کرہ ارض پر مخلوقات کے تیزی سے ختم ہونے کا مرحلہ شروع ہوچکا ہے تحقیق

اس طرح کا آخری مرحلہ ساڑھے 6 کروڑ سال قبل پیش آيا تھا جس میں ڈائنا سور ختم ہو گئے تھے، ماہرین


ویب ڈیسک June 20, 2015
سنہ 1900 سے اب تک 400 سے زیادہ ریڑھ کی ہڈی والے جانداروں کی اقسام نایاب ہوگئی ہیں، فوٹو فائل

امریکا میں کی جانے والی نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کرہ ارض پر مخلوقات کے تیزی سے ختم ہونے کا مرحلہ شروع ہوچکا ہے اور 2 انسانی نسلوں تک 75 فیصدر مخلوقات ختم ہوجائیں گی جب کہ انسان بھی ان میں شامل ہوسکتا ہے۔

تین امریکی جامعات اسٹینفورڈ، پرنسٹن اور برکلے میں کی گئی اس تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا میں ریڑھ کی ہڈی والے جاندار 114 گنا زیادہ تیزی سے ختم ہو رہے ہیں جب کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسی ایک تحقیق کچھ عرصہ قبل ڈیوک یونیورسٹی نے شائع کی تھی جو تازہ رپورٹ کی تصدیق کرتی نظر آتی ہے۔ اس رپورٹ کے ایک محقق کا کہنا ہے کہ دنیا اب وسیع پیمانے پر ناپیدی کے چھٹے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے جب کہ اس طرح کا آخری مرحلہ ساڑھے 6 کروڑ سال قبل پیش آيا تھا جس میں ڈائنا سور ختم ہو گئے تھے اور عین ممکن ہے کہ یہ تباہی ایک بڑے شہابیے کے زمین سے ٹکرانے کے سبب ہوئی ہو۔

نئی تحقیق کے سربراہ مصنف جیررڈو سیبیلوز نے اس تحقیق کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایسا جاری رہا تو زندگی کو پھر سے بحال ہونے میں کروڑوں سال لگ جائيں گے اور ہماری اپنی نسل کے جلد ہی ناپید ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ سائنسدانوں نے جانداروں کے فوسل کی جانچ سے ریڑھ کی ہڈی والے جانداروں کے ناپید ہونے کی شرح کا تاریخی طور پر تجزیہ کیا ہے جس سے انہیں یہ پتا چلا کہ ناپید ہونے کی شرح اس وقت سے 100 گنا سے بھی زیادہ ہے جب بڑے پیمانے پر ناپید ہونے کا مرحلہ شروع نہیں ہواتھا۔

رپورٹ میں بتایا گيا ہے کہ سنہ 1900 سے اب تک 400 سے زیادہ ریڑھ کی ہڈی والے جانداروں کی اقسام نایاب ہوگئی ہیں جس کا سبب آب و ہوا کی تبدیلی، آلودگی اور جنگلات میں کمی کو شمار کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایکو سسٹم جس طرح برباد ہو رہا ہے اگر ایسے ہی جاری رہا تو شہد کی مکھیاں تین انسانی نسلوں کی مدت میں اپنی نسل کوبڑھانے کی قوت کھو دیں گی۔

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر پال ارلچ کا کہنا ہے کہ دنیا میں اس وقت ایسی مخلوقات بھی ہیں جو نیم مردہ ہیں۔ فطرت کے تحفظ کی بین الاقوامی یونین آئی یو سی این کے مطابق ہر سال تقریباً 50 اقسام کے جاندار ناپید ہونے کے قریب پہنچ رہے ہیں جب کہ خشکی اور تری دونوں جگہ رہنے والے جانداروں میں تقریباً 41 فیصد کو ناپیدی کا خطرہ ہے اور ممالیہ (دودھ پلانے والے جانداروں) میں 25 فیصد ختم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

گذشتہ سال ڈیوک یونیورسٹی کیرولینا کے ماہر حیاتیات نے بھی متنبہ کیا تھا کہ انسان وسیع پیمانے پر ناپید ہونے کے چھٹے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں ناپید ہونے کے عمل کو 114 گنا تیزی کے بجائے ہزار گنا بتایا تھا۔ نئی تحقیق کے مصنفوں کا کہنا ہے کہ ابھی بھی حیاتیاتی تنوع میں ڈرامائی رفتار سے آنے والی کمی کو شدید تحفظاتی پروگرام کے ذریعے روکا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے بہت تیزی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں