مختلف جانوروں کے اپنے ہاتھوں جان لینے کے حیرت انگیزواقعات
مختلف جانوروں کے اپنے ہاتھوں جان دینے کے حیرت انگیزواقعات
ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں انسان خودکشی کرکے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا خودکشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں عموماً اس افسوس ناک صورت حال کے پیچھے حالات و واقعات کی سنگینی کا اہم دخل ہوتا ہے جن کے ہاتھوں مجبورہوکرانسان عقل وفہم کھو بیٹھتا ہے اورزندگی جیسی نعمت سے خود کوآزاد کرالیتا ہے۔
ایک عام خیال ہے کہ خودکشی کا عمل صرف انسان ہی سے وابستہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جان داروں میں صرف انسان ہی ایک ایسی نوع ہے، جو نہ صرف اچھے برے احساس کا جذبہ رکھتا ہے بلکہ حضرت انسان کی پوری زندگی سماجی ، مذہبی، معاشرتی اوراسی قسم کی دوسری کیفیات کے گرد گردش کرتی رہتی ہے اورجب ان کیفیات میں سے گزرتے ہوئے اس کے احساسات کو ٹھیس پہنچتی ہے یا کوئی نفسیاتی یا دماغی عارضہ لاحق ہوتا ہے تو وہ اپنی ہی زندگی کے درپے ہوجاتا ہے۔
تاہم دوسری جانب حیرت انگیز طور پر یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ جانور جنہیں جذبہ احساس سے عاری قرار دیا جاتا ہے وہ بھی خودکشی کے عمل سے گزرتے ہیں۔ اگرچہ ماہرین حیوانیات ابھی جانوروں کی جانب سے خودکشی کے عمل پر تحقیق کررہے ہیں، تاہم اس حوالے سے کچھ مستند اور اہم واقعات تحریر کیے جارہے ہیں، جن میں جانوروں نے اپنی زندگی کا خاتمہ اپنے ہاتھوں خود کرلیا۔
٭ ڈولفن نے جب سانس روک لی
وہ لوگ جنہوں نے چار دہائیوں قبل مشہور زمانہ ٹی وی فلم''فلپر'' دیکھی ہوگی، انہیں فلم میں مرکزی کردارادا کرنے والی ڈولفن مچھلیاں یاد ہوں گی، جو اپنی ذہانت کے بل بوتے پر کہانی میں مسائل حل کرتی نظر آتی تھیں ان مچھلیوں میں سے ایک ڈولفن مچھلی کا نام ''کیتھی'' تھا، کیتھی کے ٹرینر ''رچرڈ اوبرے'' کا کہنا ہے کہ ایک دن وہ کیتھی کے ساتھ سوئمنگ پول میں تیر رہے تھے۔ انہوں نے محسوس کیاکہ کیتھی بہت سست ہورہی ہے اور گاہے بگاہے پانی میں رک کر ان کی طرف دیکھ رہی ہے۔
اسی اثناء میں کیتھی ان کے بازوؤں پر آئی رچرڈ کی جانب دیکھا اور پھر ایسا لگا جیسے اس نے سانس روک لی ہے۔ اس کا جسم گرم تھا اور وہ بیمار بھی نہیں تھی۔ تاہم اس نے دوبارہ سانس نہیں لی اور ا پنے ٹرینر کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا۔ اس حوالے سے رچرڈ اوبرے کا کہنا ہے کہ ڈولفن ایک ایسا جان دار ہے، جس کا دماغ انسان سے بڑا ہے اور وہ خود شناس بھی ہوتا ہے اور جن ایام میں کیتھی نے خودکشی کی ان دنوں وہ فلم کی کاسٹ سے باہر تھی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ایک ناکارہ زندگی گزارنے کے بجائے کیتھی نے مرجانا مناسب سمجھا۔ واضح رہے کہ اس واقعے کے بعد رچرڈ اوبرے جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ہوگئے۔ بعدازاں انہوں نے دوہزارنو میں جاپان میں ڈولفن مچھلی کے غیرقانونی شکار اور گوشت کی فروخت پر دستاویزی فلم بنائی جسے دو ہزار دس میں بہترین دستاویزی فیچر فلم کے آسکر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اس ایوارڈ کو رچرڈ اوبرے نے ڈولفن مچھلی کیتھی کے نام سے منسوب کیا تھا۔
٭ بھیڑوں کی آخری چھلانگ
ترکی کے مشرقی علاقے میں واقع صوبہ ''وان'' کے پہاڑی علاقے ''گیواز'' میں گلہ بان اپنی بھیڑوں کے گلے کو آزاد چھوڑ کر ناشتہ کررہے تھے کہ انہیں اچانک بھیڑوں کے زور زور سے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔
چرواہے جیسے ہی آواز کی سمت گئے تو انہوں نے حیرت انگیز منظر دیکھا کہ بھیڑیں ایک ایک کرکے اونچی پہاڑی کے کونے سے نیچے کود رہی ہیں اور یہ کام بغیر کسی دھکم پیل کے ہورہا تھا۔ لگ بھگ پندرہ سو بھیڑوں نے آنا ًفاناً یہ کام سرانجام دیا، جن میں سے سب سے پہلے کودنے والی تقریباً چار سو پچاس بھیڑیں مرگئیں، جب کہ باقی بھیڑیں مرنے والی بھیڑوں پر کودنے کے باعث صرف زخمی ہوئیں سن دوہزار پانچ میں وقوع پذیر ہونے والی بھیڑوں کی اس اجتماعی خودکشی کی گتھی ماہرین کے لیے ابھی تک درد سر بنی ہوئی ہے۔
٭ کُتے کی خودکشی کی کوششیں
اٹھارہ سو پینتالیس میں لندن کے تاریخی اخبار ''الیسٹریڈنیوز'' میں خبر شائع ہوئی کہ ایک نیوفائونڈ لینڈ نسل کے کتے نے پانی میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق خودکشی کرنے والے کتے نے جب پہلی مرتبہ پانی میں چھلانگ لگائی تو وہ ڈوب نہیں سکا، کیوں کہ کتا ایک اچھا تیراک ہوتا ہے، لہٰذا وہ ہر مرتبہ ڈوبنے سے بچتا رہا۔
تاہم عینی شاہدین کے مطابق اس نے یہی کوشش کئی مرتبہ کی۔ حتی کہ اس وقت وہاں موجود لوگوں نے اسے باندھ دیا۔ تاہم اس نے خود کو آزاد کرالیا اور پھر ایک مرتبہ پانی میں چھلانگ لگادی۔ اس مرتبہ اس نے اپنے سر کو پانی میں کچھ دیر ڈبوئے رکھا اور تھوڑی ہی دیر بعد وہ مرگیا۔ کتے کے مالکان کا کہنا تھا کہ ان کا یہ کتا کچھ دنوں سے سست اور غم گین نظر آرہا تھا، تاہم بیمار نہیں تھا۔
٭ ریچھ کی بھوک ہڑتال
ریچھ جنگل اور کھلے میدانوں میں آزاد گھومنے والا جانور ہے، جو انسان کی طرح دونوں پیروں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ قدرت کا شاہ کا ر قرار دیا جانے والا یہ جانور انسانوں کے رویے سے سخت نالاں نظر آتا ہے، کیوں کہ ریچھ کے نظام ہضم میں سے ایک مخصوص محلول انجکشن کے ذریعے باہر نکال کر اس محلول کو چین کی روایتی ادویات میں استعمال کیا جارہا ہے۔
یہ محلول خاصے منہگے داموں فروخت ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے چین کے دوردراز علاقوں میں ایسے فارم بنائے گئے ہیں جہاں پر ریچھوں کو چھوٹے چھوٹے پنجروں میں اذیت ناک طریقے سے قید رکھا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک فارم پر جانے والے جانوروں کے حقوق کی تحفظ کی تنظیم کے رکن کا کہنا ہے کہ سن دوہزار بارہ میں انہیں اطلاع ملی کہ ایک مادہ ریچھ پچھلے دس دنوں سے کچھ کھا پی نہیں رہی ہے۔
حالاں کہ اس کا نظام ہضم اور صحت بالکل ٹھیک تھی۔ افسوس ناک امر یہ تھا کہ اس مادہ ریچھ نے قید کے دوران خوراک کھانے کے بجائے موت کو ترجیح دی اور دس دن بعد بھوک ہڑتال ہی کے دوران جان دے دی جانوروں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دراصل مادہ ریچھ نے یہ خودکشی اذیت ناک قید میں ڈیپریشن کے باعث کی ۔
٭ وھیل مچھلیوں کی اجتماعی خودکشی
نومبر سن دو ہزار گیارہ میں نیوزی لینڈ کے جزیرے ''سائوتھ آئی لینڈ'' کے ساتھ پھیلا ہوا بتیس کلومیٹر طویل ساحل جسے '' فئیر ویل اسپٹ'' کہا جاتا ہے اس وقت عالمی خبروں کی زینت بن گیا جب اس ساحلی پٹی پر اکسٹھ وہیل مچھلیاں بظاہر کسی وجہ کے بغیر پانی سے باہر نکل کر خشکی پر آگئیں، جن میں سے نصف سے زیادہ تھوڑی ہی دیر بعد موت کا شکار ہوگئیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ وہیل مچھلیوں نے یہ عمل دراصل اپنے غول کی ایک مچھلی کے اس مقام پر مرنے کے بعد انجام دیا۔ غالباً وہیل مچھلیوں نے اس مچھلی کی موت کے غم میں خشکی پر آکر خودکشی کرلی۔
بعدازاں پوسٹ مارٹم رپورٹ نے بھی واضح کیا کہ ان وہیل مچھلیوں کو کسی بھی قسم کی بیماری یا تکلیف نہیں تھی۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ پیر کے روز پیش آیا، جب کہ تیسرے دن یعنی بدھ تک اٹھارہ وہیل مچھلیاں ساحل پر زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا رہیں، مگر واپس سمندر میں نہیں گئیں، جنہیں بعدازاں انتظامیہ نے مار دیا۔
٭ گایوں کی آخری چھلانگ
جنوب وسطی یورپ میں واقع مشہور پہاڑی سلسلے ''الپس'' کی اونچی نیچی پہاڑیوں کے درمیان کئی قبیلے آباد ہیں، جن میں سے بیشتر گلہ بان ہیں۔ اگست دوہزار نو میں سوئزرلینڈ کی حدود میں واقع گائون ''لائوٹر برنن'' کی پہاڑیوں کے درمیان ایک عجیب واقعہ پیش آیا، جب تین دن کے عرصے میں اٹھائیس گائیں، جن میں بچھڑے بھی شامل تھے، پہاڑی سے نیچے پتھریلی زمین پر کودتی دیکھی گئیں اور کودتے ہی مرگئیں۔
مقامی افراد کے مطابق اس سے قبل ایسا واقعہ کبھی بھی پیش نہیں آیا تھا۔ مقامی گلہ بانوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے قبل علاقے میں زبردست بادوباراں کا طوفان آیا تھا۔ ممکن ہے گایوں اور بچھڑوں نے زندگی ختم کرنے کا یہ عمل اس طوفان کے خوف میں مبتلا ہوکر انجام دیا ہو۔
٭ حشرات اور خودکش دھماکا
مشہور زمانہ تحقیقی رسالے '' نیچر'' میں انیس سو ستاسی میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ایک سبز رنگ کا نباتاتی کیڑا، جسے انگریزی میں ''پی ایپڈ'' اور اردو میں ''کملہ سبز'' کہتے ہیں، دشمن کے حملے کی صورت میں جب یہ محسوس کرتا ہے کہ جان بچانے کی کوئی صورت نہیں ہے تو خود کو پٹاخے کی آواز کے ساتھ پھوڑ کر جان دے دیتا ہے۔
اس دوران اس کے جسم سے ایک بدبودار مادہ بھی نکل کر حملہ آور کو بھاگنے پر مجبور کردیتا ہے۔ کینیڈا کی ''جامعہ سائمن فریسر'' کے محققین''مرڈوخک کے میکالسٹر'' اور ''برنارڈ ڈی رابرٹ'' نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں مزید یہ لکھا ہے کہ بعض صورتوں میں جب ''کملہ سبز'' کیڑا یہ محسوس کرتا ہے کہ دشمن اس کے اردگرد موجود اس کے رشتے دار کیڑوں پر حملہ آور ہونے والا ہے تو انہیں بچانے کے لیے بھی وہ اپنی جان کی قربانی دے دیتا ہے ۔
٭ بطخ ڈوب گئی
جنوری دوہزار پندرہ میں ڈیلی میل میں شائع ہونے والی تصاویر میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک نوجوان بطخ نے کس طرح اپنی ماں کے مرنے بعد اس کے قریب جاکر پانی میں گردن ڈبو دی اور مرگئی چین سے تعلق رکھنے والی خاتون''یان یان ہاسائیو'' کے مطابق انہوں نے وسطی چین کے صوبے ہینان کے پارک ''سان مینیک سیا ''میں اتفاقی طور پر اپنے کیمرے میں یہ مناظر فلم بند کیے تھے۔ نوجوان بطخ کے غم کی حالت میں موت کی وادی میں داخل ہونے کو ماہرین حیوانیات ڈیپریشن میں انجام دی گئی خود کشی قرار دے رہے ہیں۔
آٹوتھائیسسAutothysis
جانوروں، حشرات الارض بڑے کیڑے اور اسی نوع کی دیگر اقسام کا خود کو مارلینے کے عمل کو ''آٹو تھائیسس'' کہتے ہیں۔ یونانی زبان سے ا خذ کیے گئے دو لفظوں ''آٹو'' اور ''تھائیسس'' سے بنے اس لفظ کے انگریزی میں معنی ''سیلف (ازخود) '' اور ''سیکریفائس ( قربانی)'' کے ہیں۔
ماہرین کے مطابق بہت سے کیڑوں میں یہ رویہ عام پایا جاتا ہے اور جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زندگی بے مقصد دکھائی دے رہی ہے تو وہ اپنے جسم ہی میں موجود زہریلے مادے یا ڈنک سے زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں۔
دوسرے معنوں میں خودکشی کا عمل انجام دیتے ہیں۔ آٹوتھائیسس کی اصطلاح سب سے پہلے انیس سو چوہتر میں جرمنی کے ''الرخ مییک وٹس'' اور ''ایلے نور میک وٹس'' نے کیڑوں کے دفاعی نظام کے بارے میں تحقیق کرتے ہوئے تجویز کی تھی۔ واضح رہے کہ دیمک کی کئی اقسام، چونٹیوں کی مختلف اقسام، کتے ، بلیاں، گائے، بطخ اور چکنی جلد والے چوہے بیماری کی صورت میں بھوکے بغیر رہتے ہوئے خود کو مار لیتے ہیں۔
ایک واقعے میں شکاری کتوں سے بچنے کے لیے مادہ ہرن نے بلند جگہ سے چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی تھی۔ اسی طرح ایک مادہ بطخ نے اپنے نر ساتھی کے مرنے پر جھیل میں ڈوب کر زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔ تاہم دوسری جانب ماہرین حیوانیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ جانوروں میں خودکشی پر تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور ابھی وہ مرحلہ دور ہے جب حتمی طور پر یہ کہا جاسکے گا کہ جانور بھی خودکشی کرتے ہیں۔
ایک عام خیال ہے کہ خودکشی کا عمل صرف انسان ہی سے وابستہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جان داروں میں صرف انسان ہی ایک ایسی نوع ہے، جو نہ صرف اچھے برے احساس کا جذبہ رکھتا ہے بلکہ حضرت انسان کی پوری زندگی سماجی ، مذہبی، معاشرتی اوراسی قسم کی دوسری کیفیات کے گرد گردش کرتی رہتی ہے اورجب ان کیفیات میں سے گزرتے ہوئے اس کے احساسات کو ٹھیس پہنچتی ہے یا کوئی نفسیاتی یا دماغی عارضہ لاحق ہوتا ہے تو وہ اپنی ہی زندگی کے درپے ہوجاتا ہے۔
تاہم دوسری جانب حیرت انگیز طور پر یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ جانور جنہیں جذبہ احساس سے عاری قرار دیا جاتا ہے وہ بھی خودکشی کے عمل سے گزرتے ہیں۔ اگرچہ ماہرین حیوانیات ابھی جانوروں کی جانب سے خودکشی کے عمل پر تحقیق کررہے ہیں، تاہم اس حوالے سے کچھ مستند اور اہم واقعات تحریر کیے جارہے ہیں، جن میں جانوروں نے اپنی زندگی کا خاتمہ اپنے ہاتھوں خود کرلیا۔
٭ ڈولفن نے جب سانس روک لی
وہ لوگ جنہوں نے چار دہائیوں قبل مشہور زمانہ ٹی وی فلم''فلپر'' دیکھی ہوگی، انہیں فلم میں مرکزی کردارادا کرنے والی ڈولفن مچھلیاں یاد ہوں گی، جو اپنی ذہانت کے بل بوتے پر کہانی میں مسائل حل کرتی نظر آتی تھیں ان مچھلیوں میں سے ایک ڈولفن مچھلی کا نام ''کیتھی'' تھا، کیتھی کے ٹرینر ''رچرڈ اوبرے'' کا کہنا ہے کہ ایک دن وہ کیتھی کے ساتھ سوئمنگ پول میں تیر رہے تھے۔ انہوں نے محسوس کیاکہ کیتھی بہت سست ہورہی ہے اور گاہے بگاہے پانی میں رک کر ان کی طرف دیکھ رہی ہے۔
اسی اثناء میں کیتھی ان کے بازوؤں پر آئی رچرڈ کی جانب دیکھا اور پھر ایسا لگا جیسے اس نے سانس روک لی ہے۔ اس کا جسم گرم تھا اور وہ بیمار بھی نہیں تھی۔ تاہم اس نے دوبارہ سانس نہیں لی اور ا پنے ٹرینر کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا۔ اس حوالے سے رچرڈ اوبرے کا کہنا ہے کہ ڈولفن ایک ایسا جان دار ہے، جس کا دماغ انسان سے بڑا ہے اور وہ خود شناس بھی ہوتا ہے اور جن ایام میں کیتھی نے خودکشی کی ان دنوں وہ فلم کی کاسٹ سے باہر تھی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ایک ناکارہ زندگی گزارنے کے بجائے کیتھی نے مرجانا مناسب سمجھا۔ واضح رہے کہ اس واقعے کے بعد رچرڈ اوبرے جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ہوگئے۔ بعدازاں انہوں نے دوہزارنو میں جاپان میں ڈولفن مچھلی کے غیرقانونی شکار اور گوشت کی فروخت پر دستاویزی فلم بنائی جسے دو ہزار دس میں بہترین دستاویزی فیچر فلم کے آسکر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اس ایوارڈ کو رچرڈ اوبرے نے ڈولفن مچھلی کیتھی کے نام سے منسوب کیا تھا۔
٭ بھیڑوں کی آخری چھلانگ
ترکی کے مشرقی علاقے میں واقع صوبہ ''وان'' کے پہاڑی علاقے ''گیواز'' میں گلہ بان اپنی بھیڑوں کے گلے کو آزاد چھوڑ کر ناشتہ کررہے تھے کہ انہیں اچانک بھیڑوں کے زور زور سے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔
چرواہے جیسے ہی آواز کی سمت گئے تو انہوں نے حیرت انگیز منظر دیکھا کہ بھیڑیں ایک ایک کرکے اونچی پہاڑی کے کونے سے نیچے کود رہی ہیں اور یہ کام بغیر کسی دھکم پیل کے ہورہا تھا۔ لگ بھگ پندرہ سو بھیڑوں نے آنا ًفاناً یہ کام سرانجام دیا، جن میں سے سب سے پہلے کودنے والی تقریباً چار سو پچاس بھیڑیں مرگئیں، جب کہ باقی بھیڑیں مرنے والی بھیڑوں پر کودنے کے باعث صرف زخمی ہوئیں سن دوہزار پانچ میں وقوع پذیر ہونے والی بھیڑوں کی اس اجتماعی خودکشی کی گتھی ماہرین کے لیے ابھی تک درد سر بنی ہوئی ہے۔
٭ کُتے کی خودکشی کی کوششیں
اٹھارہ سو پینتالیس میں لندن کے تاریخی اخبار ''الیسٹریڈنیوز'' میں خبر شائع ہوئی کہ ایک نیوفائونڈ لینڈ نسل کے کتے نے پانی میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق خودکشی کرنے والے کتے نے جب پہلی مرتبہ پانی میں چھلانگ لگائی تو وہ ڈوب نہیں سکا، کیوں کہ کتا ایک اچھا تیراک ہوتا ہے، لہٰذا وہ ہر مرتبہ ڈوبنے سے بچتا رہا۔
تاہم عینی شاہدین کے مطابق اس نے یہی کوشش کئی مرتبہ کی۔ حتی کہ اس وقت وہاں موجود لوگوں نے اسے باندھ دیا۔ تاہم اس نے خود کو آزاد کرالیا اور پھر ایک مرتبہ پانی میں چھلانگ لگادی۔ اس مرتبہ اس نے اپنے سر کو پانی میں کچھ دیر ڈبوئے رکھا اور تھوڑی ہی دیر بعد وہ مرگیا۔ کتے کے مالکان کا کہنا تھا کہ ان کا یہ کتا کچھ دنوں سے سست اور غم گین نظر آرہا تھا، تاہم بیمار نہیں تھا۔
٭ ریچھ کی بھوک ہڑتال
ریچھ جنگل اور کھلے میدانوں میں آزاد گھومنے والا جانور ہے، جو انسان کی طرح دونوں پیروں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ قدرت کا شاہ کا ر قرار دیا جانے والا یہ جانور انسانوں کے رویے سے سخت نالاں نظر آتا ہے، کیوں کہ ریچھ کے نظام ہضم میں سے ایک مخصوص محلول انجکشن کے ذریعے باہر نکال کر اس محلول کو چین کی روایتی ادویات میں استعمال کیا جارہا ہے۔
یہ محلول خاصے منہگے داموں فروخت ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے چین کے دوردراز علاقوں میں ایسے فارم بنائے گئے ہیں جہاں پر ریچھوں کو چھوٹے چھوٹے پنجروں میں اذیت ناک طریقے سے قید رکھا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک فارم پر جانے والے جانوروں کے حقوق کی تحفظ کی تنظیم کے رکن کا کہنا ہے کہ سن دوہزار بارہ میں انہیں اطلاع ملی کہ ایک مادہ ریچھ پچھلے دس دنوں سے کچھ کھا پی نہیں رہی ہے۔
حالاں کہ اس کا نظام ہضم اور صحت بالکل ٹھیک تھی۔ افسوس ناک امر یہ تھا کہ اس مادہ ریچھ نے قید کے دوران خوراک کھانے کے بجائے موت کو ترجیح دی اور دس دن بعد بھوک ہڑتال ہی کے دوران جان دے دی جانوروں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دراصل مادہ ریچھ نے یہ خودکشی اذیت ناک قید میں ڈیپریشن کے باعث کی ۔
٭ وھیل مچھلیوں کی اجتماعی خودکشی
نومبر سن دو ہزار گیارہ میں نیوزی لینڈ کے جزیرے ''سائوتھ آئی لینڈ'' کے ساتھ پھیلا ہوا بتیس کلومیٹر طویل ساحل جسے '' فئیر ویل اسپٹ'' کہا جاتا ہے اس وقت عالمی خبروں کی زینت بن گیا جب اس ساحلی پٹی پر اکسٹھ وہیل مچھلیاں بظاہر کسی وجہ کے بغیر پانی سے باہر نکل کر خشکی پر آگئیں، جن میں سے نصف سے زیادہ تھوڑی ہی دیر بعد موت کا شکار ہوگئیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ وہیل مچھلیوں نے یہ عمل دراصل اپنے غول کی ایک مچھلی کے اس مقام پر مرنے کے بعد انجام دیا۔ غالباً وہیل مچھلیوں نے اس مچھلی کی موت کے غم میں خشکی پر آکر خودکشی کرلی۔
بعدازاں پوسٹ مارٹم رپورٹ نے بھی واضح کیا کہ ان وہیل مچھلیوں کو کسی بھی قسم کی بیماری یا تکلیف نہیں تھی۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ پیر کے روز پیش آیا، جب کہ تیسرے دن یعنی بدھ تک اٹھارہ وہیل مچھلیاں ساحل پر زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا رہیں، مگر واپس سمندر میں نہیں گئیں، جنہیں بعدازاں انتظامیہ نے مار دیا۔
٭ گایوں کی آخری چھلانگ
جنوب وسطی یورپ میں واقع مشہور پہاڑی سلسلے ''الپس'' کی اونچی نیچی پہاڑیوں کے درمیان کئی قبیلے آباد ہیں، جن میں سے بیشتر گلہ بان ہیں۔ اگست دوہزار نو میں سوئزرلینڈ کی حدود میں واقع گائون ''لائوٹر برنن'' کی پہاڑیوں کے درمیان ایک عجیب واقعہ پیش آیا، جب تین دن کے عرصے میں اٹھائیس گائیں، جن میں بچھڑے بھی شامل تھے، پہاڑی سے نیچے پتھریلی زمین پر کودتی دیکھی گئیں اور کودتے ہی مرگئیں۔
مقامی افراد کے مطابق اس سے قبل ایسا واقعہ کبھی بھی پیش نہیں آیا تھا۔ مقامی گلہ بانوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے قبل علاقے میں زبردست بادوباراں کا طوفان آیا تھا۔ ممکن ہے گایوں اور بچھڑوں نے زندگی ختم کرنے کا یہ عمل اس طوفان کے خوف میں مبتلا ہوکر انجام دیا ہو۔
٭ حشرات اور خودکش دھماکا
مشہور زمانہ تحقیقی رسالے '' نیچر'' میں انیس سو ستاسی میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ایک سبز رنگ کا نباتاتی کیڑا، جسے انگریزی میں ''پی ایپڈ'' اور اردو میں ''کملہ سبز'' کہتے ہیں، دشمن کے حملے کی صورت میں جب یہ محسوس کرتا ہے کہ جان بچانے کی کوئی صورت نہیں ہے تو خود کو پٹاخے کی آواز کے ساتھ پھوڑ کر جان دے دیتا ہے۔
اس دوران اس کے جسم سے ایک بدبودار مادہ بھی نکل کر حملہ آور کو بھاگنے پر مجبور کردیتا ہے۔ کینیڈا کی ''جامعہ سائمن فریسر'' کے محققین''مرڈوخک کے میکالسٹر'' اور ''برنارڈ ڈی رابرٹ'' نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں مزید یہ لکھا ہے کہ بعض صورتوں میں جب ''کملہ سبز'' کیڑا یہ محسوس کرتا ہے کہ دشمن اس کے اردگرد موجود اس کے رشتے دار کیڑوں پر حملہ آور ہونے والا ہے تو انہیں بچانے کے لیے بھی وہ اپنی جان کی قربانی دے دیتا ہے ۔
٭ بطخ ڈوب گئی
جنوری دوہزار پندرہ میں ڈیلی میل میں شائع ہونے والی تصاویر میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک نوجوان بطخ نے کس طرح اپنی ماں کے مرنے بعد اس کے قریب جاکر پانی میں گردن ڈبو دی اور مرگئی چین سے تعلق رکھنے والی خاتون''یان یان ہاسائیو'' کے مطابق انہوں نے وسطی چین کے صوبے ہینان کے پارک ''سان مینیک سیا ''میں اتفاقی طور پر اپنے کیمرے میں یہ مناظر فلم بند کیے تھے۔ نوجوان بطخ کے غم کی حالت میں موت کی وادی میں داخل ہونے کو ماہرین حیوانیات ڈیپریشن میں انجام دی گئی خود کشی قرار دے رہے ہیں۔
آٹوتھائیسسAutothysis
جانوروں، حشرات الارض بڑے کیڑے اور اسی نوع کی دیگر اقسام کا خود کو مارلینے کے عمل کو ''آٹو تھائیسس'' کہتے ہیں۔ یونانی زبان سے ا خذ کیے گئے دو لفظوں ''آٹو'' اور ''تھائیسس'' سے بنے اس لفظ کے انگریزی میں معنی ''سیلف (ازخود) '' اور ''سیکریفائس ( قربانی)'' کے ہیں۔
ماہرین کے مطابق بہت سے کیڑوں میں یہ رویہ عام پایا جاتا ہے اور جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زندگی بے مقصد دکھائی دے رہی ہے تو وہ اپنے جسم ہی میں موجود زہریلے مادے یا ڈنک سے زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں۔
دوسرے معنوں میں خودکشی کا عمل انجام دیتے ہیں۔ آٹوتھائیسس کی اصطلاح سب سے پہلے انیس سو چوہتر میں جرمنی کے ''الرخ مییک وٹس'' اور ''ایلے نور میک وٹس'' نے کیڑوں کے دفاعی نظام کے بارے میں تحقیق کرتے ہوئے تجویز کی تھی۔ واضح رہے کہ دیمک کی کئی اقسام، چونٹیوں کی مختلف اقسام، کتے ، بلیاں، گائے، بطخ اور چکنی جلد والے چوہے بیماری کی صورت میں بھوکے بغیر رہتے ہوئے خود کو مار لیتے ہیں۔
ایک واقعے میں شکاری کتوں سے بچنے کے لیے مادہ ہرن نے بلند جگہ سے چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی تھی۔ اسی طرح ایک مادہ بطخ نے اپنے نر ساتھی کے مرنے پر جھیل میں ڈوب کر زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔ تاہم دوسری جانب ماہرین حیوانیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ جانوروں میں خودکشی پر تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور ابھی وہ مرحلہ دور ہے جب حتمی طور پر یہ کہا جاسکے گا کہ جانور بھی خودکشی کرتے ہیں۔