میرا باپ میرا سائبان
سوشل میڈیا پر ’’فادرز ڈے‘‘ منا لینے والوں کو حقیقی دنیا میں بھی والد کی قدر و منزلت سے آگاہ ہونا چاہئیے۔
KARACHI:
باپ سے زیادہ وقت دوستوں کے ساتھ گزارنے والوں اور فیس بک پر ہی ''فادرز ڈے'' منا لینے والوں کو کبھی بھی اپنے والد کی حقیقی قدر معلوم نہیں ہوسکتی، بالکل ایسے جس طرح چھتری یا سائبان کی قدر صرف اسی کو معلوم ہوتی ہے جسے کڑی دھوپ اور طوفانی بارش کا سامنا رہا ہو۔ اسی طرح والد کی حقیقی منزلت بھی انہی لوگوں پر عیاں ہوتی ہے جو حالات کی دھوپ اور بارش کی زد میں رہے ہوں۔ جو یہ جانتے ہوں کہ جب آفتاب دوران سوا نیزے پر آن موجود ہو تو پھر خود کو جھلسنے سے کیسے بچایا جاتا ہے؟ جب ندامت کا اَبرِ مسلسل برستا ہو تو پھر کس سائبان، کس چھتری تلے پناہ مل سکتی ہے؟ ایسے میں صرف اور صرف ایک باپ کا ہی سایہ ہوتا ہے جو ہر طرح کی دھوپ و بارش خود پر سہتا ہے تا کہ آپ کو پناہ مہیا کرسکے۔
جب سارا سال باپ کے سامنے اونچا بولنے کو ہم باعثِ فخر سمجھتے رہیں گے، اس کی نافرمانی کو اپنا فریضہ اولین گردانتے رہیں گے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ محض ایک دن اسے ''ہیپی فادرز ڈے'' کا میسج بھیج کر ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہوجائیں۔ جس باپ نے ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھایا ہو اس سے یوں ہاتھ نہیں چھڑایا جا سکتا۔ جس نے اپنے منہ کا نوالہ اپنی اولاد کے منہ میں ڈالا ہو اس سے نظریں کیسے چرائی جا سکتی ہیں؟ باپ کی صحبت سے دور بھاگ کر دوستوں کی محفل میں بیٹھنے والوں کو باپ کی قدر اسی دن معلوم ہوتی ہے جس دن یہ سائبان منوں مٹی تلے دفن ہو چکا ہو۔
ہمارے ہاں ماں کی محبت تو ہر کسی کو نظر آتی ہے مگر باپ کی شفقت عموماً ڈانٹ ڈپٹ میں دب کر رہ جاتی ہے، حالانکہ ماں کی شفقت اور باپ کی ڈانٹ ڈپٹ دونوں ہی تربیت کے اہم ترین جز ہیں۔ اگر خدا نے جنت کو ماں کے قدموں تلے چھپایا ہے تو باپ کی دعا کو بھی اولاد کے حق میں سب سے جلد قبول ہونے والی دعا کا درجہ دیا ہے۔ باپ کی ناراضی کو خالقِ دو جہاں اپنی ناراضی قرار دیتا ہے مگر اِن سب کے باوجود باپ کی اس طرح سے قدر نہیں کی جاتی کہ جس طرح کی محبت و لگاو ماں کے ساتھ ظاہر کیا جاتا ہے۔
نوشتہِ دیوار تو یہی ہے کہ جنہوں نے اپنے والد کی سختی برداشت کی، انہی کو جہاں میں کمال حاصل ہوا۔ اپنے والد کا ادب کرنے والے ہی اپنی اولاد کے سامنے لائقِ احترام ٹھہرے۔ والد کی نصیحتیں سننے والوں کو کبھی لوگوں کی باتیں نہیں سننی پڑتیں۔ جن کی نگاہیں باپ کے سامنے جھکی رہتی ہیں وہی دنیا کے سامنے سر اُٹھا کر جی سکتے ہیں۔ باپ کی زندگی تو اولاد کیلئے مستقبل کا ایک آئینہ ہوتی ہے جس میں دیکھ کر آگے سنبھل کر چلا جاتا ہے اور جو بھی اپنے باپ کے تجرباتِ حیات سے سیکھ کر آگے بڑھتا ہے وہ کسی بھی میدان میں ناکام نہیں ہوتا، اور نہ ہی وہ ہوسکتا ہے۔
کوئی شخص خواہ کتنے ہی دعوے کرلے مگر میرا یہ دعویٰ ہے کہ والد کی حقیقی قدر اُسے اسی دن معلوم ہوگی جس دن عملی زندگی میں قدم رکھا جائے گا۔ کیونکہ تبھی یہ علم ہوتا ہے کہ باپ کا سایہ کسی کے لئے کیا مقام رکھتا ہے؟ زمانے کے جبڑوں سے اپنا رزق کھینچنا کس قدر مشکل ہوتا ہے؟ اپنے حق کے لئے پوری دنیا سے تنہا کیسے لڑا جاتا ہے اور جب تھک ہار کر گرنا ہے تو رونے کے لئے آپ کو کونسا کاندھا میسر ہوگا؟ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آپ کو سر چھپانے کو آپ کو کوئی دامن نہیں ملتا، اُس وقت آپ کی نظروں میں کوئی ایسا شخص نہیں ہوتا جس کے پاس جا کر آپ خود کو محفوظ محسوس کرسکیں۔ تمام خون آشام درندے آپ کے گرد اکھٹے ہوجاتے ہیں اور خونخوار نظروں سے آپ کو گھورنے لگتے ہیں کہ آپ ذرا سے کہیں پر غافل ہوں اور وہ آپ کو بھنبھور ڈالیں۔ ایسے میں صرف ایک والد کا ہی سائبان ہوتا ہے جس کے تلے انسان خود کو حقیقی معنوں میں محفوظ تصور کرتا ہے۔ یہی ایک سائبان انسان کے لئے اصل حرز و پناہ گاہ ثابت ہوتا ہے۔
اگر سر پر سے آسمان کی چھت بھی ہٹ جائے توکوئی خود کو اس قدر بے آسرا محسوس نہیں کرتا جس قدر بے سہارا وہ خود کو والد کا سائبان ہٹنے کے بعد محسوس کرتا ہے۔ باپ تو ایک ثمر بار شجر سایہ دار کی مانند ہوتا ہے جو زمانے کی گرم ہوائوں کو اپنے جسم پر سہتا ہے اور آپ کو صرف پھل اور سایہ مہیا کرتا ہے۔ باپ خود خواہ کتنے ہی دکھ کیوں سہہ رہا ہو، ہمیشہ پوری کوشش کرتا ہے کہ اپنی اولاد کو سدا سکھ دے سکے، اپنی اولاد کی ہر طرح سے حفاظت کرسکے۔ اگرچہ سورج حدت کا منبع ہوتا ہے مگر اس کے نہ ہونے سے ساری دنیا اندھیروں میں ڈوب جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح باپ کا پیار بھی اس کی ڈانٹ ڈپٹ میں ہی چھپا ہوتا ہے ۔
جوشِ جوانی اور خود کو عقل کُل تسلیم کرنے کے باعث میں خود بھی بسا اوقات اپنے والد کو تلخ لہجے میں بہت کچھ کہہ دیتا ہوں مگر سکوت و تنہائی کے عالم میں مجھے اپنے ہی الفاظ کی بازگشت چین نہیں لینے دیتی۔ ایسے میں آنکھوں سے ڈھلک جانے والے آنسوئوں میں ربِ دو جہاں کے حضور یہی دعا پنہاں ہوتی ہے کہ
[poll id="495"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
باپ سے زیادہ وقت دوستوں کے ساتھ گزارنے والوں اور فیس بک پر ہی ''فادرز ڈے'' منا لینے والوں کو کبھی بھی اپنے والد کی حقیقی قدر معلوم نہیں ہوسکتی، بالکل ایسے جس طرح چھتری یا سائبان کی قدر صرف اسی کو معلوم ہوتی ہے جسے کڑی دھوپ اور طوفانی بارش کا سامنا رہا ہو۔ اسی طرح والد کی حقیقی منزلت بھی انہی لوگوں پر عیاں ہوتی ہے جو حالات کی دھوپ اور بارش کی زد میں رہے ہوں۔ جو یہ جانتے ہوں کہ جب آفتاب دوران سوا نیزے پر آن موجود ہو تو پھر خود کو جھلسنے سے کیسے بچایا جاتا ہے؟ جب ندامت کا اَبرِ مسلسل برستا ہو تو پھر کس سائبان، کس چھتری تلے پناہ مل سکتی ہے؟ ایسے میں صرف اور صرف ایک باپ کا ہی سایہ ہوتا ہے جو ہر طرح کی دھوپ و بارش خود پر سہتا ہے تا کہ آپ کو پناہ مہیا کرسکے۔
جب سارا سال باپ کے سامنے اونچا بولنے کو ہم باعثِ فخر سمجھتے رہیں گے، اس کی نافرمانی کو اپنا فریضہ اولین گردانتے رہیں گے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ محض ایک دن اسے ''ہیپی فادرز ڈے'' کا میسج بھیج کر ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہوجائیں۔ جس باپ نے ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھایا ہو اس سے یوں ہاتھ نہیں چھڑایا جا سکتا۔ جس نے اپنے منہ کا نوالہ اپنی اولاد کے منہ میں ڈالا ہو اس سے نظریں کیسے چرائی جا سکتی ہیں؟ باپ کی صحبت سے دور بھاگ کر دوستوں کی محفل میں بیٹھنے والوں کو باپ کی قدر اسی دن معلوم ہوتی ہے جس دن یہ سائبان منوں مٹی تلے دفن ہو چکا ہو۔
ہمارے ہاں ماں کی محبت تو ہر کسی کو نظر آتی ہے مگر باپ کی شفقت عموماً ڈانٹ ڈپٹ میں دب کر رہ جاتی ہے، حالانکہ ماں کی شفقت اور باپ کی ڈانٹ ڈپٹ دونوں ہی تربیت کے اہم ترین جز ہیں۔ اگر خدا نے جنت کو ماں کے قدموں تلے چھپایا ہے تو باپ کی دعا کو بھی اولاد کے حق میں سب سے جلد قبول ہونے والی دعا کا درجہ دیا ہے۔ باپ کی ناراضی کو خالقِ دو جہاں اپنی ناراضی قرار دیتا ہے مگر اِن سب کے باوجود باپ کی اس طرح سے قدر نہیں کی جاتی کہ جس طرح کی محبت و لگاو ماں کے ساتھ ظاہر کیا جاتا ہے۔
نوشتہِ دیوار تو یہی ہے کہ جنہوں نے اپنے والد کی سختی برداشت کی، انہی کو جہاں میں کمال حاصل ہوا۔ اپنے والد کا ادب کرنے والے ہی اپنی اولاد کے سامنے لائقِ احترام ٹھہرے۔ والد کی نصیحتیں سننے والوں کو کبھی لوگوں کی باتیں نہیں سننی پڑتیں۔ جن کی نگاہیں باپ کے سامنے جھکی رہتی ہیں وہی دنیا کے سامنے سر اُٹھا کر جی سکتے ہیں۔ باپ کی زندگی تو اولاد کیلئے مستقبل کا ایک آئینہ ہوتی ہے جس میں دیکھ کر آگے سنبھل کر چلا جاتا ہے اور جو بھی اپنے باپ کے تجرباتِ حیات سے سیکھ کر آگے بڑھتا ہے وہ کسی بھی میدان میں ناکام نہیں ہوتا، اور نہ ہی وہ ہوسکتا ہے۔
کوئی شخص خواہ کتنے ہی دعوے کرلے مگر میرا یہ دعویٰ ہے کہ والد کی حقیقی قدر اُسے اسی دن معلوم ہوگی جس دن عملی زندگی میں قدم رکھا جائے گا۔ کیونکہ تبھی یہ علم ہوتا ہے کہ باپ کا سایہ کسی کے لئے کیا مقام رکھتا ہے؟ زمانے کے جبڑوں سے اپنا رزق کھینچنا کس قدر مشکل ہوتا ہے؟ اپنے حق کے لئے پوری دنیا سے تنہا کیسے لڑا جاتا ہے اور جب تھک ہار کر گرنا ہے تو رونے کے لئے آپ کو کونسا کاندھا میسر ہوگا؟ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آپ کو سر چھپانے کو آپ کو کوئی دامن نہیں ملتا، اُس وقت آپ کی نظروں میں کوئی ایسا شخص نہیں ہوتا جس کے پاس جا کر آپ خود کو محفوظ محسوس کرسکیں۔ تمام خون آشام درندے آپ کے گرد اکھٹے ہوجاتے ہیں اور خونخوار نظروں سے آپ کو گھورنے لگتے ہیں کہ آپ ذرا سے کہیں پر غافل ہوں اور وہ آپ کو بھنبھور ڈالیں۔ ایسے میں صرف ایک والد کا ہی سائبان ہوتا ہے جس کے تلے انسان خود کو حقیقی معنوں میں محفوظ تصور کرتا ہے۔ یہی ایک سائبان انسان کے لئے اصل حرز و پناہ گاہ ثابت ہوتا ہے۔
اگر سر پر سے آسمان کی چھت بھی ہٹ جائے توکوئی خود کو اس قدر بے آسرا محسوس نہیں کرتا جس قدر بے سہارا وہ خود کو والد کا سائبان ہٹنے کے بعد محسوس کرتا ہے۔ باپ تو ایک ثمر بار شجر سایہ دار کی مانند ہوتا ہے جو زمانے کی گرم ہوائوں کو اپنے جسم پر سہتا ہے اور آپ کو صرف پھل اور سایہ مہیا کرتا ہے۔ باپ خود خواہ کتنے ہی دکھ کیوں سہہ رہا ہو، ہمیشہ پوری کوشش کرتا ہے کہ اپنی اولاد کو سدا سکھ دے سکے، اپنی اولاد کی ہر طرح سے حفاظت کرسکے۔ اگرچہ سورج حدت کا منبع ہوتا ہے مگر اس کے نہ ہونے سے ساری دنیا اندھیروں میں ڈوب جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح باپ کا پیار بھی اس کی ڈانٹ ڈپٹ میں ہی چھپا ہوتا ہے ۔
جوشِ جوانی اور خود کو عقل کُل تسلیم کرنے کے باعث میں خود بھی بسا اوقات اپنے والد کو تلخ لہجے میں بہت کچھ کہہ دیتا ہوں مگر سکوت و تنہائی کے عالم میں مجھے اپنے ہی الفاظ کی بازگشت چین نہیں لینے دیتی۔ ایسے میں آنکھوں سے ڈھلک جانے والے آنسوئوں میں ربِ دو جہاں کے حضور یہی دعا پنہاں ہوتی ہے کہ
''اے خدا میرے ابو سلامت رہیں، ان کا سایہ میرے سر پر تا قیامت رہے۔ آمین!''
[poll id="495"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس