این جی اوز اور امریکی سلامتی کو درپیش خطرات

بعض این جی اوز ملک اور عوام کے مستقبل سے کھلم کھلا شیطانی کھیل کھیلتی رہی ہیں،


Adnan Ashraf Advocate June 22, 2015
[email protected]

گزشتہ جمعہ بچوں کے لیے کام کرنے والی امریکی غیر سرکاری بین الاقوامی تنظیم ''سیو دی چلڈرن'' کے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا انکشاف سامنے آیا تھا، انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بھی اس کے ملازمین کی سرگرمیوں پر شک کا اظہار کیا ہے، پاکستان کے مفادات کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث اس این جی او کو کام سے روک کر اسلام آباد دفتر کو سیل اور غیر ملکی عملے کو 15 دن میں ملک چھوڑنے کی ہدایت کردی گئی تھی۔ امریکا نے پاکستان کے اس فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا، اس کی وزارت خارجہ نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ پاکستان ''سیو دی چلڈرن'' پر پابندی لگاکر اپنا ہی نقصان کرے گا۔ بعض یورپی ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے بھی اس حکومتی اقدام پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

امریکی دباؤ کے بعد اس این جی او پر پابندی کا فیصلہ موخر کرکے سیل دفاتر فوری طور پر کھولنے اور اگلے حکم نامے تک پاکستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دے دی گئی لیکن اس تنظیم کے ترجمان نے ایم او یو کی تجدید تک سرگرمیاں شروع نہ کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ جس کی میعاد کچھ عرصہ قبل ختم ہوچکی تھی۔ ذرائع کے مطابق حکومت اس معاملے کو یو این او میں لے جانا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے وزیر داخلہ نے وزارت داخلہ، اقتصادی امور کی وزارتوں اور حساس اداروں کے حکام کا اجلاس بھی طلب کیا، ایجنسیوں کو غیر ملکی اہلکاروں اور دہری شہریت والوں کے حوالے سے زیادہ تشویش ہے، سرکاری رپورٹیں ظاہر کرتی ہیں کہ بعض غیر ملکی این جی اوز حکومت پاکستان کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں کی پابندی نہیں کرتیں اور بعض مقامی کرپٹ افسران کے ساتھ مل کر کئی قسم کی مالی بے قاعدگیوں کا ارتکاب کرتی ہیں۔ سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بعض تنظیمیں پاکستان کی سلامتی کے منافی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جس کی نشاندہی خود وزیر داخلہ نے کی ہے۔

اب خبر آئی ہے کہ وزیراعظم نے پاکستان میں کام کرنے والی بین الاقوامی این جی اوز کو 6 ماہ کے لیے پاکستان میں کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے، وزیراعظم کی زیر صدارت اعلیٰ سطح اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملک میں کام کرنے والی تمام این جی اوز کو تین ماہ کے دوران از سر نو رجسٹریشن کرانا ہوگی، یہ تنظیمیں اپنی سرگرمیاں صرف ان علاقوں تک محدود رکھنے کی پابند ہوںگی جہاں کام کرنے کی انھیں اجازت دی جائے گی، بین الوزارتی کمیٹی این جی اوز کے امور کار اور نگرانی کا نظام وضع کرے گی۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ وزیراعظم کے مشیر طارق فاطمی کی زیر صدارت بننے والی بین الوزارتی کمیٹی ان غیر ملکی تنظیموں کے لیے نئے ضابطے مرتب کرے گی، اس مقصد کے لیے نئی قانون سازی بھی تجویز کرے گی تاکہ ان تنظیموں کے کاموں پر نظر رکھی جاسکے اور انھیں قواعد و ضوابط کا پابند بنایا جاسکے۔

اقتصادی امور ڈویژن کے ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ نے ''سیو دی چلڈرن'' پر عائد پابندی اٹھانے کا فیصلہ امریکی اور مختلف امداد دینے والے اداروں کے شدید دباؤ کے بعد کیا ہے، یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 127 غیر ملکی این جی اوز غیر قانونی طور پر کام کررہی ہیں، جن میں سے 19 کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے قانون کے تحت تمام این جی اوز کو اپنی آمدنی اور اخراجات کی سالانہ تفصیلات ظاہر کرنا ہوںگی، ان کا باقاعدہ آڈٹ کیا جائے گا تاکہ پتہ چل سکے کہ جس مقصد کے لیے غیر ملکی فنڈ بھیجے گئے وہ مقاصد کس حد تک پورا ہوسکے، این جی اوز کو پابند کیا جائے گا کہ وہ اپنے بجٹ کا 30 تا 40 فیصد سے زیادہ حصہ انتظامی معاملات پر خرچ نہیں کرسکیںگی، کیوں کہ یہ شکایت بھی ہے کہ غیر ملکی فنڈز کا بیشتر حصہ انتظامی امور پر خرچ کردیا جاتا ہے اور حقیقی مقاصد کے لیے رقم استعمال نہیں ہوتی۔ این جی اوز معاہدے کے مطابق مقررہ اور مخصوص مقامات کے سوا کسی دوسرے علاقے میں اپنی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکیںگی، انھیں پاکستان کے سیکیورٹی تقاضوں اور سماجی روایات کا لازمی طور پر احترام کرنا ہوگا۔

نائن الیون سے قبل ملک میں غیر ملکی این جی اوز کی تعداد انتہائی کم تھی، تاہم پرویز مشرف کے دور سے ان کی تعداد میں بے انتہا اضافہ شروع ہوا۔ جن کی تعداد ایک لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے، ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کچھ سینئر حاضر سروس سویلین اور غیر سویلین افسران بھی ان این جی اوز کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد میں کئی وفاقی سیکریٹریز کے اہل خانہ این جی اوز سے ماہانہ خطیر مشاہیرے وصول کررہے ہیں، جنھیں پرتعیش غیر ملکی دورے بھی کرائے جاتے ہیں۔ دیر آید درست آید کے مصداق حکومت نے ملک میں کام کرنے والے ایک لاکھ سے زائد ملکی و غیر ملکی این جی اوز اور خیراتی اداروں کے لیے نیا قانون بنانے اور آمدنی و اخراجات کا آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے لیے نیا میکانزم بنے گا اور تمام این جی اوز کا اسلام آباد میں ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا۔ حالانکہ اگر حکومتی ادارے موجودہ قوانین اور این جی اوز پر لاگو اصول و ضوابط پر عمل کرائے، غیر رجسٹرڈ این جی اوز پر نظر رکھتے تو یہ صورت حال پیدا نہیں ہوتی کہ ملکی سماجی روایات اور تحفظ تک خطرے میں پڑجاتے۔

بعض این جی اوز ملک اور عوام کے مستقبل سے کھلم کھلا شیطانی کھیل کھیلتی رہی ہیں، جو ملک دشمن اور سماجی روایات کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر طرح کی چالیں چلتی رہی ہیں، جن سے ملک کو دفاعی اور معاشی و اقتصادی اعتبار سے نقصان پہنچا ہے، ملک کا تشخص اور وقار بھی مجروح ہوا ہے، ایسے بہت سے پروپیگنڈے اور ویڈیوز جن پر ساری دنیا میں واویلا کیا گیا جعلی ثابت ہوئیں۔ ملک میں رفاہی اور خیراتی اداروں نے بھی ایک عجب صورت حال پیدا کی ہوئی ہے جو ملک میں بھیک کلچر اور خودنمائی کو منظم انداز میں پروان چڑھارہے ہیں، جنھیں زکوٰۃ و خیرات و صدقہ وغیرہ کی مد میں اربوں روپے ملتے ہیں، جس کا کچھ ہی حصہ غریب و نادار افراد تک پہنچ پاتا ہے، باقی پیشہ ور بھکاریوں اور غیر مستحق لوگوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ اس گمبھیر صورتحال میں سب سے پہلے تو این جی اوز پر ملک میں موجود قوانین و ضوابط کا بلا کسی تخصیص و دباؤ اطلاق ہونا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ عصری ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جامع اور موثر قانون سازی بھی ہونا چاہیے، ملکی و غیر ملکی این جی اوز کی کڑی نگرانی، ان کو ملنے والی رقوم، اس کے ذرائع اور اس کے استعمال کے طریقہ کار اور این جی اوز کے مقصد کار اور ہدف پر نظر رکھنا وقت کی انتہائی ضرورت ہے۔

ایک خبر آئی ہے کہ ایک دوست ملک کی طرف سے دی جانے والی فیکس مشینوں میں جاسوسی کے لیے ایسا سوفٹ ویئر لگایا گیا تھا جو کسی آنے جانے والے فیکس کی کاپی خودکار نظام کے تحت تحفہ دینے والے ملک کے خفیہ ادارے کو بھیج دیتا تھا، یہ مشینیں ہمارے سفارتخانوں کو بھی بھجوائی گئی ہیں۔ اسلام آباد کے قریب اڈیالہ روڈ پر رہائشی علاقے میں جاسوسی کے ایک بڑے نیٹ ورک کا انکشاف ہوا ہے جہاں ریڈار سمیت جاسوسی کے جدید آلات نصب تھے جہاں سے جی ایچ کیو، دھمال ایئر بیس، ضرار کیمپ اور اڈیالہ جیل ودیگر حساس تنصیبات کو مانیٹر کیا جاتا تھا۔ ملک میں کہاں کہاں کس کس قسم کے ایسے خفیہ مراکز ہوںگے اور وہ کیا کیا کارروائیاں کررہے ہوںگے اس قسم کی کارروائیوں کے پیچھے منظم نیٹ ورک سہولت کار بھی موجود ہوںگے، یہ ملک و قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے، اگر ان کا فوری سدباب اور تدارک کے اقدامات نہ کیے گئے تو یہ ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں