پکوڑے یا سموسے

یہاں قانون اور انصاف کی باتیں کتابوں میں اچھی لگتی ہے مگر یہاں کوئی بھی سانحہ ہماری روح کو جگانے کے لیے چھوٹا ہے

muhammad.anis@expressnews.tv

کیا آپ میں سے کوئی یہ بات مان سکتا ہے کہ ایک دس سال کا لڑکا کسی لڑکی سے ناجائز تعلقات رکھ سکتا ہے؟ کیا کوئی اس بات کو مان سکتا ہے کہ ایک ایسا لڑکا جو ابھی بالغ نہیں ہوا مگر وہ ایسا ہوچکا ہے جوکسی لڑکی کے ساتھ زیادتی کرسکتا ہے ؟ کیا اس ملک میں ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ دس سال کا لڑکا ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کرے اور اُس کا مقدمہ پولیس کے پاس درج نہیں ہوتا لیکن سب کے سامنے اُسے اور اُس کے خاندان کو سزا سُنا دی جائے؟یہ کیسا ملک ہے جہاں قانون اور انسانیت کو روایت کے قدموں میں رکھ دیا جاتا ہے۔

یہاں قانون اور انصاف کی باتیں کتابوں میں اچھی لگتی ہے مگر یہاں کوئی بھی سانحہ ہماری روح کو جگانے کے لیے چھوٹا ہے ۔آئیے یہ جو لوگ باتیں کرتے ہیں کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے انھیں آئینہ دکھاتے ہیں کہ کس طرح یہاں ہر راستے پر انسانیت سسک سسک کر مر رہی ہے ۔

یہ کراچی نہیں کشمور ہے اس لیے شاید یہاں کی ناانصافیاں ٹی وی چینلز پر ہیڈ لائن نہیں بنا سکتی ۔ مگر یہاں برادری اور قبائل کے درمیان خونی تصادم معمول کی بات ہے ۔ جہاں ایک کے محلے اور علاقے میںکوئی دوسرا قدم تک نہیں رکھ سکتا ۔ جہاں نفرتوں کی جڑیں اتنی گہری ہوتی جارہی ہیں کہ ہر ایک نے اپنا قانون بنا رکھا ہے ۔وہی ایک گائوں نہال باکھرانی میں انصاف اور انسانیت کی موت ہوئی ہے ۔ یہاں دو برادریاں باکھرانی اور بنگلانی رہتی ہیں ۔

دونوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلافات معمول کی بات ہے ۔ وہی ایک بچہ تیمور بنگلانی بھی رہتا ہے ۔ اس بچے پر باکھرانی برادری کی طرف سے یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس کے باکھرانی برادری کی ایک لڑکی کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں ۔اس الزام کے بعد دونوں برادریوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ۔

پہلا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی دس سال کا لڑکا اس حد تک شعور رکھتا ہے کہ وہ کسی لڑکی سے باقاعدہ کوئی ناجائز تعلق رکھ سکتا ہے ۔ اور دوسری بات یہ کہ اگر اس طرح کا کوئی الزام تھا تو اس کی رپورٹ پولیس میں درج ہونی چاہیے تھی یا نہیں ؟ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ عام طور پر پورے پاکستان میں اس طرح کے برادریوں اور قبائل کے درمیان تصادم کی رپورٹ پولیس میں در ج ہی نہیں ہوتی اور ہ اپنے فیصلے خود ہی کرتے ہیں ۔پولیس کے پاس معاملہ بھی صرف اُس وقت جاتا ہے جب مخالف کو عدالتوں کے چکر لگوانے ہوں ۔ اب اس مسئلے کا حل ایک جرگہ تھا ۔ سندھ اور پاکستان کے قانون کے مطابق جرگہ غیر قانونی ہے لیکن یہاں ہر روز ہی جرگے ہوتے ہیں ۔ جو کھلے عام ہمارا مذاق اڑاتے ہیں اور ہمارے نام نہاد قانون کے علمبرداروں سے کہتے ہیں کہ اگر ہمت ہے تو کچھ کر کے دکھائو۔


قانون کے رکھوالے تو معلوم نہیں کہاں تھے لیکن اس علاقے کی ایک طاقت ور شخصیت جہانگیر بنگلانی کی سربراہی میں جرگہ بلایا گیا ۔ جہاں دونوں برادریوں کے لوگ موجود تھے ۔ اور پھر سائیں نے فیصلہ سنایا کہ تیمور بنگلانی قصور وار ہے اور اگر اس کے گھر والوں کو یہاں رہنا ہے تو فیصلہ ماننا پڑے گا ۔ جس کے مطابق اس ناجائز تعلق قائم کرنے کی سزا سات لاکھ روپے ہیں ۔ واہ دیکھا آپ نے سائیں کا انصاف ؟اور اب اس پر عمل درآمد کرانا بھی سائیں کی ذمے داری ہے اس لیے سائیں نے فورا حکم دیا کہ ابھی ایڈوانس رقم بھی دی جائے ۔ مجبور خاندان جو بڑی مشکل سے اپنا خرچ پورا کرتا ہے وہ اتنی بڑی رقم کہا ںسے دے سکتا ہے ۔

تو سائیں نے مہربانی کی اور کہا کہ یہ سات لاکھ روپے تین میں مہینے میں ادا کر دیے جائیں لیکن کم سے کم پچاس ہزار روپے ابھی فوری طور پر جمع کرا دیے جائے ورنہ اس کی زمین لے لی جائے ۔ مجبور خاندان نے یہاں وہاں سے کر کے پچاس ہزار روپے کا فوری بندوبست کیا اور رقم ادا کی ۔ عام طور پر وہاں اس طرح کی برادریوں کے درمیان تصادم کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔ جہاں زمین اور پانی کا جھگڑا ہوتا ہے جس پر قبضے کے لیے اس طرح کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں اب آپ خود سوچیں کہ ہماری روایت کے مطابق جو شخص ایک خاص برادری میں رہتا ہے اس کی جگہ پر قبضے کے لیے اُس کے بیٹے پر اس طرح کا الزام عائد کیا گیا ۔ اب یہ قرض بھی طاقت ور لوگ ہی دیتے ہیں اور پھر اس کے عوض جگہ دے دی جاتی ہے لیکن ہمارا قانون تو آپ کو معلوم ہے کب جاگتا ہے ؟

کیا یہ اس طرح کی کہانی صرف کشمورکی ہے ؟ نہیں پورا ملک اس کی لپیٹ میں ہے ۔گزشتہ دنوں اس طرح کی لاقانویت پنجاب کے ضلع لیہ میں بھی دیکھی گئی ۔ ہٹاں بی بی کے بھائی کو عبدالمجید کی بہن سے محبت ہو گئی۔ دونوں کا تعلق الگ الگ خاندان سے تھا ۔رشتہ بھیجا گیا ۔ مگر خاندان کی ناک درمیان میں آگئی اور پھر دونوں نے بغاوت کرکے شادی کرلی ۔ یہاں بھی ایک جر گہ بلایا گیا ۔ قانون اُس وقت ایک گہری سوچ میں تھا اس لیے جرگے کے وقت پہنچ نا سکا اور اُس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہٹاں بی بی کو ونی کردیا جائے اور اُس کی شادی دس سال بڑے عبدالمجید سے کردی گئی ۔

کاش اُس وقت ہمارے لاگ جاگ جاتے ۔ تین سال پہلے یہ شادی کی گئی اور ان کے اس رشتے سے ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی ۔ جس محبت کی سزا عبدالمجید نے ہٹاں بی بی کودی تھی ۔ وہ ہی محبت اب عبدالمجید کو کسی اور سے ہو گئی ، لیکن اس کے لیے ہٹاں بی بی کو راستے سے ہٹانا ضروری تھا ۔ عبدالمجید نے اُس کا گلہ دبایا اوراُس کی لاش کو درخت سے لٹکادیا تاکہ خود کشی لگے ۔ لیکن یہ معاملہ کھل گیا اور عبدالمجید کو گرفتار کر لیا گیا ۔ یہاں پھر دو سوال ہے کہ کسی اورکی محبت کی سزا پہلے ہٹاں بی بی کو زبردستی کی شادی کے طور پر ملی اور پھرکسی اور کی محبت کے لیے اُسے قتل کر دیا گیا ۔ آپ خود بتائیں کہ اگر ہمارا قانون اُس وقت گہری سوچ میں نہ ہوتا جب ہٹاں بی بی کی زبردستی شادی کی جارہی تھی تو کیا بعد میں اُس کا قتل ہوتا ؟

دو الگ الگ جگہوں پر ہونے والے دو سانحات کے بعد میں یہ ہی کہہ سکتا ہوں کہ ان قانون کی موٹی موٹی کتابوں کو تالے لگا کر رکھ دو اور زمین میں دیکھو کہ کیسے پیروں سے انسانیت کو قتل کر دیا جاتا ہے ۔ یہ بڑی بڑی انصاف کی دلیلوں کو بڑے کنواں میں ڈال کر دیکھو کہ یہاں ہر گائوں میں اپنا اپنا قانون کیسے حکومت کرتا ہے ۔ یہاں عورت کو کئی کئی بار اپنی عزت کی بھینٹ چڑھا کر اسے روایت کا نام دیا جاتا ہے ۔

ایک بار یہ فیصلہ کرلیجیے کہ ہمیں کرنا کیا ہے ۔ ہمارا قانون وہ ہے جو ریاست پاکستان کا ہے یا پھر اُن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو جگہ جگہ اپنی حکومتیں قائم کیے ہوئے ہیں ۔ مجھے ایک بار بتا دیجیے کہ اورکتنی ہٹاں بی بی کو کسی اور کے کیے کی سزا ملے گی ۔ مجھے ایک بار یہ سمجھا دیجیے کہ اور کتنے ایسے تیمور ہونگے جن پر جھوٹے الزامات لگا کر اپنے مفادات حاصل کیے جائیں گے ۔ مجھے بس ایک بار کوئی یہ یقین دلا دے کہ میں کس کو سب سمجھو انھیں جو قانون کی موٹی موٹی کتابوں کو مجھ پر ڈال دیتے ہیں یا پھر ان زمین کے خدائوں کے ہاتھ چوموں جو یہاں کے اصل کرتا دھرتا ہیں ۔ مجھے معلوم ہے آپ کے پاس بھی جواب نہیں اس لیے یہ سوچیں کہ رمضان میں اس مہنگائی میں پکوڑے سستے ہیں یا پھر سموسے۔
Load Next Story