آج بہت جی اداس ہے۔۔۔۔ اعزاز احمد آذرؔ

آپ کو پتہ ہے ایوب خان کا زمانہ ہے اور میں کیا لکھتا ہوں اور پڑھتا ہوں۔

یہ اپریل 1993ء تھا، ایک ماہ پہلے ہی حبیب جالبؔ صاحب کا انتقال ہوا تھا۔ لاہور الحمرا آرٹس کونسل کے بڑے آڈیٹوریم میں ان کی یاد میں جلسہ ہو رہا تھا۔ بیگم حبیب جالبؔ صدارت کر رہی تھیں۔ شہر بھر کے محبتی جمع تھے۔ جلسے کے بعد مجھے اور بھابی صاحبہ (بیگم حبیب جالبؔ) کو ایک شخص نے روک لیا، مسکراتا چہرہ، شائستہ لہجہ، خوش لباس یہ شخص اعزاز احمد آذر تھے، وہ کہہ رہے تھے ''جالبؔ صاحب کے حوالے سے کچھ گفتگو کرنا ہے۔'' اور پھر ہم قریب ہی پڑی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ گفتگو ہوئی، ان دنوں آذر صاحب روزنامہ خبریں سے منسلک تھے، دو دن بعد اخبار میں میری اور بھابی صاحبہ کی رنگین تصاویر کے ساتھ رپورٹ شایع ہوئی۔

یہ میری شاعر، محقق، صحافی اعزاز احمد آذر سے پہلی بالمشافہ ملاقات تھی اور پھر ٹھیک 22 سال بعد یہ اپریل ہی کا مہینہ تھا مگر تیزی سے دوڑتا وقت مجھے 2015ء میں لے آیا تھا۔ میں کراچی سے لاہور پہنچ چکا تھا۔ خلاف توقع لاہور کا موسم بہت خوشگوار تھا، سردی موجود تھی۔ میں نے صبح کا اخبار دیکھا۔ خبر تھی کہ آج شام الحمرا آرٹس کونسل لاہور میں ایک شعری مجموعے کی تقریب رونمائی ہو رہی ہے، اور اعزاز احمد آذر تقریب کے مہمان خصوصی ہیں۔ میں جب لاہور آتا ہوں تو پہلی فرصت میں آذر صاحب سے ملاقات کرتا ہوں۔ خبر پڑھ کر میں نے افتخار مجازؔ کو فون کیا اور اپنی لاہور آمد سے آگاہ کیا اور یہ بھی بتایا کہ خبر کے مطابق شام کو میں الحمرا آؤں گا۔ افتخار مجازؔ شاعر ہیں، کالم لکھتے ہیں اور حال ہی میں پاکستان ٹیلی ویژن سے بطور سینئر پروڈیوسر ریٹائر ہوئے ہیں اور یہ بڑا اعزاز بھی مجازؔ کو حاصل ہے کہ یہ آذر صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں۔

شام آ گئی سورج کو بادلوں نے چھپا رکھا تھا، خشک ہوائیں مال کے سبزہ زاروں سے اٹھکھیلیاں کرتی پھر رہی تھیں۔ میں الحمرا کی خوبصورت سرخ عمارتوں کے حصار میں داخل ہو چکا تھا۔ خوشنما پھولوں سے بھری پگڈنڈیوں سے گزرتے ہوئے میں بیٹھک کے اوپر ہال نمبر 3 کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس وقت تو مجھے پتہ نہیں تھا کہ اپنے محبوب شاعر سے یہ میری آخری ملاقات ہے۔ مگر آج آذر صاحب کی یاد میں لکھتے ہوئے شدت سے یہ احساس ہو رہا ہے کہ 22 سال پہلے یہی اپریل کا مہینہ تھا اور 1993ء تھا، اور یہی الحمرا تھا۔ جہاں میں اور آذرؔ صاحب پہلی بار ملے تھے اور آج اپریل 2015ء کو ہم دونوں آخری بار مل رہے تھے۔

میں ہال نمبر3 کی سیڑھیاں چڑھ کر اندر داخل ہوا، چند احباب بیٹھے تھے میں ساتویں آٹھویں رو میں بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد افتخار مجاز ہال میں داخل ہوئے۔ میں نے ہاتھ ہلایا وہ کھل اٹھے، تیزی سے میری جانب بڑھے، ہم بغل گیر ہوئے۔ میں نے آذر صاحب کا پوچھا تو بولے کہ ریڈیو پر ایک سلسلے وار تحقیقی پروگرام کے نشریے میں مشغول ہیں، میں نے ڈرائیور بھیج دیا ہے، اگر ان کی طبیعت نے اجازت دی تو آ جائیں گے، ورنہ گھر چلے جائیں گے۔ میں یہ سن کر افسردہ سا ہو گیا۔ بہرحال پروگرام شروع ہوا اور دوران پروگرام میں آذر صاحب اسٹیج کے قریب والے دروازے سے ہال میں داخل ہوئے۔ افتخار مجاز میرے ساتھ بیٹھے تھے وہ بولے ''سعید بھائی! آذر بھائی آ گئے۔'' میں دیکھ رہا تھا، میرا دل ماننے کو ہرگز تیار نہیں تھا کہ ہال میں داخل ہوا شخص اعزاز احمد آذر ہے۔ مگر وہ اعزاز احمد آذر ہی تھے۔ انھوں نے اسٹیج پر اپنی نشست سنبھالی۔ تقریریں ہوتی رہیں۔ صاحب تقریب نوجوان شاعر جناب آفتاب خان کا کلام، خوش گلو فنکار سناتے رہے اور میں آذرؔ صاحب کو دیکھتا رہا۔ ایک شخص نحیف و نزار، مگر خوش لباسی قائم رکھے، میرے سامنے اسٹیج پر بیٹھا تھا۔ آذر صاحب روسٹرم پر آئے تو دوران گفتگو جالبؔ کا شعر پڑھتے ہوئے میرا بھی ذکر کیا کہ ''جالب صاحب کے بھائی یہاں تشریف رکھتے ہیں۔'' اور یہ شعر پڑھا (قبل ازیں افتخار مجاز بھی اپنی تقریر میں میری موجودگی کا ذکر کر چکے تھے):

بہت کم ظرف تھا جو محفلوں کو کرگیا ویراں
نہ پوچھا حالِ یاراں شام کو جب سائے ڈھلتے ہیں

غالباً صاحب تقریب شاعر آفتاب خان کی کتاب کا نام ''شام'' تھا۔ اسی لیے انھوں نے جالبؔ کا شعر پڑھا تھا۔ لیجیے اب تقریب اپنے اختتام کے قریب پہنچ گئی تھی۔ میں اپنی نشست سے اٹھا اور اسٹیج پر آذر صاحب کے ساتھ بیٹھ گیا، میں نے دیکھا آذرؔ صاحب کے ہاتھ پر کینولا لگا ہوا تھا۔ کچھ دیر بعد افتخار مجازؔ اسٹیج پر آئے اور آذرؔ بھائی سے چلنے کا کہا۔ میں تو ان ھی دونوں بھائیوں کی وجہ سے آیا تھا لہٰذا میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ افتخار مجازؔ ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گئے، میں اور آذرؔ صاحب پچھلی نشست پر۔ دوران سفر میں نے آذرؔ صاحب سے کہا ''آذرؔ صاحب! ذرا آرام کر لیں۔'' اور جواباً وہ کہہ رہے تھے ''بس اب آرام ہی کرنا ہے'' اس جملے کا مطلب مجھے خوب سمجھ میں آ رہا تھا۔ میں نے ان سے کہا ''بس کچھ دن آرام کر لیں، پھر آپ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے'' مگر آذرؔ صاحب جانے کے لیے تیاری کر چکے تھے۔ دو روز بعد افتخار مجازؔ نے میرے لیے ایک نشست کا اہتمام کیا۔ میاں منظور شاہد کے وسیع و عریض ڈرائنگ روم میں احباب جمع تھے۔


صدارت اعزاز آذرؔ صاحب کر رہے تھے۔ وہ اسپتال سے آئے تھے۔ احباب نے میرے کام کے حوالے سے بات کی، آخر میں آذرؔ صاحب نے بھی مجھے سراہا، اور جو خاص واقعہ انھوں نے سنایا قارئین بھی سنیں ''ہماری رہائش شاہدرہ ٹاؤن میں تھی، میں اور میرے ایک دوست سہراب اسلم ایڈووکیٹ جو افسانہ نگار بھی تھے، ہم دونوں نے ایک مجلس بنائی، میرے دوست نے کہا کہ تم شاعر ہو اور میں افسانہ نگار۔ لہٰذا شاعروں سے رابطہ کرنا تمہارا کام اور افسانہ نگاروں سے میرا کام۔ اب بتاؤ سب سے پہلے کیا کیا جائے۔ میں نے کہا جی سب سے پہلے حبیب جالبؔ کے ساتھ شام منائی جائے۔ ہم نے حبیب جالبؔ صاحب سے رابطہ کیا وہ زیادہ تر کافی ہاؤس میں بیٹھتے تھے مگر اس دن وہ ہمیں چائنیز لنچ ہوم میں ملے۔ وہاں بہت رش تھا۔ ایک سے ایک بڑا آدمی بیٹھا ہوا تھا، میں نے اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے جالبؔ صاحب سے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ شاہدرہ ٹاؤن میں شام منانا چاہتے ہیں۔

جالبؔ صاحب بولے ''میرے ساتھ شام منانا کوئی آسان کام نہیں ہے، آپ کو پتہ ہے ایوب خان کا زمانہ ہے اور میں کیا لکھتا ہوں اور پڑھتا ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کسی مصیبت میں پھنس جائیں۔'' اس پر میں نے ان سے کہا کہ ''آپ ہمارے نقصان سے بے نیاز ہو ِجائیں اور آپ اپنا فیصلہ سنائیں'' یہ 1966ء کی بات ہے، حبیب جالبؔ ہمارے ہاں آئے۔ اس مجلس میں احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، سعید جعفری، سلطان محمد آشفتہ اور سید قاسم محمود جیسی قدآور شخصیات موجود تھیں۔ میں نے زندگی میں جو پہلا مضمون لکھا وہ حبیب جالبؔ صاحب پر تھا، جس کا عنوان تھا ''سرِ مقتل کا شاعر''۔ اس وقت میں طالب علم تھا، ابھی اتنا علم نہیں تھا اور پھر اتنی بڑی شخصیت کے لیے لکھنا بڑا اہم کام تھا، لیکن ایک جذبہ میرے اندر موجزن تھا سو میں وہ مضمون لکھ گیا۔ اور مجھے حبیب جالبؔ نے بہت داد دی اور آخر میں جب حبیب جالبؔ نے اپنا کلام سنانا شروع کیا تو ایک عجب کیفیت تھی کہ شاہدرہ جیسے دور افتادہ علاقے میں اتنے زیادہ سامعین تھے اور جو حبیب جالبؔ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔''

اعزاز احمد آذرؔ سراپا محبت تھے۔ شیریں لب، نرم خو انسان تھے۔ ادبی محافل اور مشاعروں کے میر مجلس کے فرائض اس خوبی سے ادا کرتے کہ محفل میں چار چاند لگا دیتے۔ سامعین کو اپنے جلو میں لے کر چلتے اور فضا کو بنا کر رکھتے۔جانا تو سبھی کو ہے اور میں نے آخری چند ایام ان کے ساتھ گزارے جو میرے لیے یادگار بن گئے ہیں۔ آذرؔ صاحب دوستوں کے دوست۔ اور جس محفل میں ہوتے توجہ کا مرکز بن جاتے۔ اعزاز احمد آذرؔ صاحب کا ایک خوبصورت شعر دیکھیے:

آذرؔ ہوں' مرے پاس ہے افکار کا شیشہ
پتھر کا بدن لے کے مری سمت نہ آؤ

ایک بہت پیارا ساتھی چلا گیا۔ حق مغفرت کرے۔ جالبؔ کا شعر نذر آذرؔ کرتے ہوئے بات ختم کرتا ہوں:

اُس کے بغیر آج بہت جی اُداس ہے
جالبؔ چلو کہیں سے اُسے ڈھونڈ لائیں ہم
Load Next Story