بھارت اوربنگلادیش کے درمیان تاریخی زمینی معاہدہ

زمینی معاہدے کی تقریب میں مودی کا کہنا تھا کہ ہم نے آج وہ معاہدہ کیا ہے جو آزادی کے وقت سے التوا میں تھا


آصف زیدی June 21, 2015
ایسے میں چین جہاں پاکستان میں گوادر کی بندرگاہ تعمیر کر رہا ہے وہیں وہ چٹاگانگ کی بندرگاہ بھی بنارہا ہے۔ فوٹو : فائل

گذشتہ دنوں بھارتی وزیر اعظم اور انتہا پسند ہندو تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سرکردہ راہ نما نریندر مودی نے بنگلادیش کا دورہ کیا۔ بھارتی وزیراعظم کے اس دورے میں جہاں دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کے فروغ، تجارت، توانائی کے منصوبوں، ترقیاتی پروجیکٹس اور دیگر باہمی دل چسپی کے معاملات پر معاہدے کیے گئے، وہاں بھارت اور بنگلادیش کے درمیان ہونے والا تاریخی زمینی معاہدہ بھی دونوں ملکوں کے ساتھ دنیا بھر میں موضوع بحث بنارہا اور بنا ہوا ہے۔

اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کی کئی ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر آباد درجنوں بستیوں کے مکینوں کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اپنی مرضی سے بھارت یا بنگلادیش کی شہریت اختیار کرسکیں گے اور وہ جس ملک کے بھی باشندے ہوں گے اس ملک کی ذمے داری ہوگی کہ وہ ان لوگوں کو اپنے تمام شہریوں کی طرح حقوق دے۔ بھارتی اور بنگلادیشی حکام اس معاہدے کو ایک بہت بڑے سنگ میل سے تعبیر کررہے ہیں۔

مودی اور شیخ حسینہ واجد کی حکومتوں نے جن لوگوں کو شناخت دینے کا معاہدہ کیا ہے وہ برسوں سے اپنی پہچان کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد بھارت میں برسراقتدار آنے والی حکومتیں ان لوگوں کو اپنانے پر تیار نہیں ہوئیں اور پھر 1971 ء میں بنگلادیش کے قیام کے بعد ڈھاکا میں برسراقتدار لوگوں نے بھی بھارت سے ملنے والی سرحد پر بسے لوگوں کو مسلسل نظر انداز کیا۔

یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں کی سرحد پر رہنے کی وجہ سے انھیں عام شہریوں کے حقوق حاصل تھے نہ ہی حکومتیں ان کو تعلیم ، صحت ، خوراک جیسی بنیادی سہولتیں دینے کی روادار تھیں۔ دونوں وزرائے اعظم کی موجودگی میں کیے گئے اس معاہدے کو Land Boundry Agreement کہا جارہا ہے۔ تقریباً 4 ہزار کلومیٹر طویل مشرقی بارڈر پر دونوں ملکوں کے درمیان یہ 162 بستیاں یا جزائر ہیں، جہاں ایک اندازے کے مطابق 50 ہزار افراد رہائش پذیر ہیں۔

1974 ء میں انڈیا اور بنگلادیش کے درمیان اس علاقے کے حوالے سے معاہدہ ہوا تھا، لیکن دونوں ملکوں کے تعلقات میں مختلف ادوار میں آنے والے نشیب و فراز نے حکم رانوں کو موقع ہی نہیں دیا کہ وہ اس اہم مسئلے پر توجہ دیں۔ یا یوں کہہ لیں تو بھی غلط نہ ہوگا کہ دونوں ملکوں کی حکومتوں نے مصلحت کے تحت اس معاملے پر ڈیڈلاک برقرار رکھا۔ ورنہ یہ کوئی ایسا ایشو نہیں تھا جسے کئی دہائیوں تک معرض التوا میں ڈالا جاتا۔ اب دونوں ملکوں نے کس خیال کے تحت اور کیا سوچ کر اس معاملے کو حل کرنے کی ٹھانی ہے؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے ۔

زمینی معاہدے کی تقریب میں مودی کا کہنا تھا کہ ہم نے آج وہ معاہدہ کیا ہے جو آزادی کے وقت سے التوا میں تھا، اب بنگلادیش اور انڈیا کی سرحدیں زیادہ محفوظ اور مضبوط ہوگئی ہیں۔ مودی کی بنگلادیشی ہم منصب حسینہ واجد نے بھی اس معاہدے کو تاریخ قرار دیتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بہت اچھی بات ہے کہ کئی دہائی پرانے اس معاملے کو پُرامن انداز میں طے کرلیا گیا ہے۔



ان سرحدی علاقوں میں رہنے والے ہزاروں افراد نے بھی اس معاہدے پر بے حد خوشی کا اظہار کیا ہے، کیوںکہ یہ لوگ اپنی زندگی کا بڑا حصہ گم نامی میں گزار چکے ہیں لیکن اپنی آئندہ نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے انھیں یہ معاہدہ بہت پُرکشش لگ رہا ہے۔ ان لوگوں کو اب احساس ہورہا ہے کہ وہ بھی دنیا میں کسی ملک کے شہری تسلیم کیے جائیں گے۔

ڈھاکا میں بنگلادیش اور انڈیا کے درمیان اس معاہدے کی خبریں جیسے جیسے سامنے آئیں تو سرحدی علاقوں کے دونوں جانب کے مکین ہاتھوں میں بنگلادیش اور بھارت کے جھنڈے اٹھا کر باہر نکل آئے اور انھوں نے مختلف انداز میں اس معاہدے کا جشن منایا۔ کوئی خوشی سے ناچ رہا تھا ، کسی نے جھنڈے لہرا کر خوشی کا اظہار کیا تو کچھ لوگ ایک دوسرے کو اس تاریخی معاہدے کی مبارک باد دیتے نظر آئے۔ ہزاروں لوگوں نے اس تاریخی معاہدے پر فتح کے جلوس اور ریلیاں نکالیں، جن میں لوگوں نے جی بھر کے اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ برسوں سے اپنے اہم حقوق سے محروم لوگوں اور انتہائی کسمپرسی کی حالت میں بنیادی سہولتوں کی تلاش میں شب و روز گزارتے لوگوں کے لیے اعلان ڈھاکا بہت بڑی خوش خبری بن گیا ہے۔

قومی و بین الاقوامی میڈیا سے گفتگو میں سرحدی علاقوں میں رہنے والوں کا کہنا تھا،''یہ معاہدہ بہت یادگار ہے، ہم تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی ہمارے لیے ایسا اقدام کرے گا۔ ہم نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا کہ ہم کسی ملک کے شہری بنیں گے۔ اب ہمارے بچے بھی پڑھیں گے، اچھا کھائیں گے اور انھیں بھی وہ تمام حقوق ملیں گے جو دیگر شہریوں کو ملتے ہیں۔''

کچھ لوگوں نے فرط جذبات سے نم ہوئی آنکھوں اور بھرائے ہوئے لہجے میں کہا، ''آخر 68 سال بعد ہمیں آزادی مل ہی گئی۔ بالآخر ہمارے درد، دکھ اور پریشانیاں دور ہوگئیں۔ اب ہم بھی کسی ملک کے شہری ہیں اور ہم اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاسکتے ہیں۔ آج اور کل میں بڑا فرق ہے، کل ہم گم نام تھے، آج ہمیں اس بات کا اختیار مل گیا ہے کہ ہم اپنی مرضی سے شہریت کا انتخاب کریں۔''

بعض سرحدی مکین اس بات پر خوش اور پُر امید ہیں کہ '' اب ہمیں بھی تعلیم، صحت، اچھی خوراک جیسی بنیادی سہولتیں اور عالمی شناخت جیسا اعزاز ملے گا۔ یہ بڑی یادگار بات ہے اور ہم خوش نصیب ہیں کہ یہ سب کچھ ہم نے اپنی زندگی میں ہی دیکھ لیا۔ ہمارے بہت سے بڑے تو کسی ملک کا شہری ہونے کا سوچتے سوچتے ہی دنیا سے چلے گئے، ہمیں خوشی ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہوا اور ہم اس کے گواہ ہیں۔''

اس زمینی معاہدے کے ثمرات ممکن ہے کہ سرحدی علاقوں میں رہنے والے افراد تک پہنچیں لیکن بھارتی تاریخ اور بنگلادیشی حکم رانوں کے مزاج کے پیش نظر مختلف حلقوں میں اس معاہدے کے حوالے سے کچھ دیگر پہلوؤں پر بھی سوچا جارہا ہے کہ یہ معاہدہ عوام کے مفاد میں حقیقی کوشش ہے یا خطے میں سازشی چالوں کی نئی بساط بچھائی جارہی ہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ14 اگست 1947 سے لے کر اب تک بھارتی حکم رانوں نے کسی ایک دن بھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا، اگر ان کے منہ سے بظاہر کوئی اچھی بات نکلتی بھی ہے تو وہ سیاسی مصلحت یا آئندہ کی کسی شرانگیزی کی تیاری کا حصہ ہوتی ہے۔

مودی نے حالیہ دورہ بنگلادیش میں سقوط ڈھاکا کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا وہ مودی جیسے لاکھوں انتہا پسند ہندوئوں کی حقیقی عکاسی کے لیے کافی ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی بڑا معاہدہ ہورہا ہے تو یقینی طور پر بھارت اور بنگلادیش نے اس معاہدے کے مندرجات و مقاصد طے کرتے وقت پاکستان سے اپنے روایتی بغض و عناد اور دشمنی کو بھی سرفہرست رکھا ہوگا۔

دیکھنا یہ ہے زمینی معاہدے پر دست خط کے بعد اب اس پر عملی طور پر کیا اقدامات کیے جاتے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ بھارت اور بنگلا دیش صرف حکم رانوں کے دوروں کو کام یاب بنانے کے لیے ایسی رسمی کارروائیاں کررہے ہوں؟

چٹاگانگ کی بندرگاہ میں بھارت کی بڑھتی ہوئی دل چسپی
پاکستان میں گوادر پورٹ کی تعمیر اور وہاں چینی سرمایہ کاری نے بھارت کے سول اور عسکری سورمائوں کو شدید مشکلات اور پریشانی میں مبتلا کررکھا ہے ۔ اب پاک چین اقتصادی راہ داری کے اعلان کے بعد تو بھارتیوں کی راتوں کی نیندیں حرام اور دن کا چین غارت ہوگیا ہے، کیوں کہ وہ کبھی نہیں چاہتے کہ پاکستان کسی بھی سطح پر ترقی کرے۔

دوسری طرف بھارت چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے بھی خائف ہے۔ ایسے میں چین جہاں پاکستان میں گوادر کی بندرگاہ تعمیر کر رہا ہے وہیں وہ چٹاگانگ کی بندرگاہ بھی بنارہا ہے، جو بھارت کو کسی طور گوارا نہیں۔ چناں چہ بھارتی حکم راں بنگلادیشی بندرگاہ چٹاگانگ میں گہری دل چسپی لے رہے ہیں۔ کوشش کی جارہی ہے کہ وہاں بھارتی اثر و رسوخ بنگلادیشی حکومت سے بھی زیادہ ہوجائے۔مودی کے حالیہ دورۂ بنگلادیش میں جہاں دونوں ملکوں کے درمیان درجنوں معاہدے ہوئے، تاریخی زمینی معاہدہ عمل میں آیا وہیں چٹاگانگ کی بندرگاہ کے بھارتی استعمال کے حوالے سے بھی معاہدہ کیا گیا۔

اس معاہدے کے تحت بھارتی مال بردار بحری جہاز چٹاگانگ (Chittagong) اور مونگلا (Mongla) کی بندرگاہوں کو اپنی تجارتی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرسکیں گے۔ ان دونوں بندرگاہوں میں چٹاگانگ کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ گذشتہ چند برسوں سے چٹاگانگ کی بندرگاہ کے حوالے سے دونوں ملکوں میں بات چیت جاری تھی اور اب یہ معاہدہ طے پایا ہے۔



بحری محاذ پر اپنی بالادستی کا خواب دیکھنے والے بھارت کو نہ صرف پاکستان بل کہ چین سے بھی ہر وقت کوئی نہ کوئی خطرہ رہتا ہے۔ چین اور پاکستان کی گوادر پورٹ کے حوالے سے سرگرمیاں دونوں ملکوں کے تجارتی مواقع کو مزید فروغ دینے اور ایک دوسرے کو مزید مضبوط و مستحکم کرنے کی کوشش ہے، لیکن بھارتی حکم رانوں کو ہر اچھی چیز میں بھی برائی نظر آتی ہے۔ وہ اپنے ساحلوں سے کئی سو کلومیٹر دور پاکستان اور چین کے بحری جہازوں کی نقل و حرکت پر بھی واویلا مچانے کا فن جانتا ہے۔

اب اس کی خواہش ہے کہ چٹاگانگ کی بندرگاہ کے ذریعے وہ نہ صرف چین اور پاکستان پر نظر رکھے بل کہ علاقے میں بحری تھانے دار بن جائے۔ گذشتہ سال بھی سری لنکا کے ساحلوں کے قریب چینی آبدوز کی موجودگی نے بھارتی حکم رانوں کے ہوش اڑادیے تھے اور وہ طرح طرح کی باتیں بنانے لگے تھے، جب کہ چینی بحری مشقوں سے بھی نئی دہلی کے ایوان اقتدار میں کھلبلی مچی رہتی ہے۔ بھارتی حکم رانوں کا عام تاثر یہ ہے کہ چین علاقے کی بندرگاہوں پر قبضہ کرکے بھارت پر تسلط حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

گوادر کی بندرگاہ کے حوالے سے تو انڈیا کی کچھ نہیں چل سکتی، کیوں کہ پاکستان اور چین کے تعلقات ہمیشہ کی طرح مضبوط ہیں اور ان میں بھارت جیسا کوئی ملک دراڑ نہیں ڈال سکتا، ہاں بنگلادیش کی کم زوری اور پاکستان سے مخاصمت کی وجہ سے بھارت کی بھرپور کوشش ہے کہ چٹاگانگ کی بندرگاہ کو اپنے قابو میں کیا جائے اور اگر ایسا ہو بھی گیا تو انہونی نہیں ہوگی، کیوںکہ بنگلادیش اور بھارت چاہے ایک دوسرے سے کتنا بھی لڑیں یا جھگڑے، پاکستان کی مخالفت میں دونوں ایک ہیں۔

چٹاگانگ کی بندرگاہ سے عام طور پر پٹ سن کی مصنوعات، چمڑے سے بنی اشیا، سمندری خوراک، کھادیں اور دیگر مصنوعات کی تجارت ہوتی ہے۔ علاقے میں اس بندرگاہ کو تجارتی لحاظ سے بہت اہمیت حاصل ہے، کیوںکہ بنگلادیش کی درآمدات و برآمدات کا زیادہ تر حصہ اسی بندرگاہ کے ذریعے آتا جاتا ہے۔ یہ بات بھی قارئین کے لیے دل چسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ بنگلادیش کی چٹاگانگ پورٹ بھی خطے کی ان بندرگاہوں میں سے ایک ہے جنھیں ہر قسم کے حالات میں چین کا تعاون حاصل رہا ہے اور اس کے قیام میں بھی چینی امداد و تعاون کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ پاکستان میں گوادر کی بندرگاہ، سری لنکا میں ہمبنٹوٹا پورٹ، مالدیپ میں مارائو (Marao) ، میانمار میں کیاکپیو (Kyaukpyo) بھی چینی تعاون اور تجربے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

لیکن کیا کیا جائے اس بھارتی رویے کا جو پاکستان اور چین کی دشمنی میں اچھی چیز کو بھی برا سمجھتا ہے۔ چٹاگانگ پر قبضہ کرنے کا خواب اور گوادر کی بندرگاہ کو خدانخواستہ ناکام کرنے کی کوششں انتہاپسند بھارتی حکم رانوں کے اولین مقاصد ہیں۔ اپنے ان مقاصد کے حصول کے لیے بھارت سیاسی اور سفارتی بڑھکیں مارنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور تخریب کاری کے ذریعے صورت حال خراب کرنے کی بھی کوششیں کرتا رہتا ہے۔

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ چٹاگانگ کی بندرگاہ پر بھارت نے اپنا سو فی صد اثر و رسوخ بڑھا بھی دیا تب بھی وہ تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے دیگر ممالک خاص طور پر اس خطے میں چین کا محتاج رہے گا اور اسے نہ چاہتے ہوئے بھی بیجنگ کی بہت سی باتیں برداشت کرنی ہوں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں