیلیے طویل عرصے سے کوشاں ہیں، انھوں نے کہا کہ آئی پی ایل سے بھارتی ٹیلنٹ کو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع اور قومی ٹیموں کیلیے نئی کھیپ میسر آئی، انھوں نے مزید کہا کہ لیگ پاکستان میں ہی ہونی چاہیے، خواہ راہ ہموار کرنے اور تیاری میں مزید تاخیر ہی کیوں نہ ہوجائے۔