فنڈزکی عدم منظوری اسٹوڈنٹس لون اسکیم التوا کا شکار
مجوزہ اسکیم کے تحت غریب طلبا کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلیے قرض دیاجائیگا، دستاویز
ہائیرایجوکیشن کمیشن کی اسٹوڈنٹس لون اسکیم وزارت خزانہ کی جانب سے فنڈزکی منظوری نہ ملنے کے باعث التواکاشکارہے۔
یہ اسکیم ضرورت منداورذہین طلبا کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی میںمعاونت فراہم کرے گی۔ مجوزہ اسٹوڈنٹس لون اسکیم کی دستاویزکے مطابق اس اسکیم کے ذریعے طلبا کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے اخراجات میںکمی اورکم آمدنی کے حامل شہریوں کے بچوں کو2015 تک برابری کی سطح پرتعلیم کے حصول کے مواقع میسر آئیں گے۔ اسٹوڈنٹس لون کے تحت ان طلباکوقرض فراہم کیاجائے گا جوایسوسی ایٹ ڈگری، انڈرگریجویٹ ڈگری اورایم ایس یاایم فل کیلیے قابلیت کے حامل ہوںگے لیکن وسائل کی کمی کے باعث تعلیم حاصل کرنے میںمشکلات کا سامنا کررہے ہوں۔
قرض کی رقم سے مستحق طلبا کسی بھی معروف ملکی یاغیرملکی تعلیمی ادارے میںتعلیم حاصل کرسکیںگے۔اسکیم کامقصدغریب طلبا کو بہترین تعلیمی اداروں سے ان کی قابلیت کے مطابق تعلیم کے حصول میںمدددیناہے۔ ایچ ای سی گزشتہ دوسال سے غریب،مستحق اورذہین طلباکی ترقی کیلیے اسٹوڈنٹس لون پروگرام پرکام کررہاہے جس میں اسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان، نیشنل بینک آف پاکستان اورآئی ایف سی کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔ دستاویزکے مطابق قومی ضرورتوںکے مطابق ترجیحی بنیادوں پر اسٹوڈنٹس لون کیلیے ضابطہ اخلاق رتب کیا جائے گا اوراس کی شرائط پرپورااترنے والے طلباکوہی قرض دیا جائیگا۔
اس ضمن میںکمرشل بینکوںکی جانب سے 18 فیصدشرح سوداور 2 فیصد ایڈمنسٹریٹو کاسٹ پر سرمایہ فراہم کیاجائیگا۔ یونیورسٹیز تھروفنانشل ایڈ اینڈ ڈیولپمنٹ آفسزقرض لینے والے طلباکی جانچ کے بعد بینک کوقرض کی فراہمی کیلیے سفارشات پیش کریںگے۔ بینک منتخب طلباکوقرض کی فراہمی، وصولی اور وصولیوں کے ذمے دارہوںگے اورنادہندگی کے خطرات بھی برداشت کریںگے۔ قرض کیلیے درخواست دینے والے طالب علم کے اہلخانہ کے کوائف کی جانچ اور ذرائع آمدنی کی معلومات کے حصول کے بعدہی قرض جاری کیاجائیگا۔
اسٹوڈنٹس لون کی سہولت کا آغازترجیحی بنیادوپرسرکاری جامعات کے ذہین اور قابل طلباو طالبات سے کرنے کے بعداس کا دائرہ کار بتدریج نجی جامعات کے طلباتک پھیلایا جائے گا۔ 2002-3 کے بعدسے یونیورسٹی آن کیمپس انرولمنٹ میں217 فیصداضافے سے یہ تعداد 428000 تک پہنچ چکی ہے۔ 2009 میںمنظورکی گئی تعلیمی پالیسی کے تحت ہائیر ایجوکیشن کاٹارگٹ موجودہ 7.8فیصدسے بڑھاکر 2015 تک 10 فیصد کردیاگیاہے جبکہ 2020 تک یہ ٹارگٹ15 فیصدتک پہنچ جائیگاجس کے بعداعلیٰ تعلیم کے حصول کیلیے مصروف طلباکی تعدادمیں250 فیصدتک اضافہ ہوجائے گا۔
یہ اسکیم ضرورت منداورذہین طلبا کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی میںمعاونت فراہم کرے گی۔ مجوزہ اسٹوڈنٹس لون اسکیم کی دستاویزکے مطابق اس اسکیم کے ذریعے طلبا کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے اخراجات میںکمی اورکم آمدنی کے حامل شہریوں کے بچوں کو2015 تک برابری کی سطح پرتعلیم کے حصول کے مواقع میسر آئیں گے۔ اسٹوڈنٹس لون کے تحت ان طلباکوقرض فراہم کیاجائے گا جوایسوسی ایٹ ڈگری، انڈرگریجویٹ ڈگری اورایم ایس یاایم فل کیلیے قابلیت کے حامل ہوںگے لیکن وسائل کی کمی کے باعث تعلیم حاصل کرنے میںمشکلات کا سامنا کررہے ہوں۔
قرض کی رقم سے مستحق طلبا کسی بھی معروف ملکی یاغیرملکی تعلیمی ادارے میںتعلیم حاصل کرسکیںگے۔اسکیم کامقصدغریب طلبا کو بہترین تعلیمی اداروں سے ان کی قابلیت کے مطابق تعلیم کے حصول میںمدددیناہے۔ ایچ ای سی گزشتہ دوسال سے غریب،مستحق اورذہین طلباکی ترقی کیلیے اسٹوڈنٹس لون پروگرام پرکام کررہاہے جس میں اسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان، نیشنل بینک آف پاکستان اورآئی ایف سی کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔ دستاویزکے مطابق قومی ضرورتوںکے مطابق ترجیحی بنیادوں پر اسٹوڈنٹس لون کیلیے ضابطہ اخلاق رتب کیا جائے گا اوراس کی شرائط پرپورااترنے والے طلباکوہی قرض دیا جائیگا۔
اس ضمن میںکمرشل بینکوںکی جانب سے 18 فیصدشرح سوداور 2 فیصد ایڈمنسٹریٹو کاسٹ پر سرمایہ فراہم کیاجائیگا۔ یونیورسٹیز تھروفنانشل ایڈ اینڈ ڈیولپمنٹ آفسزقرض لینے والے طلباکی جانچ کے بعد بینک کوقرض کی فراہمی کیلیے سفارشات پیش کریںگے۔ بینک منتخب طلباکوقرض کی فراہمی، وصولی اور وصولیوں کے ذمے دارہوںگے اورنادہندگی کے خطرات بھی برداشت کریںگے۔ قرض کیلیے درخواست دینے والے طالب علم کے اہلخانہ کے کوائف کی جانچ اور ذرائع آمدنی کی معلومات کے حصول کے بعدہی قرض جاری کیاجائیگا۔
اسٹوڈنٹس لون کی سہولت کا آغازترجیحی بنیادوپرسرکاری جامعات کے ذہین اور قابل طلباو طالبات سے کرنے کے بعداس کا دائرہ کار بتدریج نجی جامعات کے طلباتک پھیلایا جائے گا۔ 2002-3 کے بعدسے یونیورسٹی آن کیمپس انرولمنٹ میں217 فیصداضافے سے یہ تعداد 428000 تک پہنچ چکی ہے۔ 2009 میںمنظورکی گئی تعلیمی پالیسی کے تحت ہائیر ایجوکیشن کاٹارگٹ موجودہ 7.8فیصدسے بڑھاکر 2015 تک 10 فیصد کردیاگیاہے جبکہ 2020 تک یہ ٹارگٹ15 فیصدتک پہنچ جائیگاجس کے بعداعلیٰ تعلیم کے حصول کیلیے مصروف طلباکی تعدادمیں250 فیصدتک اضافہ ہوجائے گا۔