کیا یہ ممکن ہے کہ اِس رمضان میں ہم خود کو تبدیل کرلیں
سوال یہ ہے کہ اس بار ہم کچھ الگ کرسکتے ہیں؟ اپنی پلیٹ کے اضافی پکوڑے کسی ضرورت مند کے پیٹ کی جائز ضرورت بنا سکتے ہیں؟
ہر سال کی طرح اس سال بھی رمضان المبارک برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ آن پہنچا ہے۔ اس ماہ کی اہمیت کو اگر ایک سطر میں بیان کیا جائے تو بهی اس قدر زیادہ ہے کہ اندازہ لگانا مشکل ہے۔ کلمہ پڑھنے کے بعد مسلمانوں کو دن میں پانچ وقت نماز پڑھنے، سال بعد زكوة اور استطاعت رکھنے پر حج کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن ان سب عبادات کا ثواب طے کردیا گیا ہے سوائے روزے کے، اس بات سے رمضان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
رمضان کی آمد سے قبل حکومت نے مہنگائی میں اضافہ کردیا یا ٹی وی چینلز نے طرح طرح کے پروگرام شروع کردیے، اس پر بحث کرنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں. آج کیوں نہ ہم اپنے رویے پر بھی نظرِ ثانی کر لیں۔
رمضان کی آمد سے قبل ہی ہم میں سے اکثریت نے ہر سال کی اپنی ''تیاری'' بھی خوب کرلی ہو گی۔ جی ہاں! ہر سال کی طرح اس سال بھی اکثریت نے بڑے بڑے اسٹورز کا رخ کیا جہاں پہلے سے ہی صارفین کے لیے رمضان کی آفرز مہیا تھیں۔ ہر سال کی طرح بیسن کے پیکٹ، کیچپ کی بوتلیں، چکن نگٹس اور سموسوں کے بنے بنائے پیکٹ، افطار میں پیاس بھجانے کے لیے جامِ شیریں اور مشروبات کی بوتلیں، فروٹ چاٹ کے لیے چاٹ مصالہ سمیت کوئی بھی ''ضروری چیز'' اپنی شاپنگ لسٹ سے رہنے نہیں دی۔
یہ تو تھی 'Pre- Ramadan' یعنی رمضان سے پہلے کی تیاری، لیکن رمضان شروع ہوتے ہی ہم نے کیا کیا؟
سب سے پہلے دوستوں کو ''رمضان مبارک'' کے پیغامات بھیجیں، پہلی سحری کی گرما گرم ڈشز فیس بک کی نظر کیں، روزہ لگنے پر ''فیلنگ پیاس'' کا سٹیٹس اپ ڈیٹ کریں گے اور افطاری کے رنگا رنگ کھانوں کی تصاویر اپلوڈ کرکے پہلا روزہ مکمل کریں گے۔
اب جوں جوں دن گزریں گے افطاری پر بلانے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ ماموں، بھائی، چاچو، کولیگ، دوستوں یاروں کو افطاری پر بلا کر اپنا اپنا ''حقِ افطاری'' خوب نبھایا جائے گا اور جس کو پچھلے سال ہم نے افطاری پر بلایا لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا تو اُس کو بالکل بھی منہ نہیں لگائیں گے۔
جیسے ہی دوسرا عشرہ تیسرے عشرے کی جانب بڑھے گا، ہم بھی بازاروں کا رخ کرلیں گے. افطاری کے کھانوں کو ہضم کرنے کے لیے بازاروں میں چہل قدمی کی جائے گی۔ یہ مرحلہ ''Pre-Eid'' کا ہوگا جس میں رنگ برنگے پہناوے بنائے جائیں گے۔
اب ایک چھوٹا سا سوال ہم خود سے پوچتے ہیں کہ کیا یہ سب صرف اس دفعہ ہوگا؟ یا پچھلی بار بھی ہوا تھا؟ جناب عالی! یہ ہر سال ہوتا ہے۔ رحمتوں اور برکتوں کے اس مہینے کو ہم نے پکوڑوں، سموسوں، کھجوروں اور عید کی تیاری کے طور پر جاننا اور گزارنا اپنا مزاج بنا لیا ہے۔
سوال صرف اتنا ہے کہ اس بار کیا ہم کچھ الگ کرسکتے ہیں؟ اپنی اس عادت کو بدل سکتے ہیں؟ اپنی پلیٹ کے اضافی پکوڑے یا اپنے جام کا اضافی مشروب کسی بھوکے، نادار، غریب اور ضرورت مند کے پیٹ کی جائز ضرورت بنا سکتے ہیں؟ کیوںکہ رمضان کا پیغام ہی اِن کی بھوک محسوس کرنا ہے جنہیں سارا سال پیٹ بھر کے کھانا نصیب نہیں ہوتا ہے اور ان کی پیاس محسوس کرنا ہے جنہیں سارا سال صاف پانی بھی میسّر نہیں ہوتا، نہ کہ طرح طرح کے کھانے اور پہناوے بنانے کا۔
پسِ تحریر: آپ اگر سیاست دان ہیں، تاجر ہیں یا پھر دکاندار ہیں اور ہر سال اس مہینے کو بھی نہیں بخشتے تو کم از کم اس دفعہ یہ عادت ضرور بدل لیں، اگر استاد ہیں تو آپ کا فرض ہے کہ اپنے طالبعلموں کو اس مہینے کی اصل روح اور پیغام سے آشنا کریں۔
[poll id="493"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
رمضان کی آمد سے قبل حکومت نے مہنگائی میں اضافہ کردیا یا ٹی وی چینلز نے طرح طرح کے پروگرام شروع کردیے، اس پر بحث کرنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں. آج کیوں نہ ہم اپنے رویے پر بھی نظرِ ثانی کر لیں۔
رمضان کی آمد سے قبل ہی ہم میں سے اکثریت نے ہر سال کی اپنی ''تیاری'' بھی خوب کرلی ہو گی۔ جی ہاں! ہر سال کی طرح اس سال بھی اکثریت نے بڑے بڑے اسٹورز کا رخ کیا جہاں پہلے سے ہی صارفین کے لیے رمضان کی آفرز مہیا تھیں۔ ہر سال کی طرح بیسن کے پیکٹ، کیچپ کی بوتلیں، چکن نگٹس اور سموسوں کے بنے بنائے پیکٹ، افطار میں پیاس بھجانے کے لیے جامِ شیریں اور مشروبات کی بوتلیں، فروٹ چاٹ کے لیے چاٹ مصالہ سمیت کوئی بھی ''ضروری چیز'' اپنی شاپنگ لسٹ سے رہنے نہیں دی۔
یہ تو تھی 'Pre- Ramadan' یعنی رمضان سے پہلے کی تیاری، لیکن رمضان شروع ہوتے ہی ہم نے کیا کیا؟
سب سے پہلے دوستوں کو ''رمضان مبارک'' کے پیغامات بھیجیں، پہلی سحری کی گرما گرم ڈشز فیس بک کی نظر کیں، روزہ لگنے پر ''فیلنگ پیاس'' کا سٹیٹس اپ ڈیٹ کریں گے اور افطاری کے رنگا رنگ کھانوں کی تصاویر اپلوڈ کرکے پہلا روزہ مکمل کریں گے۔
اب جوں جوں دن گزریں گے افطاری پر بلانے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ ماموں، بھائی، چاچو، کولیگ، دوستوں یاروں کو افطاری پر بلا کر اپنا اپنا ''حقِ افطاری'' خوب نبھایا جائے گا اور جس کو پچھلے سال ہم نے افطاری پر بلایا لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا تو اُس کو بالکل بھی منہ نہیں لگائیں گے۔
جیسے ہی دوسرا عشرہ تیسرے عشرے کی جانب بڑھے گا، ہم بھی بازاروں کا رخ کرلیں گے. افطاری کے کھانوں کو ہضم کرنے کے لیے بازاروں میں چہل قدمی کی جائے گی۔ یہ مرحلہ ''Pre-Eid'' کا ہوگا جس میں رنگ برنگے پہناوے بنائے جائیں گے۔
اب ایک چھوٹا سا سوال ہم خود سے پوچتے ہیں کہ کیا یہ سب صرف اس دفعہ ہوگا؟ یا پچھلی بار بھی ہوا تھا؟ جناب عالی! یہ ہر سال ہوتا ہے۔ رحمتوں اور برکتوں کے اس مہینے کو ہم نے پکوڑوں، سموسوں، کھجوروں اور عید کی تیاری کے طور پر جاننا اور گزارنا اپنا مزاج بنا لیا ہے۔
سوال صرف اتنا ہے کہ اس بار کیا ہم کچھ الگ کرسکتے ہیں؟ اپنی اس عادت کو بدل سکتے ہیں؟ اپنی پلیٹ کے اضافی پکوڑے یا اپنے جام کا اضافی مشروب کسی بھوکے، نادار، غریب اور ضرورت مند کے پیٹ کی جائز ضرورت بنا سکتے ہیں؟ کیوںکہ رمضان کا پیغام ہی اِن کی بھوک محسوس کرنا ہے جنہیں سارا سال پیٹ بھر کے کھانا نصیب نہیں ہوتا ہے اور ان کی پیاس محسوس کرنا ہے جنہیں سارا سال صاف پانی بھی میسّر نہیں ہوتا، نہ کہ طرح طرح کے کھانے اور پہناوے بنانے کا۔
پسِ تحریر: آپ اگر سیاست دان ہیں، تاجر ہیں یا پھر دکاندار ہیں اور ہر سال اس مہینے کو بھی نہیں بخشتے تو کم از کم اس دفعہ یہ عادت ضرور بدل لیں، اگر استاد ہیں تو آپ کا فرض ہے کہ اپنے طالبعلموں کو اس مہینے کی اصل روح اور پیغام سے آشنا کریں۔
[poll id="493"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔