ماہ صیام اور لوٹ کھسوٹ کا کلچر
رمضان المبارک رحمت ومغفرت اور نجات کا ماہ مقدس اور نیکیوں کا موسم بہار ہے۔
رمضان المبارک رحمت ومغفرت اور نجات کا ماہ مقدس اور نیکیوں کا موسم بہار ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ''شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے'' لفظ رمضان عربی زبان کے لفظ ''رمضاء'' سے بنا ہے اور ''رمضاء'' خریف کے موسم کی اس بارش کو کہتے ہیں جو زمین کے تمام گرد وغبار کو دھوکر صاف وشفاف کردیتی ہے۔ چونکہ رمضان بھی روزے دار مومنوں کے گناہوں کو دھوکر ان کے دلوں کو گناہوں کی آلودگی سے پاک وصاف کردیتا ہے۔ اس لیے اسے رمضان کہا گیا ہے یعنی دھو ڈالنے والا۔ ایک اور قول کے مطابق لفظ رمضان عربی زبان کے لفظ ''رمض'' سے بنا ہے جس کے معنی ہیں سورج کی تیز دھوپ۔ جس طرح تیز دھوپ بدن کو جلادیتی ہے اسی طرح رمضان بھی روزے داروں کے گناہوں کو جلا ڈالتا ہے۔
ماہ صیام مسلمانان عالم کے لیے ایک ایسا مقدس مہینہ ہے جس میں انسانی زندگی کے معمولات، شب و روز اور رنگ وڈھنگ سب بدل جاتے ہیں۔ (چاہے یہ تبدیلی صرف ایک مہینے ہی کے لیے کیوں نہ ہوں)۔ ماہ رمضان مسلمانوں کی مذہبی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زمانے کے ساتھ ساتھ اس مہینے سے وابستہ ہماری سماجی اور ثقافتی زندگی کے اطوار بدلتے رہتے ہیں۔ جدید زندگی کے تقاضوں نے رمضان المبارک کے شب و روز پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ آج کے ماہ صیام کے شب و روز ماضی کے رمضان المبارک سے مختلف نظر آتے ہیں۔
ماضی اور آج کے ماہ صیام کے معمولات اور کلچر کا موازنہ کیا جائے تو آج کے دور میں ایک واضح فرق، امارت اور غربت میں محسوس ہوتا ہے۔ چار، پانچ دہائیاں قبل یوں لگتا تھا کہ سبھی لوگ ایک ہی طرح کی سحری اور افطار کرتے ہیں اور امیروں و غریبوں میں کوئی تفریق نہیں لیکن آج سحر و افطار میں بھی طبقاتی فرق حد سے زیادہ نظر آتا ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ بے شمار لوگوں کو افطار میں کھجوریں اور شربت بھی میسر نہیں، جب کہ اس معاشرے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جو صرف ''ایک فیملی افطار ڈنر'' پر نصف لاکھ سے زائد جھونک دیتے ہیں۔
ایک جانب ایک غریب خاندان صرف پانی اور سادہ کھانے پر گزارہ کرتا ہے اور افطار میں سموسوں، پکوڑوں، فروٹ چاٹ اور ملک شیک کا متحمل نہیں ہوسکتا تو دوسری طرف کئی خاندانوں کے صرف افطار کے دسترخوان ہی پر درجنوں ورائیٹیز موجود ہوتی ہیں، ڈنر کا معاملہ تو بعد میں آتا ہے۔ قصہ مختصر ماضی میں سحر و افطار میں امارت و غربت کے وہ مناظر دکھائی نہیں دیتے تھے، جو آج ہماری سماجی اور ثقافتی زندگی پر آکاس بیل کی طرح چھائے ہوئے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری زندگی کے تقریباً تمام شعبے، بدلتے زمانے میں ڈھل گئے ہیں اور اس کے نتیجے میں جو کلچر سامنے آیا ہے، اس کے منفی پہلو زیادہ ہیں اور مثبت کم ہے۔
ماضی میں بھی مہنگائی ہوتی تھی مگر اتنی لاقانونیت نہیں ہوتی تھی جتنی کہ آج نظر آتی ہے۔ آج تو یہ حالت ہے کہ ماہ صیام شروع ہوتے ہی تاجر آلو، بیسن، گھی، کھجور، فروٹ و دیگر اشیائے خورونوش کی ذخیرہ اندوزی کرلیتے ہیں اور مصنوعی قلت پیدا کرکے انھیں مہنگا کردیتے ہیں، نتیجتاً ایک عام آدمی کا ماہ صیام میں بجٹ دگنا ہوجاتا ہے۔ وہ یا تو ان اشیاء کو خرید نہیں سکتا یا پھر ادھار یا دفتر سے ایڈوانس جب کہ گزارہ کرتا ہے۔ پوری دنیا میں مذہبی تہواروں پر اشیاء سستی ہوتی ہیں مگر ہمارے یہاں تاجر اور دکاندار ماہ رمضان کو کمائی کا سیزن سمجھ کر ایک مہینے میں پورے سال کی کمائی کرلیتے ہیں اور پھر اپنی دکان یا اسٹور پر یہ کتبہ نمایاں طور پر آویزاں کرتے ہیں کہ ''یہ سب میرے رب کا فضل و کرم ہے''۔
خوف خدا سے عاری ہمارے تاجر ماہ مبارک کے احترام کو بالائے طاق رکھ کر ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ پر بھی بے چارے خریداروں کو حسب عادت الٹی چھری سے ذبح کرنے میں مصروف ہیں اور ان مظلوموں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ماہ صیام میں ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کا بڑھتا ہوا رجحان ایک معاشرتی المیے سے کم نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بعض تاجر اور دکاندار اپنا ناقص، غیر معیاری اور ملاوٹ شدہ مال بھی اس مقدس مہینے میں بڑھتی ہوئی طلب کی آڑ میں نکال دیتے ہیں۔ وہ اسے ایک سنہری موقعے پر سمجھ کر روزہ داروں کو سب کچھ کھلادیتے ہیں کہ 15 گھنٹے بھوکا رہنے کے بعد انھیں غیر معیاری چیز بھی اچھی لگتی ہے۔ گھی اور تیل چاہے کتنا ہی غیر معیاری اور آلودہ کیوں نہ ہو، آلو اور بیسن کی کوالٹی کتنی ہی بری کیوں نہ ہو۔ بازاروں میں قدم قدم پر اپنی دکان سجائے یہ لوگ روزہ داروں کی جیب سے پیسے نکلوا ہی لیتے ہیں۔
نام کے تو ہم مسلمان ہیں مگر عملاً اسلام کی ضد ہیں۔ ہمیں جو اسلام کہتاہے، ہم اس کا الٹ کرتے ہیں اور پھر اس پر اکڑتے بھی ہیں۔ آج ہمارا اسلامی معاشرہ فرقہ وارانہ اختلافات میں تو ایک مضبوط ترین معاشرہ نظر آتا ہے لیکن کیا اسلامی تعلیمات میں پچاس فیصد بھی اسلامی معاشرہ ہے؟
رمضان المبارک کا مہینہ ہے، آئیے اپنا جائزہ لیں۔ ایک پھل فروش ہو یا کوئی دکاندار، ایک فیکٹری کا مالک ہو یا بڑا کاروباری ادارہ چلانے والا، کیاکوئی خرید و فروخت میں ایمانداری کا مظاہرہ کرتا ہے؟
جب آج کے دور میں غیر مسلم اخلاقیات کو اپناسکتے ہیں تو بھلا ہم مسلم ہوکر اپنے اسلاف کی یہ تعلیمات کیوں نہیں اپناسکتے؟ ہم صرف اپنے مسلک پر ہی کیوں فخر کرتے ہیں؟ اس حدیث پہ عمل کیوں نہیں کرتے جس کے تحت مسلمان جب کوئی مال فروخت کرے تو اس کی خامیاں بھی خریدار کو بتانا ضروری ہوتی ہیں۔
پیغمبر آخر الزماں، شافع محشر، حضور دو عالم ﷺ نے مال فروخت کرتے وقت اس کی خامیاں بھی بیان کرنے کا درس دیا مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ خاتم النبین ﷺ کے ماننے والوں کے معاشرے کا یہ عالم ہے کہ جان بچانے کی دوائیں بھی جعلی بناکر بازار میں فروخت کی جارہی ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء میں اس قدر ملاوٹ کی جارہی ہے کہ الامان والحفیظ، ان اشیاء کی بھی ملاوٹ کی جارہی ہے جو انسانی جان کے لیے بھی مضر ہے۔ کہیں پریشر کے ذریعے گوشت میں پانی بھرکر فروخت کیا جارہا ہے، کہیں کتوں کے گوشت اور چربی کو خاموشی سے دیگر گوشت اور پکوان تیل وگھی کے ساتھ فروخت کیا جارہا ہے۔ کہیں کیمیکل ملی ہوئی بغیر ٹماٹر کی کیچپ فروخت ہورہی ہے۔ کہیں دودھ میں مضر صحت اشیاء کی ملاوٹ کے ساتھ ساتھ کپڑے دھونے کا سوڈا بھی ملاکر جھاگ بنائے جارہے ہیں تاکہ دودھ جھاگ والا اصلی لگے۔غرض یہ سارا عمل سارا سال چلتا ہے اور رمضان میں تو اور بھی عروج پر پہنچ جاتا ہے۔
کیا ہم اس رمضان میں اپنے آپ کو اسلامی تعلیمات یا ان اخلاقی اصولوں سے قریب تر نہیں کرسکتے جس کے تحت غیر اسلامی ممالک میں بھی کوئی شخص اپنے ہی معاشرے کے فرد کو دھوکہ نہیں دیتا۔ اپنے تہوار پر اپنے لوگوں کو اشیائے فروخت میں قیمتیں کم کرکے فائدہ پہنچاتے ہیں۔
آئیے! ہم بھی اس رمضان اپنے ارد گرد کے لوگوں کو لوٹنے کے بجائے فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں، افطار و سحری میں کھانے پینے کی اشیاء ہوں یا عید کے کپڑے وغیرہ تمام اشیاء پر ناجائز منافعے کے بجائے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو بھی رعایت دیں اور کم از کم رمضان کے مہینے میں تو لوٹ کھسوٹ کے اس کلچر کو جاری نہ رکھیں جو سارا سال جاری رکھتے ہیں۔