عمر عزیز کے 75 برس
اب ہمارے حیران ہونے کی باری تھی۔ یعنی پچھہتر برس کی۔ اس بی بی کو اتنی عجلت کیوں تھی۔
QUETTA:
اصل میں اب ہم سفر کے نام زمین پر دوڑتے بھاگتے نہیں' ہوا میں اڑتے ہیں۔ تو دم کے دم میں لاہور سے اڑ کر کراچی پہنچے۔ وہاں پورا دن غم کے موسم میں گزارا۔ اگلی صبح کراچی سے اڑ کر اسلام آباد پہنچے۔ یہاں موسم بدلا ہوا تھا۔ یار خوش خوش نظر آئے۔ یہ تو ہمیں معلوم تھا کہ ایک بی بی کے اعزاز میں ایک تقریب بصد اہتمام ہو رہی ہے۔ اس کی نوعیت کا اندازہ نہیں تھا۔ تب ہم نے ایک یار سے پوچھا کہ ادبی تقریب برحق۔ مگر اس میں اتنی خوشی کا کونسا پہلو ہے۔ اس بی بی کے اعزاز میں یہ کوئی پہلی تقریب تو نہیں ہے۔ وہ بولا' کمال ہے۔ خوشی کا پہلو کیسے نہیں ہے۔
کشور ناہید خیر سے پچھہتر برس کی ہو گئی ہیں۔ اچھا؟ اب ہمارے حیران ہونے کی باری تھی۔ یعنی پچھہتر برس کی۔ اس بی بی کو اتنی عجلت کیوں تھی۔ ابھی تو عمر پڑی تھی پچھہترویں برس کے لگنے کے لیے۔ ارے پچھہتر برس کوئی ہنسی کھیل ہیں۔ پہلے اس عمر تک پہنچتے پہنچتے اک عمر گزر جاتی تھی اور قسمت والے ہی عمر کی کتنی منزلیں طے کر کے اس مقام پر پہنچتے تھے۔ اس بی بی نے کتنی شتابی سے یہ سفر طے کیا ہے۔ یہ کل کی بات ہے کہ ہم نے اس کمسن لڑکی کو حلقہ ارباب ذوق میں غزل پڑھتے دیکھا تھا اور داد دی تھی۔ زمانے کو ہمارے زمانے میں آ کر پر لگ گئے ہیں۔ یاران تیز گام کتنی شتابی سے منزلیںمارتے ہوئے آدھی صدی اور پون صدی کی مسافت طے کر لیتے ہیں۔
آگے تو زندگی کے کتنے مرحلے آدمی کو تیزی سے گزرنے کی اجازت ہی نہیں دیتے تھے، خاندان میں کوئی ایک موت ہو جاتی تھی تو کتنے عرصے کے لیے زندگی معطل ہو جاتی تھی۔ علائق دنیوی سے بے نیاز شخصیتیں بھی ایسے مرحلے میں آ کر چپ سادھ لیتی تھیں۔ دیکھئے کیا واقعہ یاد آیا۔ حضرت نظام الدین اولیا کو اپنے ایک بھانجے سے بہت انس تھا' وہ داغ مفارقت دے گیا تو اس بزرگ کو چپ لگ گئی اور چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ کتنے مہینوں تک یہی عالم رہا۔ وہ تو یہ کہیے کہ جلدی ہی بسنت آ گئی اور حضرت امیر خسرو کچھ اس ادا سے بسنت کا راگ الاپتے مرشد کے حضور پہنچے کہ وہ بیساختہ مسکرا دیے۔ تب جا کر سوگ ختم ہوا۔ مگر وہ وقت اور تھا۔ اب وقت اور ہے۔ انسانی رشتے ٹھنڈے ہو چلے ہیں اب ہم اکیسویں صدی میں ہیں اور ٹیکنولوجی کے زمانے میں بسر کرتے ہیں۔ ادھر علامہ اقبال نے ہمیں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ ؎
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
سو دیکھ لو زمانے کی برق رفتاری نے کیا رنگ پکڑا ہے کہ شرفا بھی اب اپنے چہیتوں کو سلام آخر کہنے میں زیادہ وقت صرف نہیں کرتے۔ اور ہم نے اپنے بھانجے انصار حسین کے کفن دفن سے جلدی فراغت پائی اور اسلام آباد کے لیے چل کھڑے ہوئے۔
یہاں آئے تو سماں اور تھا۔ کشور ناہید نے ہمارے دیکھتے دیکھتے کیا کیا گل کھلائے شعر کہے' مشاعرے لوٹے' آنچل کو پرچم بنایا۔ عورت کی آزادی کے نعرے بلند کیے۔ شعروں میں بارود بھر کر نسوانی آزادی کے دشمنوں پر توپیں داغیں۔ اور اب کھیلنے کھانے کے دنوں کو سلام کر کے اعلان کر رہی تھیں کہ میری عمر عزیز کے پچھہتر سال پورے ہوئے شیخ سعدی نے تو چالیس سال کی عمر کو ایک حد قرار دیا تھا
چہل سال عمر عزیزت گزشت
میرے عزیز تو چالیس سال کی حد سے گزر لیا۔ اب تو کچھ ہوش کی دوا لے یہاں عمر کی منزلیں گرد کی مانند اڑی جاتی ہیں۔ پون صدی کا سفر کس برق رفتاری سے اور کتنے شور کے ساتھ طے کیا ہے۔ اور اب وہ زمانے کا کتنا گرم و سرد چکھنے اور دنیا کا اچھا برا دیکھنے پرکھنے کے بعد اپنی پچھہترویں سالگرہ منا رہی تھیں۔ اپنے ہمعصروں سے' چھوٹوں سے بڑوں سے' مرد و زن سے' حضرات و خواتین سے خراج تحسین وصول کر رہی تھیں۔ کیسے کیسے معتبر بزرگ صف حاضرین میں شامل تھے۔ اور کیسی کیسی معزز خواتین زینت محفل تھیں۔ سب سے بڑھ کر قومی کمیشن برائے وقار نسواں کی چیئرپرسن بیگم خاور ممتاز۔ لو ہم یہ تو بھول ہی چلے تھے کہ اب سب سے بڑھ کر نسوائیت ہی کا تو بول بالا ہے۔
یعنی ہم عورتوں کے عہد میں سانس لے رہے ہیں۔ بہت ہو چکی مردوں کی حکمرانی۔ اب تو وہ زمانہ ہے کہ کمسنی ہی میں نسوائیت گل کھلاتی ہے۔ لڑکی سوات سے نمودار ہوتی ہے اور اقوام متحدہ میں جا کر دم لیتی ہے۔ خراج تحسین ضرور پیش کرو۔ مگر مختصر مختصر۔ اصغر ندیم سید کو بھی رنگ محفل دیکھ کر اپنے بیان کو کسی نہ کسی طرح اختصار کے کوزے میں سمیٹنا پڑا بزرگ خاتون یہاں ایک ہی نظر آ رہی تھیں۔ بیگم جنرل مٹھا۔ ان کا کلمہ تحسین ان سے گزر کر ان کی شاگردہ تک پہنچا۔ لیجیے اسٹیج پر پردہ اٹھتا ہے اور ایک نوخیز رقاصہ نمودار ہوتی ہے۔ بات تقریروں سے گزر کر رقص و نغمہ تک پہنچی۔
ہم گنہگار عورتیں
یہ کشور کا لکھا ہوا نسوانی ترانہ تھا۔ نرت کے ساتھ گھل مل کر کیا سے کیا بن گیا تھا۔
محفل مختصر ہوتے ہوئے بھی لمبی کھنچی۔ حرف آخر سالگرہ کا کیک۔ گل پھول کی بارش۔ تحسین و آفرین تمام شد۔ تحائف کا سلسلہ جاری۔
اگلی صبح پا برکاب تھے کہ یار عزیز حمید علوی اور قیصرہ علوی کی طرف سے پیغام ملا کہ گزرو تو گیارہ بجے ہمارے آشیانے میں پڑاؤ کرو۔ وہاں پہنچے تو میز انواح و اقسام لذائز سے آراستہ تھی۔ بیچ میں سالگرہ کا کیک۔ ہم نے کہا کہ یک نہ دو شد۔ یہ کس نام کا کیک ہے۔ کہا کہ فتح محمد ملک کے نام کا کہ یہ عزیز اب اسی سال کی حد کو چھونے لگا ہے۔
ہم نے کہا کہ سبحان اللہ فتح محمد ملک کی نقاد کے طور پر کیا خوب اٹھان تھی۔ کتنے نظریاتی مجادلے کیے۔ نعرہ تھا ترقی پسندی نا منظور نا منظور نا منظور۔ احمد ندیم قاسمی۔ ان کی ترقی پسندانہ انتہا پسندی بھی سہانی لگتی ہے۔ چلو اناسی برس گزرے۔ بخیر گزرے۔ مبارک' مبارک۔
اصل میں اب ہم سفر کے نام زمین پر دوڑتے بھاگتے نہیں' ہوا میں اڑتے ہیں۔ تو دم کے دم میں لاہور سے اڑ کر کراچی پہنچے۔ وہاں پورا دن غم کے موسم میں گزارا۔ اگلی صبح کراچی سے اڑ کر اسلام آباد پہنچے۔ یہاں موسم بدلا ہوا تھا۔ یار خوش خوش نظر آئے۔ یہ تو ہمیں معلوم تھا کہ ایک بی بی کے اعزاز میں ایک تقریب بصد اہتمام ہو رہی ہے۔ اس کی نوعیت کا اندازہ نہیں تھا۔ تب ہم نے ایک یار سے پوچھا کہ ادبی تقریب برحق۔ مگر اس میں اتنی خوشی کا کونسا پہلو ہے۔ اس بی بی کے اعزاز میں یہ کوئی پہلی تقریب تو نہیں ہے۔ وہ بولا' کمال ہے۔ خوشی کا پہلو کیسے نہیں ہے۔
کشور ناہید خیر سے پچھہتر برس کی ہو گئی ہیں۔ اچھا؟ اب ہمارے حیران ہونے کی باری تھی۔ یعنی پچھہتر برس کی۔ اس بی بی کو اتنی عجلت کیوں تھی۔ ابھی تو عمر پڑی تھی پچھہترویں برس کے لگنے کے لیے۔ ارے پچھہتر برس کوئی ہنسی کھیل ہیں۔ پہلے اس عمر تک پہنچتے پہنچتے اک عمر گزر جاتی تھی اور قسمت والے ہی عمر کی کتنی منزلیں طے کر کے اس مقام پر پہنچتے تھے۔ اس بی بی نے کتنی شتابی سے یہ سفر طے کیا ہے۔ یہ کل کی بات ہے کہ ہم نے اس کمسن لڑکی کو حلقہ ارباب ذوق میں غزل پڑھتے دیکھا تھا اور داد دی تھی۔ زمانے کو ہمارے زمانے میں آ کر پر لگ گئے ہیں۔ یاران تیز گام کتنی شتابی سے منزلیںمارتے ہوئے آدھی صدی اور پون صدی کی مسافت طے کر لیتے ہیں۔
آگے تو زندگی کے کتنے مرحلے آدمی کو تیزی سے گزرنے کی اجازت ہی نہیں دیتے تھے، خاندان میں کوئی ایک موت ہو جاتی تھی تو کتنے عرصے کے لیے زندگی معطل ہو جاتی تھی۔ علائق دنیوی سے بے نیاز شخصیتیں بھی ایسے مرحلے میں آ کر چپ سادھ لیتی تھیں۔ دیکھئے کیا واقعہ یاد آیا۔ حضرت نظام الدین اولیا کو اپنے ایک بھانجے سے بہت انس تھا' وہ داغ مفارقت دے گیا تو اس بزرگ کو چپ لگ گئی اور چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ کتنے مہینوں تک یہی عالم رہا۔ وہ تو یہ کہیے کہ جلدی ہی بسنت آ گئی اور حضرت امیر خسرو کچھ اس ادا سے بسنت کا راگ الاپتے مرشد کے حضور پہنچے کہ وہ بیساختہ مسکرا دیے۔ تب جا کر سوگ ختم ہوا۔ مگر وہ وقت اور تھا۔ اب وقت اور ہے۔ انسانی رشتے ٹھنڈے ہو چلے ہیں اب ہم اکیسویں صدی میں ہیں اور ٹیکنولوجی کے زمانے میں بسر کرتے ہیں۔ ادھر علامہ اقبال نے ہمیں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ ؎
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
سو دیکھ لو زمانے کی برق رفتاری نے کیا رنگ پکڑا ہے کہ شرفا بھی اب اپنے چہیتوں کو سلام آخر کہنے میں زیادہ وقت صرف نہیں کرتے۔ اور ہم نے اپنے بھانجے انصار حسین کے کفن دفن سے جلدی فراغت پائی اور اسلام آباد کے لیے چل کھڑے ہوئے۔
یہاں آئے تو سماں اور تھا۔ کشور ناہید نے ہمارے دیکھتے دیکھتے کیا کیا گل کھلائے شعر کہے' مشاعرے لوٹے' آنچل کو پرچم بنایا۔ عورت کی آزادی کے نعرے بلند کیے۔ شعروں میں بارود بھر کر نسوانی آزادی کے دشمنوں پر توپیں داغیں۔ اور اب کھیلنے کھانے کے دنوں کو سلام کر کے اعلان کر رہی تھیں کہ میری عمر عزیز کے پچھہتر سال پورے ہوئے شیخ سعدی نے تو چالیس سال کی عمر کو ایک حد قرار دیا تھا
چہل سال عمر عزیزت گزشت
میرے عزیز تو چالیس سال کی حد سے گزر لیا۔ اب تو کچھ ہوش کی دوا لے یہاں عمر کی منزلیں گرد کی مانند اڑی جاتی ہیں۔ پون صدی کا سفر کس برق رفتاری سے اور کتنے شور کے ساتھ طے کیا ہے۔ اور اب وہ زمانے کا کتنا گرم و سرد چکھنے اور دنیا کا اچھا برا دیکھنے پرکھنے کے بعد اپنی پچھہترویں سالگرہ منا رہی تھیں۔ اپنے ہمعصروں سے' چھوٹوں سے بڑوں سے' مرد و زن سے' حضرات و خواتین سے خراج تحسین وصول کر رہی تھیں۔ کیسے کیسے معتبر بزرگ صف حاضرین میں شامل تھے۔ اور کیسی کیسی معزز خواتین زینت محفل تھیں۔ سب سے بڑھ کر قومی کمیشن برائے وقار نسواں کی چیئرپرسن بیگم خاور ممتاز۔ لو ہم یہ تو بھول ہی چلے تھے کہ اب سب سے بڑھ کر نسوائیت ہی کا تو بول بالا ہے۔
یعنی ہم عورتوں کے عہد میں سانس لے رہے ہیں۔ بہت ہو چکی مردوں کی حکمرانی۔ اب تو وہ زمانہ ہے کہ کمسنی ہی میں نسوائیت گل کھلاتی ہے۔ لڑکی سوات سے نمودار ہوتی ہے اور اقوام متحدہ میں جا کر دم لیتی ہے۔ خراج تحسین ضرور پیش کرو۔ مگر مختصر مختصر۔ اصغر ندیم سید کو بھی رنگ محفل دیکھ کر اپنے بیان کو کسی نہ کسی طرح اختصار کے کوزے میں سمیٹنا پڑا بزرگ خاتون یہاں ایک ہی نظر آ رہی تھیں۔ بیگم جنرل مٹھا۔ ان کا کلمہ تحسین ان سے گزر کر ان کی شاگردہ تک پہنچا۔ لیجیے اسٹیج پر پردہ اٹھتا ہے اور ایک نوخیز رقاصہ نمودار ہوتی ہے۔ بات تقریروں سے گزر کر رقص و نغمہ تک پہنچی۔
ہم گنہگار عورتیں
یہ کشور کا لکھا ہوا نسوانی ترانہ تھا۔ نرت کے ساتھ گھل مل کر کیا سے کیا بن گیا تھا۔
محفل مختصر ہوتے ہوئے بھی لمبی کھنچی۔ حرف آخر سالگرہ کا کیک۔ گل پھول کی بارش۔ تحسین و آفرین تمام شد۔ تحائف کا سلسلہ جاری۔
اگلی صبح پا برکاب تھے کہ یار عزیز حمید علوی اور قیصرہ علوی کی طرف سے پیغام ملا کہ گزرو تو گیارہ بجے ہمارے آشیانے میں پڑاؤ کرو۔ وہاں پہنچے تو میز انواح و اقسام لذائز سے آراستہ تھی۔ بیچ میں سالگرہ کا کیک۔ ہم نے کہا کہ یک نہ دو شد۔ یہ کس نام کا کیک ہے۔ کہا کہ فتح محمد ملک کے نام کا کہ یہ عزیز اب اسی سال کی حد کو چھونے لگا ہے۔
ہم نے کہا کہ سبحان اللہ فتح محمد ملک کی نقاد کے طور پر کیا خوب اٹھان تھی۔ کتنے نظریاتی مجادلے کیے۔ نعرہ تھا ترقی پسندی نا منظور نا منظور نا منظور۔ احمد ندیم قاسمی۔ ان کی ترقی پسندانہ انتہا پسندی بھی سہانی لگتی ہے۔ چلو اناسی برس گزرے۔ بخیر گزرے۔ مبارک' مبارک۔