کمزور حکومت پالیسیاں پاکستانی فلور ملز سے افغان مارکیٹ چھن گئی
80 ارب کی مشینری کو زنگ کھانے لگا، میدہ افغانستان برآمد کیاجاتا تھا،نئی ملز پرفوری پابندی ضروری ہے، صنعتکار.
غیر مستحکم حکومتی پالیسیوں اور قازقستان کی ''شیشہ ''گندم کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے پاکستانی فلورملز سے افغانستان کی مارکیٹ چھن گئی ہے جس کے باعث ملکی ضروریات سے400گنا زائد استعدادرکھنے والی فلورملنگ انڈسٹری کی80 ارب روپے مالیت کی ملیں زنگ آلود ہوچکی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پنجاب میں800سے زائد فلورملیں ہیں جن کی آٹا تیار کرنے کی استعداد ایک لاکھ35 ہزار ٹن روزانہ سے زائد ہے جبکہ صوبے کی موجودہ آبادی کے تناسب سے آٹے کی روزانہ کی ضروریات 26 سے28 ہزار ٹن ہے۔ فلورملز ایسوسی ایشن کئی سال سے کوشش کر رہی ہے کہ 15 سال کیلیے نئی فلورملز پر پابندی لگائی جائے تاہم حکومت متذبذب ہے۔ ضرورت سے زیادہ فلورملز کے قیام کی اصل وجہ افغان مارکیٹ تھی جہاں ہر سال 10 سے13 لاکھ ٹن آٹا اور میدہ جاتاتھا۔ پنجاب کی فلورملز براہ راست افغان مارکیٹ میں مال فراہم نہیںکرتی تھیں بلکہ پشاور کے بڑے آٹا ڈیلر فلورملز سے مال خرید کر آگے فروخت کرتے تھے۔
پانچ سال قبل جب وفاقی حکومت نے آٹے اور میدہ کی برآمد پر پابندی عائد کی تو افغان مارکیٹ کیلئے قازقستان سے آٹا جانا شروع ہوا اور آہستہ آہستہ افغان مارکیٹ پر قازقستان کی ملز نے اجارہ داری حاصل کر لی۔ صورتحال یہ ہے کہ پاکستانی آٹاکی افغانستان میں قیمت 430 ڈالر فی ٹن بنتی ہے جبکہ قازقستان کی قیمت510 ڈالر فی ٹن ہے اور اسے پہنچنے کیلئے بھی20 سے25 روز درکار ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود افغان آٹا ڈیلر قازقستان کا آٹا اور میدہ ہی خرید رہے ہیں۔ لاہور کے ایک فلور ملز مالک نے بتایا کہ قازقستان کی گندم کا معیار پاکستان سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ ''شیشہ''گندم کہلانے والی اس گندم سے تیار کردہ میدہ افغانوں میں بہت مقبول ہے۔
فلورملز رہنما نے بتایا کہ اس وقت مکمل غیر ملکی مشینری سے تیار کردہ فلورمل کی تعمیری لاگت30 کروڑ روپے سے زائد ہے جبکہ کچھ غیر ملکی اور کچھ مقامی سامان سے تیار کردہ ملز کی لاگت15 کروڑ کے لگ بھگ آتی ہے ۔ پنجاب کی800 میں سے250 سے زائد ملیں عملی طور پر غیر فعال ہیں جبکہ تقریبا 200 سے زائد ملیں محکمہ خوراک سے الاٹ شدہ گندم کوٹہ فعال ملز کو فروخت کر دیتی ہیں۔ یوں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کو زنگ کھائے جا رہا ہے جبکہ ابھی بھی ہر سال درجنوں نئی ملیں قائم کی جا رہی ہیں جو کہ بلا جواز سرمایہ کاری ہے۔
تفصیلات کے مطابق پنجاب میں800سے زائد فلورملیں ہیں جن کی آٹا تیار کرنے کی استعداد ایک لاکھ35 ہزار ٹن روزانہ سے زائد ہے جبکہ صوبے کی موجودہ آبادی کے تناسب سے آٹے کی روزانہ کی ضروریات 26 سے28 ہزار ٹن ہے۔ فلورملز ایسوسی ایشن کئی سال سے کوشش کر رہی ہے کہ 15 سال کیلیے نئی فلورملز پر پابندی لگائی جائے تاہم حکومت متذبذب ہے۔ ضرورت سے زیادہ فلورملز کے قیام کی اصل وجہ افغان مارکیٹ تھی جہاں ہر سال 10 سے13 لاکھ ٹن آٹا اور میدہ جاتاتھا۔ پنجاب کی فلورملز براہ راست افغان مارکیٹ میں مال فراہم نہیںکرتی تھیں بلکہ پشاور کے بڑے آٹا ڈیلر فلورملز سے مال خرید کر آگے فروخت کرتے تھے۔
پانچ سال قبل جب وفاقی حکومت نے آٹے اور میدہ کی برآمد پر پابندی عائد کی تو افغان مارکیٹ کیلئے قازقستان سے آٹا جانا شروع ہوا اور آہستہ آہستہ افغان مارکیٹ پر قازقستان کی ملز نے اجارہ داری حاصل کر لی۔ صورتحال یہ ہے کہ پاکستانی آٹاکی افغانستان میں قیمت 430 ڈالر فی ٹن بنتی ہے جبکہ قازقستان کی قیمت510 ڈالر فی ٹن ہے اور اسے پہنچنے کیلئے بھی20 سے25 روز درکار ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود افغان آٹا ڈیلر قازقستان کا آٹا اور میدہ ہی خرید رہے ہیں۔ لاہور کے ایک فلور ملز مالک نے بتایا کہ قازقستان کی گندم کا معیار پاکستان سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ ''شیشہ''گندم کہلانے والی اس گندم سے تیار کردہ میدہ افغانوں میں بہت مقبول ہے۔
فلورملز رہنما نے بتایا کہ اس وقت مکمل غیر ملکی مشینری سے تیار کردہ فلورمل کی تعمیری لاگت30 کروڑ روپے سے زائد ہے جبکہ کچھ غیر ملکی اور کچھ مقامی سامان سے تیار کردہ ملز کی لاگت15 کروڑ کے لگ بھگ آتی ہے ۔ پنجاب کی800 میں سے250 سے زائد ملیں عملی طور پر غیر فعال ہیں جبکہ تقریبا 200 سے زائد ملیں محکمہ خوراک سے الاٹ شدہ گندم کوٹہ فعال ملز کو فروخت کر دیتی ہیں۔ یوں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کو زنگ کھائے جا رہا ہے جبکہ ابھی بھی ہر سال درجنوں نئی ملیں قائم کی جا رہی ہیں جو کہ بلا جواز سرمایہ کاری ہے۔