لفظِ لاشعور اور اُس کی حقیقت
یہ سوچنے کا مقام ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے، ہمارا میڈیا، ہمارے گھروں کا ماحول ہمارے لاشعور میں کیا محفوظ کر رہا ہے؟
بعض اوقات کسی مثال، تجربے یا مشاہدے کے بغیر کسی لفظ یا جملے کی سمجھ نہیں آتی۔ کچھ ایسا ہی میرے ساتھ تب ہوا کہ جب میں نے پہلی بار شُعورِ حیات نامی ایک کتاب پڑھی۔ مجھے لگا کہ یہ کتاب میرے اوپر سے گذر گئی ہے۔ میں نے لفظ شعور کو سمجھنے کی کوشش کی، لیکن مجھے سمجھانے والے نے ظلم یہ کیا کہ مجھے ایک اور لفظ یعنی ''لاشعور'' سے روشناس کروا کے میری پریشانی میں مزید اضافہ کردیا۔
یہ لفظ مجھے ایک عملی مثال سے کیسے سمجھ میں آیا یہ جاننے کے لئے آپکو کچھ دیر کے لئے میرے ساتھ میرے ماضی کے جھروکوں میں جھانکنا پڑے گا۔ کارگل کی جنگ عروج پر تھی، آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد میں جنگی اور جہادی ماحول بنا ہوا تھا۔ شہر میں روزانہ رات کو بلیک آوٹ کیا جاتا تھا کہ کہیں بھارتی طیارے حملہ نہ کردیں۔ ''سوشل میڈیا'' کی موجودہ شکل کا اُس وقت کہیں دور دور تک بھی نام نہ تھا، البتہ اُس وقت کا ''لوکلائزڈ'' سوشل نیٹ ورک بہت فعال تھا۔ گرمیوں کے دنوں میں رات کے اندھیرے میں محلے کی چھتیں پُررونق ہوتی تھیں۔ وطن کی مٹی سے محبت میں سرشار رضاکاروں کی ٹولیاں رات بھر جاگا کرتیں اور موضوع انڈیا پاکستان جنگ، جہاد، کارگل اور مشاہد حسین کی شاندار انگریزی ہوا کرتی تھی۔
ایسی ہی ایک رات میرا ایک دوست اپنے دوستوں کے ساتھ ایک ''اوپن بیٹھک'' میں رات بھر گپیں لگاتا رہا اور صبح جب آنکھ کھلی تو احساس ہوا کہ کالج کے لیے دیر ہوگئی ہے۔ جلدی جلدی میں تیار ہو کر وہ کالج کے لئے نکلا مگر بدقسمتی سے ایک ''پجیرو'' سے اُسکی ٹکر ہوگئی، تڑاخ کی آواز آئی اور اسے لگا کہ لوہے کا کوئی گرم راڈ اس کی دائیں ٹانگ میں گھس گیا ہے۔ خیر کچھ لوگوں نے اُسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال لے گئے۔ ایکسرے کے بعد معلوم ہوا کہ اُس کی ٹانک کی دونوں ہڈیاں پنڈلی سے ٹوٹ گئی ہیں۔ مقامی ڈاکٹرز نے کافی اصرار کیا کہ وہ پلاسٹر کردیتے ہیں کچھ ہفتوں میں ٹھیک ہوجائے گا مگر دوست نے اور اُس کے گھر والوں نے دیسی ماہرین سے رُجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس شہر کے سی ایم ایچ جیسے بڑے ہسپتال میں بھی آرتھوپیڈک سرجن کی گنجائش نہیں تھی کیوںکہ ایک نامی گرامی ''کنٹھی جنرل سرجن'' کا خیال تھا کہ وہ ہڈیاں بھی جوڑ سکتے ہیں اور سو میں سے ایک آدھ مریض کی ہڈی واقعی اُن کے ہاتھوں سے جُڑ بھی جاتی تھی۔ باقی 99 کو ''کیس خراب'' کرنے کے بعد آخر کار ایبٹ آباد کے مشہور آرتھوپیڈک کے پاس بھجوادیا جاتا ہے۔ خیر واپس آتے ہیں مریض کے پاس ۔۔۔ اب مریض کو اُس کے گھر لے جایا گیا جہاں شہر کے معروف ''دیسی ماہر ہڈی جوڑ'' نے مریض کو بے ہوشی کا انجکشن لگوا کر اس کا ''علاج'' شروع کردی ۔ گھر کے ایک بڑے کمرے میں بڑی تعداد میں اس کے چاہنے والے جمع تھے۔ ہڈی جوڑنے کے اس عمل کے دوران مریض کو کافی تکلیف ہوئی اور اُس نوجوان نے نیم بے ہوشی کے عالم میں بلند آواز سے ذکر اذکار شروع کردیا اور دعائیں بھی مانگنا شروع کردیں۔ دعاوں میں ایسی رقت اور اثر انگیزی تھی کہ کہ سب ہی لوگ آبدیدہ ہو گئے، ایک بزرگ نے اُس وقت کہا کہ اس بچے کا ''لاشعور'' کتنا روشن ہے۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ لاشعور کسے کہتے ہیں۔
دراصل ہمارا لاشعور ہمارے اندر ہی اندر بن رہا ہوتا ہے اور اس کے ''بننے'' میں سب سے زیادہ اثر ہمارے ماحول کا ہوتا ہے۔ ہم کیا دیکھتے ہیں؟ کیا سنتے ہیں؟ کیا ڈسکس کرتے ہیں؟ موضوعات کیا ہوتے ہیں؟ ہماری کمپنی کیسی ہے؟ اور یہ سب کچھ دیکھنے، سننے اور کرنے کے بعد ہم ہماری سوچیں کیا ہوتی ہیں؟ ہمارے خیالات کیا ہوتے ہیں؟ یہ سب دراصل ہمارے لاشعور میں محفوظ ہو رہا ہوتا ہے اور غیر ارادی طور پر روٹین سے ہٹ کر کچھ بھی ہمارے ساتھ ہوجائے یا ہمارے سامنے آجائے تو اس وقت ہمارا ردعمل ہمارے لاشعور کی صحیح عکاسی اور ترجمانی کرتے ہیں۔
ہمارا مجموعی قومی اور عمومی لاشعور آج کل کیسا ہے اِس کا اندازہ تب ہوا جب دو دن قبل میں ایک شاپنگ مال میں تھا کہ بجلی چلے جانے سے لفٹ پھنس گئی۔ اِس حال میں نوجوانوں کا لاشعور کیسے جگمگا اُٹھا اس کی صحیح الفاظ میں منظر کشی کرنے کی اجازت تہذیب نہیں دیتی۔ زیادہ سے زیادہ جولفظ لکھا جاسکتا ہے وہ ہے ''اوہ شِٹ''۔ اِسی طرح دیگر غیر اخلاقی الفاظ تو اتنا عام ہوگئے کہ خدا کی پناہ، بعض اوقات اچھے خاصے ''پڑھے لکھے'' لوگوں سے بھی ایسا ہی کچھ سننے کو ملتا ہے۔ پہلے پہل اگر بچہ گِرجایا کرتا تو دیکھنے والے کہتے تھے ''بسم اللہ'' ۔۔۔ ''اللہ خیر کرے'' یا ''اللہ کرم''۔ یہ ہمارے لئے سوچنے کا ایک مقام ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے، ہمارا میڈیا، ہمارے گھروں کا ماحول ہمارے لاشعور میں کیا رجسٹر کر رہا ہے؟ بالخصوص بچوں کے ذہن اِس سے کیا اثر لے رہے ہیں؟ یہ ہمارا ''لاشعور'' ہی ہے جس کے اثرات ہماری تہذیب، زبان اور رہن سہن پر پڑ رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اور یہ کیسے پھر سے مثبت ہوسکتا ہے؟ یہ سوال میں اپنے پڑھنے والوں کے سامنے رکھتا ہوں۔
[poll id="491"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہ لفظ مجھے ایک عملی مثال سے کیسے سمجھ میں آیا یہ جاننے کے لئے آپکو کچھ دیر کے لئے میرے ساتھ میرے ماضی کے جھروکوں میں جھانکنا پڑے گا۔ کارگل کی جنگ عروج پر تھی، آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد میں جنگی اور جہادی ماحول بنا ہوا تھا۔ شہر میں روزانہ رات کو بلیک آوٹ کیا جاتا تھا کہ کہیں بھارتی طیارے حملہ نہ کردیں۔ ''سوشل میڈیا'' کی موجودہ شکل کا اُس وقت کہیں دور دور تک بھی نام نہ تھا، البتہ اُس وقت کا ''لوکلائزڈ'' سوشل نیٹ ورک بہت فعال تھا۔ گرمیوں کے دنوں میں رات کے اندھیرے میں محلے کی چھتیں پُررونق ہوتی تھیں۔ وطن کی مٹی سے محبت میں سرشار رضاکاروں کی ٹولیاں رات بھر جاگا کرتیں اور موضوع انڈیا پاکستان جنگ، جہاد، کارگل اور مشاہد حسین کی شاندار انگریزی ہوا کرتی تھی۔
ایسی ہی ایک رات میرا ایک دوست اپنے دوستوں کے ساتھ ایک ''اوپن بیٹھک'' میں رات بھر گپیں لگاتا رہا اور صبح جب آنکھ کھلی تو احساس ہوا کہ کالج کے لیے دیر ہوگئی ہے۔ جلدی جلدی میں تیار ہو کر وہ کالج کے لئے نکلا مگر بدقسمتی سے ایک ''پجیرو'' سے اُسکی ٹکر ہوگئی، تڑاخ کی آواز آئی اور اسے لگا کہ لوہے کا کوئی گرم راڈ اس کی دائیں ٹانگ میں گھس گیا ہے۔ خیر کچھ لوگوں نے اُسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال لے گئے۔ ایکسرے کے بعد معلوم ہوا کہ اُس کی ٹانک کی دونوں ہڈیاں پنڈلی سے ٹوٹ گئی ہیں۔ مقامی ڈاکٹرز نے کافی اصرار کیا کہ وہ پلاسٹر کردیتے ہیں کچھ ہفتوں میں ٹھیک ہوجائے گا مگر دوست نے اور اُس کے گھر والوں نے دیسی ماہرین سے رُجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس شہر کے سی ایم ایچ جیسے بڑے ہسپتال میں بھی آرتھوپیڈک سرجن کی گنجائش نہیں تھی کیوںکہ ایک نامی گرامی ''کنٹھی جنرل سرجن'' کا خیال تھا کہ وہ ہڈیاں بھی جوڑ سکتے ہیں اور سو میں سے ایک آدھ مریض کی ہڈی واقعی اُن کے ہاتھوں سے جُڑ بھی جاتی تھی۔ باقی 99 کو ''کیس خراب'' کرنے کے بعد آخر کار ایبٹ آباد کے مشہور آرتھوپیڈک کے پاس بھجوادیا جاتا ہے۔ خیر واپس آتے ہیں مریض کے پاس ۔۔۔ اب مریض کو اُس کے گھر لے جایا گیا جہاں شہر کے معروف ''دیسی ماہر ہڈی جوڑ'' نے مریض کو بے ہوشی کا انجکشن لگوا کر اس کا ''علاج'' شروع کردی ۔ گھر کے ایک بڑے کمرے میں بڑی تعداد میں اس کے چاہنے والے جمع تھے۔ ہڈی جوڑنے کے اس عمل کے دوران مریض کو کافی تکلیف ہوئی اور اُس نوجوان نے نیم بے ہوشی کے عالم میں بلند آواز سے ذکر اذکار شروع کردیا اور دعائیں بھی مانگنا شروع کردیں۔ دعاوں میں ایسی رقت اور اثر انگیزی تھی کہ کہ سب ہی لوگ آبدیدہ ہو گئے، ایک بزرگ نے اُس وقت کہا کہ اس بچے کا ''لاشعور'' کتنا روشن ہے۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ لاشعور کسے کہتے ہیں۔
دراصل ہمارا لاشعور ہمارے اندر ہی اندر بن رہا ہوتا ہے اور اس کے ''بننے'' میں سب سے زیادہ اثر ہمارے ماحول کا ہوتا ہے۔ ہم کیا دیکھتے ہیں؟ کیا سنتے ہیں؟ کیا ڈسکس کرتے ہیں؟ موضوعات کیا ہوتے ہیں؟ ہماری کمپنی کیسی ہے؟ اور یہ سب کچھ دیکھنے، سننے اور کرنے کے بعد ہم ہماری سوچیں کیا ہوتی ہیں؟ ہمارے خیالات کیا ہوتے ہیں؟ یہ سب دراصل ہمارے لاشعور میں محفوظ ہو رہا ہوتا ہے اور غیر ارادی طور پر روٹین سے ہٹ کر کچھ بھی ہمارے ساتھ ہوجائے یا ہمارے سامنے آجائے تو اس وقت ہمارا ردعمل ہمارے لاشعور کی صحیح عکاسی اور ترجمانی کرتے ہیں۔
ہمارا مجموعی قومی اور عمومی لاشعور آج کل کیسا ہے اِس کا اندازہ تب ہوا جب دو دن قبل میں ایک شاپنگ مال میں تھا کہ بجلی چلے جانے سے لفٹ پھنس گئی۔ اِس حال میں نوجوانوں کا لاشعور کیسے جگمگا اُٹھا اس کی صحیح الفاظ میں منظر کشی کرنے کی اجازت تہذیب نہیں دیتی۔ زیادہ سے زیادہ جولفظ لکھا جاسکتا ہے وہ ہے ''اوہ شِٹ''۔ اِسی طرح دیگر غیر اخلاقی الفاظ تو اتنا عام ہوگئے کہ خدا کی پناہ، بعض اوقات اچھے خاصے ''پڑھے لکھے'' لوگوں سے بھی ایسا ہی کچھ سننے کو ملتا ہے۔ پہلے پہل اگر بچہ گِرجایا کرتا تو دیکھنے والے کہتے تھے ''بسم اللہ'' ۔۔۔ ''اللہ خیر کرے'' یا ''اللہ کرم''۔ یہ ہمارے لئے سوچنے کا ایک مقام ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے، ہمارا میڈیا، ہمارے گھروں کا ماحول ہمارے لاشعور میں کیا رجسٹر کر رہا ہے؟ بالخصوص بچوں کے ذہن اِس سے کیا اثر لے رہے ہیں؟ یہ ہمارا ''لاشعور'' ہی ہے جس کے اثرات ہماری تہذیب، زبان اور رہن سہن پر پڑ رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اور یہ کیسے پھر سے مثبت ہوسکتا ہے؟ یہ سوال میں اپنے پڑھنے والوں کے سامنے رکھتا ہوں۔
[poll id="491"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔