اکیس جون کامریڈ عزیز اللہ کی 13 ویں برسی
سندھ ہاری کمیٹی کے پلیٹ فارم سے کامریڈ برکت اللہ آزاد کو صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے طور پر الیکشن لڑوایا۔
1918 میں پیلی بھیت، یوپی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حبیب اللہ سامراج مخالف خیالات کے حامی تھے۔ ان کے والد نے انھیں بچپن میں ہی کرشن چندر کے ناول پڑھائے تھے۔ بعدازاں کامریڈ عزیز اللہ کے دادا سمیع اللہ کو انگریزوں نے دہلی میں پھانسی دی تھی۔ وہ ''بھارتیہ نوجوان سبھا'' نامی تنظیم میں شامل ہوگئے جس کے رہنما برصغیر کے عظیم انقلابی رہنما بھگت سنگھ تھے۔
انھوں نے یوپی میں رہتے ہوئے برطانوی سامراج کے خلاف کئی نمایاں کارنامے انجام دیے۔ جن میں انگریزوں سے بندوقیں چھیننا بھی شامل تھا۔ پھر پیلی بھیت میں ''کسان سبھا'' میں شامل ہوئے اورجاگیرداری کے خاتمے کے لیے جدوجہد شروع کردی۔ بعدازاں کانگریس میں شامل ہوئے۔ اس وقت کانگریس میں دو نقطہ نگاہ پائے جاتے تھے۔ ایک کو نرم پنتھی اور دوسرے کو گرم پنتھی کہا جاتا تھا۔ یعنی لبرل اور انقلابی۔ عزیز اللہ چونکہ سوشلسٹ خیالات کے تھے۔
اس لیے وہ گرم پنتھی کے طور پر جانے جاتے تھے۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے جب یہ فیصلہ لیا کہ ہمیں جرمنی کے خلاف برطانیہ کا ساتھ دینا چاہیے تو کامریڈ عزیز اللہ اس موقف کے خلاف تھے۔ ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ جواہر لعل نہرو کانگریس کے کارکنوں کو تقسیم ہندوستان پر رضامند کرنے کے لیے پیلی بھیت آئے تو کامریڈ عزیز اللہ نے اس تقسیم کی مخالفت کی۔ جس پر نہرو نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ جلسہ گاہ میں خاکسار تحریک کے ایک کارکن ولی محمد بھی شریک تھے۔
انھوں نے کامریڈ سائیں عزیز اللہ کے اس موقف کو سراہتے ہوئے اپنی بیٹی سے کامریڈ عزیز اللہ کی شادی کی تجویز دی، جسے سائیں عزیز اللہ نے قبول کرلیا اور (فہمیدہ) ان کی شریک حیات بنیں۔ پاکستان بننے کے بعد کامریڈ سائیں عزیز اللہ جیکب آباد آگئے اور وہاں ایک اسکول میں سائنس ٹیچر کے طور پر پڑھانے لگے۔ جیکب آباد میں رہتے ہوئے وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شامل ہوگئے اور سندھ ہاری کمیٹی میں سرگرم ہوگئے۔ انھوں نے جیکب آباد میں استادوں کی تنظیم بھی تشکیل دی۔
سندھ ہاری کمیٹی کے پلیٹ فارم سے کامریڈ برکت اللہ آزاد کو صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے طور پر الیکشن لڑوایا۔ برکت اللہ آزاد غیر سرکاری طور پر جیت گئے اور ریڈیو سے جیتنے کا اعلان بھی ہوگیا لیکن سرکار نے ہارنے کا اعلان کروایا۔ یہی صورتحال اسی سال 1951 میں لاہور سے کامریڈ مرزا ابراہیم کا ہوا۔ وہ بھی قومی اسمبلی کے امیدوار تھے اور کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار کے طور پر جیت گئے تھے بعدازاں ہارنے کا اعلان ہوا۔ یہاں تو ایسا ہی ہوتا آرہا ہے۔ سوبھوگیان چندانی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ 1951 میں ہی کامریڈ عزیز اللہ کراچی جیکب لائن منتقل ہوگئے اور بعدازاں شاہ فیصل کالونی آگئے۔
کراچی آنے کے بعد بھی ہاری کمیٹی میں کام کرتے رہے۔ چونکہ انھوں نے سندھی زبان سیکھ لی تھی اس لیے سندھی میں تقریر بھی کرتے تھے۔ کراچی کے لوگوں نے انھیں سائیں کہنا شروع کردیا اور یہ لفظ ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ اس زمانے میں لائٹ ہاؤس بندرروڈ پر کمیونسٹ پارٹی کا دفتر ہوا کرتا تھا اورکامریڈ حسن ناصر شہید اور کامریڈ شانتا مرحومہ بلاناغہ دفتر میں ہوا کرتی تھیں۔ کامریڈ شانتا نے تو دفتر میں باقاعدہ کمیون بنایا تھا۔ 2 آنے میں دال چاول کھائیں اور رات کو رہ بھی سکتے تھے۔ کراچی میں کامریڈ عزیز اللہ چاچا علی جان کے ساتھ مل کر مزدوروں میں کام کرتے تھے اور عظیم الشان جلسے اور جلوس نکالتے تھے۔
1952 میں کامریڈ سائیں عزیز اللہ نے کوئٹہ میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد ڈالی اور پھر پشاور پختونخوا چلے گئے۔ وہاں انھوں نے افضل بنگش،کاکا صنوبرخان اور کاکا خوشحال خان پر مشتمل پارٹی کا ایک مرکزی سیل قائم کیا۔ اس کے سیکریٹری افضل بنگش ہوا کرتے تھے۔ سندھ ہاری کمیٹی کا کارہائے نمایاں میں ہاری الائی تحریک تھی۔ اس تحریک میں کامریڈ سائیں عزیز اللہ اور عزیز سلام بخاری پیش پیش تھے۔ سندھ ہاری کمیٹی کا حکومت سے مطالبہ تھا کہ ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کو 25 کے بجائے 50 ہزار روپے دے کر حکومت انھیں خود ایسا کاروبار کرکے دے جس سے ان کا گزارا ہوسکے اور ہاریوں کو 25 ایکڑ کے بجائے 50ایکڑ زمین دی جائے اور ہل اور بیل، کھاد اور بیج بھی مہیا کیا جائے۔
یہ تحریک کامیاب ہوئی اور حکومت ماننے پر مجبور ہوئی۔ کامریڈ سائیں عزیز اللہ نے 1 ہزار کسانوں کو حیدرآباد سے ٹھٹھہ لے جاکر بسایا۔ اسی طرح وہ شاہ فیصل کالونی جہاں رہائش پذیر تھے یہاں سو کوارٹر کچے مکانات کے نام سے آبادی مشہور تھی۔ ان کے 12 نکاتی بنیادی مسائل کے حل کے لیے تحریک چلائی۔ اس میں ان کے ساتھ ''انجمن مفاد نسواں'' کی بیگم باجی مرحومہ، ڈاکٹر منظور احمد مرحوم، کامریڈ شرف علی پیش پیش تھے۔ بیگم باجی کو تو ایک مرتبہ گرفتار کرکے شاہ فیصل کالونی کے لاک اپ میں قید کردیا گیا تھا۔ کامریڈ سائیں عزیز اللہ کی جلائی ہوئی مشعل آج بھی جوالا بن کر آگے بڑھ رہی ہے۔
گزشتہ دنوں پنجاب کے کسانوں نے اپنے دیرینہ مطالبات کے لیے ہزاروں کی تعداد میں لاہور اسمبلی ہاؤس کے سامنے زبردست مظاہرے کیے۔ ایک مظاہرے میں تو 20 ہزار کسانوں نے شرکت کی تھی۔
1400 کسانوں کو حکومت نے گرفتار کرکے لاہور کے مختلف لاک اپ میں بند کردیا تھا۔ بعدازاں معروف انقلابی گلوکار اور انٹرنیشنل یوتھ اینڈ ورکرز موومنٹ کے رہنما جواد احمد کی مداخلت پر حکومت اور پنجاب کسان اتحاد کے نمائندوں نے مذاکرات کیے اور حکومت نے مسائل حل کرنے کا وعدہ کیا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔ مسائل حل نہ ہونے پر کسانوں نے پھر مظاہرہ کیا۔ ابھی حال ہی میں بجٹ میں کسانوں کے مسائل پر توجہ نہ دینے پر پنجاب کسان بورڈ کی جانب سے اسمبلی کے سامنے دودھ انڈیل دیا۔ جس پر حکومت نے وعدہ کیا کہ ان کے مسائل پر غور کیا جائے گا۔
اب دیکھیے کیا ہوتا ہے؟ آج بھی مزدوروں کا بھی یہی حال ہے۔ حکومت نے 13000 اور15000 روپے کم ازکم تنخواہ کا اعلان کیا ہے لیکن زیادہ تر اداروں میں 8000 روپے ہی تنخواہ ملتی ہے۔ شادی ہالوں، پارکوں، ہوٹلوں، ملوں، کارخانوں، فیکٹریوں، وکیلوں اور ڈاکٹروں کے منشیوں کو 8 ہزار روپے سے زیادہ تنخواہیں نہیں ملتیں۔ آج مزدوروں، کھیت مزدوروں، دیہاڑی دار محنت کشوں، ٹھیکے پر کام کرنے والے مزدوروں کو 10 سے 12 گھنٹے کام کرنے پڑتے ہیں۔
جتنا وقت گزرتا جا رہا ہے سرمایہ داروں کے پاس دولت کے انبار لگ رہے ہیں تو دوسری جانب بھوکے ننگے عوام بے روزگاری، افلاس اور فاقہ کشی میں بلک بلک کر مر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار یکم مئی کے تہوار پر دنیا کے ہزاروں شہروں میں لاکھوں کروڑوں محنت کشوں نے اپنے معاملات پر جلوس نکالے۔ کامریڈ سائیں عزیز اللہ کا نظریہ آزاد سوشلزم کا تھا۔ جس کے حصول کے لیے پاکستان سمیت ساری دنیا کے عوام جدوجہد میں برسرپیکار ہیں۔
وہ دن جلد آنے والا ہے جب ملکوں کی سرحدیں ختم ہوجائیں گی، ملکیت کا تصور ختم ہوجائے گا، طبقات ختم ہوجائیں گے انسانوں میں تقریبات ناپید ہوجائیں گی، پھر دنیا کی ساری دولت سارے لوگوں کی ہوگی، کوئی بھوکا مرے گا اور نہ کوئی ارب پتی ہوگا۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا۔ کوئی طبقہ نہ ہوگا ۔
انھوں نے یوپی میں رہتے ہوئے برطانوی سامراج کے خلاف کئی نمایاں کارنامے انجام دیے۔ جن میں انگریزوں سے بندوقیں چھیننا بھی شامل تھا۔ پھر پیلی بھیت میں ''کسان سبھا'' میں شامل ہوئے اورجاگیرداری کے خاتمے کے لیے جدوجہد شروع کردی۔ بعدازاں کانگریس میں شامل ہوئے۔ اس وقت کانگریس میں دو نقطہ نگاہ پائے جاتے تھے۔ ایک کو نرم پنتھی اور دوسرے کو گرم پنتھی کہا جاتا تھا۔ یعنی لبرل اور انقلابی۔ عزیز اللہ چونکہ سوشلسٹ خیالات کے تھے۔
اس لیے وہ گرم پنتھی کے طور پر جانے جاتے تھے۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے جب یہ فیصلہ لیا کہ ہمیں جرمنی کے خلاف برطانیہ کا ساتھ دینا چاہیے تو کامریڈ عزیز اللہ اس موقف کے خلاف تھے۔ ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ جواہر لعل نہرو کانگریس کے کارکنوں کو تقسیم ہندوستان پر رضامند کرنے کے لیے پیلی بھیت آئے تو کامریڈ عزیز اللہ نے اس تقسیم کی مخالفت کی۔ جس پر نہرو نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ جلسہ گاہ میں خاکسار تحریک کے ایک کارکن ولی محمد بھی شریک تھے۔
انھوں نے کامریڈ سائیں عزیز اللہ کے اس موقف کو سراہتے ہوئے اپنی بیٹی سے کامریڈ عزیز اللہ کی شادی کی تجویز دی، جسے سائیں عزیز اللہ نے قبول کرلیا اور (فہمیدہ) ان کی شریک حیات بنیں۔ پاکستان بننے کے بعد کامریڈ سائیں عزیز اللہ جیکب آباد آگئے اور وہاں ایک اسکول میں سائنس ٹیچر کے طور پر پڑھانے لگے۔ جیکب آباد میں رہتے ہوئے وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شامل ہوگئے اور سندھ ہاری کمیٹی میں سرگرم ہوگئے۔ انھوں نے جیکب آباد میں استادوں کی تنظیم بھی تشکیل دی۔
سندھ ہاری کمیٹی کے پلیٹ فارم سے کامریڈ برکت اللہ آزاد کو صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے طور پر الیکشن لڑوایا۔ برکت اللہ آزاد غیر سرکاری طور پر جیت گئے اور ریڈیو سے جیتنے کا اعلان بھی ہوگیا لیکن سرکار نے ہارنے کا اعلان کروایا۔ یہی صورتحال اسی سال 1951 میں لاہور سے کامریڈ مرزا ابراہیم کا ہوا۔ وہ بھی قومی اسمبلی کے امیدوار تھے اور کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار کے طور پر جیت گئے تھے بعدازاں ہارنے کا اعلان ہوا۔ یہاں تو ایسا ہی ہوتا آرہا ہے۔ سوبھوگیان چندانی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ 1951 میں ہی کامریڈ عزیز اللہ کراچی جیکب لائن منتقل ہوگئے اور بعدازاں شاہ فیصل کالونی آگئے۔
کراچی آنے کے بعد بھی ہاری کمیٹی میں کام کرتے رہے۔ چونکہ انھوں نے سندھی زبان سیکھ لی تھی اس لیے سندھی میں تقریر بھی کرتے تھے۔ کراچی کے لوگوں نے انھیں سائیں کہنا شروع کردیا اور یہ لفظ ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ اس زمانے میں لائٹ ہاؤس بندرروڈ پر کمیونسٹ پارٹی کا دفتر ہوا کرتا تھا اورکامریڈ حسن ناصر شہید اور کامریڈ شانتا مرحومہ بلاناغہ دفتر میں ہوا کرتی تھیں۔ کامریڈ شانتا نے تو دفتر میں باقاعدہ کمیون بنایا تھا۔ 2 آنے میں دال چاول کھائیں اور رات کو رہ بھی سکتے تھے۔ کراچی میں کامریڈ عزیز اللہ چاچا علی جان کے ساتھ مل کر مزدوروں میں کام کرتے تھے اور عظیم الشان جلسے اور جلوس نکالتے تھے۔
1952 میں کامریڈ سائیں عزیز اللہ نے کوئٹہ میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد ڈالی اور پھر پشاور پختونخوا چلے گئے۔ وہاں انھوں نے افضل بنگش،کاکا صنوبرخان اور کاکا خوشحال خان پر مشتمل پارٹی کا ایک مرکزی سیل قائم کیا۔ اس کے سیکریٹری افضل بنگش ہوا کرتے تھے۔ سندھ ہاری کمیٹی کا کارہائے نمایاں میں ہاری الائی تحریک تھی۔ اس تحریک میں کامریڈ سائیں عزیز اللہ اور عزیز سلام بخاری پیش پیش تھے۔ سندھ ہاری کمیٹی کا حکومت سے مطالبہ تھا کہ ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کو 25 کے بجائے 50 ہزار روپے دے کر حکومت انھیں خود ایسا کاروبار کرکے دے جس سے ان کا گزارا ہوسکے اور ہاریوں کو 25 ایکڑ کے بجائے 50ایکڑ زمین دی جائے اور ہل اور بیل، کھاد اور بیج بھی مہیا کیا جائے۔
یہ تحریک کامیاب ہوئی اور حکومت ماننے پر مجبور ہوئی۔ کامریڈ سائیں عزیز اللہ نے 1 ہزار کسانوں کو حیدرآباد سے ٹھٹھہ لے جاکر بسایا۔ اسی طرح وہ شاہ فیصل کالونی جہاں رہائش پذیر تھے یہاں سو کوارٹر کچے مکانات کے نام سے آبادی مشہور تھی۔ ان کے 12 نکاتی بنیادی مسائل کے حل کے لیے تحریک چلائی۔ اس میں ان کے ساتھ ''انجمن مفاد نسواں'' کی بیگم باجی مرحومہ، ڈاکٹر منظور احمد مرحوم، کامریڈ شرف علی پیش پیش تھے۔ بیگم باجی کو تو ایک مرتبہ گرفتار کرکے شاہ فیصل کالونی کے لاک اپ میں قید کردیا گیا تھا۔ کامریڈ سائیں عزیز اللہ کی جلائی ہوئی مشعل آج بھی جوالا بن کر آگے بڑھ رہی ہے۔
گزشتہ دنوں پنجاب کے کسانوں نے اپنے دیرینہ مطالبات کے لیے ہزاروں کی تعداد میں لاہور اسمبلی ہاؤس کے سامنے زبردست مظاہرے کیے۔ ایک مظاہرے میں تو 20 ہزار کسانوں نے شرکت کی تھی۔
1400 کسانوں کو حکومت نے گرفتار کرکے لاہور کے مختلف لاک اپ میں بند کردیا تھا۔ بعدازاں معروف انقلابی گلوکار اور انٹرنیشنل یوتھ اینڈ ورکرز موومنٹ کے رہنما جواد احمد کی مداخلت پر حکومت اور پنجاب کسان اتحاد کے نمائندوں نے مذاکرات کیے اور حکومت نے مسائل حل کرنے کا وعدہ کیا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔ مسائل حل نہ ہونے پر کسانوں نے پھر مظاہرہ کیا۔ ابھی حال ہی میں بجٹ میں کسانوں کے مسائل پر توجہ نہ دینے پر پنجاب کسان بورڈ کی جانب سے اسمبلی کے سامنے دودھ انڈیل دیا۔ جس پر حکومت نے وعدہ کیا کہ ان کے مسائل پر غور کیا جائے گا۔
اب دیکھیے کیا ہوتا ہے؟ آج بھی مزدوروں کا بھی یہی حال ہے۔ حکومت نے 13000 اور15000 روپے کم ازکم تنخواہ کا اعلان کیا ہے لیکن زیادہ تر اداروں میں 8000 روپے ہی تنخواہ ملتی ہے۔ شادی ہالوں، پارکوں، ہوٹلوں، ملوں، کارخانوں، فیکٹریوں، وکیلوں اور ڈاکٹروں کے منشیوں کو 8 ہزار روپے سے زیادہ تنخواہیں نہیں ملتیں۔ آج مزدوروں، کھیت مزدوروں، دیہاڑی دار محنت کشوں، ٹھیکے پر کام کرنے والے مزدوروں کو 10 سے 12 گھنٹے کام کرنے پڑتے ہیں۔
جتنا وقت گزرتا جا رہا ہے سرمایہ داروں کے پاس دولت کے انبار لگ رہے ہیں تو دوسری جانب بھوکے ننگے عوام بے روزگاری، افلاس اور فاقہ کشی میں بلک بلک کر مر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار یکم مئی کے تہوار پر دنیا کے ہزاروں شہروں میں لاکھوں کروڑوں محنت کشوں نے اپنے معاملات پر جلوس نکالے۔ کامریڈ سائیں عزیز اللہ کا نظریہ آزاد سوشلزم کا تھا۔ جس کے حصول کے لیے پاکستان سمیت ساری دنیا کے عوام جدوجہد میں برسرپیکار ہیں۔
وہ دن جلد آنے والا ہے جب ملکوں کی سرحدیں ختم ہوجائیں گی، ملکیت کا تصور ختم ہوجائے گا، طبقات ختم ہوجائیں گے انسانوں میں تقریبات ناپید ہوجائیں گی، پھر دنیا کی ساری دولت سارے لوگوں کی ہوگی، کوئی بھوکا مرے گا اور نہ کوئی ارب پتی ہوگا۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا۔ کوئی طبقہ نہ ہوگا ۔