سندھ کا مایوس کن بجٹ
بجٹ کے تجزیے سے انکشاف ہوا کہ صحت کے بجٹ میں سوا دو کروڑ روپے کم کر دیے گئے۔
لاہور:
سندھ میں 7 کھرب سے زائد کے خسارے کا بجٹ پیش ہوا۔ تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے ساتھ ساتھ 25 ہزار ملازمتوں کا اعلان بھی ہوا۔ سندھ کی حکومت نے کراچی شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی بدحالی کو محسوس کرتے ہوئے اس ضمن میں 22 ارب روپے کی منظوری دیدی۔ بجٹ کے تجزیے سے انکشاف ہوا کہ صحت کے بجٹ میں سوا دو کروڑ روپے کم کر دیے گئے۔
روایتی منصوبوں کے ساتھ تعلیم کے شعبے کے لیے 144 ارب روپے مختص کیے گئے۔ ایم کیو ایم نے بجٹ کو شہری علاقوں کے ساتھ نا انصافی قرار دیا۔ سندھ میں گزشتہ 20 برسوں سے پیش کیے جانے والے بجٹ کا موجودہ مالیاتی سال کے بجٹ سے موازنہ کیا جائے تو بظاہر کوئی فرق نظر نہیں آتا مگر پیپلز پارٹی کی حکومت کی بدعنوانی اور بری طرزِ حکومت کی روایت کی بناء پر صورتحال زیادہ مایوس کن نظر آتی ہے۔
روزنامہ ایکسپریس کے بزنس رپورٹر نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ حکومت کے پاس صرف19.5 فیصد وسائل ہیں، باقی رقوم کے لیے وفاق کی گرانٹ، غیر ملکی معاونت اور غیر ملکی قرضوں پر انحصار کیا جائے گا۔ سندھ میں عوام کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے ذمے دار شعبوں کی صورتحال مایوس کن ہے۔ اگر تعلیم کے شعبے کا جائزہ لیا جائے تو صوبہ سندھ پنجاب، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے پیچھے ہے اور گزشتہ چند برسوں میں اسکول میں داخلے کی شرح کم ہوئی ہے اور صوبے میں کئی ہزار گھوسٹ اسکول موجود ہیں۔ بہت سے اسکولوں کی باقاعدہ عمارتیں تک نہیں ہیں۔ اسی طرح ہزاروں اسکولوں کی چار دیواری تک تعمیر نہیں ہو سکی۔
اسکولوں میں فرنیچر کی کمی، بیت الخلاء اور پانی کی سہولتیں نہیں ہیں۔ اسکولوں میں اساتذہ کی غیر حاضری سے ان کی نگرانی کا نظام سیاسی دباؤ، سفارش اور رشوت سے منسلک ہے۔ صرف اسکولوں کے حالات ہی ناگفتہ بہ نہیں ہیں بلکہ کالجوں کا بھی برا حال ہے۔ ملک کی ترقی کے لیے سائنس اور کمپیوٹر کی تعلیم ضروری ہے۔ کالجوں میں سائنس کے مضامین کے لیے لیباریٹریاں لازمی ہوتی ہیں۔ سندھ کے بہت سے کالجوں میں سائنس کے مختلف مضامین کی لیباریٹریوں کا معیار انتہائی انتہائی نچلے درجے کا ہے۔ عموماً لیباریٹری میں کیمیکل اور جدید سامان کی کمی کی شکایات عام ہیں۔
اسی طرح سندھ کی یونیورسٹیاں مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ عمارتوں کی کمی، کیمیکل اور جدید آلات کی کمی کی شکایت کرتے ہیں۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی لائبریریوں کے لیے مناسب فنڈز دستیاب نہیں ہوتے۔ نئے اسکولوں اور کالجوں کے قیام کا معاملہ بھی ہنوز غور طلب ہے۔ بجٹ میں حیدرآباد اور کراچی میں نئی یونیورسٹیوں کے قیام کے معاملے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ کراچی شہر میں پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں کی تعداد اسلام آباد کے مقابلے میں کم ہے۔
صحت کے شعبے میں بھی مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت کراچی کے سول اسپتال میں 8 سال سے زیرِ تعمیر ٹراما سینٹر کی تعمیر کو مکمل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ سول اسپتال کے سپریٹنڈنٹ پروفیسر سعید قریشی کی کوششوں سے حالات بہتر ہوئے ہیں مگر حکومتِ سندھ کی تحویل میں کام کرنے والا جناح اسپتال مشکلات کا شکار ہے۔ باقی شہر کے اسپتالوں میں عوام کے ہجوم کے باوجود سہولتیں کم ہیں۔ اندرونِ سندھ اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی، ادویات کی نایابی اور عمارتوں کی کم گنجائش کی بناء پر مریض کراچی کا رخ کرتے ہیں۔
اگر اندرونِ سندھ اسپتالوں کا جال پھیلایا جائے اور وہاں تعینات ڈاکٹروں کو خصوصی الاؤنس دیے جائیں تو مریض اپنے علاقوں میں علاج کو ترجیح دیں مگر کہا جاتا ہے کہ سندھ کی حکومت اسپتالوں کو پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے نام پر نجی شعبے کے حوالے کرنے کی اسکیم پر غورکر رہی ہے۔ اسی بناء پر صحت کا بجٹ کم کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں صحت کی سہولتوں کو مارکیٹ میں بطور جنس فروخت کرنے کی تجویز پر عملدرآمد سے عام آدمی کے پاس مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں بچے گا۔
حکومت نے بجٹ میں اس دفعہ پھر کراچی سرکلر ریلوے کو متحرک کر نے، جدید بسیں سڑکوں پر لانے اور ان کے لیے مخصوص ٹریک تعمیر کرنے کے لیے 22 ارب روپے منظور کیے ہیں۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں اس بارے میں ہونے والے اجلاسوں کی روداد پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ کراچی میں پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت اس پر عمل درآمد ہو گا۔ ییلو لائن پروجیکٹ ریگل چوک سے داؤد چورنگی تک تعمیر ہو گا، یوں 1 لاکھ 25 ہزار مسافر ان بسوں میں روزانہ سفر کریں گے۔ پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کا مطلب اس کو تجارتی بنیادوں پر چلانا ہو گا۔
اسی طرح حکومت اس پروجیکٹ کی زرتلافی نہیں دے گی، لاہور اور اسلام آباد میں چلنے والی میٹرو بس کے ٹکٹ کے مقابلے میں ییلو لائن کا ٹکٹ مہنگا ہو گا اور شہر کا وسیع حصہ اس سہولت سے محروم رہے گا۔ صوبائی حکومت نے ایک دفعہ پھر سرکلر ریلوے کو متحرک کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور جاپان کے ادارے جائیکا سے تعاون کی خواہش کا زور و شور سے ذکر کیا گیا ہے۔
گزشتہ 8 برسوں کے دوران جاپان کی حکومت سرکلر ریلوے کو فعال کرنے کے لیے مدد دینے پر بار بار رضامندی کا اظہار کرتی رہی۔ جاپانی حکومت نے حکومت سندھ سے کہا تھا کہ سرکلر ریلوے کے ٹریک کو خالی کرایا جائے۔ سرکلر ریلوے کے ٹریک پر تھانے، سڑکیں اور عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں۔ ان تجاوزات کی ذمے داری شہر کی تمام اسٹیک ہولڈر جماعتوں کے علاوہ پولیس اور رینجرز پر بھی عائد ہوتی ہے۔ حکومتِ سندھ کی کارکردگی اتنی مایوس کن ہے کہ وہ ریلوے لائن پر غیر قانونی تعمیرات کو ہٹانے تک میں ناکام رہی ہے۔
اب اگر پھر حکومت اپنا فریضہ انجام نہیں دے پائی تو یہ معاملہ فائلوں تک محدود ہو جائے گا۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا معاملہ پورے سندھ کا ہے۔ انٹر سٹی چلنے والی بسوں کے کرائے زیادہ ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کے معاملات نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور حکومتِ سندھ کے درمیان تنازعہ کا شکار رہے ہیں۔ ریلوے کے ٹریک کو سندھ کے دور دراز علاقوں تک پھیلانے کے معاملے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ سندھ حکومت کو وفاق پر زور دینا چاہیے کہ سندھ میں ریل گاڑیوں کے پھیلاؤ کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات ہونے چاہئیں۔ ریلوے کا سفر سب سے زیادہ محفوظ اور سستا ہے۔
اس بجٹ میں 25 ہزار نئی آسامیوں کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں 10ہزار آسامیاں پولیس کے شعبے کے لیے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں آسامیوں کی فروخت کا معاملہ ہمیشہ بدنامی کا باعث بنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آسامیوں کی فروخت کے معاملے میں اعلیٰ قیادت بھی ملوث رہی ہے اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والے اختلافات کی بھی ایک بڑی وجہ آسامیوں کی فروخت اور افسران کے تبادلے رہے ہیں۔ پولیس کی بھرتیوں کے بارے میں رینجرز اور خفیہ سول و عسکری ایجنسیوں کو اعتراضات رہے ہیں۔ کراچی کے نوجوانوں کی اس حکومت سے مایوسی کی ایک بڑی وجہ روزگار کی عدم فراہمی ہے۔ اندرونِ سندھ کے لوگ بھی ایسی سے شکایتیں کرتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سرکاری آسامیوں پر تقرر کے لیے شفاف نظام بنایا جائے جس کی وفاق اور باقی صوبے بھی پیروی کریں۔ شاید یہ ایک آئیڈیل بات ہے ۔
بجٹ میں غربت کے خاتمے کے لیے حکمت عملی نہیں ہے۔ کرپشن ہر منصوبے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور وزیر اعلیٰ بے اختیار نظر آتے ہیں۔ مگر مجموعی طور پر سندھ کا بجٹ ایک ایسی جماعت کا بجٹ نظر نہیں آتا جس کے بنیادی دستاویز میں عوام ہماری طاقت ہیں، درج ہے۔